حد سے زیادہ جوروستم خوشنما نہیں
ٹرمپ نے اپنے اقتدارکی ابتدا ہی عصبیت، نفرت اور بدزبانی سے کی۔
اب امریکی جمہوریت تو ڈھائی سوسال پرانی ہوچکی ہے۔اس سے پہلے وہاں برطانوی سامراجیت قائم تھی۔ امریکیوں نے برطانوی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلندکیا وہ جارج واشنگٹن کی قیادت میں برطانوی فوجوں سے نبردآزما ہوگئے اور بالآخر برطانوی استعماریت کو ختم کرکے دم لیا۔
جارج واشنگٹن سے لے کر وہاں اب تک متعدد صدورگزر چکے ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی ایسی ذلت و رسوائی نصیب نہیں ہوئی جوکہ صدر ٹرمپ کے حصے میں آئی ہے مگرکوئی شخص یوں ہی عوام کی تضحیک کا مستحق قرار نہیں پاتا ، یقینا اس کے کام اور اس کی زبان اسے عوام کی نظروں میں اٹھاتے بھی ہیں اورگراتے بھی ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے اقتدارکی ابتدا ہی عصبیت، نفرت اور بدزبانی سے کی۔
مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا اور ان کے خلاف اقدام اٹھانا انھوں نے اپنا وطیرہ بنالیا ہے ، مسلمانوں کو اس امریکی صدر نے جتنا نقصان پہنچایا ہے اس سے پہلے کسی صدر نے نہیں پہنچایا تھا۔ مسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی سے لے کر اس نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ نہ صرف تسلیم کرلیا بلکہ امریکی سفارت خانے کو وہاں جلد منتقل کرنے کا اعلان کردیا۔ مٹھی بھر یہودیوں کی خوشنودی یا ان سے تجارتی مفادات کے لالچ میں دو ارب مسلمانوں کے دلوں کا خون کرنا اور ان کے مذہبی جذبات کو کھلم کھلا مجروح کرنا کیا یہ امریکی مفاد میں کبھی ہوسکتا ہے۔
امریکا ایک سپرپاورکا درجہ رکھتا ہے، اس کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ دنیا کی تمام اقوام کے مذہبی اور قومی نظریات کا احترام کرے اور دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے مگر دیکھنے میں آرہا ہے کہ امریکا ہر ملک سے محاذ آرائی پر اترا ہوا ہے۔ ٹرمپ جیسے عاقبت نا اندیش صدر نے تو اپنے یورپی اتحادیوں تک کو امریکا کا دشمن بنالیا ہے ۔ چین سے خوا مخواہ کی محاذ آرائی جاری ہے کبھی تجارتی سطح پر توکبھی سیاسی سطح پر۔
تائیوان کے مسئلے پر چین کا امریکا سے کئی سال قبل معاملہ طے پاچکا کہ وہ چین کا ہی حصہ رہے گا اور امریکا اس ضمن میں کبھی کوئی مداخلت نہیں کرے گا مگر ٹرمپ نے اس معاملے میں بھی چھیڑچھاڑ شروع کردی ہے ساتھ ہی چین کو دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں جس پر چین کے فوجی سربراہ کو ٹرمپ کو منہ توڑ جواب دینا پڑا ہے، انھوں نے کہا ہے کہ اگر ٹرمپ نے چین کے خلاف جنگ چھیڑی تو چین امریکا کو ایسا مزہ چکھائے گا کہ وہ اسے کبھی نہیں بھول سکے گا۔ ٹرمپ نے روس کو بھی نشانے پر لیا ہوا ہے۔ روس اس وقت معاشی مسائل سے دوچار ہے وہ اپنے فوجی سازوسامان کے لیے نئے خریدار تلاش کر رہا ہے۔
