یادرفتگاںقریش پورحسن شہید مرزا اور ریحانہ احمد
موجودہ حالات میں جب کہ شہر قائد کراچی روز مرہ کی قتل وغارت گری کے نتیجے میں شہر خموشاں اور شہر ناپرساں بنا۔۔۔
موجودہ حالات میں جب کہ شہر قائد کراچی روز مرہ کی قتل وغارت گری کے نتیجے میں شہر خموشاں اور شہر ناپرساں بنا ہوا ہے، کراچی آرٹس کونسل کی حیثیت اس آکسیجن کیمپ کی سی ہے جہاں اگر لوگوں کو تھوڑی دیر کے لیے زندگی کی چند روح پرور سانسیں میسر آجاتی ہیں اور یاد رفتگاں کا اہتمام بھی ہوجاتاہے۔
چنانچہ گزشتہ ہفتے یہاں دو عہد ساز براڈ کاسٹرز قریش پور اور حسن شہید مرزا کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کا اہتمام کیاگیا جس میں ان دونوں مرحومین کے حوالے سے تاثرات کا اظہار کیاگیا اور دونوں کو پر خلوص خراج عقیدت پیش کیاگیا۔ گزشتہ ایک ماہ سے دنیائے ادب اور فنون لطیفہ کے حوالے سے کراچی پر ایک چل چلاؤ کی سی کیفیت طاری ہے اور صورتحال کچھ ایسی ہے کہ بقول ابن انشاء :
انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا
یہ سیل مرگ ایک ماہ کے مختصر سے عرصے میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری، موسیقار بلند اقبال، نشرکار قریش پور، ادیب ونقاد محمود واجد اور براڈ کاسٹرز حسن شہید مرزا وریحانہ احمد کو بہاکر لے گیا۔
ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آنے کے بعد قریش پور نے اپنے نشریاتی کیریئر کا آغاز ریڈیو پاکستان کی ایکسٹرنل سروسز کی ایرانی سروس سے کیا۔ یہی وہ شعبہ ہے جہاں سے ان کے دو ہم عصروں عبیداللہ بیگ اور افتخار عارف نے بھی اپنے اپنے کیریئر شروع کیے تھے۔ برسبیل تذکرہ یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ خود ہم نے بھی اپنے نشریاتی کیریئر کا آغاز اسی شعبے سے کیا تھا۔ ایکسٹرنل سروسز یا بیرونی نشریات کا یہ شعبہ ریڈیو پاکستان کی نشریات کے حوالے مخصوص نوعیت کا حامل ہے جن کے تعارف، اہمیت اور خدمات کے بیان کا یہ کالم متحمل نہیں ہوسکتا۔
یہاں سے دنیا کے مختلف ممالک کے لیے ان کی متعلقہ زبانوں میں مخصوص دورانیے کے پروگرام پابندی اور باقاعدگی کے ساتھ روزانہ نشر کیے جاتے ہیں جن کا مقصد ان ممالک کے عوام کو پاکستان سے روشناس کرانا اور عالمی برادری میں وطن عزیز کی اہمیت اور اس کے کردار کو اجاگر کرنا ہے۔ پاکستان کے حالات سے دنیا کو باخبر رکھنا اور اس کے صحیح امیج کو مختلف ممالک کے عوام کے سامنے پیش کرنا بیرونی نشریات کے پروگراموں کا بنیادی مقصد ہے۔
یہ 60 کی دہائی کا قصہ ہے جب قریش پور نے بحیثیت براڈ کاسٹر ریڈیو پاکستان کی ایران سروسز میں شمولیت اختیار کی جہاں سے فارسی زبان میں ہمارے پڑوسی اور برادر ملک ایران کے لیے پروگرام نشر کیے جاتے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ممتاز براڈکاسٹر اور شاعر سید سلیم گیلانی بیرونی نشریات کے سربراہ ہوا کرتے تھے، جو بعد میں ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے تک پہنچے اور بالآخر وہیں سے ریٹائر ہوئے۔
