جنگ نہیں مذاکرات
بھارت حسب روایت ایک بدمست ہاتھی کی طرح بین الاقوامی سرحدی قوانین کو پامال کرتا اور اپنے پاؤں تلے مسلسل روندھتا...
CHICAGO:
بھارت حسب روایت ایک بدمست ہاتھی کی طرح بین الاقوامی سرحدی قوانین کو پامال کرتا اور اپنے پاؤں تلے مسلسل روندھتا چلا جارہا ہے۔ یہ ہر میدان میں ہمارا روایتی حریف بھی ہے اور ازلی دشمن بھی۔ بھارت نے پاکستان کی آزادی کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔ یہ کبھی پس پردہ سازشوں میں مصروف رہتا ہے اور کبھی کھل کر شورشوں پر اتر آتا ہے۔ پاک بھارت تعلقات کی تاریخ اس کی گواہ ہے۔ کچھ عرصہ قبل بھارت کی جانب سے ممبئی حملوں کا جو عجیب و غریب ڈراما رچایا گیا اس کا بنیادی مقصد ہی پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنا اور دہشت گرد قرار دلوانا تھا۔
بنیادی طور پر یہ اسی نوعیت کا ڈراما تھا جیساکہ خود امریکا نے 9/11 کو رچایا اور پھر مسلمانوں کو پوری دنیا کے سامنے بنیاد پرست، انتہاپسند اور دہشت گرد کے روپ میں پیش کرنے کی حتی الامکان و حتی المقدور لیکن ناکام کوشش کی، بھارت نے یہی راستہ اختیار کیا اور خودساختہ حملوں کے بعد بڑا واویلا بھی کیا لیکن اپنے مذموم مقاصد اور ناپاک عزائم میں ناکام و نامراد رہا۔ اگر غور کیا جائے تو 9/11 کا واقعہ خود بھارت کے لیے خوش آیند ثابت ہوا تھا کیونکہ 9/11 کے بعد حالات و واقعات کچھ اس قدر تیزی سے بدلے اور سامنے آئے کہ پاکستان کی تمام تر توجہ بھارت کی جانب سے ہٹ کر ترجیحی بنیادوں پر پاک افغان سرحدی علاقوں اور بالخصوص طالبان کی جانب منتقل ہوگئی۔
پرویز مشرف کی غلط بلکہ خودکش پالیسیوں کے نتیجے میں طالبان کی صورت میں ایک نئے دشمن کا جنم ہوا جب کہ اس سے قبل طالبان و پاکستان ایک جاں دو قالب تھے لیکن مشرف کی امریکا نواز مہربانیوں سے 9/11 کے بعد پاکستان کی صورتحال یک نہ شد دو شد والی ہو گئی اور خودکش حملوں کا ایسا بھیانک سلسلہ شروع ہوا جو اس سے قبل وطن عزیز میں دیکھا اور نہ سنا تھا۔ پاکستان میں جو بھی واقعہ و سانحہ رونما ہوا طالبان اس کے ذمے دار قرار پائے اور ہم نے بھارت کی ازلی دشمنی کو فراموش کردیا۔ کشمیر پالیسی سے یوٹرن لیتے ہوئے ہم نے امن کی اس آس کی جانب ہاتھ بڑھایا جس کی بھاشا سے بھارت خود ہی ناآشنا ہے لیکن درحقیقت یہ پاکستان کی مجبوری بھی تھی۔
افغانستان پر امریکا اور اتحادیوں کے حملوں کے بعد پاکستان کو انتہائی نامساعد حالات سے دوچار ہونا پڑا اور داخلی و خارجی طور پر بے شمار مسائل اور بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا جس کے لیے پاکستان پیشگی طور پر قطعی تیار نہ تھا، نیز ان تمام سے بیک وقت نبرد آزما ہونا پاکستان کے بس کی بات بھی نہ تھی اور یہ سب کچھ بھارت کے حق میں اور اس کی خوش قسمتی کا باعث تھا، اس کے علاوہ اس وقت پاکستان پر ایسی نااہل ڈکٹیٹر لیڈر شپ کی حکمرانی تھی جس میں ان تمام مسائل و چیلنجز کے حل کی صلاحیت بھی قطعی نہ تھی، نتیجتاً پاکستان مسائل و چیلنجز کی اس دلدل میں پھنستا ہی چلاگیا جس سے نکلنا آج بھی ہمارے لیے آسان نہیں۔
