بلوچستان کمیٹی کا مختصر دورہ سیاسی حلقوں کی طرف سے عدم اطمینان
وفاقی وزیر سید نوید قمر کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کے حل...
وزیراعظم پاکستان راجہ پرویزاشرف کی ہدایت پر بلوچستان کے حوالے سے وفاقی وزیر نوید قمر کی سربراہی میں قائم کابینہ کی خصوصی کمیٹی نے بالاخر گذشتہ دنوں صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کا مختصر دورہ کیا اور چند گھنٹے کوئٹہ میں قیام کے دوران مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے ملاقاتیں کیں۔ اس خصوصی کمیٹی نے صرف 6 گھنٹے تک کوئٹہ میں قیام کیا یعنی سالوں سے پیدا ہونے والے مسائل کو گھنٹوں میں حل کرنے کی کوشش کی ۔کمیٹی کا بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نیشنل پارٹی، بی این پی (مینگل) اور بعض دیگر نے بائیکاٹ کیا۔
بلوچستان کی مختلف سیاسی و قوم پرست جماعتوں نے وفاقی کابینہ کی خصوصی کمیٹی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ چند گھنٹوں میں صوبے کا اتنا گھمبیر مسئلہ حل نہیں ہوسکتا مسائل کے حل کیلئے سنجیدگی اور خلوص نیت کا ہونا ضروری ہے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک میز پر بٹھا کر کئی دنوں تک سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ صرف پارلیمانی پارٹیوں سے ملاقاتیں کرکے مسئلہ حل نہیں کیا جاسکتا جب تک ان ناراض دوستوں سے بات نہ کی جائے جو رویوں کے باعث لڑنے پر آمادہ ہوئے ہیں۔ خصوصی کمیٹی کے چیئرمین وفاقی وزیر سید نوید قمر کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کے حل کیلئے پیپلز پارٹی کی حکومت سنجیدہ ہے اور مسئلے کے حل کیلئے تمام لوگوں سے بات کی جائے گی اگر یہ کمیٹی بے اختیار ہوتی تو یہاں آنے کے بجائے آئندہ انتخابات کی تیاری کیلئے مہم چلاتے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کمیٹی نے یہاں آکر مختلف سیاسی جماعتوں ، وکلاء تنظیموں، ڈاکٹروں، تاجروں اور دیگر سے ملاقاتیں کرکے تجاویز لی ہیں ۔
جن جماعتوں سے ملاقاتیں نہیں ہوئیں ان سے رابطے ہیں ۔
بعض سیاسی حلقے بلوچستان کے حوالے سے کابینہ کی قائم اس خصوصی کمیٹی پر زبردست تنقید کر رہے ہیں۔ان حلقوں کا کہنا ہے کہ ساڑھے چار سال کے دوران موجودہ حکمرانوں نے اس مسئلے کو اُس طرح سے سنجیدہ نہیں لیا جس طرح سے لینا چاہیے تھا ۔اب جب موجودہ حکومت کے پاس وقت ہی بہت کم رہ گیا ہے اُس نے ایسے ہاتھ پائوں مارنا شروع کردیئے ہیں جیسے وہ اس مسئلے کے حل میں انتہائی سنجیدہ ہے۔ ان سیاسی حلقوں کے مطابق ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر حکومت بلوچستان کے مسئلے کو واقعی حل کرنے میں سنجیدہ ہے تو وہ ان لوگوں سے جن کے پاس اختیار ہے اختیار لے کر صوبے کے گورنر اور وزیراعلیٰ کو مینڈیٹ دیں اور انہیں بااختیار بنائیں تاکہ وہ مذاکرات کیلئے ماحول کو سازگار بنائیں پھر کوئی بات ہوسکتی ہے۔
دوسری جانب ڈیرہ اﷲ یار کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت نے سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی و سابق رکن صوبائی اسمبلی میر ظہور حسین کھوسہ کو جعلی ڈگری کیس میں دو سال قید اور50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ واضح رہے کہ پی پی پی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر میر عبدالرحمان جمالی نے میر ظہور حسین کھوسہ کے خلاف جعلی ڈگری کے حوالے سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس پر30 جولائی2010ء کو سپریم کورٹ نے میر ظہور حسین کھوسہ کو نا اہل قرار دے کر ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا ۔ڈپٹی الیکشن آفیسر محمد افضل کی مدعیت میں29 ستمبر 2011ء کو ڈیرہ اﷲ یار پولیس تھانہ میں97(3) - 82-199-200-471 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا جس پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت نے انہیں دو سال قید اور50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی ۔ سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان اسمبلی میں اور بھی بہت سے ارکان جعلی ڈگریوں کے باعث بیٹھے ہیں۔لہٰذا بلا تفریق کارروائی کی جانی چاہیے ۔
سابق وزیراعلیٰ و گورنر بلوچستان اور معروف بزرگ رہنما نواب اکبر خان بگٹی شہید کی چھٹی برسی کے موقع پر بلوچستان بھر میں پہیہ جام اور شٹر ڈائون ہڑتال کے ساتھ ساتھ یوم سیاہ منایا گیا۔ نواب اکبر خان بگٹی کے قتل کے حوالے سے بلوچستان ہائی کورٹ میں کیس زیر سماعت ہے جبکہ اس کیس میں نامزد ملزمان جس میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف، سابق وزیراعظم شوکت عزیز، سابق گورنر اویس غنی، سابق وزیراعلیٰ جام محمد یوسف، سابق وفاقی وزیر داخلہ آفتاب شیر پائو سمیت دیگر کے خلاف سبی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ایک دفعہ پھر وارنٹ گرفتاری جاری کئے تاہم سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام محمد یوسف اور سابق وزیر داخلہ شعیب نوشیروانی نے اپنی ضمانتیں اس کیس میں کروارکھی ہیں۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کا احساس محرومی ختم کرنے کیلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کیس میں جلد از جلد پیش رفت کی جائے۔ سابق وزیراعظم پاکستان اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف نے بھی ایک مرتبہ پھر یہ مطالبہ کیا ہے کہ نواب اکبر خان بگٹی شہید کے قاتلوں کو جلداز جلد گرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
