سندھ محکمہ صحت کی ناکامی
کہا جاتا ہے کہ لاڑکانہ پیپلزپارٹی کا دل ہے۔ اس ضلع میں وبائی امراض کا پھیلنا بہت سے حقائق کو آشکار کر رہا ہے۔
محکمہ صحت سندھ کی نا اہلی سے صوبے میں HIV وائرس نے وبائی شکل اختیارکر لی۔ صرف رتوڈیرو میں ایک اندازے کے مطابق اب تک 700 سے زائد افراد میں یہ وائرس پایا گیا ہے۔دوسرے شہروں میں اسکیننگ کے کیا نتائج ہوںگے، ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔گزشتہ 6 ماہ کے دوران کئی درجن بچے، اس وائرس کے ایڈزکی بیماری میں تبدیل ہونے کی بناء پر انتقال کرگئے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ HIV وائرس کا شکار ہونے والے بیشتر بچے ہیں جب کہ ان کے والدین اس بیماری کے وائرس سے ابھی تک محفوظ ہیں۔ صرف رتوڈیرو میں ہی نہیں بلکہ اطراف کے گاؤں اور شہروں میں بھی یہ وائرس بچوں اور دیگر افراد کے جسموں میں سرائیت کرگیا ہے۔ رتو ڈیروکے قریب ایک عورت کے HIV وائرس میں مبتلا ہونے کی تصدیق کے بعد اس کے شوہر نے اپنی بیوی کو قتل کردیا۔ عالمی ادارہ صحت کے ماہرین اس بات کی تحقیق کر رہے ہیں کہ بچوں کے اندر اس وائرس کے پھیلنے کی کیا وجوہات ہیں۔
پیپلز پارٹی کے چیئر پرسن بلاول بھٹو زرداری نے پریس کانفرنس میں مرکزی حکومت کے رویے پر تنقیدکرتے ہوئے کہا ہے کہ HIV وائرس صرف سندھ میں نہیں بلکہ پنجاب اور بلوچستان میں بھی پایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی وزراء HIV وائرس اور ایڈز کے مرض میں تفریق نہیں کر پا رہے، جس سے لوگوں میں مزید خوف پھیل رہا ہے، مگر محکمہ صحت کی ٹیمیں رتو ڈیرو اور اطراف کے علاقوں میں لوگوں کے خون کی اسکیننگ کر رہی ہیںاور پولیس نے رتوڈیرو کے ایک ڈاکٹرکوگرفتار کر رکھا ہے ، مگر تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ HIV وائرس پھیلانے کا ذمے دار صرف یہ ایک ڈاکٹرنہیں ہے۔ بلاول بھٹو نے سندھ حکومت کی حمایت کے باوجود HIV وائرس کی وجوہات کو روکنے پر محکمہ صحت کی مکمل ناکامی پر توجہ نہیں دی۔
ماہرین کو اس بات پر حیرت ہے کہ اس وائرس کا شکار ہونے والے بیشتر بچے ہیں اور ان کے والدین ابھی تک صحت مند ہیں۔ ایڈزکے مرض میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے بچوں کا علاج ڈاکٹرگھانگرو سے کرایا تھا۔ ڈاکٹرگھانگرو ایک سرنج سے کئی بچوں کو انجکشن لگاتے اور ایک ہی ڈرپ کئی بچوں کو لگاتے تھے۔ صحت کے ماہرین کا ماننا ہے کہ HIV وائرس خون کے ذرات کی منتقلی سے پھیلتا ہے۔ یہ خون کے ذرات نائی کے استرے، انجکشن کی سوئی، ڈرپ کی سوئی،جنسی تعلقات اور انتقال خون کے ذریعے پھیلتے ہیں۔ اس بات کا امکان ہے کہ بچوں کوگنجا اورختنہ کرنے کے انجکشن اور ڈرپ کی سوئی بار بار استعمال کرنے سے یہ مرض پھیلتاہے۔ سندھ ہیلتھ کیئرکمیشن، سندھ ایڈز پروگرام اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر وبائی امراض کی روک تھام کے ذمے دار قرار دیے جاتے ہیں۔
