گولن گول ہائیڈرو پاور پروجیکٹ تاخیر کا شکار لاگت بڑھ گئی ٹرانسپیرنسی
واپڈا اور رین پاورکاگٹھ جوڑ، پرانے ٹینڈر بحال کرانیکی کوشش کی جا رہی ہے، وفاقی وزیر پانی وبجلی کو خط
گولن گول ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے پروکیورمنٹ عمل میں پبلک پروکیورمنٹ رولز 2004 کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
جس سے قومی خزانے کو 20 ارب روپے کا نقصان ہو سکتا ہے ، مذکورہ بالا پروکیورمنٹ میں کرپشن کے حوالے سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشل پاکستان نے 31 اگست 2012 کو اس وقت کے وزیراعظم کو جو خط لکھا تھا، ٹرانسپیرنسی نے اس حوالے سے اب وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی خواجہ محمد آصف کو ایک خط لکھا ہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ واپڈا نے 5 ستمبر 2012 کو مذکورہ بالا الزامات کی تردید شائع کرائی، جس میں وضاحت کی گئی کہ مذکورہ لاٹ کی بولی کا معیار بولی کی دستاویزات کے مطابق تھا اور اس سلسلہ میں رولز کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔
اس حوالے سے نیب نے اپنے 15 ستمبر 2012 کے خط میں واپڈا کو ٹینڈر منسوخ کرکے نئے ٹینڈر طلب کرنے کا کہا، اس حوالے سے اب شکایت موصول ہوئی ہے کہ واپڈا کی طرف سے نئے ٹینڈرز اپریل 2013 کو طلب کیے گئے تھے جو 30 مئی کو کھلنے تھے،لیکن واپڈا نے بغیر کسی وجہ کے 24 جون تک ملتوی کر دیے، پھر اس دن شرکاء کو بتایا گیا کہ ٹینڈرز 4 جولائی کو کھلیں گے، لیکن ٹینڈر کھلنے کی تاریخ میں چار بار توسیع ہو چکی اور اب27 ستمبر کو ٹینڈرز کھلیں گے، شکایت کنندہ نے مزید الزام لگایا ہے کہ پبلک پروکیورمنٹ رولز کے برعکس وزارت پانی و بجلی، واپڈا کے ذریعے منسوخ کی گئی بولی بحال کرانے کی کوشش کر رہی ہے، یہ بولی 2011 میں میسرز رین پاور/ الفجر جے وی کو الاٹ کی گئی تھی، مذکورہ شکایت کے تفصیلی حقائق اس طرح ہیں۔
واپڈا نے گولن گول ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، لاٹ 3.2 ای اینڈ ایم ورکس کی بولی اگست 13 میں چوتھی مرتبہ ملتوی کی گئی، 7 اگست کو وزارت پانی و بجلی نے ڈپٹی چیئرمین نیب کو ایک چٹھی لکھی جس میں گذارش کی گئی کہ واپڈا کو 10 ماہ پرانے ( 15 اکتوبر 2012) کے فیصلہ کا دوبارہ جائزہ لینے اور اس وقت کے معاہدے پر عملدرآمد کرنے کی اجازت دی جائے، کیونکہ نئے ٹینڈر کے عمل سے منصوبہ مزید ایک سال تاخیر کا شکار ہوسکتا ہے، نیب نے 20 اگست کو خط کو جواب سیکرٹری پانی و بجلی کو بھجوا دیا جس میں ہدایت کی گئی کہ واپڈا پیپرا کے رولز پر عملدرآمدکرتے ہوئے شفافیت یقینی بنائے، نیب کی 20 اگست کی چٹھی موصول ہونے کے بعد واپڈا نے 26 اگست کوٹینڈرکھولنے کی تاریخ 27 ستمبر تک بڑھا دی، اس حوالے سے ٹی آئی پی نے وفاقی وزیر کو جن نکات پر غور کرنے کو مشورہ دیا ہے۔