ہم ایک عرصے سے حالت جنگ میں ہیں لیکن جنگ کرنے یا تسلی بخش انداز میں کلی طور پر نبرد آزما ہونے کی پوزیشن میں نہیں، ہمارے داخلی و خارجی حالات اور معیشت کی صورت حال ہمیں جنگ کی اجازت نہیں دیتے، ساتھ ہی یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بالعموم جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں اور بالخصوص دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ تو دائمی تباہی کا پیش خیمہ اور خودکشی کے مترادف ہوگا۔ ہمیں تصادم سے ہٹ کر ترقی کے دیگر میدانوں میں دشمنی کے اس معرکے کو سر کرنا چاہیے جیساکہ دیگر ترقی یافتہ اقوام نے کیا، ہمیں بھی اپنے ملک و قوم کو ترقی کے اس مفہوم پر فائز کرنا چاہیے کہ کوئی بھی ہماری طرف بری آنکھ سے دیکھنے کی ہمت تک نہ کرسکے لیکن افسوس، اس کے لیے ہمیں جن عظیم الشان عناصر، خوبیوں، صلاحیتوں، خصوصیات، عزم و حوصلے، اتحاد و یکجہتی و یگانگت کی ضرورت ہے اس سے ہم آج محروم ہیں۔
تاہم مایوسی کفر ہے اور امید ہی زندگی کی وہ اہم حقیقت ہے جو یقین کے راستوں سے ہوتی ہوئی بالآخر منزل تک پہنچا دیتی ہے، ہمیں بھی آج اسی جذبے کی ضرورت ہے۔یہی وہ حقیقی وجوہات ہیں جن کی بنا پر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے تلخیاں ختم کرکے بات چیت کا دور شروع کرنے اور مذاکرات کے ذریعے تمام مسائل کا حل تلاش کرنے کی دعوت دی ہے۔ انھوں نے کہا کہ 1947 سے قبل پاکستان اور بھارت کے لوگ اکٹھے رہتے تھے، آج آزادی کو 65 برس ہورہے ہیں تو دونوں ممالک کو اپنی بہتری اور خوشحالی کے لیے تلخیاں بھلاکر تعلقات بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے، ہم بھارتی عوام کے لیے بے حد محبت بھرے جذبات رکھتے ہیں، ہمیں اچھا دوست ہونا چاہیے اور ایک دوسرے کے ہاتھ سے ہاتھ ملاکر کھلے اور صاف دل کے ساتھ اپنے بہتر مستقبل کے لیے مل بیٹھنا چاہیے۔
تاہم بھارتی جنگی جنون میں روز بروز مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے جس کی وجہ سے پاک بھارت امن عمل متاثر ہورہا ہے، بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن پر مسلسل اور بلااشتعال فائرنگ کے واقعات 2003 میں کیے گئے جنگ بندی کے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ بھارتی جنگی جنون کا واضح ثبوت کنٹرول لائن پر مسلسل بلااشتعال فائرنگ کے علاوہ حالیہ پرتھوی ٹو میزائل کا تجربہ بھی ہے، یہ میزائل زمین سے زمین تک 350 کلومیٹر تک مار کرسکتا ہے، اس کے علاوہ بھارت نے طیارہ بردار بحری جہاز بھی تیار کرلیا ہے، آئی این ایس وکرانت کا افتتاح کرکے بھارت دنیا کے پانچ طیارہ بردار بحری جہاز ساز ممالک میں شامل ہوگیا ہے، مذکورہ جہاز چالیس ہزار ٹن وزنی ہے۔
علاوہ ازیں بھارتی ایئرکرافٹ کیریئر سے دو روز قبل ہی بھارت نے ایٹمی آبدوز آئی این ایس اریہانت کا ایٹمی ری ایکٹر چلایا تھا جسے بھارت ہی نے خود ڈیزائن اور تیار کیا ہے، اس کی تیاری کے بعد بھارت ایٹمی آبدوز تیار کرنے والا باضابطہ پانچ ایٹمی ممالک امریکا، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کے بعد چھٹا ملک بن گیا ، مذکورہ ایٹمی آبدوز اریہانت سو افراد کے عملے کے ہمراہ ایک طویل عرصے تک زیر آب رہ سکتی ہے۔پاک بھارت تعلقات کا دیرینہ تنازعہ مسئلہ کشمیر رہا ہے، جسے مذاکرات کے ذریعے اگر حل کرلیا جائے تو دونوں ممالک بجاطور پر حقیقی معنوں میں باہم قریب آسکتے ہیں۔