بلوچستان کی مختلف سیاسی و قوم پرست جماعتوں نے وفاقی کابینہ کی خصوصی کمیٹی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ چند گھنٹوں میں صوبے کا اتنا گھمبیر مسئلہ حل نہیں ہوسکتا مسائل کے حل کیلئے سنجیدگی اور خلوص نیت کا ہونا ضروری ہے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک میز پر بٹھا کر کئی دنوں تک سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ صرف پارلیمانی پارٹیوں سے ملاقاتیں کرکے مسئلہ حل نہیں کیا جاسکتا جب تک ان ناراض دوستوں سے بات نہ کی جائے جو رویوں کے باعث لڑنے پر آمادہ ہوئے ہیں۔ خصوصی کمیٹی کے چیئرمین وفاقی وزیر سید نوید قمر کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کے حل کیلئے پیپلز پارٹی کی حکومت سنجیدہ ہے اور مسئلے کے حل کیلئے تمام لوگوں سے بات کی جائے گی اگر یہ کمیٹی بے اختیار ہوتی تو یہاں آنے کے بجائے آئندہ انتخابات کی تیاری کیلئے مہم چلاتے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کمیٹی نے یہاں آکر مختلف سیاسی جماعتوں ، وکلاء تنظیموں، ڈاکٹروں، تاجروں اور دیگر سے ملاقاتیں کرکے تجاویز لی ہیں ۔
جن جماعتوں سے ملاقاتیں نہیں ہوئیں ان سے رابطے ہیں ۔
بعض سیاسی حلقے بلوچستان کے حوالے سے کابینہ کی قائم اس خصوصی کمیٹی پر زبردست تنقید کر رہے ہیں۔ان حلقوں کا کہنا ہے کہ ساڑھے چار سال کے دوران موجودہ حکمرانوں نے اس مسئلے کو اُس طرح سے سنجیدہ نہیں لیا جس طرح سے لینا چاہیے تھا ۔اب جب موجودہ حکومت کے پاس وقت ہی بہت کم رہ گیا ہے اُس نے ایسے ہاتھ پائوں مارنا شروع کردیئے ہیں جیسے وہ اس مسئلے کے حل میں انتہائی سنجیدہ ہے۔ ان سیاسی حلقوں کے مطابق ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر حکومت بلوچستان کے مسئلے کو واقعی حل کرنے میں سنجیدہ ہے تو وہ ان لوگوں سے جن کے پاس اختیار ہے اختیار لے کر صوبے کے گورنر اور وزیراعلیٰ کو مینڈیٹ دیں اور انہیں بااختیار بنائیں تاکہ وہ مذاکرات کیلئے ماحول کو سازگار بنائیں پھر کوئی بات ہوسکتی ہے۔
دوسری جانب ڈیرہ اﷲ یار کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت نے سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی و سابق رکن صوبائی اسمبلی میر ظہور حسین کھوسہ کو جعلی ڈگری کیس میں دو سال قید اور50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ واضح رہے کہ پی پی پی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر میر عبدالرحمان جمالی نے میر ظہور حسین کھوسہ کے خلاف جعلی ڈگری کے حوالے سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس پر30 جولائی2010ء کو سپریم کورٹ نے میر ظہور حسین کھوسہ کو نا اہل قرار دے کر ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا ۔ڈپٹی الیکشن آفیسر محمد افضل کی مدعیت میں29 ستمبر 2011ء کو ڈیرہ اﷲ یار پولیس تھانہ میں97(3) - 82-199-200-471 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا جس پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت نے انہیں دو سال قید اور50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی ۔ سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان اسمبلی میں اور بھی بہت سے ارکان جعلی ڈگریوں کے باعث بیٹھے ہیں۔لہٰذا بلا تفریق کارروائی کی جانی چاہیے ۔
سابق وزیراعلیٰ و گورنر بلوچستان اور معروف بزرگ رہنما نواب اکبر خان بگٹی شہید کی چھٹی برسی کے موقع پر بلوچستان بھر میں پہیہ جام اور شٹر ڈائون ہڑتال کے ساتھ ساتھ یوم سیاہ منایا گیا۔ نواب اکبر خان بگٹی کے قتل کے حوالے سے بلوچستان ہائی کورٹ میں کیس زیر سماعت ہے جبکہ اس کیس میں نامزد ملزمان جس میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف، سابق وزیراعظم شوکت عزیز، سابق گورنر اویس غنی، سابق وزیراعلیٰ جام محمد یوسف، سابق وفاقی وزیر داخلہ آفتاب شیر پائو سمیت دیگر کے خلاف سبی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ایک دفعہ پھر وارنٹ گرفتاری جاری کئے تاہم سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام محمد یوسف اور سابق وزیر داخلہ شعیب نوشیروانی نے اپنی ضمانتیں اس کیس میں کروارکھی ہیں۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کا احساس محرومی ختم کرنے کیلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کیس میں جلد از جلد پیش رفت کی جائے۔ سابق وزیراعظم پاکستان اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف نے بھی ایک مرتبہ پھر یہ مطالبہ کیا ہے کہ نواب اکبر خان بگٹی شہید کے قاتلوں کو جلداز جلد گرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