جی ہاں وہی سلیم گیلانی جنھیں موسیقی پر بھی دسترس حاصل تھی اور جنہوں نے مہدی حسن اور گلوکارہ ریشماں جیسے بے مثال سنگرز کو متعارف کرایا اور پروان چڑھایا۔ ناسپاسی ہوگی اگر ایرانی سروس کے حوالے سے سید علی حسنین کاظمی (مرحوم) کا ذکر نہ کیا جائے جو نہ صرف ہمارے عزیز دوست اور ایکسٹرنل سروسز میں ہمارے انتہائی قابل احترام ساتھی تھے بلکہ بے مثل فارسی داں، سفارت کار، اردو اور فارسی کے منفرد شاعر اور شعبہ فارسی نشریات کے سربراہ بھی تھے۔ کاظمی صاحب ترقی کرتے کرتے ایکسٹرنل سروسز کے سربراہ بنے اور وہیں سے ریٹائر ہونے کے بعد اسلام آباد کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔
کاظمی صاحب کی شخصیت ایک علیحدہ کالم کی متقاضی ہے۔ قصہ کوتاہ قریش پور نے ریڈیو پاکستان کے اسی فارسی شعبے سے اپنے جوہر دکھانے کے سلسلے کی شروعات کی۔ فارسی زبان پر انھیں عبور حاصل تھا اور جس میں قدیم یا کلاسیکی فارسی اور جدید فارسی سمیت دونوں اقسام شامل تھیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ان کا لب و لہجہ خالصتاً ایرانی تھا جسے سن کر ہرگز یہ گمان نہیں ہوسکتا تھا کہ بولنے والا کوئی غیر ایرانی ہے۔ فارسی کے علاوہ قریش پور کو اردو پر بھی دسترس تھی۔ انگریزی بھی وہ روانی کے ساتھ بولتے تھے۔
تاریخ اور معلومات عامہ سے بھی انھیں گہرا شغف تھا۔ وہ ایک وسیع المطالعہ شخص تھے اور کتابیں ان کا سب سے بڑا اثاثہ تھیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ پی ٹی وی کی ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ عرصہ دراز تک اپنے گھر کا زینہ نہ بنوا سکے۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ سیمنٹ اور اینٹوں کی خریداری پر وہ مسلسل کتابوں کی خریداری کو ترجیح دیتے رہے کیونکہ یہی کتابیں ان کا سرمایہ حیات اور اوڑھنا بچھونا تھیں۔ غالباً یہی کتابیں ان کی شریک زندگی تھی جن سے انھیں اس حد تک عشق تھا کہ انھوں نے شادی بھی نہیں کی۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی حصول علم کے لیے وقف کردی اور عملی طور پر یہ ثابت کردیا کہ:
عشق وہ کار مسلسل ہے کہ ہم جس کے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے
شیرینی اور شائستگی قریش پور کی گفتگو کا خاص وصف تھا۔ ان کی باتوں میں گلوں کی خوشبو مہکتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ صحت زبان اور درستی تلفظ کا اس قدر اہتمام ہم نے بہت کم لوگوں میں دیکھا ہے۔
قریش پور اگر فارسی نشریات سے وابستہ رہتے تو شاید عمر بھر گوشہ گمنامی میں ہی پڑے رہتے۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ان کی قسمت نے یک بہ یک ایک کروٹ لی اور سلیم گیلانی کے زیر سایہ پروگرام ''کسوٹی'' کا خاکہ تیار ہوا جس میں عبید اللہ بیگ کے ساتھ قریش پور اور افتخار عارف پی ٹی وی کے پلیٹ فارم سے منظر عام پر آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ پروگرام بنا کا گیت مالا کی طرح خواص و عوام میں روزبروز مقبول سے مقبول تر ہوتا چلا گیا۔ اور بس اس کے بعد تو چل سو چل والا معاملہ ہوا اور قریش پور کو وہ مقبولیت اور پذیرائی حاصل ہوئی جس کا شاید انھوں نے اپنی زندگی کے اوائل میں کبھی تصور بھی نہ کیا ہوگا۔ پی ٹی وی پر ہی ان کا ذہنی آزمائش پر مبنی ایک اور پروگرام ''ذوق آگہی'' بھی بہت ہٹ ہوا۔
