اسلحہ خریدو ورنہ ایران قبضہ کرلے گا
امریکا نے اپنا بحری بیڑہ بھی خلیج میں پہنچا رکھا ہے تاکہ یہ تاثر پیدا ہوکہ عرب ممالک کو واقعی ایران سے خطرہ ہے
جنگل میں شیر کو شکار کےلیے کسی بہانے کی ضرورت نہیں ہوتی، مگر دنیا میں شکار کرنے کےلیے جھوٹا سچا بہانہ ضرور تلاش کرنا پڑتا ہے۔ دنیا کو معلوم بھی ہو کہ یہ محض جھوٹ ہے، فریب ہے، مگر پھر بھی بے وقوف بنانا ضروری ہوتا ہے۔ کاغذ کا وہ ٹکڑا جسے آئین کہتے ہیں، اس کے لوازمات پورے کرنے پڑتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح کہ امریکا بہادر کرتا ہے۔
سکیورٹی کونسل کے مئی کے تیسرے ہفتے کے اجلاس میں سول اور فوجی حملوں سے انسانی زندگی اور املاک کے نقصان کا جب جائزہ لیا گیا تو اس میں یمن میں جاری جنگ کا خصوصی تذکرہ کیا گیا۔ یمن میں اسپتالوں، مساجد، اسکولوں اور بازاروں پر حملوں کا ذکر کیا گیا جن سے بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا۔ یہ حملے اتفاقیہ نہیں تھے، بلکہ جان بوجھ کر کیے گئے۔ اور انہیں اس وقت تک کے بدترین حملے بھی قرار دیا گیا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ ناقابل تلافی نقصان اس اسلحے سے ہوا جو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے مستقل ممبران نے فروخت کیا۔ ان ممالک میں امریکا، فرانس اور برطانیہ سرفہرست ہیں۔
کانگریس نے امریکی آئین کے مطابق اسلحے کی فروخت کی مخالفت کی کہ مشرق وسطیٰ کے ان ممالک کو اسلحہ نہ بیچا جائے جو آپس میں جنگ کررہے ہیں۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے اردن، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو آٹھ اعشاریہ ایک بلین ڈالر کے اسلحے کی فروخت کو ایمرجنسی نوٹیفکیشن کے تحت جائز قرار دے دیا۔
یہ تینوں ممالک یمن کے خلاف امریکا کے اتحادی ہیں، جو حوثی باغیوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ ان حوثیوں پر الزام ہے کہ ایران ان کی پشت پناہی کررہا ہے۔
یہ نئے ہتھیار علاقے میں جنگ ختم کرانے کے بجائے آگ کو اور بھڑکائیں گے۔ یہ ایمرجنسی نوٹیفکیشن امریکی کانگریس کی خلاف ورزی تھی۔ یہ خلاف ورزی امریکی اتحادیوں کو مطمئن کرنے کےلیے کی گئی اور خاص طور پر امریکی اسلحہ فروخت کرنے والوں کو۔
اس اسلحے کے پھیلاؤ اور فروخت کا جواز یہ پیش کیا جارہا ہے کہ اس کا مقصد کسی بھی متوقع ایرانی حملے کا منہ توڑ جواب دینا ہے۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ آج تک امریکا اور ایران نے سوائے دنیا کو بیوقوف بناکر اپنا اپنا اسلحہ ہی فروخت کیا، جنگ نہیں لڑی۔ یہ نہ تو ایرانی حملے کا جواز ہے اور نہ ہی کوئی ایمرجنسی ہے۔ یہ تو بس اپنا اسلحہ فروخت کرکے پیسے کمانے والی بات ہے۔ اس سے قطع نظر کہ اس اسلحے سے کتنے معصوم لوگوں کے جان، مال، گھر تباہ و برباد ہوجائیں گے۔
