آگاہی کا لولی پوپ
اس سارے مقدمے میں بچے کہیں بھی ملزم نہیں نہ ان کی اصلاح کی ضرورت ہے نہ آگاہی کی۔
پاکستان میں گزشتہ کئی سال سے وقفے وقفے سے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں، جس میں کوئی نہ کوئی جنسی جنونی کسی معصوم بچی کو ہوس کا نشانہ بناتا ہے اور پھر اپنی شناخت کے ظاہر ہونے کے خوف سے بچے یا بچی کو قتل کر کے لاش پھینک دی جاتی ہے۔ یہ واقعات بڑے تسلسل سے ہو رہے ہیں کچھ مشکوک افراد پکڑے بھی جاتے ہیں، کبھی کبھی مجرم بھی گرفت میں آ جاتا ہے مگر آج تک کسی مجرم کو عبرت ناک سزا نہیں دی گئی۔
ان گھناؤنے جرائم کے مسلسل واقع ہوتے رہنے کے سبب حکومتی ارکان مجرموں کو سخت سے سخت سزا دینے کا اعلان کرتے ہیں۔ اپوزیشن متاثرہ خاندان سے یکجہتی کا اظہارکرتی ہے، بچی کے گھر جاتی ہے ، فاتحہ خوانی کرتی ہے اور اپنے گھر آ کر سارے واقعے کو فراموش کردیتی ہے۔
ایسے واقعات ہمارے پڑوسی ملک میں بھی ہوتے رہتے ہیں ، انھوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ 4 سے 10 سال تک کے بچوں کو ایسی آگاہی فراہم کی جائے کہ اگر کوئی شخص جو ماں باپ یا بھائی بہن نہ ہو اور ان کے جسم کے بعض اعضا کو چھونے کی کوشش کرے تو یہ فوراً چلا اٹھیں تاکہ آس پاس کے لوگ جمع ہو کر ان کی داد رسی کر سکیں۔
ہمارے دیس کے بزرجمہوروں نے بھی یہی آسان نسخہ استعمال کرنا ضروری سمجھا، جب کسی قوم میں فکر و عمل کے سوتے خشک ہو جاتے ہیں تو وہ خود سے کسی مسئلے کا کوئی حل نہیں نکال پاتے۔ بس کسی نہ کسی کی تقلید میں عافیت جانتے ہیں۔ بھارت میں نونہالوں کو گھناؤنے جنسی جرائم سے بچانے کے لیے ان کو ان سے آگاہی فراہم کی جا رہی ہے۔
ہماری آنکھیں اس پروگرام کو دیکھنے کی گناہگار نہیں ہیں مگر جن لوگوں نے پاکستان کے ایک موقر چینل پر یہ پروگرام دیکھا انھوں نے بتایا کہ چینل مذکور نے بھارت کے مشہور فلمی اداکار سلمان خان کا یہ آگہی پروگرام نشر کیا جس میں سلمان خان 4 سے 6 سال کے معصوم بچوں کو آگاہ کر رہے ہیں ان کے جسم کے بعض حصے بڑے Dangerous (خطرناک) ہوتے ہیں اور یہ حصے کولھے، سینہ اور ٹانگوں کے درمیانی حصے ہیں اگرکوئی انھیں چھونے کی کوشش کرے تو آپ فوراً چلا اٹھیں۔
ہندوستان کے بقراطوں نے مسئلے کا یہ حل نکالا اور پاکستان کے ''دانشوروں'' نے اس حل پر آمنا و صدقنا کہہ کر عمل شروع کر دیا۔ حالانکہ یہ بالکل الٹی گنگا بہانے کے مترادف ہے۔ معصوم بچے Dangerous کے معنی خطرناک سمجھیں گے اور انھیں خیال ہو گا کہ کیا ان کے جسم کے ان حصوں پر بم بندھے ہیں جو پھٹ پڑیں گے اور اس لیے ان کو چلانا شروع کر دینا چاہیے۔
دراصل بیماری تو بچوں میں ہے نہ ان کو آگاہی کی ضرورت ہے۔ یہ مرض ہمارے مردوں میں جنسی بے راہ روی سے بڑھ کر درندگی تک پہنچ چکا ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے مجرموں کو فوراً گرفتار کیا جائے اور پولیس کو رشوت وصول کرنے سے قبل ان کی ایف آئی آر درج کر کے نتیجہ خیز کارروائی کرنی چاہیے۔ مقدمے کو قانون کے خلاؤں سے محفوظ رکھ کر سرسری سماعت کی عدالتوں کے ذریعے ایسے لوگوں کو سرعام سزا دی جائے، دو چار سزاؤں کے بعد ہی جرائم میں کمی واقع ہو گی اور دھیرے دھیرے لوگ خوفزدہ ہو کر جنسی جنون کے لیے کوئی اور راہ اختیار کریں گے۔ مگر ہم نے قسم کھا لی ہے کہ ہم ایسا کوئی اقدام نہیں کریں گے بس بھارت کی تقلید اس مسئلے کا حل نکالتے رہیں گے۔