سندھ ہیلتھ کمیشن 2013 میں صوبائی حکومت کے تیار کردہ قانون کے تحت قائم ہوا ۔ اس کمیشن کی 2014 میں تشکیل ہوئی۔کمیشن ماہر ڈاکٹروں اور ماہر قانون پر مشتمل ہے۔ کمیشن چارٹر کے مطابق کمیشن کے بنیادی وظائف میں اسپتالوں کو لائسنس کا اجراء اور عطائی ڈاکٹروں کے خلاف اقدامات شامل ہیں ۔کمیشن نے سندھ کے چھوٹے بڑے اسپتالوں کو لائسنس دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ کراچی کے چند بڑے اسپتالوں کو لائسنس جاری بھی کیے گئے ہیں۔
کمیشن نے لائسنس کے اجراء کے لیے جو قواعدوضوابط تیارکیے ہیں وہ خاصے بہتر ہیں۔ جو اسپتال ان قواعد وضوابط پر پورے اترتے ہیں انھیں لائسنس جاری کردیے جاتے ہیں۔ کمیشن نے اسپتالوں کے لائسنس کے اجراء کے لیے اخبارات میں اشتہارات شایع کرائے ہیں۔ چند بڑے اسپتال نے تو ان قواعد و ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے لائسنس کی شرائط کو پورا کیا ہے مگر اب بھی کراچی کے بیشتر اسپتالوں نے یہ لائسنس حاصل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
گزشتہ ماہ گلستان جوہر میں واقع دارالصحت اسپتال میں ایک بچی نشوہ کے غلط انجکشن کی بناء پر ہلاکت کا معاملہ ذرایع ابلاغ کی زینت بنا۔ یہ انکشاف ہوا تھا کہ اسپتال کے پاس لائسنس نہیں تھا۔کمیشن نے ابھی تک اسپتالوں کو قواعد وضوابط کے تحت لانے کے لیے مؤثر اقدامات پر توجہ نہیں دی۔ کمیشن کا دوسرا فریضہ اتائیوں کے خلاف کارروائی کرنا ہے مگر کمیشن کی کارکردگی ابھی تک مایوس کن ہے۔ سندھ ایڈز پروگرام کئی برسوں سے کام کررہا ہے۔ اس پروگرام کا بنیادی فریضہ مرض کے پھیلاؤ کے اسباب کے بارے میں ڈاکٹروں کی تربیت کرنا اور مریضوں کے علاج کے بارے میں انھیں آگاہی دینا بھی ہے۔
اس پروگرام سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرکا کہنا ہے کہ پروگرام کے لیے مختص کیا جانے والا فنڈ بہت محدود ہے، اس بناء پر ایڈز پروگرام پورے سندھ میں متحرک نہیں ہے مگر اس پروگرام سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر W.H.O کی تحقیقاتی ٹیم کی معاونت کر رہے ہیں۔اس پروگرام میں کام کرنے والے ایک ڈاکٹرکا کہنا ہے کہ یہ بات نا قابل تصور تھی کہ HIV وائرس وبائی شکل اختیارکر لے گا۔ یہ صورتحال ملک بھر میں پہلی دفعہ ہوئی ہے۔ سندھ میں اب بھی صحت عامہ کے معیارکو بہتر بنانے کی ذمے داری وزیر صحت، سیکریٹری صحت، ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسروں پر عائد ہوتی ہے۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کی ذمے داریوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ اپنے ضلع میں ان اسباب کے خاتمے کے لیے اقدامات اٹھائیں جن کی بناء پر کوئی وبائی مرض پھیل سکتا ہے۔
