کرنسی ڈی ویلیوایشن تھیوری حصہ دوم

امریکی ڈالر سے جڑی یورپی ملکوں کی کرنسیوں کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں مزید 69 فیصد کم ہوگئی تھیں۔

k_goraya@yahoo.com

لاہور:
تین شہنشاہوں کے مقدس اتحاد کے بعد تمام سامراجی ملکوں نے 1879 سے 1907 کے دوران ایک دوسرے کے وسائل سے بھرپور علاقوں کو چھیننے کے لیے گروپ بندی شروع کردی ۔(۱)۔محوری گروپ میں جرمنی، آسٹریا، ہنگری، اٹلی اور ترکی تھے۔(۲)۔اتحادی گروپ میں برطانیہ، فرانس، روس اور جاپان تھے۔ ان تمام سامراجی آقاؤں کی غلامی میں کئی کئی ممالک تھے۔

برطانیہ کی شکل میں سامراجیت کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ امریکا کسی گروپ میں شامل نہیں ہوا تھا۔ پہلی عالمی جنگ 28 جولائی 1914 تا 11 نومبر 1918 تک رہی۔ روس میں 25 اکتوبر 1917 کو لینن مزدور انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہوگیا تو جاگیرداروں سے جاگیریں چھین کرکسانوں میں مفت تقسیم کردیں، ملوں، کارخانوں پر مزدوروں نے قبضے کرلیے۔ لینن نے جنگ سے الگ ہونے کا اعلان کردیا۔ 3 مارچ 1918 کو جرمنی سے معاہدہ '' برسٹویٹوسک'' کرکے کئی علاقے جرمنی کو دے دیے۔

1918 میں امریکا، برطانیہ، فرانس اور جاپان کی فوجوں نے مل کر مزدور حکومت کو ختم کرنے کے لیے چڑھائی کردی۔ لینن، اسٹالن کی قیادت میں مزدوروں، فوجیوں نے مل کر انھیں مار بھگایا۔ 28 جولائی 1914 سے 6 اپریل 1917 تک امریکا جنگ سے الگ رہا۔ (2 سال 8 ماہ 5 دن تک) یاد رہے کہ تمام ملکوں کے درمیان ہونے والے معاہدوں سے بھی دور رہا۔ نیوٹرل رہ کر امریکا نے تمام ملکوں کے لیے خفیہ طور پر مالیاتی اور معاشی شکنجے کا پلان مرتب کرلیا تھا۔

امریکا فطرتاً چالاک لومڑی کی طرح ہے۔ جنگ شروع ہوتے ہی (۱)۔ تمام ملکوں کی باہمی تجارتیں بند ہوتی گئیں۔ (۲)۔جنگی اخراجات غیر پیداواری اخراجات بڑھتے گئے۔ (۳)۔ پیداواری اخراجات کم ہوتے گئے۔ تمام متحارب ملکوں کے کارخانے، فیکٹریاں، زرعی زمینیں تباہ ہوتی گئیں۔ (۴)۔ہر ملک میں اشیا کی قلت اور مہنگائی بڑھتی گئی۔(۵)۔ متحارب ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتیں مہنگائی بڑھنے سے گرتی گئیں۔(۶)۔تجارت کے ساتھ کرنسیوں کے باہمی تبادلے بھی بند ہوتے گئے۔ (۷)۔تمام متحارب ممالک سونے کے مقررہ معیار سے ہٹ گئے۔ (۸)۔ان ملکوں میں شدید ''کرنسی ایکسچینج'' بحران پیدا ہوگیا۔ (۹)۔ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات منقطع ہوتے گئے۔ (۰۱)۔جنگی اور دوسرے شہریوں کے زخمی ہونے کے واقعات بڑھتے گئے، میڈیکل کی تمام سہولتیں کم پڑتی گئیں۔

