پاکستانی ادب کیسے آگے بڑھا جائے

ادب کے بین الاقوامی منظر نامے پر نگاہ دوڑائیں تو پاکستانی ادب ڈھونڈھے سے بھی کہیں نظرنہیں آئے گا۔

دستو وسکی کے وہ خطوط جو اس نے اپنی7 سالہ قید کے دوران سائبیریا کی یخ بختہ جیل کی بیرک سے اپنے بھائی کو لکھے، جہاں دستو وسکی کی فنی اور تخلیقی زندگی پر روشنی ڈالتے ہیں وہیں یہ خطوط ہمیں یہ بھی باور کراتے ہیں کہ وہ اپنے ادبی پاروں کی تشکیل میں کتنا سنجیدہ تھا اور اپنی تحریروں کی نوک پلک سنوارنے میں کتنی محنت کرتا تھا۔

31مئی1858ء کو اپنے بھائی کو لکھے خط میں اس نے لکھا '' کیا کہا تم نے کہ تصویر ایک ہی نشست میں مکمل کر لی ہے۔ یہ تم نے کہاں سے سیکھا،بھلے آدمی تخلیقی کام کے لیے مسلسل محنت درکار ہوتی ہے۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ پشکن (Pushkin)کے لکھے چند مصرے ایک ہی نشست میں کہے گئے ہوں گے۔ نہیں ایسا نہیں ہے تم کیا جانو اس پر کتنا وقت لگا۔ پشکین نے ان پر کتنی محنت کی، اس نے ان کی کتنی آبیاری کی تب جا کر وہ چند مصرعے تخلیق ہو پائے۔ کاش تم نے اپنے کام پر محنت کی ہوتی۔ ایک دوسرے خط میںوہ لکھتا ہے۔

''برادر کرمازوف'' (دستووسکی کا ایک ناول ) کا پلاٹ مجھے تین سال پریشان کرتا رہا ۔ اور پھر میں نے 9 سال اس پر محنت کی اور ناول مکمل کیا''

ہمارے ہاں بالعموم جب پاکستانی ادب کی بات ہوتی ہے تو اس کا مطلب پاکستان کے اندر تخلیق ہونے والا اردو ادب ہوتا ہے جب کہ صحیح بات یہ ہے کہ تمام پاکستانی زبانوںیعنی بلوچی ، براہوئی، پنجابی، پشتو، سندھی، کشمیری اور گلگتی زبانوں میں لکھا جانے والا سارا ادب پاکستانی ادب ہی ہے اور اس ادب کو علاقائی ادب کہہ کر پیچھے دھکیل دینا، سرا سر ناانصافی ہے۔ میں جب اکادمی ادبیات کا چیئرمین تھا اس وقت میں نے اس بات پر بہت زور دیاکہ پاکستانی ادب کی اصطلاح تمام پاکستانی زبانوں میں پیدا ہونے والے ادب سے منسوب ہواور علاقائی ادب یا مقامی ادب کہہ کر اردو کے علاوہ دوسری پاکستانی زبانوں کے ادب کے ساتھ زیادتی نہ ہوسکے۔

ادب کے بین الاقوامی منظر نامے پر نگاہ دوڑائیں تو پاکستانی ادب ڈھونڈھے سے بھی کہیں نظرنہیں آئے گا۔ موجودہ دور میں پاکستانی ادب بنیادی طورپر شاعری اور افسانے کا ادب ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں سے ایک بھی شہرہ آفاق ناول، جسے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ہو ہم نہیں لکھ سکے۔ ڈرامہ تو امتیاز علی تاج کی وفات کے ساتھ ہی روٹھ گیا تھا ،ٹیلی پلیز کی بھرمار ہے لیکن کسی ایسے ڈرامے کا نام سامنے نہیں لایا جاسکتا جوادب کے معیار پر پورا اتر تا ہوا اور جسے ہم درسگاہوں میں پڑھا سکیں۔


غزل اور نظم کا معاملہ یہ ہے کہ یہ ایک دو نشستوں میں مکمل کی جاسکتی ہے۔ یہی معاملہ بہت حد تک افسانے کا ہے لیکن ناول ڈرامہ، رزمیہ نظم بالکل ہی دوسرا تقاضہ کرتے ہیں، ناول کا پلاٹ، اس کے کردار اور کہانی کا برتاؤ بہت لمبے عرصے کی محنت عرق ریزی توجہ اور وسیع مطالعہ مانگتا ہے۔ آپ کو روزانہ اپنی کہانی اوراپنے ناول کے کرداروں کے ساتھ نئے سرے سے بیٹھنااور وہی برتاؤ کرنا پڑتا ہے جس کے ساتھ آپ نے اپنے ناول کی ابتداء کی تھی۔ بالکل یہی برتاؤ، یہی محنت ڈرامہ مانگتا ہے۔ بہت ہی معذرت کے ساتھ ایسا لگتا ہے کہ ہمارا ادیب اور شاعر اتنا وقت اپنے ادب پاروں کو دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بڑا ادب وسیع مطالعہ، وجدان ،محنت لگن اور خداداد صلاحیت سے پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان میں بڑا ادب تخلیق کرنے کے لیے ہمارے لکھاریوں کو خدداد صلاحیت کے ساتھ رتجگے اور آرام کی قربانی دینی ہو گی۔