سندھ اور باقی صوبوں میں دیہی علاقوں میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ بخار، درد اورگرمی لگنے کا فوری علاج انجکشن لگنے سے زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ اس طرح گرمی کے موسم میں ڈرپ لگوا کر توانائی حاصل کرنے کی روایت خاصی قدیم ہے۔ گاؤں میں نائی کا استرا گنجا ہونے، شیوکرنے اور ختنہ کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جب تک استرے کی دھار ماند نہیں پڑ جاتی نائی یہ استرا چلاتے رہتے ہیں، یوں خون کے ذرات کے ذریعے منتقل ہونے والے امراض ایک سے دوسرے میں فوری طور پر منتقل ہوجاتے ہیں۔
اندرون سندھ کے ایک بڑے اسپتال کے ماہر سرجن کا کہنا ہے کہ دوائی سازکمپنیوں کا بھی اس مرض کے پھیلاؤ میں کردار ہے یہ کمپنیاں انجکشن اور ڈرپ کے ذریعے اینٹی بائیوٹک دوا پر زیادہ منافع کماتی ہیں، اس بنا پر وہ ڈاکٹروں کو اس طریقہ کارکی بنا پر زیادہ کمیشن دیتی ہیں۔ ڈاکٹرایک انجکشن کئی کئی مریضوں کو لگا کر پیسے بچاتے ہیں جس سے یہ مرض پھیلتا ہے۔ محکمہ صحت کے وزیر، سیکریٹری، ڈائریکٹر جنرل نے کبھی کسی ڈسٹرکٹ کے متعلقہ افسر سے یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ وبائی امراض کی روک تھام کے لیے کیا اقدامات ہو رہے ہیں۔
سندھ شعبہ صحت کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی متفقہ رائے یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے اقتدار کے 12 برسوں میں یہ اہم عہدے نیلام ہوتے ہیں نہ ہیلتھ کیئرکمیشن اور سندھ ایڈز پروگرام سے ان کی کارکردگی کے بارے میں پوچھا گیا۔ جو افسران زیادہ رقوم دیتے ہیں ان کی فوری تقرریاں ہو جاتی ہیں اور جو سینئر ڈاکٹر اس نیلامی میں شریک نہیں ہوتے انھیں کسی غیر معروف جگہ پر فرائض سرانجام دینے پڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ افسر اپنے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ نیلامی کے لیے دی جانے والی رقم وصول کرنے میں لگ جاتا ہے۔ یوں وہ کبھی بھی اپنے حقیقی فرائض کی طرف توجہ نہیں دے پاتا اور یہی وجہ ہے کہ اس بات کا خدشہ پایا جاتا ہے کہ صرف لاڑکانہ ڈویژن میں نہیں بلکہ دیگر اضلاع میں HIV وائرس اور دیگر وائرس کے مریضوں کی خاصی بڑی تعداد موجود ہے۔
کہا جاتا ہے کہ لاڑکانہ پیپلزپارٹی کا دل ہے۔ اس ضلع میں وبائی امراض کا پھیلنا بہت سے حقائق کو آشکار کر رہا ہے۔ سندھ کی وزیر صحت جو خود ایک ڈاکٹر ہیں وہ بہت مختصر عرصے کے لیے لاڑکانہ گئیں۔ انھیں تو اصولی طور پر لاڑکانہ میں اپنا کیمپ مستقل طور پر قائم کرلینا چاہیے تھا تاکہ وہ مریضوں کی اسکیننگ، ایڈز کے مریضوں کے علاج اور اس مرض کے بارے میں آگاہی کے کاموں کی ذاتی طور پر نگرانی کریں اور لوگوں کو اس بات پر مایوسی نہ ہوکہ پیپلز پارٹی کی حکومت ان پر توجہ نہیں دے رہی۔ بہت سے لوگوں کو اس بات پر حیرت ہوئی کہ بلاول بھٹو زرداری اپنی حکومت کا احتساب کرنے کے بجائے اس سے دیگر صوبوں کا موازنہ کر رہے ہیں۔