بھارت کو چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے بھی اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں جموں و کشمیر میں تشدد کے حالیہ واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بھارت و پاکستان پر مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے پیشکش کی کہ اگر ان کی ثالثی پر دونوں اطراف متفق ہوں تو ان کا منصب اس ضمن میں کردار ادا کرنے کے لیے دستیاب ہے۔ خود پاکستان بھی یہی چاہتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں ہی نکالا جائے لیکن بھارت کی مرضی کچھ اور ہی رہی ہے اور یہی اس مسئلے کی اصل جڑ ہے۔
پاکستان اقوام متحدہ امن فوج کا سب سے بڑا حصہ دار ہے اور اسے اقوام متحدہ کی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے قراردادوں پر مکمل اعتماد بھی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت ہوش کے ناخن لے اور جنگی جنون ترک کرکے مذاکرات کی میز پر آئے، دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کا خاتمہ اور حقیقی قیام امن وقت کا اہم تقاضا ہے اور اس میں دونوں ممالک کے سیاسی وعسکری چینلز اہم کردار ادا کرتے ہوئے ایسا مشترکہ لائحہ عمل تیار کر سکتے ہیں جس سے دونوں ممالک کی قیادت کے درمیان اعتماد سازی کی فضا قائم ہو، تمام مسائل کا حل نکلے اور دائمی امن قائم ہو، بصور ت دیگر دونوں ہی ممالک ایٹمی قوتیں ہیں اور دونوں کے درمیان جنگی فضا و ایٹمی تصادم دونوں ممالک و اقوام کے لیے قیامت صغریٰ برپا کردیگا، یہ ایسا مہلک خودکش پچھتاوا ہو گا کہ جس کا مداوا پھر کسی صورت ممکن نہ ہوگا لہٰذا مذاکرات کیجیے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔۔۔۔ سب کچھ کھو جائے اور اقوام عالم کی داستانوں میں پاک و ہند کی داستان تک مٹ جائے!
بھارت حسب روایت ایک بدمست ہاتھی کی طرح بین الاقوامی سرحدی قوانین کو پامال کرتا اور اپنے پاؤں تلے مسلسل روندھتا چلا جارہا ہے۔ یہ ہر میدان میں ہمارا روایتی حریف بھی ہے اور ازلی دشمن بھی۔ بھارت نے پاکستان کی آزادی کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔ یہ کبھی پس پردہ سازشوں میں مصروف رہتا ہے اور کبھی کھل کر شورشوں پر اتر آتا ہے۔ پاک بھارت تعلقات کی تاریخ اس کی گواہ ہے۔ کچھ عرصہ قبل بھارت کی جانب سے ممبئی حملوں کا جو عجیب و غریب ڈراما رچایا گیا اس کا بنیادی مقصد ہی پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنا اور دہشت گرد قرار دلوانا تھا۔
بنیادی طور پر یہ اسی نوعیت کا ڈراما تھا جیساکہ خود امریکا نے 9/11 کو رچایا اور پھر مسلمانوں کو پوری دنیا کے سامنے بنیاد پرست، انتہاپسند اور دہشت گرد کے روپ میں پیش کرنے کی حتی الامکان و حتی المقدور لیکن ناکام کوشش کی، بھارت نے یہی راستہ اختیار کیا اور خودساختہ حملوں کے بعد بڑا واویلا بھی کیا لیکن اپنے مذموم مقاصد اور ناپاک عزائم میں ناکام و نامراد رہا۔ اگر غور کیا جائے تو 9/11 کا واقعہ خود بھارت کے لیے خوش آیند ثابت ہوا تھا کیونکہ 9/11 کے بعد حالات و واقعات کچھ اس قدر تیزی سے بدلے اور سامنے آئے کہ پاکستان کی تمام تر توجہ بھارت کی جانب سے ہٹ کر ترجیحی بنیادوں پر پاک افغان سرحدی علاقوں اور بالخصوص طالبان کی جانب منتقل ہوگئی۔