ترکی نے روس سے ایس 400 جدید میزائل سسٹم خریدنے کا معاہدہ کیا ہے،کیونکہ یہ ترکی کے دفاع کو مضبوط کرسکتا ہے۔ ادھر ٹرمپ اردوان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ وہ روس سے اس معاہدے کو ختم کرکے اس سے بہتر دفاعی نظام خرید لے۔ ہر ملک اپنے ملک کی ضرورت کے مطابق جنگی سازوسامان خریدنے کا فیصلہ کرتا ہے مگر ٹرمپ ترکی سے یہ حق بھی چھین لینا چاہتے ہیں مگر بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی ہے ٹرمپ نے معاہدہ ختم نہ کرنے کی صورت میں ترکی پر معاشی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔ ٹرمپ کے دباؤ کی وجہ سے اس وقت ترکی سخت معاشی مشکلات کا شکار ہوگیا ہے اس کی کرنسی روز بروز گر رہی ہے جس کی وجہ سے ملکی سطح پر بے چینی بڑھ رہی ہے اور اردوان کی عوام میں مقبولیت پر اثر پڑ رہا ہے۔
جہاں تک مشرق وسطیٰ کا تعلق ہے ٹرمپ عرب ممالک کو باہم لڑا کر اپنے مفادات کو تحفظ دینے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ انھوں نے محض اپنا اسلحہ فروخت کرنے کے لیے ایران کا مسئلہ زندہ کر رکھا ہے حالانکہ اوباما حکومت نے ایران سے امن معاہدہ کرکے اس سے تمام دشمنی کو ختم کردیا تھا اور اسے ایک آزاد ملک کی حیثیت سے اپنے اندرونی اور بیرونی معاملات کو آگے بڑھانے کی چھوٹ دے دی تھی مگر ٹرمپ نے اس معاہدے کو ماننے سے انکار کردیا اور ایران سے پھر سے مخاصمانہ رویہ شروع کردیا ہے وہ دراصل ایران کا ہوّا کھڑا کرکے سعودی عرب اور خلیجی ممالک کو اپنا اسلحہ بیچنے کی پالیسی پر چل رہے ہیں اور اس کا انھیں خاطر خواہ فائدہ ہوا ہے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے کئی ارب ڈالر کے جدید ہتھیار امریکا سے خریدنے کے آرڈر دے دیے ہیں حالانکہ مشرق وسطیٰ میں عربوں کا اصل دشمن اسرائیل ہے جس نے نہ صرف ان کی زمین پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے بلکہ اپنے ایٹم بم سے انھیں خوف زدہ کر رکھا ہے۔
افسوس اس امر پر ہے کہ سعودی عرب اسرائیل سے نرم رویہ رکھ رہا ہے اور ایران کو اپنا دشمن نمبر ایک گردان رہا ہے۔ ایران کئی مرتبہ عرب ممالک کو ایک ساتھ بیٹھ کر اپنے اختلافات کو ختم کرنے کی دعوت دے چکا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ عرب ممالک اور ایران میں کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ ان ملکوں کے درمیان اصل خلیج پیدا کرنے والا امریکا ہے جسے ٹرمپ مزید گہرا کرنے میں لگے ہوئے ہیں تاکہ اسرائیل کو بھی عرب اور ایران خراب تعلقات سے فائدہ پہنچایا جائے اور اس کی سلامتی کو مزید مضبوط کیا جائے۔
ٹرمپ کی سب سے پہلے مخالفت خود امریکی عوام نے شروع کی تھی کئی شہروں میں انھیں استعفیٰ دینے پر مجبور کرنے کے لیے کئی مہینوں تک بھرپور مظاہرے ہوتے رہے تھے ابھی بھی امریکی عوام ان کے جارحانہ متعصبانہ اور عالمی امن کو تباہ کرنے کے اقدامات کی وجہ سے ان سے سخت ناراض ہیں۔ امریکی سینیٹ میں ان کے مواخذے کے لیے تحریک بھی چل رہی ہے کیونکہ انھوں نے دنیا میں امریکی ساکھ کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔
آج دنیا بھر میں ٹرمپ کی وجہ سے امریکا کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ ٹرمپ کے حالیہ دورہ برطانیہ میں جو ان کی بے عزتی ہوئی ہے ویسی اس سے پہلے کسی امریکی صدر کی نہیں ہوئی تھی۔ ان کے دورہ برطانیہ کے دوران پورے ملک میں ان کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں۔ لندن کے میر صادق خان نے ان کا استقبال کرنے کے بجائے انھیں اس دور کا ہٹلر قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ امریکا کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں وہ دنیا کو تیسری عالمی جنگ میں جھونکنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
