کچھ ان سنی خبریں

کھیل، سیاست، ملکی حالات سے ہم اچھی طرح باخبر رہتے ہیں۔ایک سروے کے مطابق پاکستان میں پچاس فیصد...

wabbasi@yahoo.com

کھیل، سیاست، ملکی حالات سے ہم اچھی طرح باخبر رہتے ہیں۔ایک سروے کے مطابق پاکستان میں پچاس فیصد سے زیادہ لوگوں کی تفریح کا ذریعہ ٹی وی ہے۔ ٹی وی پر مارننگ شوز اور ایک آدھ ٹی وی ڈرامے کے علاوہ لوگ سب سے زیادہ نیوز چینلز دیکھنا پسند کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے لوگوں کو ملک میں کیا ہورہا ہے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے۔

امریکا، انگلینڈ میں لوگوں سے پوچھا جائے کہ ان کے ملک کے وائس پریذیڈنٹ یا کسی اور بڑے عہدے دار کا کیا نام ہے تو بیشتر لوگ اس بات کا جواب نہیں دے پائیں گے لیکن پاکستان میں پندرہ سال کے لڑکے کو بھی درجنوں منسٹروں کے نام یاد ہوتے ہیں۔ وجہ ہے نیوز چینلز سے لے کر اخبار تک ہم خود کو پاکستان کے بارے میں کئی کئی بار اپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں۔ چلیے آج کچھ ہٹ کر بات کرتے ہیں، کچھ ایسی خبریں جو پاکستان کے لیے اہم ہیں لیکن پڑھنے والے بیشتر لوگوں کو ان کے بارے میں علم نہیں ہوگا۔

پاکستان میں یو ٹیوب پر لمبے عرصے سے پابندی ہے۔ اب تو یو ٹیوب پر ویڈیوز دیکھنے کی عادت بھی ختم ہوگئی ہے لوگوں کی۔ یو ٹیوب جیسی دوسری ویب سائٹس اب پاکستان میں شہرت پا رہی ہیں، پچھلے سال پاکستان میں یوٹیوب پر ایک ویڈیو کے ریلیز ہونے کے بعد یو ٹیوب بند کردیا گیا تھا۔ نومبر 2012 سے بین ہوئے اس یوٹیوب کو اب دوبارہ لانے کی بات ہورہی ہے جہاں پاکستانی حکومت اب پوری سائٹ کے بجائے کچھ ویڈیوز کو بلاک کر پائے گی۔ یوٹیوب کے کھلنے سے پاکستانیوں کو کئی فائدے ہیں۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی ویڈیو شیئرنگ سائٹ ہے، چاہے بند دروازے کا تالا کھولنا ہو یا کار انجن بدلنا ہو یا کمپیوٹر پروگرام انسٹال کرنا ہو۔ یوٹیوب پر کون سی چیز کیسے کی جاتی ہے۔ ہر طرح کی ویڈیوز موجود ہیں۔

دوسرے ملکوں میں رہنے والے کئی لوگوں نے بغیر کسی اسکول یا ٹریننگ سینٹر جائے صرف یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھ دیکھ کر ایسے کام سیکھ لیے جن سے وہ روزگار کما رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یوٹیوب ہر جگہ مشہور ہونے کی وجہ سے ایک عام پاکستانی اپنی بات ہر جگہ پہنچاسکتا ہے۔ ''آئی ٹو آئی'' اور ''ون پونڈفش'' جیسے گانے کچھ ہی گھنٹوں میں مشہور کرنے کی طاقت رکھتی ہے یوٹیوب۔

یوٹیوب کے پاکستان میں کھل جانے سے ہم اس کو کئی کاموں میں لاسکتے ہیں۔ ڈزنی دنیا کی سب سے بڑی کارٹون بنانے والی کمپنی ہے پچھلے پچاس سال سے ڈزنی کا کریکٹر ''مکی ماؤس'' دنیا کا سب سے بڑا اسٹار ہے۔

دنیا بھر میں ڈزنی کے لاکھوں کھلونے روزانہ بکتے ہیں، ان کھلونوں کی ڈیمانڈ پوری کرنے کے لیے چوالیس ایسے ملک ہیں جہاں ڈزنی کے کارخانے ہیں ان میں پاکستان بھی شامل ہے، ڈزنی کمپنی کے ایک پریس ریلیز کے مطابق وہ پاکستان سے اپنی ہر طرح کی پروڈکشن اور کارخانے ختم کرنے والے ہیں، مارچ 2014 تک ڈزنی کا آپریشن پاکستان سے پوری طرح ختم ہوجائے گا۔ ڈزنی کے اپنے لیبر اسٹینڈرڈ پروگرام کے مطابق پاکستان میں کام کرنے کے حالات صحیح نہیں ہیں ساتھ ہی یہ بھی شکایت کی گئی ہے کہ پاکستان میں ان کے بنائے طریقوں اور پالیسیوں پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ کئی بار نوٹس دینے کے باوجود جب کام کے معاملات اور حالات درست نہیں ہوئے تو ڈزنی نے فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان سے مال بنوانا اور امپورٹ کرنا ختم کردیں گے۔

