انور سجاد آتی جاتی سانس کا عالم نہ پوچھ
ریڈیو اور بعد میں ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھے، ان میں صدا کاری اور اداکاری بھی کی۔
انور سجاد ، اداکار، صدا کار اورکہانی کار تھے۔ دنیا کے اسٹیج پر انھوں نے اپنی کہانی کاری، صدا کاری اور اداکاری کی داد وصول کی، وقت نے تالی بجائی اور ان کی زندگی پر فنا کا سیاہ پردہ گرگیا۔
وہ ان لوگوں میں سے تھے جو تقسیم سے تیرہ برس پہلے پیدا ہوئے۔ جدی، پشتی لاہورکے رہنے والے۔ والد اپنے زمانے کے ایک کامیاب ڈاکٹر تھے اور اس زمانے کی روایت کے مطابق خواہش یہ تھی کہ فرزند دل بند بھی ڈاکٹر بنے اور جس طرح وہ لوگوں کی مسیحائی کرتے تھے، اسی طرح انور کے ہاتھ میں بھی شفا ہو، لیکن انورکو ادب کا چسکا تھا اور ادیبوں کی زیارت کا لپکا۔ جیسے تیسے انھوں نے ڈاکٹری پڑھی، نام کے آگے ڈاکٹر لکھا، ابا مطمئن، بیٹا غیر مطمئن۔کہانیاں لکھیں جو مشہور ادبی رسالوں میں شایع ہوئیں۔
ریڈیو اور بعد میں ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھے، ان میں صدا کاری اور اداکاری بھی کی۔ ترقی پسندی کی ادبی سیاست میں گلے گلے ڈوبے رہے۔ سیاست سے وابستگی انھیں پیپلزپارٹی کی طرف لے گئی اور پھر انھوں نے جرنیل شاہی کے وہ دکھ دیکھے جس نے انھیں دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح دل برداشتہ کردیا۔ وقت کا تقاضا یہ تھا کہ ادیب، فنکار اور صداکار مزاحمت کرنے والے کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ ان کی نگاہوں میں لاطینی امریکا کے ادیب اور ان کی مزاحمت تھی لیکن ہمارے یہاں اس نوعیت کی مستحکم مزاحمت نہیں ہوئی جو تیسری دنیا کے معتوب لوگوں کا مقدر بدل دیتی ہے۔ وہ جرنیل شاہی کے خلاف اپنی تحریروں سے مزاحمت کرتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں:
''لانبی سبزگھاس میں چھپی کئی زبانوں کی تڑپ ، جناتی کانوں کی طرف بڑھتے جلوسوں کی چاپ، پھانسی کے چوکھٹے کے ساتھ لگی سیڑھی پر چڑھتے دو شخص، پل پارکرتے لوگوں کی پیٹھوں پرکوڑے، نیزوں کے کچوکے سہہ کر اذیت میں کھلتے دہن یہ سب کچھ الیکٹرانک ساؤنڈ سسٹم سے بہتی موسیقی کے آہنگ سے بار بار بچھڑجاتا ہے۔ جسے نیزوں، بھالوں، کلہاڑیوں، کیل دارکوڑوں کی ضربوں سے بار بار اس آہنگ میں لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔''
یہ وہ دور ہے جب انور سجاد اوران کے ساتھیوں نے اپنی سی بہت کوشش کی کہ وہ اپنے افسانوں اور نظموں سے دنیا کو بدل دیں۔ لیکن احتساب ، روشن خیال، گواہی، خیابان اور دوسرے کئی ادبی سلسلوں میں چھپنے کے باوجود دنیا نہ بدلی جاسکی۔ فاشزم ترقی کرتا رہا۔ انورسجاد، عبداللہ ملک اور دوسرے کئی ادیب اپنی سی کوشش کرتے رہے۔ احمد داؤد جو ہمارے ایک بہت باہمت اور بانکے ادیب تھے، وہ جان سے گزر گئے۔ ان کا افسانہ ''وہسکی اور پرندے کا گوشت'' ان کی یادگارکہانی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی نے کئی دوسروں کی طرح انور سجاد کو بھی بہت دکھ پہنچایا۔ ان کے اندرون کی تنہائی اور بیگانگی انھیں لاہور سے کراچی لے آئی۔ روزی ، روٹی کی خاطر وہ نجی ٹی وی کے لیے ڈاکو منٹری لکھتے رہے۔ صحت نے جب الٹی گنتی شروع کی تو وہ جو خود ڈاکٹر تھے، سمجھ گئے کہ اب گھر جانا چاہیے۔ سو لاہور واپس ہوئے۔ ایک افسانہ ''کینسر'' لکھا تھا، اسی کینسر میں مبتلا ہوئے اور آخری دنوں میں شاید یہ شعر پڑھتے ہوئے جہان سے گزرے ہوں کہ:
آتی جاتی سانس کا عالم نہ پوچھ
جیسے دہری دھار کا خنجر چلے
خالد اشرف لکھتے ہیں کہ :
ڈاکٹر انور سجاد نے مارکسزم اور جدیدیت کے امتزاج سے اپنا اسلوب وضع کیا تھا، گو ابتدا روایتی بیانیہ سے کی تھی۔ دوسرے مجموعے ''استعارے'' 1970 تک آتے آتے ان کے افسانوں میں مارکسی احتجاج ، علامت اور کہیں کہیں تجریدیت کے اثرات گہرے ہوگئے۔ ان دنوں وہ افتخار جالبؔ کی نئی لسانی تشکیلات کے زیر اثر تھے اور چند ہی قابل فہم افسانے گائے، کونپل اور سنڈریلا وغیرہ لکھ سکے۔ آج (1980) کی کہانیوں میں ان کے معالج پیشے کے تجربات پر مبنی افسانوں ''مرگی'' اور ''کینسر'' کے درمیان پی ایل 480 جیسا امریکا مخالف افسانہ بھی دکھائی دیتا ہے۔
انور سجاد کے افسانوں میں ابہام کی یکساں کیفیت، ایک جیسی مریضانہ فضا اور فوجی آمریت، سقوط ڈھاکا، ملک میں روز افزوں بنیاد پرستی اور نسلی تشدد یا جاگیرداری جیسے بد ترین مسائل کے بارے میں ان کی عدم توجہی سے پاکستان کے روشن خیال اور باشعور ادیب مطمئن نہیں تھے۔ کیونکہ وہ امید رکھتے تھے کہ انور سجاد ابہام اور لایعنیت کو ترک کرکے واضح اور روشن پاکستان کی کہانی لکھیں گے۔
انور ایک ایسے زمانے میں پیدا ہوئے جب برصغیر کے طول وعرض میں آزادی کی تحریک چل رہی تھی۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کی چار دہائیوں میں یہ تحریک جس قدرہمہ جہت تھی، اس نے کیا ہندو اور کیا مسلمان ، کیا سکھ اور کیا آدی واسی سب ہی کو جوش سے بھر دیا تھا۔ جلیانوالہ باغ میں بے گناہوںکے قتل عام نے بھگت سنگھ اور ان کے سرفروشوں کو برصغیر کے لوگوں کی آنکھوں کا تارا بنا دیا تھا۔ اسی طرح متعدد تحریکیں تھیں جو بڑی اور چھوٹی سیاسی جماعتوں سے جڑی ہوئی تھیں۔ ہر شخص کے سینے میں اس یقین کا علم لہراتا تھا کہ آزادی اب ملی کہ اب ملی۔ اس وقت مذہب، مسلک، زبان اور علاقے کے نام پر کوئی تفریق نہ تھی۔ انور سجاد 1934 میں پیدا ہوئے، لاہور سیاسی، ادبی اور علمی ابھار کا مرکز تھا، انھوں نے پرانے لاہورکی گلیوں میں اس حسین خواب کو طلوع ہوتے دیکھا جو ہر شخص کی پلکوں پر سجا ہوا تھا۔
