بولی ووڈ کی متنازع فلمیں
عوامی احتجاج کا سامنا کرنے والی فلمیں زیادہ کامیاب
بولی وڈ میں فلموں اور تنازعات کا چولی دامن کا ساتھ ہے کبھی کسی فلم کو مذہبی انتہا پسندوںکی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی کوئی این جی او فلم کی ریلیز روکنے کے لیے احتجاجی مظاہرے یا عدالت میں درخواست دائر کردیتی ہے۔
تاہم بھارتی فلم نگری میں یہ ایک معمولی بات ہے اور فلم ساز زیادہ سے زیادہ کسی فلم کا نام تبدیل کر دیتے ہیں تو کبھی فلم میں سے متنازع سین یا گانا نکال دیتے ہیں۔ جب کہ احتجاج کا سبب بننے والی زیادہ تر فلموں میں کامیابی کا تناسب بھی زیادہ ہے اب یہ بات محض قیاس آرائی ہے یا منفی مارکیٹنگ کا ہتھکنڈا اس بات کا تعین کرنا مشکل ہے۔ زیر نظر مضمون میں گزشتہ چند سالوں میں ریلیز ہونے والی چند مشہور متنازع فلموں کا ذکر کیا گیا ہے۔
٭مدراس کیفے
جان ابراہام اور نرگس فخری کی رواں ہفتے ریلیز ہونے والی فلم ''مدراس کیفے '' کو تنازعات کے باوجود فلمی شائقین میں پسند کیا جا رہا ہے۔ اورشروع کے چار دنوں میں فلم نے 24کروڑ روپے سے زاید کا بزنس کرلیا ہے۔ ٹریڈ اینا لسٹ ترن آدرش کے مطابق ''مدراس کیفے'' کو ناقدین کی جانب سے بھی کافی سراہا گیا ہے اور جاسوسی کے موضوع پر بننے والی فلم''مدراس کیفے'' کو شائقین فلم میں بھی پسند کیا جا رہا ہے اور امید ہے کہ اوپننگ کے پہلے ہفتے میں یہ فلم نیٹ 32کروڑ روپے تک کا بزنس کرلے گی۔
سری لنکا کی سول واراور سابق بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کے قتل کے موضوع پر بننے والی اس فلم کو ریلیز سے قبل جنوبی ریاست تامل ناڈو کے گروپس اور سیاست دانوں کی جانب سے کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑاہے، جنہوں نے''مدراس کیفے'' کو تامل مخالف فلم قرار دیتے ہوئے مدراس ہائی کورٹ میں اس کی ریلیز روکنے کے لیے درخواست دائر کی تھی۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ فلم''مدراس کیفے'' میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ جب کہ فلم میں دکھائے گئے باغی رہنما کی شکل بھی حقیقی تامل ٹائیگر کے لیڈر ویلو پلائے پربھا کرن سے مشابہت رکھتی ہے۔ فلم میں پربھا کرن کو ایک ولن کے کردار اور تامل ٹائیگرز کو '''دہشت گرد'' دکھا یا گیا ہے اور یہ بات ہمارے لیے کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔
ملک بھر کی بارہ سو اسکرین پر ریلیز کی جانے والی اس فلم میں جان ابراہام نے خفیہ ایجنٹ میجر وکرام سنگھ کا کردار ادا کیا ہے جنہیں سول وار کے خاتمے کے لیے شمالی سری لنکا کے سب سے متاثرہ علاقے جافنا میں بھیجا گیا تھا۔ اور حقیقی زندگی میں وہ باغیوں اور فوجی سیاست کے درمیان الجھ کر رہ گئے تھے۔ جب کہ اداکارہ نرگس فخری نے برطانوی وار رپورٹر کا کردار ادا کیا ہے۔
٭او ایم جی۔اوہ مائی گاڈ