ڈزنی ایسا برانڈ ہے جسے کئی دوسری کمپنیوں نے بھی اپنا رکھا ہے مثلاً جب Nike نے اپنے جوتے چین میں بنوانا شروع کیے تو ہر بڑی کمپنی نے ان کی دیکھا دیکھی چائنا میں اپنے پلانٹ لگوائے جس سے چائنا میں تجارت کی صورت حال بہت بہتر ہوگئی اسی طرح جب انڈیا حیدرآباد میں مائیکروسافٹ نے اپنا سافٹ ویئر ہاؤس کھولا تو اس کے بعد انڈیا میں آئی ٹی انڈسٹری کو عروج حاصل ہوگیا اور آئی ٹی کی وجہ سے انڈیا میں کئی چیزیں بہتر ہوئیں۔


ڈزنی کے پاکستان سے تعلق توڑنے سے پاکستان کو ہر سال ڈھائی سو ملین ڈالرز کا بزنس ملنا بند ہوجائے گا لیکن اس کے ساتھ بڑی بڑی کمپنیوں کو یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ پاکستان میں صنعت لگانا ٹھیک نہیں ہے۔ پاکستان کے لیے یہ نقصان صرف ڈھائی سو ملین ڈالرز کا نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ کا ہے جس کا حساب لگانا مشکل ہے۔

فیس بک نے پہلی بار وہ ڈیٹا پبلک میں جاری کیا ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ مختلف ملکوں نے کتنی بار فیس بک سے کسی اکاؤنٹ کی تحقیقات کرنے کے لیے مدد مانگی ہے۔ جب سے دنیا میں انٹرنیٹ عام ہوا ہے وہ اپنے ساتھ کئی طرح کے کرائمز لاتا ہے جس میں ''سائبر کرائم'' یعنی انٹرنیٹ کے ذریعے جرم کرنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کسی دوسرے شخص کے یا کمپنی کے کمپیوٹر کو بغیر اس کی اجازت کے استعمال کرنا یا پھر Chat پر چھوٹی عمر کے بچوں کو بہلا پھسلا کر ان کو اکیلے میں ملنے پر آمادہ کرنا۔ یہ قصے ہزاروں کی تعداد میں روز انٹرنیٹ پر ہوتے ہیں۔

اعداد وشمار کے مطابق جن ملکوں میں سب سے زیادہ انٹرنیٹ پر Hacking کی جاتی ہے وہ پاکستان اور ایران ہیں۔

پاکستان کی حکومتی سائٹ، اخبارات یہاں تک کے انڈیا کی گورنمنٹ ویب سائٹ تک ہیکرز ہیک کرچکے ہیں۔ یہ ہیکرز ویسے تو بہت ہوشیار ہیں لیکن فیس بک، ٹوئیٹر جیسی سوشل ویب سائٹس استعمال کرتے وقت بھول جاتے ہیں کہ انھیں ڈھونڈنا زیادہ مشکل نہیں ہے اگر فیس بک اتھارٹیز ساتھ دے۔

فیس بک کے جاری کردہ ڈیٹا کے مطابق امریکا نے پچھلے سال تقریباً گیارہ ہزار Users کی جانچ کی درخواست کی اسی طرح انڈیا نے چار ہزار کی لیکن حیران کن طور پر پاکستان نے صرف سینتالیس (47) اکاؤنٹس کی جانچ کرنے کی درخواست کی۔

ہزاروں بار ہیکنگ ٹیررزم یہاں تک کہ ڈرگس اور اغوا تک جیسی چیزوں میں پاکستان میں لوگ فیس بک کا استعمال کرتے ہیں لیکن ہم نے صرف سینتالیس بار پورے سال میں مدد مانگی۔ اس چیز سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان تحقیقات میں فیس بک کو Resource کی طرح استعمال کرنے میں بہت پیچھے ہے اس لسٹ کو دیکھ کر دنیا کو ہمارے بارے میں لگے گا کہ ہم اپنے مسئلوں کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔

ان خبروں میں پاکستان نہ ہی کوئی میچ جیتا ہے نہ ہی کسی سیاست دان پر کوئی الزام لگا ہے اور نہ ہی کوئی عام شخص اپنے بیوی بچوں سمیت گن لے کر سڑک پر اتر آیا ہے لیکن ان خبروں سے پاکستان کو کہیں نہ کہیں فرق ضرور پڑتا ہے۔
Load Next Story