لاہوراور مضافاتی علاقوں میں سیوریج کے پانی سے سبزیوں اورفصلوں کی کاشت
پاکستان میں 26 فیصد سبزیاں آلودہ پانی سے اُگائی جاتی ہیں، عالمی ادارہ صحت
صوبائی دارالحکومت اوراس کے مضافاتی علاقوں میں آلودہ اورسیوریج کے پانی سے سبزیوں اورفصلوں کی کاشت کا سلسلہ ختم نہیں ہوسکا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں سیوریج اورفیکٹریوں کے آلودہ پانی کو ٹریٹمنٹ پلانٹ کی مدد سے دوبارہ قابل استعمال بنایا جاتا ہے تاہم پاکستان میں اس زہریلے پانی کو سبزیوں اور فصلوں کی کاشت کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ ہڈیارہ ڈرین پاک بھارت سرحدی گاؤں للو سے پاکستان میں داخل ہوتی ہے اور 54 کلومیٹر طویل یہ ڈرین ملتان روڈ مراکہ کے مقام پر دریائے راوی میں شامل ہوجاتی ہے۔ اس ڈرین کے اطراف میں درجنوں دیہات ہیں جہاں سینکڑوں ایکڑرقبے میں سبزیاں اورفصلیں کاشت ہوتی ہیں تاہم یہاں 70 فیصدلوگ ڈرین کے زہریلے پانی کو آبپاشی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔یہ ڈرین ساراسال بہتی رہتی ہے جس میں سیوریج اورفیکٹریوں کا آلودہ پانی بہتا ہے۔
ہڈیارہ گاؤں کے رہائشی کاشتکار محمد افضل نے بتایا کہ یہاں برسوں سے لوگ ڈرین کے پانی کو آبپاشی کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ اس پانی سے سبزیاں اور فصلیں جلدی تیار ہوجاتی ہیں اوران کو کھاد کی بھی ضرورت نہیں رہتی ہے۔ ڈرین کے ساتھ ہم لوگوں نے ڈیزل پر چلنے والے چھوٹے ٹیوب ویل اور پمپ نصب کررکھے ہیں جن کی مدد سے ڈرین کا پانی حاصل کیاجاتا ہے۔ بعض جگہوں پرکئی کاشتکارمشترکہ طورپرٹیوب ویل لگاتے ہیں۔
برکی گاؤں کے رہائشی رانا یاسین کا کہنا ہے فصلوں کے لئے ڈرین کاآلودہ پانی استعمال کرنا ٹھیک تو نہیں ہے لیکن ہمارے پاس اس کے علاوہ دوسری کوئی آپشن بھی نہیں ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح انتہائی نیچے جاچکی ہے اورجس کی وجہ سے ٹیوب ویل لگانا انتہائی مشکل اورمہنگا ہے۔ سرحدی علاقوں میں کاشت کاری کے لئے بی آر بی نہرسے اپ لفٹ ایری گیشن سسٹم کے ذریعے پانی فراہم کیا جاتا ہے تاہم یہ سہولت صرف چند سو کاشتکاروں کو ہی میسر ہے۔
حکومت کی طرف سے 2009 میں اس ڈرین کے پانی کے استعمال پر پابندی لگائی گئی تھی جب کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی نے بھی گزشتہ کچھ عرصے میں کارروائیاں کی ہیں تاہم اس کے باوجود اس پانی کے استعمال کا سلسلہ بند نہیں ہوسکا ہے۔ آلودہ پانی سے کاشت کی گئی سبزیاں لاہور کی دو بڑی منڈیوں بادامی باغ اور کاہنہ میں لائی جاتی ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی پاکستان کے بارے میں رپورٹ کے مطابق "پاکستان میں 26 فیصد سبزیاں آلودہ پانی سے اُگائی جاتی ہیں جس کو کسی بھی قسم کی صفائی کے عمل سے نہیں گزارا جاتا ۔ اس سے فرٹیلائزر اور ٹرانسپورٹ کے خرچ کی بچت ہوتی ہے اور مقامی سبزی کی قیمت دوسرے شہروں سے منگوائی سبزی کی نسبت کم ہوتی ہے لیکن انسانی صحت پر اس کے مضر اثرات اپنی جگہ موجود ہیں ۔ ڈبلیوڈبلیوایف کی تحقیق کے مطابق اس ڈرین کے پانی کا استعمال تودورکی بات ، پانی کے قریب کھڑاہونا بھی انسانی صحت کے لئے خطرناک ہے۔ رپورٹ کے مطابق ڈرین کے اطراف میں واقع دیہات میں بسنے والے لوگوں میں ہیپاٹائٹس، آنکھوں کی بینائی اورجلدکی بیماریاں عام ہیں۔