یہی دن تھے کہ جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی اور پنجاب کے طول وعرض سے غریب اور بھک مری کے شکار خاندانوں کے نوجوانوں نے قطاریں لگا کر برٹش راج کی گرتی ہوئی دیواروں کو سہارا دینے کے لیے اپنی جانیں پیش کردیں۔ ان کے ذہن میں بس یہی خیال تھا کہ ان کے گھروں میں ہر ماہ بر وقت منی آرڈر پہنچے گا اور ان کے گھر والے بھوک کا نوالہ بننے کے بجائے پیٹ بھر نوالہ کھا سکیں گے۔ اس زمانے میں دوسری جنگ عظیم اور اس سے جڑی ہوئی بھوک، ہمارے نوجوانوں کو ایتھوپیا، مصر اور فرانس کے محاذوں پر لے گئی۔ ان کے جانے کے بعد علاقے کے زمینداروں اور زور آوروں کا ان کی بیویوں، بہنوں اور بیٹیوں پر ہوس ناک نظریں ڈالنا ایک عام سی بات تھی۔ یہ وہ معاملات تھے جن پر احمد ندیم قاسمی اور ہمارے دوسرے اہم ادیب کھل کر لکھ رہے تھے۔ اس صورتحال پر احتجاج ہو رہا تھا ، سینوں میں طیش پل رہا تھا۔ آزادی کو برطانوی سپاہیوںکے خلاف ایک دھار دار ہتھیار کے طور پر دیکھا اور برتا جا رہا تھا۔ منٹوکا افسانہ ''نیا قانون'' اسی دور کی یادگار ہے۔
انور سجاد کو ابتدائے عمر سے ادب پڑھنے کا ہوکا تھا، وہ ''طلسم ہوشربا'' اور ''توتا کہانی'' کے ساتھ ہی '' قصص الانبیا'' اور دوسری دلچسپ مذہبی کتابیں بھی پڑھتے تھے۔ محلے کی مسجد میں اذان بھی دیتے تھے اور سماج میں جو نئے رجحانات کروٹیں لے رہے تھے، ان سے بھی آگاہ تھے۔ آخرکار یہ ہوا کہ وہ 1917 میں روس میں آنے والے انقلاب، اس کی تاریخ اور اس کے ادب میں غوطہ زن ہوئے اور جب اس بحرِ ذخار سے باہر آئے تو ان کے پاس وہ سنہری مچھلی تھی جس کے بدن پر انقلاب کی ست رنگی لہریں جھلملاتی تھیں۔
آزادی جس کے خواب 40 سے 80 اور 90 کی دہائی تک ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں نے دیکھے تھے، وہ یکے بعد دیگرے بجھتے چلے گئے۔ انور سجاد اور ان کے ساتھی ادیب گورنر جنرل غلام محمد سے جنرل ضیاء الحق کے زمانے تک اپنے قلم سے لڑتے رہے۔ ان میں سے کئی اپنی ملازمتوں سے فارغ کیے گئے۔ احمد داؤد فشار خون کو برداشت نہ کرسکے اور ان کی شریانوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ انور سجاد جو مذہبی اور عسکری تشدد کا سامنا کرتے رہے۔
ایسے افسانے لکھتے رہے جو سالہا سال گزرنے کے بعد بھی لوگوں کو یاد ہیں۔ لاہور میں انقلابی اور باغی نوجوانوں پر جو کچھ گزری تھی، شاید وہ سبب بنا کہ انھوں نے کراچی کا رخ کیا۔ یہاں انھوں نے دوسروں کے لکھے ہوئے اسکرپٹ درست کیے۔ (اس کام میں یقیناً انھوں نے بہت صدمے اٹھائے ہوں گے) کراچی کو خود کشی کرتے دیکھا اورجب یہ عالم ان سے برداشت نہ ہوا تو وہ واپس لاہور چلے گئے۔ اور اپنی جنم بھومی میں چھلنی پھیپھڑوں سے سانس لیتے ہوئے آنکھیں بند کرلیں۔
