آمدنی سے زیادہ اثاثے
بلاشبہ موجودہ حکومت عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لے رہی ہے لیکن قرض کو کرپشن کی نذر نہیں کر رہی ہے۔
بڑی دلچسپ صورتحال ہے، ایک بندہ جو نہ خود کرپشن کرتا ہے نہ اپنے ساتھیوں کوکرپشن کرنے دیتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار نچلی سطح سے اوپر آ کر ملک کا وزیر اعظم بن گیا ہے۔ یہ کرپشن مخالف وزیر اعظم کسی مخالف سیاستدان کو ہضم نہیں ہو رہا ہے۔
دور دراز علاقوں کے رہنما جو ماضی کی حکومتوں سے خوب مستفید ہوتے تھے اپنا دانہ پانی بند ہونے کی وجہ سے ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے ہیں۔ پہلے تو بڑی احتیاط سے حکومت کی مخالفت کر رہے تھے، اب فرما رہے ہیں کہ ''حکومت گرانے میں ہم اپوزیشن کے ساتھ ہیں'' یہ وہ جوان جہاں رہنما ہیں جن کے بزرگ پاکستانی سیاست میں فعال اور نیک نام رہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر حکومت گرانے کی ضرورت ان ایماندار اکابرین کو کیوں پیش آ رہی ہے؟
بلاشبہ موجودہ حکومت عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لے رہی ہے لیکن قرض کو کرپشن کی نذر نہیں کر رہی ہے بلکہ تباہ حال معیشت کو سدھارنے میں لگا رہی ہے۔ موجودہ حکومت جو اربوں ڈالر کا قرض اتار رہی ہے، کیا یہ قرض موجودہ حکومت کا لیا ہوا ہے؟ ہماری معیشت کو 9 ماہ کی نئی حکومت نے تباہ کیا ہے یا ماضی کی کرپٹ حکومتوں نے کیا ہے؟ اس سوال کا درست جواب عوام حاصل کر لیں تو حکومت مخالف گروہوں کی زبان بند ہو سکتی ہے اور موجودہ حکومت سکون سے ملک کی معاشی حالت سدھارنے میں لگ سکتی ہے۔
پاکستان کی تاریخ کا یہ سب سے نازک دور ہے، ایک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچے ہوئے ملک کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ مہنگائی نے بلاشبہ عوام کی زندگی کا برا حال کر دیا ہے لیکن اس مہنگائی کی ذمے دار موجودہ حکومت ہرگز نہیں۔ اس کی ساری ذمے داری ماضی کی حکومتوں پر آتی ہے ۔ ہاں ! یہ بات درست ہے کہ حکومت معاشی حالت بہتر کرنے کے لیے عوام کا گلا دبا رہی ہے جب کہ معاشی تباہی کے ذمے دار عوام نہیں جو گروہ ملک کی معاشی زندگی کے تباہی کے ذمے دار ہیں، وہ آج بھی عیش کر رہے ہیں، اربوں روپوں میں کھیل رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیب آمدنی سے زیادہ وسائل رکھنے والوں کو پکڑ رہی ہے لیکن پکڑ دھکڑ کا یہ سلسلہ بہت محدود ہے۔ ہمارے ملک میں اشرافیہ کا کوئی فرد ایسا نہیں ملے گا جو آمدنی سے ہزار گنا زیادہ وسائل نہ رکھتا ہو، اگر یہ درست ہے تو احتساب کا دائرہ کار بڑھایا جائے۔ اس درست اقدام سے غریب عوام مہنگائی سے بھی بچ جائیں گے اور اشرافیہ بھی اپنے انجام کو پہنچے گی۔ یہ ایک موٹی بات ہے جو غالباً موٹی عقل رکھنے والوں کی سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔ ہم نے اپنے ایک پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ ''عوام سڑکوں پر آ جائیں گے'' اگر اصلی مجرمین کو نظرانداز کر کے عوام کو رگڑا دیا جانے لگا تو عوام سڑکوں پر آئیں گے اور ان کا سڑکوں پر آنا غلط نہیں ہو گا۔
ملک میں ایک بڑی تبدیلی لانے والی جماعت کے اندر جتنا گہرا اتحاد ہونا چاہیے، بدقسمتی سے ایسے اتحاد کا فقدان ہے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف حکومت کی کارکردگی پر اثر پڑ رہا ہے بلکہ عوام مایوس ہو رہے ہیں، دشمن خوش ہو رہے ہیں اگر پارٹی کے اندر اختلاف کو سختی سے نہ روکا گیا تو اس کا فائدہ کرپٹ اشرافیہ اٹھائے گی۔ اس میں شک نہیں کہ نئی حکومت ناتجربہ کار بھی ہے اور اشرافیہ کے سخت پریشر میں بھی ہے۔ ان سنگین حالات سے نکلنے کے لیے غیرمعمولی عزم اور غیر معمولی صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔ کیا ہماری نئی حکومت ان صلاحیتوں کی حامل ہے؟
