قومی عجائب گھر کراچی
وفاقی حکومت کی سطح پر 13 میوزیم قائم ہیں جن میں قدیم ادوار کے نوادرات کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے
جہاں تک دنیا بھر میں نوادرات جمع کرنے کا تعلق ہے، تو یہ کوئی چند صدیوں پہلے کی روایت نہیں۔ بلکہ اس روایت کا آغاز تو ابتدائے آفرنیش سے ہوگیا تھا، جب لوگوں نے اپنے آباؤاجداد کے زیر استعمال رہنے والی چیزوں کو آئندہ آنے والی نسلوں کو دکھانے کےلیے جمع کرنا شروع کردیا تھا۔ لیکن اس کا باقاعدہ آغاز اس وقت سے ہوا جب لوگوں نے اپنے آباؤ اجداد کی تدفین کےلیے ان کی لاشوں کو مسالا لگاکر محفوظ کرنا شروع کردیا اور اسے احرام مصر کا نام دیا۔ اسی زمانے یعنی 5000 سال قبل لوگوں نے اپنے اجداد کی نعشوں کو دفنانے کے ساتھ ساتھ ان کے زیراستعمال اشیا کو بھی ان کے ساتھ مدفون کرنا شروع کردیا، تاکہ آنے والی نسلوں کو اپنے اجداد کی تہذیب و ثقافت سے آگاہی حاصل ہوسکے۔
جب دنیا بھر میں صنعتی انقلاب برپا ہوا تو اس وقت یورپیوں نے افریقہ اور ایشیائی ممالک میں کی جانے والی لوٹ مار کے دوران ملنے والے نوادرات کو محفوظ کرنے کےلیے میوزیم قائم کیے۔ ان ہی میں سے ایک میوزیم، جو دنیا کا سب سے بڑا میوزیم ہے، کو برٹش میوزیم کا نام دیا گیا۔ جس کا شمار آج بھی دنیا کے سب سے بڑے اور قدیم عجائب گھروں میں کیا جاتا ہے۔
جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، تو انہوں نے بھی اپنے آباؤاجداد کے زیر استعمال اشیا کو محفوظ بنانے کا کام غاروں اور مٹی کے گھروندوں میں رکھنے سے کیا۔ اس سلسلے میں جب نبی آخری الزماں حضرت محمدؐ کا وصال ہوا تو خلیفہ وقت بھی اسے مقرر کیا گیا جس کے پاس نبی کریمؐ کے زیر استعمال رہنے والی سب سے زیادہ اشیا، جن میں عصا، کپڑے، کٹورے سمیت نوادرات کا سب سے بڑا ذخیرہ تھا۔ یہ سلسلہ سلطنت عثمانیہ تک جاری رہا، پھر قسطنطنیہ میں توپ کاپی میوزیم میں نبی کریمؐ، صحابہ کرامؓ کے زیر استعمال رہنے والی چیزوں کا ذخیرہ کیا گیا۔ جس کی بنیاد پر اسے اس وقت دنیا کے سب سے بڑے اسلامی میوزیم کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔
اس کے بعد دنیا بھر میں عجائب گھروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا اور اس وقت لگ بھگ دنیا بھر میں 50 ہزار سے زائد عجائب گھر موجود ہیں، جہاں کروڑوں کی تعداد میں قدیم ترین، اہم اور نوادرات کا قیمتی ذخیرہ موجود ہے۔
پاکستان میں وفاقی حکومت کی سطح پر 13، جبکہ صوبائی سطح پر 70 سے زائد میوزیم موجود ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان، پاکستان ریلوے، پاکستان نیوی، پاکستان ایئر فورس، پاکستان آرمی، اسٹیٹ بینک آف پاکستان سمیت مختلف اداروں کے میوزیم بھی موجود ہیں۔ جہاں ان اداروں کے آغاز سے لے کر اب تک کے تمام اہم قیمتی نوادرات، جن میں ہوائی جہاز، وردیاں، آتشیں اسلحہ، توپ، ٹینک تک موجود ہیں۔
وفاقی حکومت کی سطح پر جو 13 میوزیم قائم ہیں ان میں پتھر دور، کانسی، تانبہ دور اور مختلف قدیم ادوار کے نوادرات کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ ایسے میوزیم میں قومی عجائب گھر کراچی کو ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ اس کا آغاز برطانوی دور میں ایک انگریز کمشنر سر بارٹلے فریئر نے 1871 میں اس وقت کے مشہور زمانہ ٹاؤن ہال ''فریئر ہال'' کی اوپری منزل پر کیا۔
یہ بلاگ بھی پڑھئے: وکٹوریہ میوزیم سے نیشنل میوزیم کراچی تک
ابتدائی طور پر میوزیم اور جنرل لائبریری دونوں ہی فریئر ہال کی اوپری منزل پر قائم کیے گئے، جہاں شائقین کی ایک بڑی تعداد نہ صرف مطالعے کا شوق پورا کرتی بلکہ تاریخ سے لگاؤ رکھنے والے لوگ ماضی میں استعمال ہونے والی نادر و نایاب اشیا کا مطالعہ بھی کرتے تھے۔ اس میوزیم کو اس وقت وکٹوریہ میوزیم کا نام دیا گیا تھا، جبکہ لائبریری، جنرل لائبریری کے نام سے مشہور تھی۔ پھر اچانک یہ میوزیم آج کے سپریم کورٹ کراچی کے رجسٹری آفس منتقل کردیا گیا اور یہ کافی عرصے تک یہیں قائم رہا۔ لیکن پھر جب یہاں مزید نوادرات رکھنے کی گنجائش ختم ہوگئی تو پھر ایک وسیع و عریض میوزیم قائم کرنے کے بارے میں سوچا جانے لگا۔
