ڈیفالٹ سے بچنے کیلئے مشکل فیصلے کرنا پڑیں گے مہنگائی برداشت کرنا ہوگی مشیر خزانہ
مجموعی شرح نمو ہدف 6.2 فیصد کے مقابلے میں 3.3فیصد،زرعی شعبے کی0.85،بڑی فصلوں کی گروتھ منفی میں چلی گئی۔
تحریک انصاف کی حکومت پہلے مالی سال کے دوران تمام اقتصادی اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی۔
مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے گزشتہ روز پریس کانفرنس کے دوران اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے معاشی استحکام اور اداروں کی بہتری کے لئے سات نکاتی حکمت عملی کا اعلان کردیا اور کہا کہ ڈیفالٹ سے بچنے کیلیے مشکل فیصلے کرنا پڑینگے ،مہنگائی برداشت کرنا ہوگی ۔
پریس کانفرنس میںمشیر تجارت عبدالرزاق داود ،وزیر توانائی عمر ایوب،وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر،چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی،سیکریٹری خزانہ نوید کامران بلوچ سمیت دیگر ٹیم ممبران بھی موجود تھے۔
اس موقع پر جاری کی گئی اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے دوران معاشی ترقی کا ہدف 6.2فیصد تھا لیکن یہ شرح 3.3 فیصد رہی۔ زرعی شعبے کی شرح نموکا ہدف 3.8 فیصد تھا جو 0.85 فیصد رہی ، بڑی فصلوں کی گروتھ 3 فیصد ہدف کے مقابلے میں منفی 6.55 فیصد جبکہ دیگر فصلوں شرح نمو 3.5 فیصد ہدف کے مقابلے میں 1.95 فیصد رہی ۔
کاٹن جننگ کے شعبے کی گروتھ 8.9 فیصد ہدف کے مقابلے میں منفی 12.74 فیصد رہی ہے۔لائیو سٹاک کے شعبے نے 4 فیصد کی شرح سے ترقی کی، اس شعبے کی گروتھ کا ہدف 3.8 فیصد تھا۔
ماہی گیری کے شعبے میں شرح اپنے ہدف 1.8 فیصد کے مقابلے میں 0.79 فیصد ، صنعتی شعبے کی ترقی 7.6فیصد ہدف کے مقابلے میں 1.40 فیصد ، کان کنی کے شعبے کی گروتھ اپنے ہدف 3.6 فیصد کے مقابلے میں منفی 1.96 فیصد رہی۔
چھوٹی صنعتوں کی گروتھ ہدف کے مطابق 8.2 فیصد ریکارڈ کی گئی جبکہ تعمیراتی شعبے کی ترقی کی شرح 10 فیصد ہدف کے مقابلے میں 7.57 فیصد، خدمات کے شعبے کی ترقی کی شرح اپنے ہدف 6.5 کے مقابلے میں 4.71 فیصد رہی ، تھوک اور پرچون کے کاروبار کی ترقی کی شرح اپنے ہدف 7.8 کے مقابلے میں 3.11 فیصد ریکارڈ ہوئی، ٹرانسپورٹ ،سٹوریج اور کمیونیکیشن کے شعبوں میں 3.34 فیصد کی شرح سے گروتھ ہوئی، ان شعبوں کی ترقی کا ہدف 4.9 فیصد مقرر تھا، فنانس اینڈ انشورنس کے شعبوں میں ترقی کی شرح کا ہدف 7.5 فیصد مقرر تھا لیکن ان شعبوں میں ترقی کی شرح 5.14 فیصد رہی۔
ہاؤسنگ سروسز کے شعبے میں ہدف کے مطابق چار فیصد کی شرح سے ترقی ہوئی، عمومی سرکاری خدمات کے شعبوں میں ترقی کی شرح 7.99 فیصد رہی، ان شعبوں میں ترقی کی شرح کا ہدف 7.2 فیصد مقرر کیا گیا تھا۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے مشیرخزانہ نے کہا کہ ملکی معیشت کو خطرات لاحق ہیں۔ درپیش چیلنجز و مسائل سے نمٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر سخت فیصلے کرنا پڑینگے۔حالات کو مستقل بنیادوں پر درست کرنے کیلیے 6ماہ سے ڈیڑھ سال کا عرصہ لگے گا، اس کے بعد بہتری آئے گی۔مشکل حالات سے نکلنے کیلیے سخت فیصلوں کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اگر ایسا نہ کیا تو ڈیفالٹ کرجائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ ماضی میں حکومتی اخراجات روکنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ جب بجٹ خسارہ 2.3 ٹریلین روپے ہوگا اور آمدنی سے زیادہ اخراجات کریں گے تو اسکے اثرات ہونگے اور اخراجات پورے کرنے کیلئے قرضہ لینا پڑے گا، ماضی کی حکومتوں نے ملک کوقرضوں کی دلدل میں پھنسایا۔ موجودہ حکومت نے اپنے دور میں اب تک مجموعی طور پر 2854 ارب روپے قرضہ لیا جن میں سے 1221ارب روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے قرضوں میں اضافہ ہوا اور 1603 ارب روپے کے نیٹ قرضے لئے۔ملک پر بیرونی قرضہ 100 ارب ڈالر ہے اور جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو ملک پر مجموعی طور پر31 ہزار ارب روپے قرضہ تھا۔
اگلے سال صرف سود کی مد میں ادئیگیوں پر تین ہزار ارب روپے خرچ ہونگے۔ پچھلے دس سال میں ڈالر کمانے کی صلاحیت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، پانچ سال میں ایکسپورٹ کی گروتھ زیرو فیصد رہی۔ اس وجہ سے روپے پر دباؤ ہے۔ گذشتہ دو سال میںسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر18 ارب ڈالر سے کم ہوکر9 ارب ڈالر ہوگئے۔ تجارتی خسارہ 32 ارب ڈالر تھا، میرا مقصد بلیم گیم کرنا نہیں ہے ۔کافی عرصے سے ملک کے حقیقی مسائل پر توجہ نہیں دی گئی۔
ملائشیاء سنگار پور سمیت آگے بڑھنے والے سب ملکوں میں ایک چیز مشترک ہے ان ممالک نے اپنی اشیاء دوسرے ممالک کو فروخت کیں۔ رواں سال 23 سو ارب روپے آمدنی سے زائد اخراجات رہے2018ء میں جب موجودہ حکومت اقتدار میں آئی تو قرضوں کی مالت31 ہزار ارب روپے تھی آئندہ سال قرضوں پر سود کی مد میں تین ہزار ارب روپے دینا ہوں گے۔ حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے امیر لوگ ٹیکس نہیں دینا چاہتے،اگر ٹیکسز جمع نہ کیے گئے تو اخراجات پورے نہیں ہو سکیں گے۔
ایک دو دنوں میں بڑے فیصلے سامنے آئیں گے، کمزور طبقات کو جس حد تک ممکن ہوا حکومت معاونت کرے گی، بجلی کے چھوٹے صارفین کے لئے قیمتوں میں اضافہ نہیں ہو گا۔اشیائے تعیش کی درآمد روکنے کیلئے اقدامات اٹھائے گئے جس کے نتیجے میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور مالی خسارے میں کمی واقع ہوئی ہے ۔
دوسری طرف ملک کے برآمدی شعبہ اور مینوفیکچرنگ شعبہ کو مراعات دی گئیں۔آنے والے دنوں میں آپ دیکھیں گے کہ کتنے بڑے فیصلے کئے جائیں گے جن میں کفایت شعاری نظر آئے گی حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ ادھر اْدھر سے فنانسنگ کا انتظام کرکے ملک کو مستقل طور پر خوشحال نہیں بنایا جاسکتا ، اس کیلئے اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا اور اپنے لوگوں پر توجہ دینا اور انکی مہارت بڑھانا ہوگی ۔
انہوں نے کہا کہ ریلوے،پی آئی اے سمیت دیگر ادارے اندر سے کھوکھلے ہوچکے ہیں ان اداروں کو ایک انداز سے لوٹا گیا ہے۔ پیسہ عوام پر لگنے کی بجائے ان سفید ہاتھیوں کو دھکا لگاکر چلانے پر لگایاجارہا ہے ۔ پبلک سیکٹر اداروں کو چلانے کیلئے تیرہ سو ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ ان اداروں کو درست کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔زیرو ریٹنگ کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ زیرو ریٹنگ سے متعلق آج بجٹ میں جواب مل جائے گا۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ رضا باقر آئی ایم ایف سے استعفٰی دے کر آئے ہیں اور وہ(حفیظ)بھی استعفی دے کر آئے ہیں ہم لاکھوں ڈالر تنخواہ چھوڑ کر ملک کی