گزشتہ سال ریلیز کی گئی طنز و مزاح سے بھرپور اس فلم کو ''وشوا ہندو پریشد'' سمیت متعدد انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انتہا پسندوں کا کہنا تھا کہ فلم میں ہندودیوتاؤں اور تاریخی عقائد کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ تا ہم ملک گیر احتجاج کے باوجود 28 ستمبر2012 کو یہ فلم ریلیز کردی گئی تھی ۔ پندرہ کروڑ کے بجٹ میں بننے والی اس فلم نے 95کروڑ روپے کا بزنس کر کے 2012کی کامیاب ترین فلموں میں سے ایک بنا دیا تھا۔فلم ''او ایم جی ۔ اوہ مائی گاڈ'' آسٹریلوی فلم ''The Man Who Sued God'' کا ری میک تھی۔ انتہا پسندوں کے احتجاج کے باوجود فلم کی کہانی کو ناقدین کی جانب سے بہت سراہا گیا تھا۔
٭اسٹوڈینٹ آف دی ایئر
گوری خان کی ''ریڈ چلیز انٹر ٹینمنٹ '' اور کرن جوہر کی'' دھرما پروڈکشنز '' کے بینر تلے بننے والی یہ فلم گزشتہ سال اکتو بر میں ریلیز کی گئی تھی۔ مزاح اور رومانس سے بھرپور فلم ''اسٹوڈینٹ آف دی ایئر'' کے خلاف اندور کی ایک این جی او نے ''ریڈ چلیز انٹر ٹینمنٹ '' اور '' دھرما پروڈکشنز '' کے خلاف ایف آئی درج کرائی تھی کہ فلم میں دکھائے گئے گانے''رادھا'' کو فلم سے نکا لا جائے کیوں کہ اس گانے میں دیوی کے کردار''رادھا'' کو بہت'' بے باک'' دکھایا گیا ہے۔ مذکورہ این جی او کی حمایت بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والی سیاست دان سشما سوراج نے بھی کی تھی ۔ متنازعہ گانے''رادھا'' کے ساتھ ریلیز کی گئی اس فلم نے باکس آفس پر ستر کروڑ روپے کا بزنس کیا تھا۔
٭راک اسٹار
نومبر2011میں ریلیز ہونے والی اس فلم نے جہاں بولی وڈ کو نرگس فخری جیسی خوب صورت اور باصلاحیت اداکارہ عطا کی تو دوسری جانب ریلیز کے بعد ریاست چنائے اور دھرم شالہ کے تبتی باشندوں کی جانب سے فلم کے خلاف شدید احتجاج شروع ہوگیا تھا۔ تبتی مظاہرین کو فلم کے گانے ''ساڈا حق'' میں رنبیر کپور کے پس منظر میں موجود''تبت کے پرچم '' پر اعتراض تھا۔ اس بات نے''سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹی فیکیشن'' اور فلم کے ہدایت کارامتیاز علی کے درمیان تعلقات کشیدہ کر دیے تھے ابتدا میں امتیاز علی نے گانے سے مذکورہ سین نکالنے سے منع کر دیا تھا۔ تا ہم بعد میں انہوں نے رضاکارانہ طور پر یہ منظر نکال دیا تھا۔ساٹھ کروڑ کی لاگت سے بننے والی اس فلم نے ایک سو آٹھ کروڑ روپے کا بزنس کیا تھا۔
٭آراکشن
نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے ہندوؤں کے مسائل پر بننے والی اس فلم نے پورے بھارت کے دلتوں کو سراپا احتجاج بنا دیا تھا۔ فلم میں سیف علی خان کی جانب سے کیے گئے '' دلت '' کے کردار ''دیپک کمار'' کے خلاف ملک بھر میں شدید احتجاج شروع ہوگیا تھا۔احتجاجی مظاہرین کا کہنا تھا کہ نواب خاندان سے تعلق رکھنے والے اداکار سیف علی خان کو نام نہاد''دلت'' بنا کر ان کی کمیونٹی کی تضحیک کی گئی ہے۔ نقص امن کے خدشے کے پیش نظر فلم ''آراکشن'' کی اتر پردیش،پنجاب اور آندھرا پردیش میں ریلیز پر پابندی عاید کردی گئی تھی۔ تاہم محض 1085 سینیما گھروں پر ریلیز ہونے کے باوجود بھی یہ فلم باکس آفس پر کامیاب رہی تھی۔