اس سارے معاملے کے چند پہلو اور ہیں۔ ہمارے بچپن میں تقریباً ہر گھر میں چار چھ مرغیاں پلی ہوتی تھیں وہ انڈے دیتی تھیں کچھ انڈے کھا لیے جاتے تھے کچھ لوگ بچے انڈے بیچ دیتے مگر جب مرغیاں کڑک ہوتیں تو ان کو انڈے فراہم کیے جاتے۔ وہ ان کو سہتی تھیں بچے نکلتے تھے سال چھ ماہ میں بچے بالغ ہوتے کچھ تو پھر افزائش کا سبب بنتے اور کچھ ذبح کر لیے جاتے، جن کے یہاں مرغیاں زیادہ ہوتیں ، ان کے یہاں پر کبھی مرغی پکتی اور وہ امیر آدمی خیال کیے جاتے مگر ان کی یہ امارت سال دو سال میں جا کر مکمل ہوتی۔
اب بھلا ہو سائنسی علوم کا اب نہ افزائش نسل کے لیے مرغ کی ضرورت باقی رہی ، نہ مرغی کو بلوغت تک پہنچنے کے لیے مہینوں انتظار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب کچھ کیمیائی خوراک اور کچھ نشو و نما و افزائش کے انجکشن کے طفیل میں صرف چند ہفتوں میں مرغیاں بالغ ہو جاتی ہیں اور بڑی تعداد میں مرغبانی ہوتی ہے ۔
ولیمے کی تقریب میں صرف مرغ کا گوشت مختلف شکلوں میں استعمال ہوتا ہے۔ بعض صورتوں میں اپنے مضر اثرات بھی چھوڑ جاتا ہے مگر شریک دعوت سے داد و تحسین حاصل کرتا ہے۔
ہم اپنے نونہالوں کے ساتھ وہی عمل کر رہے ہیں جو مرغبانی کے ماہرین مرغیوں اور مرغوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ اب بچوں کو مصنوعی طور پر بلا ضرورت جنسی اعضا، ان کی نزاکت، ان کے افعال اور ان کی حفاظت کے ذرایع سکھا کر انھیں قبل از وقت بالغ کروایا جا رہا ہے۔ وہ معصوم سمجھ نہیں پاتے تو انھیں سمجھایا جاتا ہے اور انھیں مقامات کو چھو کر سمجھایا جاتا ہے، جن کو چھونا منع ہے۔
اس سارے معاملے کا ایک اور خطرناک پہلو بھی ہے۔ اپنے ماں باپ، بھائی بہن کو استثنا دے دیا ہے مگر ہماری تہذیبی روایت ہے چچا، چچازاد، ماموں زاد اور خالہ زاد بھی بچوں کو گود میں لیتے پیار کرتے انھیں ان کی پسندیدہ چیزیں دلاتے ہیں آپ کی اس آگہی کی تعلیم کے نتیجے میں رشتوں کا تقدس، محلہ داری کے حقوق و فرائض اور انسانی محبتوں کا گلا گھونٹ دیا جائے گا۔ رشتہ تو چھوڑیے آپ نے دیکھا ہو گا کہ بعض بچے بہت پیارے ہوتے ہیں اور پیاری پیاری حرکتیں کرتے ہیں تو شاپنگ مال میں اجنبی شخص بھی ان کے گال نوچ لیتا یا ان سے محبت کا اظہار کر دیتا ہے آپ یہ سب فطری دروازے ایک غیر فطری رویے کی خاطر بند کر دینا چاہتے ہیں۔
اس سارے مقدمے میں بچے کہیں بھی ملزم نہیں نہ ان کی اصلاح کی ضرورت ہے نہ آگاہی کی۔ ضرورت ہے اس بات کی جو جنسی انارکی آپ کے معاشرے میں پھیل رہی ہے اور جسے پھیلانے میں آپ کے چینل پیش پیش ہیں ان پر قدغن لگائی جائے۔ اگر پروگرام کو مولویانہ بنانا جرم ہے تو کم از کم شعائر اسلامی کے مطابق رکھیں تا کہ نوجوان خصوصاً وہ جن میں جنسی جرائم کی طرف رغبت زیادہ ہے اس طرف ملتفت نہ ہو سکیں۔