اسلحہ سازوں کو خوش کرنے کےلیے امریکا نے اپنا بحری بیڑہ بھی خلیج میں پہنچا رکھا ہے، تاکہ یہ تاثر پیدا ہوکہ واقعی عرب ممالک کو ایران سے خطرہ ہے اور امریکا ان کے دفاع کےلیے سینہ سپر ہے۔
یہ عرب ممالک کی مطلق العنان حکومتوں کو مضبوط کرنے کے مترادف بھی ہے۔ یہ ایک ستم ظریفی ہے کہ امریکا جو شہنشاہیت کے خلاف تحریک کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوا، آج دنیا کی شہنشایتوں کا سب سے بڑا حمایتی اور ساتھی بنا ہوا ہے۔ اور انہیں اسلحہ مہیا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
جہاں تک حوثیوں کا تعلق ہے، وہ نظریاتی لحاظ سے ایران کی طرف کچھ زیادہ مائل نہیں۔ اور ایران بھی ان کی پشت پناہی کی ہمیشہ تردید کرتا رہا ہے۔ مگر امریکی ازخود دعویدار ہیں کہ انہیں ایران نے ہی تربیت دی ہے اور وہی اسلحہ فراہم کررہا ہے۔
سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ان امریکی جنگوں میں سب سے زیادہ سویلین مارے جاچکے ہیں۔ پچھلے سال 2018 میں صرف چھ ممالک میں، جن میں افغانستان، عراق، مالی، صومالیہ، جنوبی سوڈان اور یمن شامل ہیں، تیئس ہزار سے زیادہ لوگ اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ یہ سب سویلین تھے، جنہیں جنگ سے کوئی واسطہ نہ تھا۔
سیکریٹری جنرل نے تاکید کی کہ سکیورٹی کونسل جنگی قوانین کی پیروی کروانے میں اپنی کوششیں تیز کرے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے طنزیہ طور پر کہا کہ امریکی اسلحے کو تربیت دی ہوئی ہے کہ وہ سویلین پر حملہ آور نہ ہو۔ حالانکہ کسی بھی جنگ میں اس وقت سویلین کی تعداد ہی سب سے زیادہ متاثر ہورہی ہے۔ جنگ میں انہیں ہر طرح کے بنیادی انسانی حقوق اور سہولیات سے محروم کردیا جاتا ہے۔
ایمنسٹی کا مزید کہنا ہے کہ یہ مسلح جارحیتیں غیر قانونی طریقے سے انسانی جانیں لیتی ہیں۔ لاکھوں کو بے گھر کردیتی ہیں۔ بہت سے لوگ اپنے اعضا گنوا بیٹھتے ہیں۔ مگر عالمی طاقتیں خاموش تماشائی بنی اپنا اسلحہ بیچتی رہتی ہیں۔ یہ طاقتیں اسلحے کی فروخت کی غرض سے ان مسلح جنگوں کو کبھی سرجیکل اسٹرائیکس اور کبھی کچھ نام دیتی رہتی ہیں۔ مگر ہوتا وہی کچھ ہے جو کہ جنگوں کا انجام ہوتا ہے: تباہی اور بربادی۔
امریکی ساخت کے اسلحے سے یمن پر حملے کیے جارہے ہیں۔ سعودی عرب اور دوسرے اتحادی بھی امریکی اسلحہ ہی استعمال کررہے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہی اسلحہ وہ اپنے عوام کو اپنے قابو میں رکھنے کےلیے بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ جہاں پہلے ہی بہت سے معاملات میں آزادی سلب ہے۔ اب جب کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو اسلحے کی نئی کھیپ مل جائے گی تو یمن میں آگ اور بھی تیز شعلوں سے بھڑکے گی۔ جہاں پہلے ہی گیارہ ملین لوگ قحط کا شکار ہیں اور لاکھوں بے گھر ہیں۔