امریکا نے 2 سال 8 ماہ نیوٹرل رہ کر متحارب ملکوں میں امریکی سرپلس اشیا سونے کی اپنی مقررہ قیمت 20.67 ڈالر فی اونس کے بدلے ایکسپورٹ کرنی شروع کردیں۔ امریکا کو نیوٹرل ملک سمجھ کر یورپی ملکوں نے امریکی بینکوں میں اپنا اپنا سونا ریزروکیا ہوا تھا۔ 6 اپریل 1917 کو جب امریکا جنگ میں شریک ہوگیا تو اس کے نیوٹرل ہونے کا بھرم ٹوٹ گیا۔ یورپی ملکوں نے امریکی بینکوں سے اپنا ڈپازٹ کیا ہوا سونا نکالنا شروع کردیا۔ امریکا نے سونا نکالنے پر 17 ستمبر 1917 سے 30 جون 1919 تک پابندی لگادی اور اس سونے کے بدلے صرف امریکی اشیا خریدنے کی اجازت دی۔ جوں جوں جنگ کا وقت بڑھتا گیا توں توں متحارب ملکوں کی معیشت اور مالیاتی سسٹم تباہ ہوتا گیا۔


امریکا نے ایکسپورٹ اور کاغذی ڈالروں سے اس خلا کو پُر کرنا شروع کردیا تھا۔1914 سے 1925 تک امریکا نے تجارت (ایکسپورٹ) سے 22 ارب 89 کروڑ 43 لاکھ 47 ہزار ڈالر کا سونا اکٹھا کرلیا۔ 1913 میں امریکا کے پاس گولڈ ریزرو 1290.0 ملین ڈالر تھا۔ 1914 سے 1924 تک یورپی ملکوں کے امریکی ڈالر ریزرو 845.0 ملین ڈالر تھے۔ 1928 میں بڑھ کر 2520.0 ملین ڈالر ہوگئے تھے۔ امریکا جو 1914 تک یورپی سامراجی ملکوں کے سامنے بونا تھا اور مقروض ملک تھا۔ اب یورپی ممالک امریکا کے سامنے بونے ملک اور مقروض ہوچکے تھے۔ امریکا سرمایہ داری کی شاطرانہ مالیاتی چالوں سے پورے یورپ کو جکڑ چکا تھا۔ صرف 1920 سے 1930 تک یورپی ملکوں کو کاغذی ڈالر 9 ارب 70 کروڑ 40 لاکھ ایکسپورٹ کرچکا تھا۔ دراصل امریکا چپ رہ کر کرنسی وار کرکے یورپی معیشت کو کاغذی ڈالر کے حملوں سے مفلوج کرچکا تھا۔

جب یورپی معیشت دانوں نے تجزیے کیے تو انھوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ ان کی معیشتوں میں کاغذی ڈالروں کا بوجھ غیر پیداواری اخراجاتی بوجھ ہے۔ تمام ملکوں نے کاغذی ڈالر امریکا کو واپس کرنے شروع کردیے۔ جب امریکا سے کاغذی ڈالروں کے بدلے سونا نکلتا گیا تو امریکا سمجھ گیا اگر ایسے جاری رہا تو امریکا سونے کی ادائیگی نہیں کرسکے گا اور امریکا کو امریکی ادارے یورپی ملکوں کے پیسہ گروی رکھنے پڑیں گے۔ کیونکہ امریکا بری طرح دیوالیہ ہوجاتا۔ امریکی تھنک ٹینک نے ایک خطرناک چال و سازش کھیلتے ہوئے 20 اپریل 1933 سے سونے کی ایکسپورٹ پر پابندی لگادی اور 25 اکتوبر 1933 کو ڈالر کی قیمت سونے کے مقابلے میں کم کرتے ہوئے 31.36 ڈالر کا ایک اونس سونا خریدنے کا اعلان کردیا۔

26 اکتوبر 1933 کو 31.54 ڈالر فی اونس سونا، 27 اکتوبر 1933 کو 31.76 ڈالر فی اونس سونا، 28 اکتوبر 1933 کو 31.82 ڈالر، 16 جنوری 1934 کو 35.00 ڈالر فی اونس سونا خریدنے کا اعلان کردیا۔ اس مالیاتی ہتھکنڈے، چال سے امریکا نے 1934 سے 1943 تک کاغذی ڈالروں کے عوض 17 ارب32 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کا سونا اکٹھا کرلیا تھا۔ یورپی معیشت کی رگوں میں کاغذی ڈالر کو تیزی سے داخل کردیا تھا۔ امریکا نے سونے کے مقابلے میں کاغذی ڈالر کی قیمت سونے کے مقابلے میں کمی 69 فیصد کرکے کاغذی ڈالروں کو مزید مضبوط کرلیا تھا۔