جب وہ یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت عوام کی حکومت ہے اور دیگر صوبوں میں قائم حکومتیں عوام دشمن ہیں تو پھر وہ اپنی حکومت کا دیگر صوبوں کی حکومتوں سے موازنہ کس طرح کرسکتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ HIV وائرس پھیلنے کی ساری ذمے داری حکومت سندھ پر ہے اور براہِ راست سندھ کے وزیر صحت اور محکمے کے تمام اعلیٰ افسران اس کے ذمے دار ہیں۔ حکومت کو اپنی ناکامی تسلیم کرتے ہوئے سندھ میں صحت کے نظام کو جدید طریقوں پر منظم کرنے کے لیے کوئی ہنگامی لائحہ عمل تیارکرنا چاہیے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ HIV وائرس کا شکار ہونے والے بیشتر بچے ہیں جب کہ ان کے والدین اس بیماری کے وائرس سے ابھی تک محفوظ ہیں۔ صرف رتوڈیرو میں ہی نہیں بلکہ اطراف کے گاؤں اور شہروں میں بھی یہ وائرس بچوں اور دیگر افراد کے جسموں میں سرائیت کرگیا ہے۔ رتو ڈیروکے قریب ایک عورت کے HIV وائرس میں مبتلا ہونے کی تصدیق کے بعد اس کے شوہر نے اپنی بیوی کو قتل کردیا۔ عالمی ادارہ صحت کے ماہرین اس بات کی تحقیق کر رہے ہیں کہ بچوں کے اندر اس وائرس کے پھیلنے کی کیا وجوہات ہیں۔
پیپلز پارٹی کے چیئر پرسن بلاول بھٹو زرداری نے پریس کانفرنس میں مرکزی حکومت کے رویے پر تنقیدکرتے ہوئے کہا ہے کہ HIV وائرس صرف سندھ میں نہیں بلکہ پنجاب اور بلوچستان میں بھی پایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی وزراء HIV وائرس اور ایڈز کے مرض میں تفریق نہیں کر پا رہے، جس سے لوگوں میں مزید خوف پھیل رہا ہے، مگر محکمہ صحت کی ٹیمیں رتو ڈیرو اور اطراف کے علاقوں میں لوگوں کے خون کی اسکیننگ کر رہی ہیںاور پولیس نے رتوڈیرو کے ایک ڈاکٹرکوگرفتار کر رکھا ہے ، مگر تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ HIV وائرس پھیلانے کا ذمے دار صرف یہ ایک ڈاکٹرنہیں ہے۔ بلاول بھٹو نے سندھ حکومت کی حمایت کے باوجود HIV وائرس کی وجوہات کو روکنے پر محکمہ صحت کی مکمل ناکامی پر توجہ نہیں دی۔
ماہرین کو اس بات پر حیرت ہے کہ اس وائرس کا شکار ہونے والے بیشتر بچے ہیں اور ان کے والدین ابھی تک صحت مند ہیں۔ ایڈزکے مرض میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے بچوں کا علاج ڈاکٹرگھانگرو سے کرایا تھا۔ ڈاکٹرگھانگرو ایک سرنج سے کئی بچوں کو انجکشن لگاتے اور ایک ہی ڈرپ کئی بچوں کو لگاتے تھے۔ صحت کے ماہرین کا ماننا ہے کہ HIV وائرس خون کے ذرات کی منتقلی سے پھیلتا ہے۔ یہ خون کے ذرات نائی کے استرے، انجکشن کی سوئی، ڈرپ کی سوئی،جنسی تعلقات اور انتقال خون کے ذریعے پھیلتے ہیں۔ اس بات کا امکان ہے کہ بچوں کوگنجا اورختنہ کرنے کے انجکشن اور ڈرپ کی سوئی بار بار استعمال کرنے سے یہ مرض پھیلتاہے۔ سندھ ہیلتھ کیئرکمیشن، سندھ ایڈز پروگرام اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر وبائی امراض کی روک تھام کے ذمے دار قرار دیے جاتے ہیں۔
سندھ ہیلتھ کمیشن 2013 میں صوبائی حکومت کے تیار کردہ قانون کے تحت قائم ہوا ۔ اس کمیشن کی 2014 میں تشکیل ہوئی۔کمیشن ماہر ڈاکٹروں اور ماہر قانون پر مشتمل ہے۔ کمیشن چارٹر کے مطابق کمیشن کے بنیادی وظائف میں اسپتالوں کو لائسنس کا اجراء اور عطائی ڈاکٹروں کے خلاف اقدامات شامل ہیں ۔کمیشن نے سندھ کے چھوٹے بڑے اسپتالوں کو لائسنس دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ کراچی کے چند بڑے اسپتالوں کو لائسنس جاری بھی کیے گئے ہیں۔