امریکا اس اسلحے کی ڈیل کو صرف اور صرف ایران سے دفاع کا نام دے رہا ہے۔ حالانکہ اسے سب معلوم ہے کہ یہ اسلحہ کہاں استعمال ہونا ہے۔ امریکا اس ڈیل کےلیے اتنی جلدی میں ہے کہ پومپیو کا کہنا ہے اگر یہ ڈیل دیر کا شکار ہوئی تو ایران پورے عرب ممالک پر قبضہ کرلے گا۔ امریکا پوری طرح یہ باور کرارہا ہے کہ جلدی جلدی اسلحہ خرید لو ورنہ ایران قبضہ کرلے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
سکیورٹی کونسل کے مئی کے تیسرے ہفتے کے اجلاس میں سول اور فوجی حملوں سے انسانی زندگی اور املاک کے نقصان کا جب جائزہ لیا گیا تو اس میں یمن میں جاری جنگ کا خصوصی تذکرہ کیا گیا۔ یمن میں اسپتالوں، مساجد، اسکولوں اور بازاروں پر حملوں کا ذکر کیا گیا جن سے بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا۔ یہ حملے اتفاقیہ نہیں تھے، بلکہ جان بوجھ کر کیے گئے۔ اور انہیں اس وقت تک کے بدترین حملے بھی قرار دیا گیا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ ناقابل تلافی نقصان اس اسلحے سے ہوا جو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے مستقل ممبران نے فروخت کیا۔ ان ممالک میں امریکا، فرانس اور برطانیہ سرفہرست ہیں۔
کانگریس نے امریکی آئین کے مطابق اسلحے کی فروخت کی مخالفت کی کہ مشرق وسطیٰ کے ان ممالک کو اسلحہ نہ بیچا جائے جو آپس میں جنگ کررہے ہیں۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے اردن، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو آٹھ اعشاریہ ایک بلین ڈالر کے اسلحے کی فروخت کو ایمرجنسی نوٹیفکیشن کے تحت جائز قرار دے دیا۔
یہ تینوں ممالک یمن کے خلاف امریکا کے اتحادی ہیں، جو حوثی باغیوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ ان حوثیوں پر الزام ہے کہ ایران ان کی پشت پناہی کررہا ہے۔
یہ نئے ہتھیار علاقے میں جنگ ختم کرانے کے بجائے آگ کو اور بھڑکائیں گے۔ یہ ایمرجنسی نوٹیفکیشن امریکی کانگریس کی خلاف ورزی تھی۔ یہ خلاف ورزی امریکی اتحادیوں کو مطمئن کرنے کےلیے کی گئی اور خاص طور پر امریکی اسلحہ فروخت کرنے والوں کو۔
اس اسلحے کے پھیلاؤ اور فروخت کا جواز یہ پیش کیا جارہا ہے کہ اس کا مقصد کسی بھی متوقع ایرانی حملے کا منہ توڑ جواب دینا ہے۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ آج تک امریکا اور ایران نے سوائے دنیا کو بیوقوف بناکر اپنا اپنا اسلحہ ہی فروخت کیا، جنگ نہیں لڑی۔ یہ نہ تو ایرانی حملے کا جواز ہے اور نہ ہی کوئی ایمرجنسی ہے۔ یہ تو بس اپنا اسلحہ فروخت کرکے پیسے کمانے والی بات ہے۔ اس سے قطع نظر کہ اس اسلحے سے کتنے معصوم لوگوں کے جان، مال، گھر تباہ و برباد ہوجائیں گے۔
اسلحہ سازوں کو خوش کرنے کےلیے امریکا نے اپنا بحری بیڑہ بھی خلیج میں پہنچا رکھا ہے، تاکہ یہ تاثر پیدا ہوکہ واقعی عرب ممالک کو ایران سے خطرہ ہے اور امریکا ان کے دفاع کےلیے سینہ سپر ہے۔