وہ ایک بڑے ادیب تھے لیکن ادب کے میدان میں بھی جو چوہا دوڑ لگی ہے، انور اس دوڑ میں شریک نہیں ہوسکتے تھے۔ منٹو پتلی گلی سے پاکستان آئے تھے، انور سجاد اسی پتلی گلی سے وہاں نکل گئے جہاں سے پلٹ کر کوئی نہیں آتا۔
وہ ان لوگوں میں سے تھے جو تقسیم سے تیرہ برس پہلے پیدا ہوئے۔ جدی، پشتی لاہورکے رہنے والے۔ والد اپنے زمانے کے ایک کامیاب ڈاکٹر تھے اور اس زمانے کی روایت کے مطابق خواہش یہ تھی کہ فرزند دل بند بھی ڈاکٹر بنے اور جس طرح وہ لوگوں کی مسیحائی کرتے تھے، اسی طرح انور کے ہاتھ میں بھی شفا ہو، لیکن انورکو ادب کا چسکا تھا اور ادیبوں کی زیارت کا لپکا۔ جیسے تیسے انھوں نے ڈاکٹری پڑھی، نام کے آگے ڈاکٹر لکھا، ابا مطمئن، بیٹا غیر مطمئن۔کہانیاں لکھیں جو مشہور ادبی رسالوں میں شایع ہوئیں۔
ریڈیو اور بعد میں ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھے، ان میں صدا کاری اور اداکاری بھی کی۔ ترقی پسندی کی ادبی سیاست میں گلے گلے ڈوبے رہے۔ سیاست سے وابستگی انھیں پیپلزپارٹی کی طرف لے گئی اور پھر انھوں نے جرنیل شاہی کے وہ دکھ دیکھے جس نے انھیں دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح دل برداشتہ کردیا۔ وقت کا تقاضا یہ تھا کہ ادیب، فنکار اور صداکار مزاحمت کرنے والے کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ ان کی نگاہوں میں لاطینی امریکا کے ادیب اور ان کی مزاحمت تھی لیکن ہمارے یہاں اس نوعیت کی مستحکم مزاحمت نہیں ہوئی جو تیسری دنیا کے معتوب لوگوں کا مقدر بدل دیتی ہے۔ وہ جرنیل شاہی کے خلاف اپنی تحریروں سے مزاحمت کرتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں:
''لانبی سبزگھاس میں چھپی کئی زبانوں کی تڑپ ، جناتی کانوں کی طرف بڑھتے جلوسوں کی چاپ، پھانسی کے چوکھٹے کے ساتھ لگی سیڑھی پر چڑھتے دو شخص، پل پارکرتے لوگوں کی پیٹھوں پرکوڑے، نیزوں کے کچوکے سہہ کر اذیت میں کھلتے دہن یہ سب کچھ الیکٹرانک ساؤنڈ سسٹم سے بہتی موسیقی کے آہنگ سے بار بار بچھڑجاتا ہے۔ جسے نیزوں، بھالوں، کلہاڑیوں، کیل دارکوڑوں کی ضربوں سے بار بار اس آہنگ میں لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔''
یہ وہ دور ہے جب انور سجاد اوران کے ساتھیوں نے اپنی سی بہت کوشش کی کہ وہ اپنے افسانوں اور نظموں سے دنیا کو بدل دیں۔ لیکن احتساب ، روشن خیال، گواہی، خیابان اور دوسرے کئی ادبی سلسلوں میں چھپنے کے باوجود دنیا نہ بدلی جاسکی۔ فاشزم ترقی کرتا رہا۔ انورسجاد، عبداللہ ملک اور دوسرے کئی ادیب اپنی سی کوشش کرتے رہے۔ احمد داؤد جو ہمارے ایک بہت باہمت اور بانکے ادیب تھے، وہ جان سے گزر گئے۔ ان کا افسانہ ''وہسکی اور پرندے کا گوشت'' ان کی یادگارکہانی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی نے کئی دوسروں کی طرح انور سجاد کو بھی بہت دکھ پہنچایا۔ ان کے اندرون کی تنہائی اور بیگانگی انھیں لاہور سے کراچی لے آئی۔ روزی ، روٹی کی خاطر وہ نجی ٹی وی کے لیے ڈاکو منٹری لکھتے رہے۔ صحت نے جب الٹی گنتی شروع کی تو وہ جو خود ڈاکٹر تھے، سمجھ گئے کہ اب گھر جانا چاہیے۔ سو لاہور واپس ہوئے۔ ایک افسانہ ''کینسر'' لکھا تھا، اسی کینسر میں مبتلا ہوئے اور آخری دنوں میں شاید یہ شعر پڑھتے ہوئے جہان سے گزرے ہوں کہ:
آتی جاتی سانس کا عالم نہ پوچھ
جیسے دہری دھار کا خنجر چلے
خالد اشرف لکھتے ہیں کہ :
ڈاکٹر انور سجاد نے مارکسزم اور جدیدیت کے امتزاج سے اپنا اسلوب وضع کیا تھا، گو ابتدا روایتی بیانیہ سے کی تھی۔ دوسرے مجموعے ''استعارے'' 1970 تک آتے آتے ان کے افسانوں میں مارکسی احتجاج ، علامت اور کہیں کہیں تجریدیت کے اثرات گہرے ہوگئے۔ ان دنوں وہ افتخار جالبؔ کی نئی لسانی تشکیلات کے زیر اثر تھے اور چند ہی قابل فہم افسانے گائے، کونپل اور سنڈریلا وغیرہ لکھ سکے۔ آج (1980) کی کہانیوں میں ان کے معالج پیشے کے تجربات پر مبنی افسانوں ''مرگی'' اور ''کینسر'' کے درمیان پی ایل 480 جیسا امریکا مخالف افسانہ بھی دکھائی دیتا ہے۔
انور سجاد کے افسانوں میں ابہام کی یکساں کیفیت، ایک جیسی مریضانہ فضا اور فوجی آمریت، سقوط ڈھاکا، ملک میں روز افزوں بنیاد پرستی اور نسلی تشدد یا جاگیرداری جیسے بد ترین مسائل کے بارے میں ان کی عدم توجہی سے پاکستان کے روشن خیال اور باشعور ادیب مطمئن نہیں تھے۔ کیونکہ وہ امید رکھتے تھے کہ انور سجاد ابہام اور لایعنیت کو ترک کرکے واضح اور روشن پاکستان کی کہانی لکھیں گے۔
انور ایک ایسے زمانے میں پیدا ہوئے جب برصغیر کے طول وعرض میں آزادی کی تحریک چل رہی تھی۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کی چار دہائیوں میں یہ تحریک جس قدرہمہ جہت تھی، اس نے کیا ہندو اور کیا مسلمان ، کیا سکھ اور کیا آدی واسی سب ہی کو جوش سے بھر دیا تھا۔ جلیانوالہ باغ میں بے گناہوںکے قتل عام نے بھگت سنگھ اور ان کے سرفروشوں کو برصغیر کے لوگوں کی آنکھوں کا تارا بنا دیا تھا۔ اسی طرح متعدد تحریکیں تھیں جو بڑی اور چھوٹی سیاسی جماعتوں سے جڑی ہوئی تھیں۔ ہر شخص کے سینے میں اس یقین کا علم لہراتا تھا کہ آزادی اب ملی کہ اب ملی۔ اس وقت مذہب، مسلک، زبان اور علاقے کے نام پر کوئی تفریق نہ تھی۔ انور سجاد 1934 میں پیدا ہوئے، لاہور سیاسی، ادبی اور علمی ابھار کا مرکز تھا، انھوں نے پرانے لاہورکی گلیوں میں اس حسین خواب کو طلوع ہوتے دیکھا جو ہر شخص کی پلکوں پر سجا ہوا تھا۔