حسن شہید مرزا بھی شعبہ نشریات کے حوالے سے غیر معمولی شہرت کے حامل تھے۔ انھوں نے بھی اپنے نشریاتی کیریئر کا آغاز ریڈیو پاکستان سے ہی کیا۔ یہ وہ دور تھا جب ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے ڈراموں کو سننے کے لیے سامعین جلدی جلدی اپنے کاموں سے فراغت حاصل کرنے کے بعد مقررہ وقت سے پہلے ہی ہمہ تن گوش ہوکر اپنے ریڈیو سیٹ کے ساتھ چپک کر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ اگرچہ حسن شہید مرزا نے اپنے کیریئر کا آغاز ڈرامے سے کیا تھا لیکن ان کے اندر ایک ہمہ صفت verstyle صداکار چھپا ہوا تھا۔
چناں چہ ریڈیو کے بعض دیگر فنکاروں سے ہٹ کر انھوں نے نہ تو ریڈیو کی باقاعدہ ملازمت اختیار کی اور نہ ہی اسٹاف آرٹسٹ بننا قبول کیا۔ اس کے بجائے انھوں نے اپنی آواز کو ریڈیوکمرشلز اور پھر اس کے بعد ٹی وی کمرشلز کے لیے خوب خوب استعمال کیا حتیٰ کہ اپنا ایک ذاتی اسٹوڈیو بھی بنالیا اور تادم آخر اسی کے ساتھ وابستہ رہے۔ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بعض دیگر صداکاروں نے بھی یہی راستہ اختیار کیا اور خوب نام بھی کمایا اور مال بھی کمایا۔
تلفظ کی درستی، الفاظ کی نشست و برخاست، آواز کے زیروبم Pause اور Stress کا جتنا زیادہ اہتمام ہم نے حسن شہید مرزا کے یہاں دیکھا اتنا کہیں اور نہیں دیکھا۔ اسی بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آوازیں گو اور بھی بہت ساری ہیں لیکن حسن شہید مرزا کا کوئی ثانی نہیں۔داغ مفارقت کے اس حالیہ سلسلے کی ایک اور نشریاتی شخصیت کا تذکرہ ریحانہ احمد کا نام لیے بغیر نامکمل ہی رہے گا۔ ریڈیو پاکستان کی ہندی سروس میں بطور پروفیسر خدمات انجام دینے کے بعد ریٹائرمنٹ کی زندگی گزارنے والی ریحانہ احمد کو اس دار فانی سے رخصت حاصل کیے ہوئے ابھی چند روز ہی گزرے ہیں۔
ایک اچھی براڈ کاسٹر ہونے کے علاوہ وہ نہایت ملنسار اور وضع دار خاتون تھیں اور ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ ہندی سروس کی ہماری ٹیم کی وہ ایک اہم اور فعال رکن تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبرجمیل عطا فرمائے۔
چنانچہ گزشتہ ہفتے یہاں دو عہد ساز براڈ کاسٹرز قریش پور اور حسن شہید مرزا کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کا اہتمام کیاگیا جس میں ان دونوں مرحومین کے حوالے سے تاثرات کا اظہار کیاگیا اور دونوں کو پر خلوص خراج عقیدت پیش کیاگیا۔ گزشتہ ایک ماہ سے دنیائے ادب اور فنون لطیفہ کے حوالے سے کراچی پر ایک چل چلاؤ کی سی کیفیت طاری ہے اور صورتحال کچھ ایسی ہے کہ بقول ابن انشاء :
انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا
یہ سیل مرگ ایک ماہ کے مختصر سے عرصے میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری، موسیقار بلند اقبال، نشرکار قریش پور، ادیب ونقاد محمود واجد اور براڈ کاسٹرز حسن شہید مرزا وریحانہ احمد کو بہاکر لے گیا۔
ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آنے کے بعد قریش پور نے اپنے نشریاتی کیریئر کا آغاز ریڈیو پاکستان کی ایکسٹرنل سروسز کی ایرانی سروس سے کیا۔ یہی وہ شعبہ ہے جہاں سے ان کے دو ہم عصروں عبیداللہ بیگ اور افتخار عارف نے بھی اپنے اپنے کیریئر شروع کیے تھے۔ برسبیل تذکرہ یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ خود ہم نے بھی اپنے نشریاتی کیریئر کا آغاز اسی شعبے سے کیا تھا۔ ایکسٹرنل سروسز یا بیرونی نشریات کا یہ شعبہ ریڈیو پاکستان کی نشریات کے حوالے مخصوص نوعیت کا حامل ہے جن کے تعارف، اہمیت اور خدمات کے بیان کا یہ کالم متحمل نہیں ہوسکتا۔