برطانوی حزب اختلاف کے رہنما جیری کوربن نے کہا ہے کہ ایسے شخص کا استقبال کرنا حماقت ہے جو عالمی معاہدوں کو پھاڑ کر پھینک دیتا ہے اور نسل پرستانہ فساد پھیلانے والی زبان استعمال کرتا ہے۔ یہ قدرت کا اصول اٹل ہے کہ جب کسی ملک کی زیادتیوں کی وجہ سے اسے تباہ کرنے کا فیصلہ ہوجاتا ہے تو وہاں ایسے حکمران متعین کردیے جاتے ہیں جو اپنے ملک کو خود ہی تباہی و بربادی سے دوچار کردیتے ہیں جیساکہ ہٹلر نے اپنے ظلم و ستم سے اپنے ملک کو تباہی کے راستے پر ڈال دیا تھا اور پھر نہ صرف جرمنی تباہ ہوگیا بلکہ ہٹلرکو خود خودکشی کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
اب لگتا ہے امریکا کا زوال قریب ہے اسی لیے وہاں سینئر اور جونیئر بش کے بعد اب ٹرمپ جیسے نادان اور فسطائی شخص کو اقتدار مل گیا ہے جس نے نہ اپنی عزت کا پاس رکھا اور نہ اپنے وطن کا۔ دوسری عالمی جنگ کو جتانے کے بعد دراصل امریکا نے خود کو پوری دنیا کا ٹھیکہ دار سمجھ لیا ہے۔ وہ اپنی معاشی اور حربی طاقت کے بل بوتے پر دنیا میں ہر طرف مداخلت کر رہا ہے۔
ویت نام سے لے کر افغانستان تک اس نے اپنی طاقت کا مظاہرہ ضرورکیا ہے مگر ایک عالمی غنڈہ ملک کے طور پر خود کو بدنام کر لیا ہے۔ وہاں کے عوام اپنی حکومت کی ان حرکتوں سے نالاں نظر آتے ہیں مگر ٹرمپ جیسے لوگوں کو منتخب کرکے صدر بنانے والی بھی تو وہی ہیں۔ اب انھیں چاہیے کہ وہ دنیا کی فکر کرنے کی بجائے اپنے ملک کی فکر کریں کیونکہ کئی امریکی ریاستوں میں علیحدگی کی تحاریک جڑ پکڑنا شروع ہوگئی ہیں چنانچہ دنیا کو انتشارکا شکارکرنے والا ملک کہیں خود نہ انتشار کا شکار ہوجائے۔ نائن الیون کے بعد امریکی ظلم کی چکی میں جو لوگ پسے ہیں ان کی بددعائیں بھی امریکا کا پیچھا کر رہی ہیں اور پھر مظلوم عافیہ صدیقی کی آہیں تو ضرور اثر دکھا کر رہیں گی۔
جارج واشنگٹن سے لے کر وہاں اب تک متعدد صدورگزر چکے ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی ایسی ذلت و رسوائی نصیب نہیں ہوئی جوکہ صدر ٹرمپ کے حصے میں آئی ہے مگرکوئی شخص یوں ہی عوام کی تضحیک کا مستحق قرار نہیں پاتا ، یقینا اس کے کام اور اس کی زبان اسے عوام کی نظروں میں اٹھاتے بھی ہیں اورگراتے بھی ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے اقتدارکی ابتدا ہی عصبیت، نفرت اور بدزبانی سے کی۔
مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا اور ان کے خلاف اقدام اٹھانا انھوں نے اپنا وطیرہ بنالیا ہے ، مسلمانوں کو اس امریکی صدر نے جتنا نقصان پہنچایا ہے اس سے پہلے کسی صدر نے نہیں پہنچایا تھا۔ مسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی سے لے کر اس نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ نہ صرف تسلیم کرلیا بلکہ امریکی سفارت خانے کو وہاں جلد منتقل کرنے کا اعلان کردیا۔ مٹھی بھر یہودیوں کی خوشنودی یا ان سے تجارتی مفادات کے لالچ میں دو ارب مسلمانوں کے دلوں کا خون کرنا اور ان کے مذہبی جذبات کو کھلم کھلا مجروح کرنا کیا یہ امریکی مفاد میں کبھی ہوسکتا ہے۔