وہ درج ذیل ہیں، سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف اور نیب کی مداخلت پر اکتوبر 2012 میںٹینڈر منسوخ کر دیا گیا اور اپریل 2013 میں نئے ٹینڈر طلب کیے گئے، ٹینڈر دوبارہ طلب کرنے میں 6 ماہ کی تاخیر کی گئی جس سے منصوبہ بھی 6 ماہ تاخیر کا شکار ہو گیا، رول نمبر 26 کے مطابق توسیع ایک مرتبہ سے زیادہ بار نہیں دی جا سکتی، لہذا پرانی بولی 2013 میں قابل عمل نہیں ہے، جون میں ٹینڈر نہ کھولنے کا ذمے دار واپڈا ہے ، اس کو پتہ تھا کہ اس سے پروجیکٹ مزید تاخیر کا شکار ہو جائے گا، جس سے منصوبے کی لاگت بڑھے گی اور قومی خزانے کو نقصان ہو گا، وزارت پانی و بجلی افسران اس سب کے ذاتی طور پر ذمے دار ہیں، پیپرا کے رولز 33 اور34 کیمطابق نئے ٹینڈر پرانے ٹینڈر منسوخ کرکے ہی طلب کیے جا سکتے ہیں، پھروزارت پانی و بجلی افسران نے پرانے ٹینڈر بحال کرنے کیلیے کس رول کے تحت استدعا کی ہے، پھر وزارت پانی و بجلی نے نیب کو 7 اگست کے لیٹر میںکیوں نہیں بتایا کہ وہ ٹینڈر طلب کرچکے ہیں۔
نیب نے اپنی نئی چٹھی میں اپنے 10 اکتوبر 2012 کے موقف کی توثیق کر دی ہے کہ پبلک پروکیورمنٹ رولز 2004 کی پاسداری کی جائے، واپڈا کی طرف سے ٹینڈر میں مزید ایک ماہ کی توسیع حیران کن ہے کیونکہ رولز 23 کے تحت صرف ایک بار توسیع کی جاسکتی ہے، واپڈا کی غیرقانونی اور ناکام کوشش کی وجہ سے پروجیکٹ میں دو سال کی تاخیر ہوگئی جس سے اس کی لاگت 30 ارب سے بڑھ 45 ارب تک پہلے ہی پہنچ چکی ہے، وزارت پانی و بجلی اور میسرز رین پاور کے گٹھ جوڑ سے پروجیکٹ کی اضافی لاگت پاکستانی شہریوںکو دینا پڑے گی، اس شکایت سے لگتا ہے کہ نئی حکومت واپڈا کی کار گزاری میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکی، ٹرانسپیرنسی نے وفاقی وزیر سے درخواست کی ہے کہ واپڈا کو پیپرا رولز کا پابند بنایا جائے، فوری طور پر ٹینڈر کھلوائے جائیں اور اس منصوبے میں دو سال کی تاخیر پر وزارت پانی و بجلی اور واپڈا کے افسران کا احتساب کیا جائے۔
جس سے قومی خزانے کو 20 ارب روپے کا نقصان ہو سکتا ہے ، مذکورہ بالا پروکیورمنٹ میں کرپشن کے حوالے سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشل پاکستان نے 31 اگست 2012 کو اس وقت کے وزیراعظم کو جو خط لکھا تھا، ٹرانسپیرنسی نے اس حوالے سے اب وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی خواجہ محمد آصف کو ایک خط لکھا ہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ واپڈا نے 5 ستمبر 2012 کو مذکورہ بالا الزامات کی تردید شائع کرائی، جس میں وضاحت کی گئی کہ مذکورہ لاٹ کی بولی کا معیار بولی کی دستاویزات کے مطابق تھا اور اس سلسلہ میں رولز کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔
اس حوالے سے نیب نے اپنے 15 ستمبر 2012 کے خط میں واپڈا کو ٹینڈر منسوخ کرکے نئے ٹینڈر طلب کرنے کا کہا، اس حوالے سے اب شکایت موصول ہوئی ہے کہ واپڈا کی طرف سے نئے ٹینڈرز اپریل 2013 کو طلب کیے گئے تھے جو 30 مئی کو کھلنے تھے،لیکن واپڈا نے بغیر کسی وجہ کے 24 جون تک ملتوی کر دیے، پھر اس دن شرکاء کو بتایا گیا کہ ٹینڈرز 4 جولائی کو کھلیں گے، لیکن ٹینڈر کھلنے کی تاریخ میں چار بار توسیع ہو چکی اور اب27 ستمبر کو ٹینڈرز کھلیں گے، شکایت کنندہ نے مزید الزام لگایا ہے کہ پبلک پروکیورمنٹ رولز کے برعکس وزارت پانی و بجلی، واپڈا کے ذریعے منسوخ کی گئی بولی بحال کرانے کی کوشش کر رہی ہے، یہ بولی 2011 میں میسرز رین پاور/ الفجر جے وی کو الاٹ کی گئی تھی، مذکورہ شکایت کے تفصیلی حقائق اس طرح ہیں۔