جو لوگ آج بغیر کسی لالچ کے موجودہ حکومت کی بہتری کے خواہاں ہیں وہ دراصل ''اسٹیٹس کو'' کے ٹوٹنے سے حاصل ہونے والے فوائد کو عوام کی زندگی کا معیار بلند کرنے میں استعمال کرنے کے خواہش مند ہیں۔ اس ملک کے 22 کروڑ غریب ایک انتہائی کٹھن زندگی گزار رہے ہیں ۔ کیا انھیں بھی ایک مطمئن زندگی گزارنے کا حق حاصل نہیں؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تک اشرافیہ عوام کے سروں پر سوار ہے عوام کس طرح ایک آسودہ زندگی گزار سکتے ہیں؟ اس نئی حکومت نے احتیاط اور سمجھداری سے ملک کو چلانے کی کوشش کی تو بہتری کے امکانات ہیں۔
موجودہ حکومت کو اپنے پاؤں مضبوطی سے جمانے کے لیے عوام کی بھرپور حمایت کی ضرورت ہے اور عوامی حمایت اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب حکومت ان کے مسائل میں کمی کرے، اضافہ نہ کرے۔ ہم ایک بار پھر حکومت کو یہ مشورہ دیں گے کہ وہ آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے والوں کے خلاف جو اقدامات کر رہی ہے۔ اس کا دائرہ وسیع کرے۔ اشرافیہ کے ہزاروں شہزادوں کے پاس آمدنی سے بہت زیادہ اثاثے ملک کے اندر بھی ہیں، ملک کے باہر بھی ہیں۔ یہ حلال کی کمائی نہیں یہ کرپشن کی کمائی ہے ۔ کرپشن کے خلاف جو اقدامات کیے جا رہے ہیں وہ اس قدر بے معنی ہیں کہ اگر اسی طرز کا احتساب ہوتا رہے تو اگلے سو سال تک بھی اشرافیہ کا کچھ نہیں بگڑ سکتا۔
احتساب بلا امتیاز اور بامعنی ہونا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ انصاف میں دیر بھی ایک طرح کی ناانصافی ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت کے رکھوالوں نے قانون میں اتنے سقم رکھے ہیں کہ اس کا نظارہ پاکستانی عوام برسوں سے کر رہے ہیں۔ اب اگر حکومت احتساب کو بامعنی بنانا چاہتی ہے تو اسے بلاامتیاز بنائے مقدمات کو دیوانی مقدمات نہ بنائے اور احتساب کی رفتار تیز کرے ہماری عدلیہ ملک اور عوام سے مخلص ہے وہ انصاف میں دیری کے نقصانات سمجھتی ہے عوام امید کرتے ہیں کہ عدلیہ انصاف میں دیر نہیں کرے گی۔
دور دراز علاقوں کے رہنما جو ماضی کی حکومتوں سے خوب مستفید ہوتے تھے اپنا دانہ پانی بند ہونے کی وجہ سے ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے ہیں۔ پہلے تو بڑی احتیاط سے حکومت کی مخالفت کر رہے تھے، اب فرما رہے ہیں کہ ''حکومت گرانے میں ہم اپوزیشن کے ساتھ ہیں'' یہ وہ جوان جہاں رہنما ہیں جن کے بزرگ پاکستانی سیاست میں فعال اور نیک نام رہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر حکومت گرانے کی ضرورت ان ایماندار اکابرین کو کیوں پیش آ رہی ہے؟
بلاشبہ موجودہ حکومت عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لے رہی ہے لیکن قرض کو کرپشن کی نذر نہیں کر رہی ہے بلکہ تباہ حال معیشت کو سدھارنے میں لگا رہی ہے۔ موجودہ حکومت جو اربوں ڈالر کا قرض اتار رہی ہے، کیا یہ قرض موجودہ حکومت کا لیا ہوا ہے؟ ہماری معیشت کو 9 ماہ کی نئی حکومت نے تباہ کیا ہے یا ماضی کی کرپٹ حکومتوں نے کیا ہے؟ اس سوال کا درست جواب عوام حاصل کر لیں تو حکومت مخالف گروہوں کی زبان بند ہو سکتی ہے اور موجودہ حکومت سکون سے ملک کی معاشی حالت سدھارنے میں لگ سکتی ہے۔