جنسی انارکی کو روکنے کے بجائے بچوں کو آگاہی فراہم کرنے کے کام میں اپنی وقت بھی برباد کریں گے اور قومی غیرت و حمیت کو بھی پامال کریں گے۔
سرکاری سطح پر ان جرائم کے ارتکاب پر خصوصی عدالتوں میں مقدمہ چلا کر مجرموں کو عبرت ناک سزائیں دینا ضروری ہے۔ آپ معاشرے کو آگاہی کا ''لولی پوپ'' دے کر کوئی نتائج حاصل نہیں کر سکتے۔
ان گھناؤنے جرائم کے مسلسل واقع ہوتے رہنے کے سبب حکومتی ارکان مجرموں کو سخت سے سخت سزا دینے کا اعلان کرتے ہیں۔ اپوزیشن متاثرہ خاندان سے یکجہتی کا اظہارکرتی ہے، بچی کے گھر جاتی ہے ، فاتحہ خوانی کرتی ہے اور اپنے گھر آ کر سارے واقعے کو فراموش کردیتی ہے۔
ایسے واقعات ہمارے پڑوسی ملک میں بھی ہوتے رہتے ہیں ، انھوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ 4 سے 10 سال تک کے بچوں کو ایسی آگاہی فراہم کی جائے کہ اگر کوئی شخص جو ماں باپ یا بھائی بہن نہ ہو اور ان کے جسم کے بعض اعضا کو چھونے کی کوشش کرے تو یہ فوراً چلا اٹھیں تاکہ آس پاس کے لوگ جمع ہو کر ان کی داد رسی کر سکیں۔
ہمارے دیس کے بزرجمہوروں نے بھی یہی آسان نسخہ استعمال کرنا ضروری سمجھا، جب کسی قوم میں فکر و عمل کے سوتے خشک ہو جاتے ہیں تو وہ خود سے کسی مسئلے کا کوئی حل نہیں نکال پاتے۔ بس کسی نہ کسی کی تقلید میں عافیت جانتے ہیں۔ بھارت میں نونہالوں کو گھناؤنے جنسی جرائم سے بچانے کے لیے ان کو ان سے آگاہی فراہم کی جا رہی ہے۔
ہماری آنکھیں اس پروگرام کو دیکھنے کی گناہگار نہیں ہیں مگر جن لوگوں نے پاکستان کے ایک موقر چینل پر یہ پروگرام دیکھا انھوں نے بتایا کہ چینل مذکور نے بھارت کے مشہور فلمی اداکار سلمان خان کا یہ آگہی پروگرام نشر کیا جس میں سلمان خان 4 سے 6 سال کے معصوم بچوں کو آگاہ کر رہے ہیں ان کے جسم کے بعض حصے بڑے Dangerous (خطرناک) ہوتے ہیں اور یہ حصے کولھے، سینہ اور ٹانگوں کے درمیانی حصے ہیں اگرکوئی انھیں چھونے کی کوشش کرے تو آپ فوراً چلا اٹھیں۔
ہندوستان کے بقراطوں نے مسئلے کا یہ حل نکالا اور پاکستان کے ''دانشوروں'' نے اس حل پر آمنا و صدقنا کہہ کر عمل شروع کر دیا۔ حالانکہ یہ بالکل الٹی گنگا بہانے کے مترادف ہے۔ معصوم بچے Dangerous کے معنی خطرناک سمجھیں گے اور انھیں خیال ہو گا کہ کیا ان کے جسم کے ان حصوں پر بم بندھے ہیں جو پھٹ پڑیں گے اور اس لیے ان کو چلانا شروع کر دینا چاہیے۔
دراصل بیماری تو بچوں میں ہے نہ ان کو آگاہی کی ضرورت ہے۔ یہ مرض ہمارے مردوں میں جنسی بے راہ روی سے بڑھ کر درندگی تک پہنچ چکا ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے مجرموں کو فوراً گرفتار کیا جائے اور پولیس کو رشوت وصول کرنے سے قبل ان کی ایف آئی آر درج کر کے نتیجہ خیز کارروائی کرنی چاہیے۔ مقدمے کو قانون کے خلاؤں سے محفوظ رکھ کر سرسری سماعت کی عدالتوں کے ذریعے ایسے لوگوں کو سرعام سزا دی جائے، دو چار سزاؤں کے بعد ہی جرائم میں کمی واقع ہو گی اور دھیرے دھیرے لوگ خوفزدہ ہو کر جنسی جنون کے لیے کوئی اور راہ اختیار کریں گے۔ مگر ہم نے قسم کھا لی ہے کہ ہم ایسا کوئی اقدام نہیں کریں گے بس بھارت کی تقلید اس مسئلے کا حل نکالتے رہیں گے۔