کمیشن نے لائسنس کے اجراء کے لیے جو قواعدوضوابط تیارکیے ہیں وہ خاصے بہتر ہیں۔ جو اسپتال ان قواعد وضوابط پر پورے اترتے ہیں انھیں لائسنس جاری کردیے جاتے ہیں۔ کمیشن نے اسپتالوں کے لائسنس کے اجراء کے لیے اخبارات میں اشتہارات شایع کرائے ہیں۔ چند بڑے اسپتال نے تو ان قواعد و ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے لائسنس کی شرائط کو پورا کیا ہے مگر اب بھی کراچی کے بیشتر اسپتالوں نے یہ لائسنس حاصل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
گزشتہ ماہ گلستان جوہر میں واقع دارالصحت اسپتال میں ایک بچی نشوہ کے غلط انجکشن کی بناء پر ہلاکت کا معاملہ ذرایع ابلاغ کی زینت بنا۔ یہ انکشاف ہوا تھا کہ اسپتال کے پاس لائسنس نہیں تھا۔کمیشن نے ابھی تک اسپتالوں کو قواعد وضوابط کے تحت لانے کے لیے مؤثر اقدامات پر توجہ نہیں دی۔ کمیشن کا دوسرا فریضہ اتائیوں کے خلاف کارروائی کرنا ہے مگر کمیشن کی کارکردگی ابھی تک مایوس کن ہے۔ سندھ ایڈز پروگرام کئی برسوں سے کام کررہا ہے۔ اس پروگرام کا بنیادی فریضہ مرض کے پھیلاؤ کے اسباب کے بارے میں ڈاکٹروں کی تربیت کرنا اور مریضوں کے علاج کے بارے میں انھیں آگاہی دینا بھی ہے۔
اس پروگرام سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرکا کہنا ہے کہ پروگرام کے لیے مختص کیا جانے والا فنڈ بہت محدود ہے، اس بناء پر ایڈز پروگرام پورے سندھ میں متحرک نہیں ہے مگر اس پروگرام سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر W.H.O کی تحقیقاتی ٹیم کی معاونت کر رہے ہیں۔اس پروگرام میں کام کرنے والے ایک ڈاکٹرکا کہنا ہے کہ یہ بات نا قابل تصور تھی کہ HIV وائرس وبائی شکل اختیارکر لے گا۔ یہ صورتحال ملک بھر میں پہلی دفعہ ہوئی ہے۔ سندھ میں اب بھی صحت عامہ کے معیارکو بہتر بنانے کی ذمے داری وزیر صحت، سیکریٹری صحت، ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسروں پر عائد ہوتی ہے۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کی ذمے داریوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ اپنے ضلع میں ان اسباب کے خاتمے کے لیے اقدامات اٹھائیں جن کی بناء پر کوئی وبائی مرض پھیل سکتا ہے۔
سندھ اور باقی صوبوں میں دیہی علاقوں میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ بخار، درد اورگرمی لگنے کا فوری علاج انجکشن لگنے سے زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ اس طرح گرمی کے موسم میں ڈرپ لگوا کر توانائی حاصل کرنے کی روایت خاصی قدیم ہے۔ گاؤں میں نائی کا استرا گنجا ہونے، شیوکرنے اور ختنہ کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جب تک استرے کی دھار ماند نہیں پڑ جاتی نائی یہ استرا چلاتے رہتے ہیں، یوں خون کے ذرات کے ذریعے منتقل ہونے والے امراض ایک سے دوسرے میں فوری طور پر منتقل ہوجاتے ہیں۔