امریکی ڈالر سے جڑی یورپی ملکوں کی کرنسیوں کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں مزید 69 فیصد کم ہوگئی تھیں۔ 28 جولائی 1914 سے لے کر 15 دسمبر 1923 (9 سال، 4 ماہ، 18 دن) تک امریکا پورے یورپی ملکوں کو کاغذی ڈالرکا ''مالیاتی غلام'' بناچکا تھا۔ اس کے لیے امریکا نے عالمی سطح پر ڈالر کے مقابلے میں کرنسیوں کی قیمتیں مقررکرنے کے لیے Exchange Equalization Fund ادارہ بناکر قرضے دے کر کرنسیوں کی قیمتیں کاغذی ڈالرکے مقابلے میں کم کرنی شروع کردی تھیں۔ کتاب ''یورپین کرنسی اینڈ فنانس'' حصہ دوم کے صفحہ 95 پر لکھا ہے ''ڈنمارک نے جولائی 1923 کو 35 لاکھ ڈالر کا سونا امریکا بھیجا کہ امریکا ڈنمارک کی کرنسی Krone کرونی کی قیمت کو ڈالرکے مقابلے میں نہ گرائے۔ اسی کتاب کے صفحہ 287 پر لکھا ہے سوئٹزرلینڈ کی حکومت نے اگست 1923 کو نیویارک سے 2 کروڑ ڈالر کا قرضہ امریکا سے لیا کہ کرنسی Franc فرانک کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں کم نہ کی جائے۔

اسی کتاب کے صفحہ 3 پر لکھا ہے اٹلی نے جون 1925 کو امریکا سے 5 کروڑ ڈالر کا قرضہ کرنسی Lira لیرا کو ڈالر کے مقابلے میں گرنے سے روکنے کے لیے کیا تھا۔ بیلجیم نے جون 1925 میں 5 کروڑ ڈالر کا قرضہ لیا کہ بیلجیم کی کرنسی فرانک کی قیمت کو ڈالر کے مقابلے میں کم نہ کرنے کے لیے کیا تھا۔ اسی طرح ناروے نے 1915 سے 1924 تک امریکا سے 81 کروڑ 13 لاکھ 56 ہزار ڈالر کا قرضہ لیا۔ پولینڈ نے جون 1924 کو 72 کروڑ52 لاکھ ڈالر کا قرضہ لیا۔ کتاب "Rivision of the Treaty, Being a Sequel to the Economic Consequence of the Pace" by J.M. Parke Young 1922 کے صفحہ 219 پر درج ہے کہ ''جولائی 1921 کو امریکا نے 19 یورپی ملکوں کو 11 ارب 8 کروڑ 47 لاکھ 67 ہزار 5 سو 75 ڈالر کا قرضہ دیا۔ کتاب ''انٹرنیشنل اکانومی'' جس کے جان پارک ینگ نے 1963 میں لکھا اس کے صفحہ 543-44 پر درج ہے کہ امریکا نے 1914 سے لے کر جون 1931 تک جو قرضے دیے تھے ان قرضوں پر صرف سود کی مد میں 2 ارب 80 کروڑ ڈالر وصول کیے تھے۔ اس طرح امریکا جو 1850 میں بھوکا ننگا اور فرانس کا ایک لاکھ اور 95 ہزار ڈالر کا مقروض ملک تھا، مالیاتی ہیرا پھیری اور ہتھکنڈوں سے امیر ملک بنتا گیا۔

دوسری عالمی جنگ یکم ستمبر 1939 سے 14 اگست 1945 تک رہی۔ اس جنگ میں امریکا نے 6 اور 19 اگست 1945 کو جاپانی شہر ''ہیرو شیما'' اور ''ناگاساکی'' پر ایٹم بم گرا کر اپنی شیطانی قوت کا مظاہرہ کیا۔ امریکا دوسری عالمی جنگ میں 7 دسمبر 1941 کو 2 سال 3 ماہ 6 دن بعد شریک ہوا تھا۔ (جاری ہے)
Load Next Story