بادامی باغ سبزی منڈی کے ایک آڑھتی محمد بشیر کہتے ہیں لاہور شہر میں زیادہ تر سبز سبزیاں ہڈیارہ ڈرین کے پانی سے اُگائی جاتی ہیں پھر ان سبزیوں کو دھو کر پیکنگ کی جاتی ہے اور منڈی میں پہنچایا جاتا ہے ۔ یہاں ان سبزیوں کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ دیکھنے میں جو سبزی زیادہ اچھی لگتی ہے ، اس کی قیمت بھی زیادہ لگتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مقامی سبزیوں کی قیمت دوسرے شہروں سے منگوائی گئی سبزیوں سے 40 سے 50 فیصد تک کم ہوتی ہے۔
محکمہ زراعت پنجاب کے ڈائریکٹرتوسیع ڈاکٹرانجم علی بٹر کہتے ہیں آلودہ پانی سے سبزیوں اورفصلوں کی کاشت انتہائی خطرناک ہے، اس حوالے سے کاشتکاروں میں آگاہی مہم بھی چلائی جاتی ہے اورانہیں آلودہ پانی کے استعمال کے خطرات سے متعلق بتایاجاتا ہے ۔ آلودہ پانی میں موجود خطرناک کیمیکل اورمیٹل مسلسل زمین میں جذب ہوکرچارسے پانچ سال میں اسے سخت کردیتے ہیں اور زمین کی زرخیری ختم کردیتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ اب اس سلسلے میں کافی کمی آئی ہے
ہڈیارہ ڈرین کے علاوہ لاہورمیں بہنے والے سیوریج کے نالوں کے پانی سے بھی بندروڈ، سگیاں ،شاہدرہ ، مراکہ ، محمودبوٹی ، شادمان کے علاقوں میں محدودپیمانے پرسبزیاں کاشت کی جاتی ہیں۔
اس حوالے سے پنجاب فوڈاتھارٹی کے ڈائریکٹرجنرل کیپٹن (ر) محمدعثمان نے بتایا کہ ان کی ٹیمیں لاہورسمیت مختلف علاقوں میں جہاں بھی آلودہ پانی سے سبزیاں اورفصلیں کاشت کی جاتی ہیں وہاں کارروائیاں کرکے سینکڑوں ایکڑپرکاشت سبزیاں تلف کرچکی ہیں اوریہ کارروائیاں تسلسل سے جاری رہتی ہے۔ڈی جی فوڈاتھارٹی نے مزیدبتایاکہ گزشتہ تین سیزن کے دوران پنجاب میں ڈیڑھ لاکھ کنال رقبے پرآلودہ پانی سے کاشت کی گئی سبزیاں تلف کی گئیں، اس حوالے سے ہمارا واسا اورضلعی حکومت کے ساتھ بھی رابطہ ہے اورمشترکہ کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کاشتکارآلودہ پانی سے پٹ سن اورپھول کاشت کرسکتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں سیوریج اورفیکٹریوں کے آلودہ پانی کو ٹریٹمنٹ پلانٹ کی مدد سے دوبارہ قابل استعمال بنایا جاتا ہے تاہم پاکستان میں اس زہریلے پانی کو سبزیوں اور فصلوں کی کاشت کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ ہڈیارہ ڈرین پاک بھارت سرحدی گاؤں للو سے پاکستان میں داخل ہوتی ہے اور 54 کلومیٹر طویل یہ ڈرین ملتان روڈ مراکہ کے مقام پر دریائے راوی میں شامل ہوجاتی ہے۔ اس ڈرین کے اطراف میں درجنوں دیہات ہیں جہاں سینکڑوں ایکڑرقبے میں سبزیاں اورفصلیں کاشت ہوتی ہیں تاہم یہاں 70 فیصدلوگ ڈرین کے زہریلے پانی کو آبپاشی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔یہ ڈرین ساراسال بہتی رہتی ہے جس میں سیوریج اورفیکٹریوں کا آلودہ پانی بہتا ہے۔
ہڈیارہ گاؤں کے رہائشی کاشتکار محمد افضل نے بتایا کہ یہاں برسوں سے لوگ ڈرین کے پانی کو آبپاشی کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ اس پانی سے سبزیاں اور فصلیں جلدی تیار ہوجاتی ہیں اوران کو کھاد کی بھی ضرورت نہیں رہتی ہے۔ ڈرین کے ساتھ ہم لوگوں نے ڈیزل پر چلنے والے چھوٹے ٹیوب ویل اور پمپ نصب کررکھے ہیں جن کی مدد سے ڈرین کا پانی حاصل کیاجاتا ہے۔ بعض جگہوں پرکئی کاشتکارمشترکہ طورپرٹیوب ویل لگاتے ہیں۔