یہاں سے دنیا کے مختلف ممالک کے لیے ان کی متعلقہ زبانوں میں مخصوص دورانیے کے پروگرام پابندی اور باقاعدگی کے ساتھ روزانہ نشر کیے جاتے ہیں جن کا مقصد ان ممالک کے عوام کو پاکستان سے روشناس کرانا اور عالمی برادری میں وطن عزیز کی اہمیت اور اس کے کردار کو اجاگر کرنا ہے۔ پاکستان کے حالات سے دنیا کو باخبر رکھنا اور اس کے صحیح امیج کو مختلف ممالک کے عوام کے سامنے پیش کرنا بیرونی نشریات کے پروگراموں کا بنیادی مقصد ہے۔
یہ 60 کی دہائی کا قصہ ہے جب قریش پور نے بحیثیت براڈ کاسٹر ریڈیو پاکستان کی ایران سروسز میں شمولیت اختیار کی جہاں سے فارسی زبان میں ہمارے پڑوسی اور برادر ملک ایران کے لیے پروگرام نشر کیے جاتے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ممتاز براڈکاسٹر اور شاعر سید سلیم گیلانی بیرونی نشریات کے سربراہ ہوا کرتے تھے، جو بعد میں ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے تک پہنچے اور بالآخر وہیں سے ریٹائر ہوئے۔
جی ہاں وہی سلیم گیلانی جنھیں موسیقی پر بھی دسترس حاصل تھی اور جنہوں نے مہدی حسن اور گلوکارہ ریشماں جیسے بے مثال سنگرز کو متعارف کرایا اور پروان چڑھایا۔ ناسپاسی ہوگی اگر ایرانی سروس کے حوالے سے سید علی حسنین کاظمی (مرحوم) کا ذکر نہ کیا جائے جو نہ صرف ہمارے عزیز دوست اور ایکسٹرنل سروسز میں ہمارے انتہائی قابل احترام ساتھی تھے بلکہ بے مثل فارسی داں، سفارت کار، اردو اور فارسی کے منفرد شاعر اور شعبہ فارسی نشریات کے سربراہ بھی تھے۔ کاظمی صاحب ترقی کرتے کرتے ایکسٹرنل سروسز کے سربراہ بنے اور وہیں سے ریٹائر ہونے کے بعد اسلام آباد کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔
کاظمی صاحب کی شخصیت ایک علیحدہ کالم کی متقاضی ہے۔ قصہ کوتاہ قریش پور نے ریڈیو پاکستان کے اسی فارسی شعبے سے اپنے جوہر دکھانے کے سلسلے کی شروعات کی۔ فارسی زبان پر انھیں عبور حاصل تھا اور جس میں قدیم یا کلاسیکی فارسی اور جدید فارسی سمیت دونوں اقسام شامل تھیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ان کا لب و لہجہ خالصتاً ایرانی تھا جسے سن کر ہرگز یہ گمان نہیں ہوسکتا تھا کہ بولنے والا کوئی غیر ایرانی ہے۔ فارسی کے علاوہ قریش پور کو اردو پر بھی دسترس تھی۔ انگریزی بھی وہ روانی کے ساتھ بولتے تھے۔
تاریخ اور معلومات عامہ سے بھی انھیں گہرا شغف تھا۔ وہ ایک وسیع المطالعہ شخص تھے اور کتابیں ان کا سب سے بڑا اثاثہ تھیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ پی ٹی وی کی ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ عرصہ دراز تک اپنے گھر کا زینہ نہ بنوا سکے۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ سیمنٹ اور اینٹوں کی خریداری پر وہ مسلسل کتابوں کی خریداری کو ترجیح دیتے رہے کیونکہ یہی کتابیں ان کا سرمایہ حیات اور اوڑھنا بچھونا تھیں۔ غالباً یہی کتابیں ان کی شریک زندگی تھی جن سے انھیں اس حد تک عشق تھا کہ انھوں نے شادی بھی نہیں کی۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی حصول علم کے لیے وقف کردی اور عملی طور پر یہ ثابت کردیا کہ:
عشق وہ کار مسلسل ہے کہ ہم جس کے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے
شیرینی اور شائستگی قریش پور کی گفتگو کا خاص وصف تھا۔ ان کی باتوں میں گلوں کی خوشبو مہکتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ صحت زبان اور درستی تلفظ کا اس قدر اہتمام ہم نے بہت کم لوگوں میں دیکھا ہے۔
قریش پور اگر فارسی نشریات سے وابستہ رہتے تو شاید عمر بھر گوشہ گمنامی میں ہی پڑے رہتے۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ان کی قسمت نے یک بہ یک ایک کروٹ لی اور سلیم گیلانی کے زیر سایہ پروگرام ''کسوٹی'' کا خاکہ تیار ہوا جس میں عبید اللہ بیگ کے ساتھ قریش پور اور افتخار عارف پی ٹی وی کے پلیٹ فارم سے منظر عام پر آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ پروگرام بنا کا گیت مالا کی طرح خواص و عوام میں روزبروز مقبول سے مقبول تر ہوتا چلا گیا۔ اور بس اس کے بعد تو چل سو چل والا معاملہ ہوا اور قریش پور کو وہ مقبولیت اور پذیرائی حاصل ہوئی جس کا شاید انھوں نے اپنی زندگی کے اوائل میں کبھی تصور بھی نہ کیا ہوگا۔ پی ٹی وی پر ہی ان کا ذہنی آزمائش پر مبنی ایک اور پروگرام ''ذوق آگہی'' بھی بہت ہٹ ہوا۔
حسن شہید مرزا بھی شعبہ نشریات کے حوالے سے غیر معمولی شہرت کے حامل تھے۔ انھوں نے بھی اپنے نشریاتی کیریئر کا آغاز ریڈیو پاکستان سے ہی کیا۔ یہ وہ دور تھا جب ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے ڈراموں کو سننے کے لیے سامعین جلدی جلدی اپنے کاموں سے فراغت حاصل کرنے کے بعد مقررہ وقت سے پہلے ہی ہمہ تن گوش ہوکر اپنے ریڈیو سیٹ کے ساتھ چپک کر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ اگرچہ حسن شہید مرزا نے اپنے کیریئر کا آغاز ڈرامے سے کیا تھا لیکن ان کے اندر ایک ہمہ صفت verstyle صداکار چھپا ہوا تھا۔
چناں چہ ریڈیو کے بعض دیگر فنکاروں سے ہٹ کر انھوں نے نہ تو ریڈیو کی باقاعدہ ملازمت اختیار کی اور نہ ہی اسٹاف آرٹسٹ بننا قبول کیا۔ اس کے بجائے انھوں نے اپنی آواز کو ریڈیوکمرشلز اور پھر اس کے بعد ٹی وی کمرشلز کے لیے خوب خوب استعمال کیا حتیٰ کہ اپنا ایک ذاتی اسٹوڈیو بھی بنالیا اور تادم آخر اسی کے ساتھ وابستہ رہے۔ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بعض دیگر صداکاروں نے بھی یہی راستہ اختیار کیا اور خوب نام بھی کمایا اور مال بھی کمایا۔
تلفظ کی درستی، الفاظ کی نشست و برخاست، آواز کے زیروبم Pause اور Stress کا جتنا زیادہ اہتمام ہم نے حسن شہید مرزا کے یہاں دیکھا اتنا کہیں اور نہیں دیکھا۔ اسی بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آوازیں گو اور بھی بہت ساری ہیں لیکن حسن شہید مرزا کا کوئی ثانی نہیں۔داغ مفارقت کے اس حالیہ سلسلے کی ایک اور نشریاتی شخصیت کا تذکرہ ریحانہ احمد کا نام لیے بغیر نامکمل ہی رہے گا۔ ریڈیو پاکستان کی ہندی سروس میں بطور پروفیسر خدمات انجام دینے کے بعد ریٹائرمنٹ کی زندگی گزارنے والی ریحانہ احمد کو اس دار فانی سے رخصت حاصل کیے ہوئے ابھی چند روز ہی گزرے ہیں۔
ایک اچھی براڈ کاسٹر ہونے کے علاوہ وہ نہایت ملنسار اور وضع دار خاتون تھیں اور ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ ہندی سروس کی ہماری ٹیم کی وہ ایک اہم اور فعال رکن تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبرجمیل عطا فرمائے۔