اندرون سندھ کے ایک بڑے اسپتال کے ماہر سرجن کا کہنا ہے کہ دوائی سازکمپنیوں کا بھی اس مرض کے پھیلاؤ میں کردار ہے یہ کمپنیاں انجکشن اور ڈرپ کے ذریعے اینٹی بائیوٹک دوا پر زیادہ منافع کماتی ہیں، اس بنا پر وہ ڈاکٹروں کو اس طریقہ کارکی بنا پر زیادہ کمیشن دیتی ہیں۔ ڈاکٹرایک انجکشن کئی کئی مریضوں کو لگا کر پیسے بچاتے ہیں جس سے یہ مرض پھیلتا ہے۔ محکمہ صحت کے وزیر، سیکریٹری، ڈائریکٹر جنرل نے کبھی کسی ڈسٹرکٹ کے متعلقہ افسر سے یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ وبائی امراض کی روک تھام کے لیے کیا اقدامات ہو رہے ہیں۔
سندھ شعبہ صحت کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی متفقہ رائے یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے اقتدار کے 12 برسوں میں یہ اہم عہدے نیلام ہوتے ہیں نہ ہیلتھ کیئرکمیشن اور سندھ ایڈز پروگرام سے ان کی کارکردگی کے بارے میں پوچھا گیا۔ جو افسران زیادہ رقوم دیتے ہیں ان کی فوری تقرریاں ہو جاتی ہیں اور جو سینئر ڈاکٹر اس نیلامی میں شریک نہیں ہوتے انھیں کسی غیر معروف جگہ پر فرائض سرانجام دینے پڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ افسر اپنے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ نیلامی کے لیے دی جانے والی رقم وصول کرنے میں لگ جاتا ہے۔ یوں وہ کبھی بھی اپنے حقیقی فرائض کی طرف توجہ نہیں دے پاتا اور یہی وجہ ہے کہ اس بات کا خدشہ پایا جاتا ہے کہ صرف لاڑکانہ ڈویژن میں نہیں بلکہ دیگر اضلاع میں HIV وائرس اور دیگر وائرس کے مریضوں کی خاصی بڑی تعداد موجود ہے۔
کہا جاتا ہے کہ لاڑکانہ پیپلزپارٹی کا دل ہے۔ اس ضلع میں وبائی امراض کا پھیلنا بہت سے حقائق کو آشکار کر رہا ہے۔ سندھ کی وزیر صحت جو خود ایک ڈاکٹر ہیں وہ بہت مختصر عرصے کے لیے لاڑکانہ گئیں۔ انھیں تو اصولی طور پر لاڑکانہ میں اپنا کیمپ مستقل طور پر قائم کرلینا چاہیے تھا تاکہ وہ مریضوں کی اسکیننگ، ایڈز کے مریضوں کے علاج اور اس مرض کے بارے میں آگاہی کے کاموں کی ذاتی طور پر نگرانی کریں اور لوگوں کو اس بات پر مایوسی نہ ہوکہ پیپلز پارٹی کی حکومت ان پر توجہ نہیں دے رہی۔ بہت سے لوگوں کو اس بات پر حیرت ہوئی کہ بلاول بھٹو زرداری اپنی حکومت کا احتساب کرنے کے بجائے اس سے دیگر صوبوں کا موازنہ کر رہے ہیں۔
جب وہ یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت عوام کی حکومت ہے اور دیگر صوبوں میں قائم حکومتیں عوام دشمن ہیں تو پھر وہ اپنی حکومت کا دیگر صوبوں کی حکومتوں سے موازنہ کس طرح کرسکتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ HIV وائرس پھیلنے کی ساری ذمے داری حکومت سندھ پر ہے اور براہِ راست سندھ کے وزیر صحت اور محکمے کے تمام اعلیٰ افسران اس کے ذمے دار ہیں۔ حکومت کو اپنی ناکامی تسلیم کرتے ہوئے سندھ میں صحت کے نظام کو جدید طریقوں پر منظم کرنے کے لیے کوئی ہنگامی لائحہ عمل تیارکرنا چاہیے۔