امریکا ایک سپرپاورکا درجہ رکھتا ہے، اس کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ دنیا کی تمام اقوام کے مذہبی اور قومی نظریات کا احترام کرے اور دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے مگر دیکھنے میں آرہا ہے کہ امریکا ہر ملک سے محاذ آرائی پر اترا ہوا ہے۔ ٹرمپ جیسے عاقبت نا اندیش صدر نے تو اپنے یورپی اتحادیوں تک کو امریکا کا دشمن بنالیا ہے ۔ چین سے خوا مخواہ کی محاذ آرائی جاری ہے کبھی تجارتی سطح پر توکبھی سیاسی سطح پر۔
تائیوان کے مسئلے پر چین کا امریکا سے کئی سال قبل معاملہ طے پاچکا کہ وہ چین کا ہی حصہ رہے گا اور امریکا اس ضمن میں کبھی کوئی مداخلت نہیں کرے گا مگر ٹرمپ نے اس معاملے میں بھی چھیڑچھاڑ شروع کردی ہے ساتھ ہی چین کو دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں جس پر چین کے فوجی سربراہ کو ٹرمپ کو منہ توڑ جواب دینا پڑا ہے، انھوں نے کہا ہے کہ اگر ٹرمپ نے چین کے خلاف جنگ چھیڑی تو چین امریکا کو ایسا مزہ چکھائے گا کہ وہ اسے کبھی نہیں بھول سکے گا۔ ٹرمپ نے روس کو بھی نشانے پر لیا ہوا ہے۔ روس اس وقت معاشی مسائل سے دوچار ہے وہ اپنے فوجی سازوسامان کے لیے نئے خریدار تلاش کر رہا ہے۔
ترکی نے روس سے ایس 400 جدید میزائل سسٹم خریدنے کا معاہدہ کیا ہے،کیونکہ یہ ترکی کے دفاع کو مضبوط کرسکتا ہے۔ ادھر ٹرمپ اردوان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ وہ روس سے اس معاہدے کو ختم کرکے اس سے بہتر دفاعی نظام خرید لے۔ ہر ملک اپنے ملک کی ضرورت کے مطابق جنگی سازوسامان خریدنے کا فیصلہ کرتا ہے مگر ٹرمپ ترکی سے یہ حق بھی چھین لینا چاہتے ہیں مگر بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی ہے ٹرمپ نے معاہدہ ختم نہ کرنے کی صورت میں ترکی پر معاشی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔ ٹرمپ کے دباؤ کی وجہ سے اس وقت ترکی سخت معاشی مشکلات کا شکار ہوگیا ہے اس کی کرنسی روز بروز گر رہی ہے جس کی وجہ سے ملکی سطح پر بے چینی بڑھ رہی ہے اور اردوان کی عوام میں مقبولیت پر اثر پڑ رہا ہے۔
جہاں تک مشرق وسطیٰ کا تعلق ہے ٹرمپ عرب ممالک کو باہم لڑا کر اپنے مفادات کو تحفظ دینے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ انھوں نے محض اپنا اسلحہ فروخت کرنے کے لیے ایران کا مسئلہ زندہ کر رکھا ہے حالانکہ اوباما حکومت نے ایران سے امن معاہدہ کرکے اس سے تمام دشمنی کو ختم کردیا تھا اور اسے ایک آزاد ملک کی حیثیت سے اپنے اندرونی اور بیرونی معاملات کو آگے بڑھانے کی چھوٹ دے دی تھی مگر ٹرمپ نے اس معاہدے کو ماننے سے انکار کردیا اور ایران سے پھر سے مخاصمانہ رویہ شروع کردیا ہے وہ دراصل ایران کا ہوّا کھڑا کرکے سعودی عرب اور خلیجی ممالک کو اپنا اسلحہ بیچنے کی پالیسی پر چل رہے ہیں اور اس کا انھیں خاطر خواہ فائدہ ہوا ہے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے کئی ارب ڈالر کے جدید ہتھیار امریکا سے خریدنے کے آرڈر دے دیے ہیں حالانکہ مشرق وسطیٰ میں عربوں کا اصل دشمن اسرائیل ہے جس نے نہ صرف ان کی زمین پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے بلکہ اپنے ایٹم بم سے انھیں خوف زدہ کر رکھا ہے۔
افسوس اس امر پر ہے کہ سعودی عرب اسرائیل سے نرم رویہ رکھ رہا ہے اور ایران کو اپنا دشمن نمبر ایک گردان رہا ہے۔ ایران کئی مرتبہ عرب ممالک کو ایک ساتھ بیٹھ کر اپنے اختلافات کو ختم کرنے کی دعوت دے چکا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ عرب ممالک اور ایران میں کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ ان ملکوں کے درمیان اصل خلیج پیدا کرنے والا امریکا ہے جسے ٹرمپ مزید گہرا کرنے میں لگے ہوئے ہیں تاکہ اسرائیل کو بھی عرب اور ایران خراب تعلقات سے فائدہ پہنچایا جائے اور اس کی سلامتی کو مزید مضبوط کیا جائے۔