پاکستان کی تاریخ کا یہ سب سے نازک دور ہے، ایک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچے ہوئے ملک کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ مہنگائی نے بلاشبہ عوام کی زندگی کا برا حال کر دیا ہے لیکن اس مہنگائی کی ذمے دار موجودہ حکومت ہرگز نہیں۔ اس کی ساری ذمے داری ماضی کی حکومتوں پر آتی ہے ۔ ہاں ! یہ بات درست ہے کہ حکومت معاشی حالت بہتر کرنے کے لیے عوام کا گلا دبا رہی ہے جب کہ معاشی تباہی کے ذمے دار عوام نہیں جو گروہ ملک کی معاشی زندگی کے تباہی کے ذمے دار ہیں، وہ آج بھی عیش کر رہے ہیں، اربوں روپوں میں کھیل رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیب آمدنی سے زیادہ وسائل رکھنے والوں کو پکڑ رہی ہے لیکن پکڑ دھکڑ کا یہ سلسلہ بہت محدود ہے۔ ہمارے ملک میں اشرافیہ کا کوئی فرد ایسا نہیں ملے گا جو آمدنی سے ہزار گنا زیادہ وسائل نہ رکھتا ہو، اگر یہ درست ہے تو احتساب کا دائرہ کار بڑھایا جائے۔ اس درست اقدام سے غریب عوام مہنگائی سے بھی بچ جائیں گے اور اشرافیہ بھی اپنے انجام کو پہنچے گی۔ یہ ایک موٹی بات ہے جو غالباً موٹی عقل رکھنے والوں کی سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔ ہم نے اپنے ایک پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ ''عوام سڑکوں پر آ جائیں گے'' اگر اصلی مجرمین کو نظرانداز کر کے عوام کو رگڑا دیا جانے لگا تو عوام سڑکوں پر آئیں گے اور ان کا سڑکوں پر آنا غلط نہیں ہو گا۔
ملک میں ایک بڑی تبدیلی لانے والی جماعت کے اندر جتنا گہرا اتحاد ہونا چاہیے، بدقسمتی سے ایسے اتحاد کا فقدان ہے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف حکومت کی کارکردگی پر اثر پڑ رہا ہے بلکہ عوام مایوس ہو رہے ہیں، دشمن خوش ہو رہے ہیں اگر پارٹی کے اندر اختلاف کو سختی سے نہ روکا گیا تو اس کا فائدہ کرپٹ اشرافیہ اٹھائے گی۔ اس میں شک نہیں کہ نئی حکومت ناتجربہ کار بھی ہے اور اشرافیہ کے سخت پریشر میں بھی ہے۔ ان سنگین حالات سے نکلنے کے لیے غیرمعمولی عزم اور غیر معمولی صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔ کیا ہماری نئی حکومت ان صلاحیتوں کی حامل ہے؟
جو لوگ آج بغیر کسی لالچ کے موجودہ حکومت کی بہتری کے خواہاں ہیں وہ دراصل ''اسٹیٹس کو'' کے ٹوٹنے سے حاصل ہونے والے فوائد کو عوام کی زندگی کا معیار بلند کرنے میں استعمال کرنے کے خواہش مند ہیں۔ اس ملک کے 22 کروڑ غریب ایک انتہائی کٹھن زندگی گزار رہے ہیں ۔ کیا انھیں بھی ایک مطمئن زندگی گزارنے کا حق حاصل نہیں؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تک اشرافیہ عوام کے سروں پر سوار ہے عوام کس طرح ایک آسودہ زندگی گزار سکتے ہیں؟ اس نئی حکومت نے احتیاط اور سمجھداری سے ملک کو چلانے کی کوشش کی تو بہتری کے امکانات ہیں۔
موجودہ حکومت کو اپنے پاؤں مضبوطی سے جمانے کے لیے عوام کی بھرپور حمایت کی ضرورت ہے اور عوامی حمایت اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب حکومت ان کے مسائل میں کمی کرے، اضافہ نہ کرے۔ ہم ایک بار پھر حکومت کو یہ مشورہ دیں گے کہ وہ آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے والوں کے خلاف جو اقدامات کر رہی ہے۔ اس کا دائرہ وسیع کرے۔ اشرافیہ کے ہزاروں شہزادوں کے پاس آمدنی سے بہت زیادہ اثاثے ملک کے اندر بھی ہیں، ملک کے باہر بھی ہیں۔ یہ حلال کی کمائی نہیں یہ کرپشن کی کمائی ہے ۔ کرپشن کے خلاف جو اقدامات کیے جا رہے ہیں وہ اس قدر بے معنی ہیں کہ اگر اسی طرز کا احتساب ہوتا رہے تو اگلے سو سال تک بھی اشرافیہ کا کچھ نہیں بگڑ سکتا۔
احتساب بلا امتیاز اور بامعنی ہونا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ انصاف میں دیر بھی ایک طرح کی ناانصافی ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت کے رکھوالوں نے قانون میں اتنے سقم رکھے ہیں کہ اس کا نظارہ پاکستانی عوام برسوں سے کر رہے ہیں۔ اب اگر حکومت احتساب کو بامعنی بنانا چاہتی ہے تو اسے بلاامتیاز بنائے مقدمات کو دیوانی مقدمات نہ بنائے اور احتساب کی رفتار تیز کرے ہماری عدلیہ ملک اور عوام سے مخلص ہے وہ انصاف میں دیری کے نقصانات سمجھتی ہے عوام امید کرتے ہیں کہ عدلیہ انصاف میں دیر نہیں کرے گی۔