پرویز مشرف کی غلط بلکہ خودکش پالیسیوں کے نتیجے میں طالبان کی صورت میں ایک نئے دشمن کا جنم ہوا جب کہ اس سے قبل طالبان و پاکستان ایک جاں دو قالب تھے لیکن مشرف کی امریکا نواز مہربانیوں سے 9/11 کے بعد پاکستان کی صورتحال یک نہ شد دو شد والی ہو گئی اور خودکش حملوں کا ایسا بھیانک سلسلہ شروع ہوا جو اس سے قبل وطن عزیز میں دیکھا اور نہ سنا تھا۔ پاکستان میں جو بھی واقعہ و سانحہ رونما ہوا طالبان اس کے ذمے دار قرار پائے اور ہم نے بھارت کی ازلی دشمنی کو فراموش کردیا۔ کشمیر پالیسی سے یوٹرن لیتے ہوئے ہم نے امن کی اس آس کی جانب ہاتھ بڑھایا جس کی بھاشا سے بھارت خود ہی ناآشنا ہے لیکن درحقیقت یہ پاکستان کی مجبوری بھی تھی۔
افغانستان پر امریکا اور اتحادیوں کے حملوں کے بعد پاکستان کو انتہائی نامساعد حالات سے دوچار ہونا پڑا اور داخلی و خارجی طور پر بے شمار مسائل اور بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا جس کے لیے پاکستان پیشگی طور پر قطعی تیار نہ تھا، نیز ان تمام سے بیک وقت نبرد آزما ہونا پاکستان کے بس کی بات بھی نہ تھی اور یہ سب کچھ بھارت کے حق میں اور اس کی خوش قسمتی کا باعث تھا، اس کے علاوہ اس وقت پاکستان پر ایسی نااہل ڈکٹیٹر لیڈر شپ کی حکمرانی تھی جس میں ان تمام مسائل و چیلنجز کے حل کی صلاحیت بھی قطعی نہ تھی، نتیجتاً پاکستان مسائل و چیلنجز کی اس دلدل میں پھنستا ہی چلاگیا جس سے نکلنا آج بھی ہمارے لیے آسان نہیں۔
ہم ایک عرصے سے حالت جنگ میں ہیں لیکن جنگ کرنے یا تسلی بخش انداز میں کلی طور پر نبرد آزما ہونے کی پوزیشن میں نہیں، ہمارے داخلی و خارجی حالات اور معیشت کی صورت حال ہمیں جنگ کی اجازت نہیں دیتے، ساتھ ہی یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بالعموم جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں اور بالخصوص دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ تو دائمی تباہی کا پیش خیمہ اور خودکشی کے مترادف ہوگا۔ ہمیں تصادم سے ہٹ کر ترقی کے دیگر میدانوں میں دشمنی کے اس معرکے کو سر کرنا چاہیے جیساکہ دیگر ترقی یافتہ اقوام نے کیا، ہمیں بھی اپنے ملک و قوم کو ترقی کے اس مفہوم پر فائز کرنا چاہیے کہ کوئی بھی ہماری طرف بری آنکھ سے دیکھنے کی ہمت تک نہ کرسکے لیکن افسوس، اس کے لیے ہمیں جن عظیم الشان عناصر، خوبیوں، صلاحیتوں، خصوصیات، عزم و حوصلے، اتحاد و یکجہتی و یگانگت کی ضرورت ہے اس سے ہم آج محروم ہیں۔
تاہم مایوسی کفر ہے اور امید ہی زندگی کی وہ اہم حقیقت ہے جو یقین کے راستوں سے ہوتی ہوئی بالآخر منزل تک پہنچا دیتی ہے، ہمیں بھی آج اسی جذبے کی ضرورت ہے۔یہی وہ حقیقی وجوہات ہیں جن کی بنا پر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے تلخیاں ختم کرکے بات چیت کا دور شروع کرنے اور مذاکرات کے ذریعے تمام مسائل کا حل تلاش کرنے کی دعوت دی ہے۔ انھوں نے کہا کہ 1947 سے قبل پاکستان اور بھارت کے لوگ اکٹھے رہتے تھے، آج آزادی کو 65 برس ہورہے ہیں تو دونوں ممالک کو اپنی بہتری اور خوشحالی کے لیے تلخیاں بھلاکر تعلقات بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے، ہم بھارتی عوام کے لیے بے حد محبت بھرے جذبات رکھتے ہیں، ہمیں اچھا دوست ہونا چاہیے اور ایک دوسرے کے ہاتھ سے ہاتھ ملاکر کھلے اور صاف دل کے ساتھ اپنے بہتر مستقبل کے لیے مل بیٹھنا چاہیے۔