خدمت کیلئے آئے ہیں جو لوگ لاکھوں ڈالر کی نوکریاں چھوڑ کر ملکی خدمت کیلئے آتے ہیں انکی حب الوطنی پر سوالات اٹھانے کی بجائے انکی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے گزشتہ روز پریس کانفرنس کے دوران اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے معاشی استحکام اور اداروں کی بہتری کے لئے سات نکاتی حکمت عملی کا اعلان کردیا اور کہا کہ ڈیفالٹ سے بچنے کیلیے مشکل فیصلے کرنا پڑینگے ،مہنگائی برداشت کرنا ہوگی ۔
پریس کانفرنس میںمشیر تجارت عبدالرزاق داود ،وزیر توانائی عمر ایوب،وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر،چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی،سیکریٹری خزانہ نوید کامران بلوچ سمیت دیگر ٹیم ممبران بھی موجود تھے۔
اس موقع پر جاری کی گئی اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے دوران معاشی ترقی کا ہدف 6.2فیصد تھا لیکن یہ شرح 3.3 فیصد رہی۔ زرعی شعبے کی شرح نموکا ہدف 3.8 فیصد تھا جو 0.85 فیصد رہی ، بڑی فصلوں کی گروتھ 3 فیصد ہدف کے مقابلے میں منفی 6.55 فیصد جبکہ دیگر فصلوں شرح نمو 3.5 فیصد ہدف کے مقابلے میں 1.95 فیصد رہی ۔
کاٹن جننگ کے شعبے کی گروتھ 8.9 فیصد ہدف کے مقابلے میں منفی 12.74 فیصد رہی ہے۔لائیو سٹاک کے شعبے نے 4 فیصد کی شرح سے ترقی کی، اس شعبے کی گروتھ کا ہدف 3.8 فیصد تھا۔
ماہی گیری کے شعبے میں شرح اپنے ہدف 1.8 فیصد کے مقابلے میں 0.79 فیصد ، صنعتی شعبے کی ترقی 7.6فیصد ہدف کے مقابلے میں 1.40 فیصد ، کان کنی کے شعبے کی گروتھ اپنے ہدف 3.6 فیصد کے مقابلے میں منفی 1.96 فیصد رہی۔
چھوٹی صنعتوں کی گروتھ ہدف کے مطابق 8.2 فیصد ریکارڈ کی گئی جبکہ تعمیراتی شعبے کی ترقی کی شرح 10 فیصد ہدف کے مقابلے میں 7.57 فیصد، خدمات کے شعبے کی ترقی کی شرح اپنے ہدف 6.5 کے مقابلے میں 4.71 فیصد رہی ، تھوک اور پرچون کے کاروبار کی ترقی کی شرح اپنے ہدف 7.8 کے مقابلے میں 3.11 فیصد ریکارڈ ہوئی، ٹرانسپورٹ ،سٹوریج اور کمیونیکیشن کے شعبوں میں 3.34 فیصد کی شرح سے گروتھ ہوئی، ان شعبوں کی ترقی کا ہدف 4.9 فیصد مقرر تھا، فنانس اینڈ انشورنس کے شعبوں میں ترقی کی شرح کا ہدف 7.5 فیصد مقرر تھا لیکن ان شعبوں میں ترقی کی شرح 5.14 فیصد رہی۔
ہاؤسنگ سروسز کے شعبے میں ہدف کے مطابق چار فیصد کی شرح سے ترقی ہوئی، عمومی سرکاری خدمات کے شعبوں میں ترقی کی شرح 7.99 فیصد رہی، ان شعبوں میں ترقی کی شرح کا ہدف 7.2 فیصد مقرر کیا گیا تھا۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے مشیرخزانہ نے کہا کہ ملکی معیشت کو خطرات لاحق ہیں۔ درپیش چیلنجز و مسائل سے نمٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر سخت فیصلے کرنا پڑینگے۔حالات کو مستقل بنیادوں پر درست کرنے کیلیے 6ماہ سے ڈیڑھ سال کا عرصہ لگے گا، اس کے بعد بہتری آئے گی۔مشکل حالات سے نکلنے کیلیے سخت فیصلوں کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اگر ایسا نہ کیا تو ڈیفالٹ کرجائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ ماضی میں حکومتی اخراجات روکنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ جب بجٹ خسارہ 2.3 ٹریلین روپے ہوگا اور آمدنی سے زیادہ اخراجات کریں گے تو اسکے اثرات ہونگے اور اخراجات پورے کرنے کیلئے قرضہ لینا پڑے گا، ماضی کی حکومتوں نے ملک کوقرضوں کی دلدل میں پھنسایا۔ موجودہ حکومت نے اپنے دور میں اب تک مجموعی طور پر 2854 ارب روپے قرضہ لیا جن میں سے 1221ارب روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے قرضوں میں اضافہ ہوا اور 1603 ارب روپے کے نیٹ قرضے لئے۔ملک پر بیرونی قرضہ 100 ارب ڈالر ہے اور جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو ملک پر مجموعی طور پر31 ہزار ارب روپے قرضہ تھا۔