برکی گاؤں کے رہائشی رانا یاسین کا کہنا ہے فصلوں کے لئے ڈرین کاآلودہ پانی استعمال کرنا ٹھیک تو نہیں ہے لیکن ہمارے پاس اس کے علاوہ دوسری کوئی آپشن بھی نہیں ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح انتہائی نیچے جاچکی ہے اورجس کی وجہ سے ٹیوب ویل لگانا انتہائی مشکل اورمہنگا ہے۔ سرحدی علاقوں میں کاشت کاری کے لئے بی آر بی نہرسے اپ لفٹ ایری گیشن سسٹم کے ذریعے پانی فراہم کیا جاتا ہے تاہم یہ سہولت صرف چند سو کاشتکاروں کو ہی میسر ہے۔
حکومت کی طرف سے 2009 میں اس ڈرین کے پانی کے استعمال پر پابندی لگائی گئی تھی جب کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی نے بھی گزشتہ کچھ عرصے میں کارروائیاں کی ہیں تاہم اس کے باوجود اس پانی کے استعمال کا سلسلہ بند نہیں ہوسکا ہے۔ آلودہ پانی سے کاشت کی گئی سبزیاں لاہور کی دو بڑی منڈیوں بادامی باغ اور کاہنہ میں لائی جاتی ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی پاکستان کے بارے میں رپورٹ کے مطابق "پاکستان میں 26 فیصد سبزیاں آلودہ پانی سے اُگائی جاتی ہیں جس کو کسی بھی قسم کی صفائی کے عمل سے نہیں گزارا جاتا ۔ اس سے فرٹیلائزر اور ٹرانسپورٹ کے خرچ کی بچت ہوتی ہے اور مقامی سبزی کی قیمت دوسرے شہروں سے منگوائی سبزی کی نسبت کم ہوتی ہے لیکن انسانی صحت پر اس کے مضر اثرات اپنی جگہ موجود ہیں ۔ ڈبلیوڈبلیوایف کی تحقیق کے مطابق اس ڈرین کے پانی کا استعمال تودورکی بات ، پانی کے قریب کھڑاہونا بھی انسانی صحت کے لئے خطرناک ہے۔ رپورٹ کے مطابق ڈرین کے اطراف میں واقع دیہات میں بسنے والے لوگوں میں ہیپاٹائٹس، آنکھوں کی بینائی اورجلدکی بیماریاں عام ہیں۔
بادامی باغ سبزی منڈی کے ایک آڑھتی محمد بشیر کہتے ہیں لاہور شہر میں زیادہ تر سبز سبزیاں ہڈیارہ ڈرین کے پانی سے اُگائی جاتی ہیں پھر ان سبزیوں کو دھو کر پیکنگ کی جاتی ہے اور منڈی میں پہنچایا جاتا ہے ۔ یہاں ان سبزیوں کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ دیکھنے میں جو سبزی زیادہ اچھی لگتی ہے ، اس کی قیمت بھی زیادہ لگتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مقامی سبزیوں کی قیمت دوسرے شہروں سے منگوائی گئی سبزیوں سے 40 سے 50 فیصد تک کم ہوتی ہے۔
محکمہ زراعت پنجاب کے ڈائریکٹرتوسیع ڈاکٹرانجم علی بٹر کہتے ہیں آلودہ پانی سے سبزیوں اورفصلوں کی کاشت انتہائی خطرناک ہے، اس حوالے سے کاشتکاروں میں آگاہی مہم بھی چلائی جاتی ہے اورانہیں آلودہ پانی کے استعمال کے خطرات سے متعلق بتایاجاتا ہے ۔ آلودہ پانی میں موجود خطرناک کیمیکل اورمیٹل مسلسل زمین میں جذب ہوکرچارسے پانچ سال میں اسے سخت کردیتے ہیں اور زمین کی زرخیری ختم کردیتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ اب اس سلسلے میں کافی کمی آئی ہے
ہڈیارہ ڈرین کے علاوہ لاہورمیں بہنے والے سیوریج کے نالوں کے پانی سے بھی بندروڈ، سگیاں ،شاہدرہ ، مراکہ ، محمودبوٹی ، شادمان کے علاقوں میں محدودپیمانے پرسبزیاں کاشت کی جاتی ہیں۔
اس حوالے سے پنجاب فوڈاتھارٹی کے ڈائریکٹرجنرل کیپٹن (ر) محمدعثمان نے بتایا کہ ان کی ٹیمیں لاہورسمیت مختلف علاقوں میں جہاں بھی آلودہ پانی سے سبزیاں اورفصلیں کاشت کی جاتی ہیں وہاں کارروائیاں کرکے سینکڑوں ایکڑپرکاشت سبزیاں تلف کرچکی ہیں اوریہ کارروائیاں تسلسل سے جاری رہتی ہے۔ڈی جی فوڈاتھارٹی نے مزیدبتایاکہ گزشتہ تین سیزن کے دوران پنجاب میں ڈیڑھ لاکھ کنال رقبے پرآلودہ پانی سے کاشت کی گئی سبزیاں تلف کی گئیں، اس حوالے سے ہمارا واسا اورضلعی حکومت کے ساتھ بھی رابطہ ہے اورمشترکہ کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کاشتکارآلودہ پانی سے پٹ سن اورپھول کاشت کرسکتے ہیں۔