تاہم بھارتی جنگی جنون میں روز بروز مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے جس کی وجہ سے پاک بھارت امن عمل متاثر ہورہا ہے، بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن پر مسلسل اور بلااشتعال فائرنگ کے واقعات 2003 میں کیے گئے جنگ بندی کے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ بھارتی جنگی جنون کا واضح ثبوت کنٹرول لائن پر مسلسل بلااشتعال فائرنگ کے علاوہ حالیہ پرتھوی ٹو میزائل کا تجربہ بھی ہے، یہ میزائل زمین سے زمین تک 350 کلومیٹر تک مار کرسکتا ہے، اس کے علاوہ بھارت نے طیارہ بردار بحری جہاز بھی تیار کرلیا ہے، آئی این ایس وکرانت کا افتتاح کرکے بھارت دنیا کے پانچ طیارہ بردار بحری جہاز ساز ممالک میں شامل ہوگیا ہے، مذکورہ جہاز چالیس ہزار ٹن وزنی ہے۔
علاوہ ازیں بھارتی ایئرکرافٹ کیریئر سے دو روز قبل ہی بھارت نے ایٹمی آبدوز آئی این ایس اریہانت کا ایٹمی ری ایکٹر چلایا تھا جسے بھارت ہی نے خود ڈیزائن اور تیار کیا ہے، اس کی تیاری کے بعد بھارت ایٹمی آبدوز تیار کرنے والا باضابطہ پانچ ایٹمی ممالک امریکا، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کے بعد چھٹا ملک بن گیا ، مذکورہ ایٹمی آبدوز اریہانت سو افراد کے عملے کے ہمراہ ایک طویل عرصے تک زیر آب رہ سکتی ہے۔پاک بھارت تعلقات کا دیرینہ تنازعہ مسئلہ کشمیر رہا ہے، جسے مذاکرات کے ذریعے اگر حل کرلیا جائے تو دونوں ممالک بجاطور پر حقیقی معنوں میں باہم قریب آسکتے ہیں۔
بھارت کو چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے بھی اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں جموں و کشمیر میں تشدد کے حالیہ واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بھارت و پاکستان پر مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے پیشکش کی کہ اگر ان کی ثالثی پر دونوں اطراف متفق ہوں تو ان کا منصب اس ضمن میں کردار ادا کرنے کے لیے دستیاب ہے۔ خود پاکستان بھی یہی چاہتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں ہی نکالا جائے لیکن بھارت کی مرضی کچھ اور ہی رہی ہے اور یہی اس مسئلے کی اصل جڑ ہے۔
پاکستان اقوام متحدہ امن فوج کا سب سے بڑا حصہ دار ہے اور اسے اقوام متحدہ کی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے قراردادوں پر مکمل اعتماد بھی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت ہوش کے ناخن لے اور جنگی جنون ترک کرکے مذاکرات کی میز پر آئے، دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کا خاتمہ اور حقیقی قیام امن وقت کا اہم تقاضا ہے اور اس میں دونوں ممالک کے سیاسی وعسکری چینلز اہم کردار ادا کرتے ہوئے ایسا مشترکہ لائحہ عمل تیار کر سکتے ہیں جس سے دونوں ممالک کی قیادت کے درمیان اعتماد سازی کی فضا قائم ہو، تمام مسائل کا حل نکلے اور دائمی امن قائم ہو، بصور ت دیگر دونوں ہی ممالک ایٹمی قوتیں ہیں اور دونوں کے درمیان جنگی فضا و ایٹمی تصادم دونوں ممالک و اقوام کے لیے قیامت صغریٰ برپا کردیگا، یہ ایسا مہلک خودکش پچھتاوا ہو گا کہ جس کا مداوا پھر کسی صورت ممکن نہ ہوگا لہٰذا مذاکرات کیجیے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔۔۔۔ سب کچھ کھو جائے اور اقوام عالم کی داستانوں میں پاک و ہند کی داستان تک مٹ جائے!