اگلے سال صرف سود کی مد میں ادئیگیوں پر تین ہزار ارب روپے خرچ ہونگے۔ پچھلے دس سال میں ڈالر کمانے کی صلاحیت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، پانچ سال میں ایکسپورٹ کی گروتھ زیرو فیصد رہی۔ اس وجہ سے روپے پر دباؤ ہے۔ گذشتہ دو سال میںسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر18 ارب ڈالر سے کم ہوکر9 ارب ڈالر ہوگئے۔ تجارتی خسارہ 32 ارب ڈالر تھا، میرا مقصد بلیم گیم کرنا نہیں ہے ۔کافی عرصے سے ملک کے حقیقی مسائل پر توجہ نہیں دی گئی۔
ملائشیاء سنگار پور سمیت آگے بڑھنے والے سب ملکوں میں ایک چیز مشترک ہے ان ممالک نے اپنی اشیاء دوسرے ممالک کو فروخت کیں۔ رواں سال 23 سو ارب روپے آمدنی سے زائد اخراجات رہے2018ء میں جب موجودہ حکومت اقتدار میں آئی تو قرضوں کی مالت31 ہزار ارب روپے تھی آئندہ سال قرضوں پر سود کی مد میں تین ہزار ارب روپے دینا ہوں گے۔ حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے امیر لوگ ٹیکس نہیں دینا چاہتے،اگر ٹیکسز جمع نہ کیے گئے تو اخراجات پورے نہیں ہو سکیں گے۔
ایک دو دنوں میں بڑے فیصلے سامنے آئیں گے، کمزور طبقات کو جس حد تک ممکن ہوا حکومت معاونت کرے گی، بجلی کے چھوٹے صارفین کے لئے قیمتوں میں اضافہ نہیں ہو گا۔اشیائے تعیش کی درآمد روکنے کیلئے اقدامات اٹھائے گئے جس کے نتیجے میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور مالی خسارے میں کمی واقع ہوئی ہے ۔
دوسری طرف ملک کے برآمدی شعبہ اور مینوفیکچرنگ شعبہ کو مراعات دی گئیں۔آنے والے دنوں میں آپ دیکھیں گے کہ کتنے بڑے فیصلے کئے جائیں گے جن میں کفایت شعاری نظر آئے گی حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ ادھر اْدھر سے فنانسنگ کا انتظام کرکے ملک کو مستقل طور پر خوشحال نہیں بنایا جاسکتا ، اس کیلئے اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا اور اپنے لوگوں پر توجہ دینا اور انکی مہارت بڑھانا ہوگی ۔
انہوں نے کہا کہ ریلوے،پی آئی اے سمیت دیگر ادارے اندر سے کھوکھلے ہوچکے ہیں ان اداروں کو ایک انداز سے لوٹا گیا ہے۔ پیسہ عوام پر لگنے کی بجائے ان سفید ہاتھیوں کو دھکا لگاکر چلانے پر لگایاجارہا ہے ۔ پبلک سیکٹر اداروں کو چلانے کیلئے تیرہ سو ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ ان اداروں کو درست کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔زیرو ریٹنگ کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ زیرو ریٹنگ سے متعلق آج بجٹ میں جواب مل جائے گا۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ رضا باقر آئی ایم ایف سے استعفٰی دے کر آئے ہیں اور وہ(حفیظ)بھی استعفی دے کر آئے ہیں ہم لاکھوں ڈالر تنخواہ چھوڑ کر ملک کی خدمت کیلئے آئے ہیں جو لوگ لاکھوں ڈالر کی نوکریاں چھوڑ کر ملکی خدمت کیلئے آتے ہیں انکی حب الوطنی پر سوالات اٹھانے کی بجائے انکی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