اور پھر برنس گارڈن، جو کہ قدامت کے اعتبار سے کراچی کا پہلا باغ تھا، کو قومی ورثہ قرار دے دیا گیا اور باغ کے اندر قومی عجائب گھر قائم کرنے کی منظوری بھی دے دی گئی۔ جس کے بعد تیزی سے اس کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا اور جلد ہی ایک 5 منزلہ دیدہ زیب عمارت تعمیر ہوگئی۔ اس کے بعد وکٹوریہ میوزیم کے نوادرات، جو کہ مختلف وقتوں میں کبھی ڈی جے کالج اور کبھی سپریم کورٹ کے رجسٹری آفس اور دیگر عمارتوں میں رکھے گئے تھے، کو اکھٹا کرکے نیشنل میوزیم کراچی منتقل کردیا گیا۔
ابتدائی طور پر یہاں 2 یا 3 گیلریاں شروع کی گئیں، جن میں قرآنک گیلری، گندھارا، موہن جو دڑو، زمانہ قبل از تاریخ، تحریک پاکستان سمیت مختلف گیلریاں موجود ہیں۔ جن میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہا اور گیلریوں کی تعداد 12 کو پہنچ گئی۔
یہ تحریر بھی پڑھئے: قومی عجائب گھر، وفاقی یا صوبائی ملکیت؟
قومی عجائب گھر کراچی، جو کہ قیام پاکستان کے بعد وفاقی محکمہ آثار قدیمہ کا حصہ تھا اور اس کے انتظامات یہی محکمہ سنبھالتا تھا، 2011 میں 18 ویں ترمیم آنے کے بعد اسے سندھ کا حصہ قرار دے دیا گیا۔ اس وقت سے لے کر جنوری تک یہ سندھ کے زیر انتظام تھا۔ مگر 17 جنوری 2019 کو چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان، جسٹس افتخار احمد چوہدری نے اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک روز قبل اسے پھر سے وفاق کے زیرانتظام کردیا ہے۔ جس کے بعد صوبائی حکومت نے وفاق کو اس کے اختیارات واپس لوٹا دیئے ہیں اور اس کے تمام تر انتظامات کو ایک بار پھر محکمہ آثار قدیمہ نے دیکھنا شروع کردیا ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی وزیر برائے قومی ورثہ شفقت محمود نے قومی عجائب گھر کراچی کو جدید خطوط سے ہم آہنگ کرنے کےلیے فلم میکر شرمین عبید چنائے کی سربراہی میں ایک 13 رکنی کمیٹی قائم کردی ہے، جو کہ میوزیم کو عہد حاضر کے تقاضوں کے مطابق ڈھالے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
جب دنیا بھر میں صنعتی انقلاب برپا ہوا تو اس وقت یورپیوں نے افریقہ اور ایشیائی ممالک میں کی جانے والی لوٹ مار کے دوران ملنے والے نوادرات کو محفوظ کرنے کےلیے میوزیم قائم کیے۔ ان ہی میں سے ایک میوزیم، جو دنیا کا سب سے بڑا میوزیم ہے، کو برٹش میوزیم کا نام دیا گیا۔ جس کا شمار آج بھی دنیا کے سب سے بڑے اور قدیم عجائب گھروں میں کیا جاتا ہے۔
جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، تو انہوں نے بھی اپنے آباؤاجداد کے زیر استعمال اشیا کو محفوظ بنانے کا کام غاروں اور مٹی کے گھروندوں میں رکھنے سے کیا۔ اس سلسلے میں جب نبی آخری الزماں حضرت محمدؐ کا وصال ہوا تو خلیفہ وقت بھی اسے مقرر کیا گیا جس کے پاس نبی کریمؐ کے زیر استعمال رہنے والی سب سے زیادہ اشیا، جن میں عصا، کپڑے، کٹورے سمیت نوادرات کا سب سے بڑا ذخیرہ تھا۔ یہ سلسلہ سلطنت عثمانیہ تک جاری رہا، پھر قسطنطنیہ میں توپ کاپی میوزیم میں نبی کریمؐ، صحابہ کرامؓ کے زیر استعمال رہنے والی چیزوں کا ذخیرہ کیا گیا۔ جس کی بنیاد پر اسے اس وقت دنیا کے سب سے بڑے اسلامی میوزیم کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔
اس کے بعد دنیا بھر میں عجائب گھروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا اور اس وقت لگ بھگ دنیا بھر میں 50 ہزار سے زائد عجائب گھر موجود ہیں، جہاں کروڑوں کی تعداد میں قدیم ترین، اہم اور نوادرات کا قیمتی ذخیرہ موجود ہے۔