یہ عرب ممالک کی مطلق العنان حکومتوں کو مضبوط کرنے کے مترادف بھی ہے۔ یہ ایک ستم ظریفی ہے کہ امریکا جو شہنشاہیت کے خلاف تحریک کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوا، آج دنیا کی شہنشایتوں کا سب سے بڑا حمایتی اور ساتھی بنا ہوا ہے۔ اور انہیں اسلحہ مہیا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
جہاں تک حوثیوں کا تعلق ہے، وہ نظریاتی لحاظ سے ایران کی طرف کچھ زیادہ مائل نہیں۔ اور ایران بھی ان کی پشت پناہی کی ہمیشہ تردید کرتا رہا ہے۔ مگر امریکی ازخود دعویدار ہیں کہ انہیں ایران نے ہی تربیت دی ہے اور وہی اسلحہ فراہم کررہا ہے۔
سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ان امریکی جنگوں میں سب سے زیادہ سویلین مارے جاچکے ہیں۔ پچھلے سال 2018 میں صرف چھ ممالک میں، جن میں افغانستان، عراق، مالی، صومالیہ، جنوبی سوڈان اور یمن شامل ہیں، تیئس ہزار سے زیادہ لوگ اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ یہ سب سویلین تھے، جنہیں جنگ سے کوئی واسطہ نہ تھا۔
سیکریٹری جنرل نے تاکید کی کہ سکیورٹی کونسل جنگی قوانین کی پیروی کروانے میں اپنی کوششیں تیز کرے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے طنزیہ طور پر کہا کہ امریکی اسلحے کو تربیت دی ہوئی ہے کہ وہ سویلین پر حملہ آور نہ ہو۔ حالانکہ کسی بھی جنگ میں اس وقت سویلین کی تعداد ہی سب سے زیادہ متاثر ہورہی ہے۔ جنگ میں انہیں ہر طرح کے بنیادی انسانی حقوق اور سہولیات سے محروم کردیا جاتا ہے۔
ایمنسٹی کا مزید کہنا ہے کہ یہ مسلح جارحیتیں غیر قانونی طریقے سے انسانی جانیں لیتی ہیں۔ لاکھوں کو بے گھر کردیتی ہیں۔ بہت سے لوگ اپنے اعضا گنوا بیٹھتے ہیں۔ مگر عالمی طاقتیں خاموش تماشائی بنی اپنا اسلحہ بیچتی رہتی ہیں۔ یہ طاقتیں اسلحے کی فروخت کی غرض سے ان مسلح جنگوں کو کبھی سرجیکل اسٹرائیکس اور کبھی کچھ نام دیتی رہتی ہیں۔ مگر ہوتا وہی کچھ ہے جو کہ جنگوں کا انجام ہوتا ہے: تباہی اور بربادی۔
امریکی ساخت کے اسلحے سے یمن پر حملے کیے جارہے ہیں۔ سعودی عرب اور دوسرے اتحادی بھی امریکی اسلحہ ہی استعمال کررہے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہی اسلحہ وہ اپنے عوام کو اپنے قابو میں رکھنے کےلیے بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ جہاں پہلے ہی بہت سے معاملات میں آزادی سلب ہے۔ اب جب کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو اسلحے کی نئی کھیپ مل جائے گی تو یمن میں آگ اور بھی تیز شعلوں سے بھڑکے گی۔ جہاں پہلے ہی گیارہ ملین لوگ قحط کا شکار ہیں اور لاکھوں بے گھر ہیں۔
امریکا اس اسلحے کی ڈیل کو صرف اور صرف ایران سے دفاع کا نام دے رہا ہے۔ حالانکہ اسے سب معلوم ہے کہ یہ اسلحہ کہاں استعمال ہونا ہے۔ امریکا اس ڈیل کےلیے اتنی جلدی میں ہے کہ پومپیو کا کہنا ہے اگر یہ ڈیل دیر کا شکار ہوئی تو ایران پورے عرب ممالک پر قبضہ کرلے گا۔ امریکا پوری طرح یہ باور کرارہا ہے کہ جلدی جلدی اسلحہ خرید لو ورنہ ایران قبضہ کرلے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