ٹرمپ کی سب سے پہلے مخالفت خود امریکی عوام نے شروع کی تھی کئی شہروں میں انھیں استعفیٰ دینے پر مجبور کرنے کے لیے کئی مہینوں تک بھرپور مظاہرے ہوتے رہے تھے ابھی بھی امریکی عوام ان کے جارحانہ متعصبانہ اور عالمی امن کو تباہ کرنے کے اقدامات کی وجہ سے ان سے سخت ناراض ہیں۔ امریکی سینیٹ میں ان کے مواخذے کے لیے تحریک بھی چل رہی ہے کیونکہ انھوں نے دنیا میں امریکی ساکھ کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔
آج دنیا بھر میں ٹرمپ کی وجہ سے امریکا کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ ٹرمپ کے حالیہ دورہ برطانیہ میں جو ان کی بے عزتی ہوئی ہے ویسی اس سے پہلے کسی امریکی صدر کی نہیں ہوئی تھی۔ ان کے دورہ برطانیہ کے دوران پورے ملک میں ان کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں۔ لندن کے میر صادق خان نے ان کا استقبال کرنے کے بجائے انھیں اس دور کا ہٹلر قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ امریکا کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں وہ دنیا کو تیسری عالمی جنگ میں جھونکنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
برطانوی حزب اختلاف کے رہنما جیری کوربن نے کہا ہے کہ ایسے شخص کا استقبال کرنا حماقت ہے جو عالمی معاہدوں کو پھاڑ کر پھینک دیتا ہے اور نسل پرستانہ فساد پھیلانے والی زبان استعمال کرتا ہے۔ یہ قدرت کا اصول اٹل ہے کہ جب کسی ملک کی زیادتیوں کی وجہ سے اسے تباہ کرنے کا فیصلہ ہوجاتا ہے تو وہاں ایسے حکمران متعین کردیے جاتے ہیں جو اپنے ملک کو خود ہی تباہی و بربادی سے دوچار کردیتے ہیں جیساکہ ہٹلر نے اپنے ظلم و ستم سے اپنے ملک کو تباہی کے راستے پر ڈال دیا تھا اور پھر نہ صرف جرمنی تباہ ہوگیا بلکہ ہٹلرکو خود خودکشی کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
اب لگتا ہے امریکا کا زوال قریب ہے اسی لیے وہاں سینئر اور جونیئر بش کے بعد اب ٹرمپ جیسے نادان اور فسطائی شخص کو اقتدار مل گیا ہے جس نے نہ اپنی عزت کا پاس رکھا اور نہ اپنے وطن کا۔ دوسری عالمی جنگ کو جتانے کے بعد دراصل امریکا نے خود کو پوری دنیا کا ٹھیکہ دار سمجھ لیا ہے۔ وہ اپنی معاشی اور حربی طاقت کے بل بوتے پر دنیا میں ہر طرف مداخلت کر رہا ہے۔
ویت نام سے لے کر افغانستان تک اس نے اپنی طاقت کا مظاہرہ ضرورکیا ہے مگر ایک عالمی غنڈہ ملک کے طور پر خود کو بدنام کر لیا ہے۔ وہاں کے عوام اپنی حکومت کی ان حرکتوں سے نالاں نظر آتے ہیں مگر ٹرمپ جیسے لوگوں کو منتخب کرکے صدر بنانے والی بھی تو وہی ہیں۔ اب انھیں چاہیے کہ وہ دنیا کی فکر کرنے کی بجائے اپنے ملک کی فکر کریں کیونکہ کئی امریکی ریاستوں میں علیحدگی کی تحاریک جڑ پکڑنا شروع ہوگئی ہیں چنانچہ دنیا کو انتشارکا شکارکرنے والا ملک کہیں خود نہ انتشار کا شکار ہوجائے۔ نائن الیون کے بعد امریکی ظلم کی چکی میں جو لوگ پسے ہیں ان کی بددعائیں بھی امریکا کا پیچھا کر رہی ہیں اور پھر مظلوم عافیہ صدیقی کی آہیں تو ضرور اثر دکھا کر رہیں گی۔