یہی دن تھے کہ جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی اور پنجاب کے طول وعرض سے غریب اور بھک مری کے شکار خاندانوں کے نوجوانوں نے قطاریں لگا کر برٹش راج کی گرتی ہوئی دیواروں کو سہارا دینے کے لیے اپنی جانیں پیش کردیں۔ ان کے ذہن میں بس یہی خیال تھا کہ ان کے گھروں میں ہر ماہ بر وقت منی آرڈر پہنچے گا اور ان کے گھر والے بھوک کا نوالہ بننے کے بجائے پیٹ بھر نوالہ کھا سکیں گے۔ اس زمانے میں دوسری جنگ عظیم اور اس سے جڑی ہوئی بھوک، ہمارے نوجوانوں کو ایتھوپیا، مصر اور فرانس کے محاذوں پر لے گئی۔ ان کے جانے کے بعد علاقے کے زمینداروں اور زور آوروں کا ان کی بیویوں، بہنوں اور بیٹیوں پر ہوس ناک نظریں ڈالنا ایک عام سی بات تھی۔ یہ وہ معاملات تھے جن پر احمد ندیم قاسمی اور ہمارے دوسرے اہم ادیب کھل کر لکھ رہے تھے۔ اس صورتحال پر احتجاج ہو رہا تھا ، سینوں میں طیش پل رہا تھا۔ آزادی کو برطانوی سپاہیوںکے خلاف ایک دھار دار ہتھیار کے طور پر دیکھا اور برتا جا رہا تھا۔ منٹوکا افسانہ ''نیا قانون'' اسی دور کی یادگار ہے۔
انور سجاد کو ابتدائے عمر سے ادب پڑھنے کا ہوکا تھا، وہ ''طلسم ہوشربا'' اور ''توتا کہانی'' کے ساتھ ہی '' قصص الانبیا'' اور دوسری دلچسپ مذہبی کتابیں بھی پڑھتے تھے۔ محلے کی مسجد میں اذان بھی دیتے تھے اور سماج میں جو نئے رجحانات کروٹیں لے رہے تھے، ان سے بھی آگاہ تھے۔ آخرکار یہ ہوا کہ وہ 1917 میں روس میں آنے والے انقلاب، اس کی تاریخ اور اس کے ادب میں غوطہ زن ہوئے اور جب اس بحرِ ذخار سے باہر آئے تو ان کے پاس وہ سنہری مچھلی تھی جس کے بدن پر انقلاب کی ست رنگی لہریں جھلملاتی تھیں۔
آزادی جس کے خواب 40 سے 80 اور 90 کی دہائی تک ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں نے دیکھے تھے، وہ یکے بعد دیگرے بجھتے چلے گئے۔ انور سجاد اور ان کے ساتھی ادیب گورنر جنرل غلام محمد سے جنرل ضیاء الحق کے زمانے تک اپنے قلم سے لڑتے رہے۔ ان میں سے کئی اپنی ملازمتوں سے فارغ کیے گئے۔ احمد داؤد فشار خون کو برداشت نہ کرسکے اور ان کی شریانوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ انور سجاد جو مذہبی اور عسکری تشدد کا سامنا کرتے رہے۔
ایسے افسانے لکھتے رہے جو سالہا سال گزرنے کے بعد بھی لوگوں کو یاد ہیں۔ لاہور میں انقلابی اور باغی نوجوانوں پر جو کچھ گزری تھی، شاید وہ سبب بنا کہ انھوں نے کراچی کا رخ کیا۔ یہاں انھوں نے دوسروں کے لکھے ہوئے اسکرپٹ درست کیے۔ (اس کام میں یقیناً انھوں نے بہت صدمے اٹھائے ہوں گے) کراچی کو خود کشی کرتے دیکھا اورجب یہ عالم ان سے برداشت نہ ہوا تو وہ واپس لاہور چلے گئے۔ اور اپنی جنم بھومی میں چھلنی پھیپھڑوں سے سانس لیتے ہوئے آنکھیں بند کرلیں۔
وہ ایک بڑے ادیب تھے لیکن ادب کے میدان میں بھی جو چوہا دوڑ لگی ہے، انور اس دوڑ میں شریک نہیں ہوسکتے تھے۔ منٹو پتلی گلی سے پاکستان آئے تھے، انور سجاد اسی پتلی گلی سے وہاں نکل گئے جہاں سے پلٹ کر کوئی نہیں آتا۔