اس سارے معاملے کے چند پہلو اور ہیں۔ ہمارے بچپن میں تقریباً ہر گھر میں چار چھ مرغیاں پلی ہوتی تھیں وہ انڈے دیتی تھیں کچھ انڈے کھا لیے جاتے تھے کچھ لوگ بچے انڈے بیچ دیتے مگر جب مرغیاں کڑک ہوتیں تو ان کو انڈے فراہم کیے جاتے۔ وہ ان کو سہتی تھیں بچے نکلتے تھے سال چھ ماہ میں بچے بالغ ہوتے کچھ تو پھر افزائش کا سبب بنتے اور کچھ ذبح کر لیے جاتے، جن کے یہاں مرغیاں زیادہ ہوتیں ، ان کے یہاں پر کبھی مرغی پکتی اور وہ امیر آدمی خیال کیے جاتے مگر ان کی یہ امارت سال دو سال میں جا کر مکمل ہوتی۔
اب بھلا ہو سائنسی علوم کا اب نہ افزائش نسل کے لیے مرغ کی ضرورت باقی رہی ، نہ مرغی کو بلوغت تک پہنچنے کے لیے مہینوں انتظار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب کچھ کیمیائی خوراک اور کچھ نشو و نما و افزائش کے انجکشن کے طفیل میں صرف چند ہفتوں میں مرغیاں بالغ ہو جاتی ہیں اور بڑی تعداد میں مرغبانی ہوتی ہے ۔
ولیمے کی تقریب میں صرف مرغ کا گوشت مختلف شکلوں میں استعمال ہوتا ہے۔ بعض صورتوں میں اپنے مضر اثرات بھی چھوڑ جاتا ہے مگر شریک دعوت سے داد و تحسین حاصل کرتا ہے۔
ہم اپنے نونہالوں کے ساتھ وہی عمل کر رہے ہیں جو مرغبانی کے ماہرین مرغیوں اور مرغوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ اب بچوں کو مصنوعی طور پر بلا ضرورت جنسی اعضا، ان کی نزاکت، ان کے افعال اور ان کی حفاظت کے ذرایع سکھا کر انھیں قبل از وقت بالغ کروایا جا رہا ہے۔ وہ معصوم سمجھ نہیں پاتے تو انھیں سمجھایا جاتا ہے اور انھیں مقامات کو چھو کر سمجھایا جاتا ہے، جن کو چھونا منع ہے۔
اس سارے معاملے کا ایک اور خطرناک پہلو بھی ہے۔ اپنے ماں باپ، بھائی بہن کو استثنا دے دیا ہے مگر ہماری تہذیبی روایت ہے چچا، چچازاد، ماموں زاد اور خالہ زاد بھی بچوں کو گود میں لیتے پیار کرتے انھیں ان کی پسندیدہ چیزیں دلاتے ہیں آپ کی اس آگہی کی تعلیم کے نتیجے میں رشتوں کا تقدس، محلہ داری کے حقوق و فرائض اور انسانی محبتوں کا گلا گھونٹ دیا جائے گا۔ رشتہ تو چھوڑیے آپ نے دیکھا ہو گا کہ بعض بچے بہت پیارے ہوتے ہیں اور پیاری پیاری حرکتیں کرتے ہیں تو شاپنگ مال میں اجنبی شخص بھی ان کے گال نوچ لیتا یا ان سے محبت کا اظہار کر دیتا ہے آپ یہ سب فطری دروازے ایک غیر فطری رویے کی خاطر بند کر دینا چاہتے ہیں۔
اس سارے مقدمے میں بچے کہیں بھی ملزم نہیں نہ ان کی اصلاح کی ضرورت ہے نہ آگاہی کی۔ ضرورت ہے اس بات کی جو جنسی انارکی آپ کے معاشرے میں پھیل رہی ہے اور جسے پھیلانے میں آپ کے چینل پیش پیش ہیں ان پر قدغن لگائی جائے۔ اگر پروگرام کو مولویانہ بنانا جرم ہے تو کم از کم شعائر اسلامی کے مطابق رکھیں تا کہ نوجوان خصوصاً وہ جن میں جنسی جرائم کی طرف رغبت زیادہ ہے اس طرف ملتفت نہ ہو سکیں۔
جنسی انارکی کو روکنے کے بجائے بچوں کو آگاہی فراہم کرنے کے کام میں اپنی وقت بھی برباد کریں گے اور قومی غیرت و حمیت کو بھی پامال کریں گے۔
سرکاری سطح پر ان جرائم کے ارتکاب پر خصوصی عدالتوں میں مقدمہ چلا کر مجرموں کو عبرت ناک سزائیں دینا ضروری ہے۔ آپ معاشرے کو آگاہی کا ''لولی پوپ'' دے کر کوئی نتائج حاصل نہیں کر سکتے۔