ہمارے ہاں بہت ہی اچھے تخلیق کار موجود ہیں اوروہ بہت توانا ادب تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن انھیں وہ حالات اور ماحول میسر نہیں جو بڑے ادب کی تخلیق میں مددگار ہو ۔ سوائے اردو کے باقی تمام پاکستانی زبانوں میں لکھا جانے والاادب اس زبان کے جانے والوں تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے، وہ قومی اور بین الاقوامی ادب نہیں بن پارہا۔ اس راہ میں آگے بڑھنے کے لیے ان زبانوں کے ادب کو پہلے اردو اور پھر چند بین الاقوامی زبانوں خصوصاً انگریزی میں تراجم کرانے ضروری ہیں۔

تراجم کرانے کتنا اہم کام ہے اور اچھے تراجم کے ذریعے ہم کہاں سے کہاں پہنچ سکتے ہیں۔ اس کا انداز ہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جناب انتظار حسین(مرحوم) کا ایک ناول انگریزی میں ترجمہ ہوتے ہی ایک بین الاقوامی ایوارڈ کے نامزد ناولوں میں شامل کر لیا گیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قومی سطح پر ایک ٹرانسلیشن بیورو قائم کریں۔ جہاں پاکستانی زبانوں کے ادب کو پہلے اردو میں اور پھر چند بڑی زبانوں خاص کر انگریزی میں تراجم ہوں تاکہ ہمارا ادب بین الاقوامی دھارے میں اپنی جگہ بنا سکے۔ اگر ہم صرف انگریزی، چینی اور عربی زبان میں تراجم کروا سکیں تو تقریبا دنیا کی دو تہائی آبادی کو اپنے شعرو ادب سے روشناس کروا سکتے ہیں ۔ ترجمہ کرنا آ سان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے ہر دوزبانوں پر مکمل عبور رکھنا ضروری ہے ۔ ترجمہ نگاری کی سب بندشوںسے اچھا بر تاؤ ہو نے کے با وجود یہ ضروری نہیں کہ ہم بہتر ین ترجمہ کر پائیں ۔ ہمیں اکثر مقامات پر چند ایک بہت ٹیڑھے سوالات کا سامنا رہے گا ۔

مثا ل کے طور پر جہاں اصل عبارت کا مفہوم صاف نہ ہو ۔ اصل متن کی عبارت الجھی ہو ئی ہو اور ایک کے بجائے کئی معنی دے رہی ہو تو مترجمین کا کیا فرض بنتا ہے۔؟ کیا وہ بھی اُ سی نوع کی بنت کرے کہ ترجمہ کئی معنی دے؟ اس سلسلے میں کوئی ایک صورت مسئلے کا آ خری حل نہیں، بہت ممکن ہے کہ لکھنے والے کے ذہن میں اُ س مقام پر عبارت کو غیر واضح رکھنے کا کوئی مقصد ہو، بقول مرزا حامدبیگ بعض موقعوں اور بعض حالات میں یہ بات ضروری ہو تی ہے خصوصاً جبر و استبدادکے دور میں، شاعری میں بھی ایسے مقامات آ تے ہیں۔

جہاں ہر نکتے کو سلجھانا ضروری نہیں ہو تا۔ آ رٹ میں بعض جگہ تاریک گوشے اصل مقصد کو نمایاں کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں یا بعض جگہ ہلکے سے پردے کسی مجبوری کی وجہ سے ڈال دیے جاتے ہیں، صاف اور بے لاگ کھری بات کہی جائے تو اسے پڑھنے والوں کی سوجھ بوجھ برداشت نہیں کرے گی۔ یا حکومت وقت برداشت نہیں کرے گی۔ یا مذہبی اور اخلاقی ادارے چراغ پا ہو جا ئیں گے یا بیان کے حسن میں فرق آ جائے گا۔ اور لذت ختم ہو جائے گی۔بہر حال حتی المقدور ترجمہ کو اصل مصنف کے منشاء کی پابندی کرنی چاہیے اور عبارت کو جوں کا توں اپنی زبان میں منتقل کر نا چاہیے۔

اب اگر مترجم دیکھتا ہے کہ اصل عبارت میں فلاں حصہ ایسا ہے کہ اس کے کئی معانی نکل سکتے ہیں تو اسے سوچنا ہو گا کہ مصنف خود اس مقام پر کئی معانی تو پیدا نہیں کرنا چاہتا ہے۔ مثال کے طور پر شیکسپئر اپنی مشہور ٹریجڈی کنگ لیئر کے دوسرے سین میں ایک لفظDivestکا استعمال کرتا ہے۔ اس لفظ کا ایک ظاہری مطلب ذمے داری سے الگ ہونا ہے جب کہ اس کا دوسرا مطلب کپڑے اتار دنیا، ننگا ہوجانا اور Exposeہو جانا ہے اب ایسے مقامات مترجم کے لیے بہت مشکل ہوتے ہیں کہ وہ ترجمہ کرتے وقت لفظ کا کون سا معنی و مطلب لے ۔ حاصل بحث ہمیں محنت ،لگن، وسیع مطالعہ سے کام کرنا اور اچھے خوبصورت تراجم سے ادب کے بین الاقوامی منظر نامے میں اپنی جگہ بنانا ہے۔
Load Next Story