٭مائی نیم از خان
ریڈ چلیز انٹر ٹینمنٹ اور دھرما پروڈکشنز کے بینر تلے بننے والی اس بلاک بسٹرفلم''مائی نیم از خان'' کے خلاف ملک گیر احتجاج کی وجہ فلم کا کوئی گانا یا منظر نہیں بلکہ ہیرو ''شاہ رخ خان'' کا بیان تھا۔ انڈین پریمئیر لیگ میں شامل نہ کیے جانے پر پاکستانی کرکٹ ٹیم کی حمایت میں دیے کنگ خان کے بیان نے انتہا پسند ہندو تنظیم ''شیو سینا'' اور ''ہندو قوم پرستوں'' کو آگ بگولہ کردیا تھا۔ شیو سینا نے پورے بھارت میں شاہ رخ خان کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور فلم ''مائی نیم ازخان'' کے پوسٹر پھاڑ دیے تھے۔
جب کہ شیو سینا کی جانب سے تمام سینیما گھروں سے یہ فلم نہ لگانے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا ،دوسری جانب شاہ رخ خان نے اپنے بیان پر معافی مانگنے یا اسے واپس لینے سے انکار کرتے ہوئے بال ٹھاکرے کو اس مسئلے پر گفت و شنید کرنے کی دعوت دی تھی۔ ملک گیراحتجاج کے باوجود ریلیز ہونے والی فلم''مائی نیم از خان''نے دو سو کروڑ کا بزنس کرکے باکس آفس پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔
٭بلو
گوری خان کی''ریڈ چلیز انٹر ٹینمنٹ'' کے بینر تلے بننے والی اس فلم کا نام ''بلو باربر'' رکھا گیا تھا۔ جس پر بھارت میں حجام برادری نے لفظ ''باربر'' کو اپنی ''توہین'' قرار دیتے ہوئے احتجاج شروع کردیا تھا، جس کے بعد اس فلم کا نام ''بلو باربر'' سے تبدیل کرکے ''بلو'' رکھ دیا گیا تھا۔
تاہم بھارتی فلم نگری میں یہ ایک معمولی بات ہے اور فلم ساز زیادہ سے زیادہ کسی فلم کا نام تبدیل کر دیتے ہیں تو کبھی فلم میں سے متنازع سین یا گانا نکال دیتے ہیں۔ جب کہ احتجاج کا سبب بننے والی زیادہ تر فلموں میں کامیابی کا تناسب بھی زیادہ ہے اب یہ بات محض قیاس آرائی ہے یا منفی مارکیٹنگ کا ہتھکنڈا اس بات کا تعین کرنا مشکل ہے۔ زیر نظر مضمون میں گزشتہ چند سالوں میں ریلیز ہونے والی چند مشہور متنازع فلموں کا ذکر کیا گیا ہے۔
٭مدراس کیفے
جان ابراہام اور نرگس فخری کی رواں ہفتے ریلیز ہونے والی فلم ''مدراس کیفے '' کو تنازعات کے باوجود فلمی شائقین میں پسند کیا جا رہا ہے۔ اورشروع کے چار دنوں میں فلم نے 24کروڑ روپے سے زاید کا بزنس کرلیا ہے۔ ٹریڈ اینا لسٹ ترن آدرش کے مطابق ''مدراس کیفے'' کو ناقدین کی جانب سے بھی کافی سراہا گیا ہے اور جاسوسی کے موضوع پر بننے والی فلم''مدراس کیفے'' کو شائقین فلم میں بھی پسند کیا جا رہا ہے اور امید ہے کہ اوپننگ کے پہلے ہفتے میں یہ فلم نیٹ 32کروڑ روپے تک کا بزنس کرلے گی۔