واپڈا نے گولن گول ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، لاٹ 3.2 ای اینڈ ایم ورکس کی بولی اگست 13 میں چوتھی مرتبہ ملتوی کی گئی، 7 اگست کو وزارت پانی و بجلی نے ڈپٹی چیئرمین نیب کو ایک چٹھی لکھی جس میں گذارش کی گئی کہ واپڈا کو 10 ماہ پرانے ( 15 اکتوبر 2012) کے فیصلہ کا دوبارہ جائزہ لینے اور اس وقت کے معاہدے پر عملدرآمد کرنے کی اجازت دی جائے، کیونکہ نئے ٹینڈر کے عمل سے منصوبہ مزید ایک سال تاخیر کا شکار ہوسکتا ہے، نیب نے 20 اگست کو خط کو جواب سیکرٹری پانی و بجلی کو بھجوا دیا جس میں ہدایت کی گئی کہ واپڈا پیپرا کے رولز پر عملدرآمدکرتے ہوئے شفافیت یقینی بنائے، نیب کی 20 اگست کی چٹھی موصول ہونے کے بعد واپڈا نے 26 اگست کوٹینڈرکھولنے کی تاریخ 27 ستمبر تک بڑھا دی، اس حوالے سے ٹی آئی پی نے وفاقی وزیر کو جن نکات پر غور کرنے کو مشورہ دیا ہے۔
وہ درج ذیل ہیں، سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف اور نیب کی مداخلت پر اکتوبر 2012 میںٹینڈر منسوخ کر دیا گیا اور اپریل 2013 میں نئے ٹینڈر طلب کیے گئے، ٹینڈر دوبارہ طلب کرنے میں 6 ماہ کی تاخیر کی گئی جس سے منصوبہ بھی 6 ماہ تاخیر کا شکار ہو گیا، رول نمبر 26 کے مطابق توسیع ایک مرتبہ سے زیادہ بار نہیں دی جا سکتی، لہذا پرانی بولی 2013 میں قابل عمل نہیں ہے، جون میں ٹینڈر نہ کھولنے کا ذمے دار واپڈا ہے ، اس کو پتہ تھا کہ اس سے پروجیکٹ مزید تاخیر کا شکار ہو جائے گا، جس سے منصوبے کی لاگت بڑھے گی اور قومی خزانے کو نقصان ہو گا، وزارت پانی و بجلی افسران اس سب کے ذاتی طور پر ذمے دار ہیں، پیپرا کے رولز 33 اور34 کیمطابق نئے ٹینڈر پرانے ٹینڈر منسوخ کرکے ہی طلب کیے جا سکتے ہیں، پھروزارت پانی و بجلی افسران نے پرانے ٹینڈر بحال کرنے کیلیے کس رول کے تحت استدعا کی ہے، پھر وزارت پانی و بجلی نے نیب کو 7 اگست کے لیٹر میںکیوں نہیں بتایا کہ وہ ٹینڈر طلب کرچکے ہیں۔
نیب نے اپنی نئی چٹھی میں اپنے 10 اکتوبر 2012 کے موقف کی توثیق کر دی ہے کہ پبلک پروکیورمنٹ رولز 2004 کی پاسداری کی جائے، واپڈا کی طرف سے ٹینڈر میں مزید ایک ماہ کی توسیع حیران کن ہے کیونکہ رولز 23 کے تحت صرف ایک بار توسیع کی جاسکتی ہے، واپڈا کی غیرقانونی اور ناکام کوشش کی وجہ سے پروجیکٹ میں دو سال کی تاخیر ہوگئی جس سے اس کی لاگت 30 ارب سے بڑھ 45 ارب تک پہلے ہی پہنچ چکی ہے، وزارت پانی و بجلی اور میسرز رین پاور کے گٹھ جوڑ سے پروجیکٹ کی اضافی لاگت پاکستانی شہریوںکو دینا پڑے گی، اس شکایت سے لگتا ہے کہ نئی حکومت واپڈا کی کار گزاری میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکی، ٹرانسپیرنسی نے وفاقی وزیر سے درخواست کی ہے کہ واپڈا کو پیپرا رولز کا پابند بنایا جائے، فوری طور پر ٹینڈر کھلوائے جائیں اور اس منصوبے میں دو سال کی تاخیر پر وزارت پانی و بجلی اور واپڈا کے افسران کا احتساب کیا جائے۔