پاکستان میں وفاقی حکومت کی سطح پر 13، جبکہ صوبائی سطح پر 70 سے زائد میوزیم موجود ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان، پاکستان ریلوے، پاکستان نیوی، پاکستان ایئر فورس، پاکستان آرمی، اسٹیٹ بینک آف پاکستان سمیت مختلف اداروں کے میوزیم بھی موجود ہیں۔ جہاں ان اداروں کے آغاز سے لے کر اب تک کے تمام اہم قیمتی نوادرات، جن میں ہوائی جہاز، وردیاں، آتشیں اسلحہ، توپ، ٹینک تک موجود ہیں۔
وفاقی حکومت کی سطح پر جو 13 میوزیم قائم ہیں ان میں پتھر دور، کانسی، تانبہ دور اور مختلف قدیم ادوار کے نوادرات کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ ایسے میوزیم میں قومی عجائب گھر کراچی کو ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ اس کا آغاز برطانوی دور میں ایک انگریز کمشنر سر بارٹلے فریئر نے 1871 میں اس وقت کے مشہور زمانہ ٹاؤن ہال ''فریئر ہال'' کی اوپری منزل پر کیا۔
یہ بلاگ بھی پڑھئے: وکٹوریہ میوزیم سے نیشنل میوزیم کراچی تک
ابتدائی طور پر میوزیم اور جنرل لائبریری دونوں ہی فریئر ہال کی اوپری منزل پر قائم کیے گئے، جہاں شائقین کی ایک بڑی تعداد نہ صرف مطالعے کا شوق پورا کرتی بلکہ تاریخ سے لگاؤ رکھنے والے لوگ ماضی میں استعمال ہونے والی نادر و نایاب اشیا کا مطالعہ بھی کرتے تھے۔ اس میوزیم کو اس وقت وکٹوریہ میوزیم کا نام دیا گیا تھا، جبکہ لائبریری، جنرل لائبریری کے نام سے مشہور تھی۔ پھر اچانک یہ میوزیم آج کے سپریم کورٹ کراچی کے رجسٹری آفس منتقل کردیا گیا اور یہ کافی عرصے تک یہیں قائم رہا۔ لیکن پھر جب یہاں مزید نوادرات رکھنے کی گنجائش ختم ہوگئی تو پھر ایک وسیع و عریض میوزیم قائم کرنے کے بارے میں سوچا جانے لگا۔
اور پھر برنس گارڈن، جو کہ قدامت کے اعتبار سے کراچی کا پہلا باغ تھا، کو قومی ورثہ قرار دے دیا گیا اور باغ کے اندر قومی عجائب گھر قائم کرنے کی منظوری بھی دے دی گئی۔ جس کے بعد تیزی سے اس کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا اور جلد ہی ایک 5 منزلہ دیدہ زیب عمارت تعمیر ہوگئی۔ اس کے بعد وکٹوریہ میوزیم کے نوادرات، جو کہ مختلف وقتوں میں کبھی ڈی جے کالج اور کبھی سپریم کورٹ کے رجسٹری آفس اور دیگر عمارتوں میں رکھے گئے تھے، کو اکھٹا کرکے نیشنل میوزیم کراچی منتقل کردیا گیا۔
ابتدائی طور پر یہاں 2 یا 3 گیلریاں شروع کی گئیں، جن میں قرآنک گیلری، گندھارا، موہن جو دڑو، زمانہ قبل از تاریخ، تحریک پاکستان سمیت مختلف گیلریاں موجود ہیں۔ جن میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہا اور گیلریوں کی تعداد 12 کو پہنچ گئی۔
یہ تحریر بھی پڑھئے: قومی عجائب گھر، وفاقی یا صوبائی ملکیت؟
قومی عجائب گھر کراچی، جو کہ قیام پاکستان کے بعد وفاقی محکمہ آثار قدیمہ کا حصہ تھا اور اس کے انتظامات یہی محکمہ سنبھالتا تھا، 2011 میں 18 ویں ترمیم آنے کے بعد اسے سندھ کا حصہ قرار دے دیا گیا۔ اس وقت سے لے کر جنوری تک یہ سندھ کے زیر انتظام تھا۔ مگر 17 جنوری 2019 کو چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان، جسٹس افتخار احمد چوہدری نے اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک روز قبل اسے پھر سے وفاق کے زیرانتظام کردیا ہے۔ جس کے بعد صوبائی حکومت نے وفاق کو اس کے اختیارات واپس لوٹا دیئے ہیں اور اس کے تمام تر انتظامات کو ایک بار پھر محکمہ آثار قدیمہ نے دیکھنا شروع کردیا ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی وزیر برائے قومی ورثہ شفقت محمود نے قومی عجائب گھر کراچی کو جدید خطوط سے ہم آہنگ کرنے کےلیے فلم میکر شرمین عبید چنائے کی سربراہی میں ایک 13 رکنی کمیٹی قائم کردی ہے، جو کہ میوزیم کو عہد حاضر کے تقاضوں کے مطابق ڈھالے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