سری لنکا کی سول واراور سابق بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کے قتل کے موضوع پر بننے والی اس فلم کو ریلیز سے قبل جنوبی ریاست تامل ناڈو کے گروپس اور سیاست دانوں کی جانب سے کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑاہے، جنہوں نے''مدراس کیفے'' کو تامل مخالف فلم قرار دیتے ہوئے مدراس ہائی کورٹ میں اس کی ریلیز روکنے کے لیے درخواست دائر کی تھی۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ فلم''مدراس کیفے'' میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ جب کہ فلم میں دکھائے گئے باغی رہنما کی شکل بھی حقیقی تامل ٹائیگر کے لیڈر ویلو پلائے پربھا کرن سے مشابہت رکھتی ہے۔ فلم میں پربھا کرن کو ایک ولن کے کردار اور تامل ٹائیگرز کو '''دہشت گرد'' دکھا یا گیا ہے اور یہ بات ہمارے لیے کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔
ملک بھر کی بارہ سو اسکرین پر ریلیز کی جانے والی اس فلم میں جان ابراہام نے خفیہ ایجنٹ میجر وکرام سنگھ کا کردار ادا کیا ہے جنہیں سول وار کے خاتمے کے لیے شمالی سری لنکا کے سب سے متاثرہ علاقے جافنا میں بھیجا گیا تھا۔ اور حقیقی زندگی میں وہ باغیوں اور فوجی سیاست کے درمیان الجھ کر رہ گئے تھے۔ جب کہ اداکارہ نرگس فخری نے برطانوی وار رپورٹر کا کردار ادا کیا ہے۔
٭او ایم جی۔اوہ مائی گاڈ
گزشتہ سال ریلیز کی گئی طنز و مزاح سے بھرپور اس فلم کو ''وشوا ہندو پریشد'' سمیت متعدد انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انتہا پسندوں کا کہنا تھا کہ فلم میں ہندودیوتاؤں اور تاریخی عقائد کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ تا ہم ملک گیر احتجاج کے باوجود 28 ستمبر2012 کو یہ فلم ریلیز کردی گئی تھی ۔ پندرہ کروڑ کے بجٹ میں بننے والی اس فلم نے 95کروڑ روپے کا بزنس کر کے 2012کی کامیاب ترین فلموں میں سے ایک بنا دیا تھا۔فلم ''او ایم جی ۔ اوہ مائی گاڈ'' آسٹریلوی فلم ''The Man Who Sued God'' کا ری میک تھی۔ انتہا پسندوں کے احتجاج کے باوجود فلم کی کہانی کو ناقدین کی جانب سے بہت سراہا گیا تھا۔
٭اسٹوڈینٹ آف دی ایئر
گوری خان کی ''ریڈ چلیز انٹر ٹینمنٹ '' اور کرن جوہر کی'' دھرما پروڈکشنز '' کے بینر تلے بننے والی یہ فلم گزشتہ سال اکتو بر میں ریلیز کی گئی تھی۔ مزاح اور رومانس سے بھرپور فلم ''اسٹوڈینٹ آف دی ایئر'' کے خلاف اندور کی ایک این جی او نے ''ریڈ چلیز انٹر ٹینمنٹ '' اور '' دھرما پروڈکشنز '' کے خلاف ایف آئی درج کرائی تھی کہ فلم میں دکھائے گئے گانے''رادھا'' کو فلم سے نکا لا جائے کیوں کہ اس گانے میں دیوی کے کردار''رادھا'' کو بہت'' بے باک'' دکھایا گیا ہے۔ مذکورہ این جی او کی حمایت بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والی سیاست دان سشما سوراج نے بھی کی تھی ۔ متنازعہ گانے''رادھا'' کے ساتھ ریلیز کی گئی اس فلم نے باکس آفس پر ستر کروڑ روپے کا بزنس کیا تھا۔
٭راک اسٹار
نومبر2011میں ریلیز ہونے والی اس فلم نے جہاں بولی وڈ کو نرگس فخری جیسی خوب صورت اور باصلاحیت اداکارہ عطا کی تو دوسری جانب ریلیز کے بعد ریاست چنائے اور دھرم شالہ کے تبتی باشندوں کی جانب سے فلم کے خلاف شدید احتجاج شروع ہوگیا تھا۔ تبتی مظاہرین کو فلم کے گانے ''ساڈا حق'' میں رنبیر کپور کے پس منظر میں موجود''تبت کے پرچم '' پر اعتراض تھا۔ اس بات نے''سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹی فیکیشن'' اور فلم کے ہدایت کارامتیاز علی کے درمیان تعلقات کشیدہ کر دیے تھے ابتدا میں امتیاز علی نے گانے سے مذکورہ سین نکالنے سے منع کر دیا تھا۔ تا ہم بعد میں انہوں نے رضاکارانہ طور پر یہ منظر نکال دیا تھا۔ساٹھ کروڑ کی لاگت سے بننے والی اس فلم نے ایک سو آٹھ کروڑ روپے کا بزنس کیا تھا۔
٭آراکشن
نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے ہندوؤں کے مسائل پر بننے والی اس فلم نے پورے بھارت کے دلتوں کو سراپا احتجاج بنا دیا تھا۔ فلم میں سیف علی خان کی جانب سے کیے گئے '' دلت '' کے کردار ''دیپک کمار'' کے خلاف ملک بھر میں شدید احتجاج شروع ہوگیا تھا۔احتجاجی مظاہرین کا کہنا تھا کہ نواب خاندان سے تعلق رکھنے والے اداکار سیف علی خان کو نام نہاد''دلت'' بنا کر ان کی کمیونٹی کی تضحیک کی گئی ہے۔ نقص امن کے خدشے کے پیش نظر فلم ''آراکشن'' کی اتر پردیش،پنجاب اور آندھرا پردیش میں ریلیز پر پابندی عاید کردی گئی تھی۔ تاہم محض 1085 سینیما گھروں پر ریلیز ہونے کے باوجود بھی یہ فلم باکس آفس پر کامیاب رہی تھی۔
٭مائی نیم از خان
ریڈ چلیز انٹر ٹینمنٹ اور دھرما پروڈکشنز کے بینر تلے بننے والی اس بلاک بسٹرفلم''مائی نیم از خان'' کے خلاف ملک گیر احتجاج کی وجہ فلم کا کوئی گانا یا منظر نہیں بلکہ ہیرو ''شاہ رخ خان'' کا بیان تھا۔ انڈین پریمئیر لیگ میں شامل نہ کیے جانے پر پاکستانی کرکٹ ٹیم کی حمایت میں دیے کنگ خان کے بیان نے انتہا پسند ہندو تنظیم ''شیو سینا'' اور ''ہندو قوم پرستوں'' کو آگ بگولہ کردیا تھا۔ شیو سینا نے پورے بھارت میں شاہ رخ خان کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور فلم ''مائی نیم ازخان'' کے پوسٹر پھاڑ دیے تھے۔
جب کہ شیو سینا کی جانب سے تمام سینیما گھروں سے یہ فلم نہ لگانے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا ،دوسری جانب شاہ رخ خان نے اپنے بیان پر معافی مانگنے یا اسے واپس لینے سے انکار کرتے ہوئے بال ٹھاکرے کو اس مسئلے پر گفت و شنید کرنے کی دعوت دی تھی۔ ملک گیراحتجاج کے باوجود ریلیز ہونے والی فلم''مائی نیم از خان''نے دو سو کروڑ کا بزنس کرکے باکس آفس پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔
٭بلو
گوری خان کی''ریڈ چلیز انٹر ٹینمنٹ'' کے بینر تلے بننے والی اس فلم کا نام ''بلو باربر'' رکھا گیا تھا۔ جس پر بھارت میں حجام برادری نے لفظ ''باربر'' کو اپنی ''توہین'' قرار دیتے ہوئے احتجاج شروع کردیا تھا، جس کے بعد اس فلم کا نام ''بلو باربر'' سے تبدیل کرکے ''بلو'' رکھ دیا گیا تھا۔