ورلڈکپ میں روایتی حریفوں کا ٹاکرا

مشکلات میں گھری پاکستان ٹیم کو بھارتی چیلنج درپیش۔

مشکلات میں گھری پاکستان ٹیم کو بھارتی چیلنج درپیش۔ فوٹو؛ فائل

ورلڈکپ کی تیاری کیلئے ٹیمیں بھرپور تیاری کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں،ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ میگا ایونٹ کیلئے مضبوط اور متوازن سکواڈ کا انتخاب کرکے کرکٹرز کو آپس میں ہم آہنگی کا موقع بھی فراہم کیا جائے،کسی انجری کی صورت میں ہر پوزیشن کیلئے متبادل کھلاڑیوں کی فہرست بھی مرتب کرلی جاتی ہے۔

دوسری جانب پاکستان ٹیم نہ صرف کہ ورلڈکپ سے قبل بلکہ اس کے دوران بھی تجربات کی لیبارٹری نظر آئی،انٹرنیشنل کرکٹ سے زیادہ پی ایس ایل کی کامیابی پر توجہ دینے کا نتیجہ ہے کہ ون ڈے اور ٹیسٹ فارمیٹ کیلئے گراس روٹ سطح سے ڈومیسٹک مقابلوں تک کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی، حیران کن طور پر طویل انٹرنیشنل مصروفیات کے بعد کھلاڑیوں کو پی ایس ایل میں شرکت کی تو اجازت دے دی گئی۔

آسٹریلیا کے خلاف یواے ای میں کھیلی جانے والی ون ڈے سیریز میں ورلڈکپ کے ممکنہ سکواڈ کو آزمانے کے بجائے تجرباتی ''بی'' ٹیم کھلائی گئی،سکواڈ میں پی ایس ایل اور پاکستان ون ڈے کپ میں اچھی فارم کا مظاہرہ کرنے والے وہاب ریاض کو آزمانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی،عمر اکمل کو پاور ہٹر بنانے کا ناکام تجربہ کیا گیا، جلد بازی میں ورلڈکپ سکواڈ کا اعلان کرتے ہوئے محمد عامر کی ''سنیارٹی'' کا احترام کرتے ہوئے انہیں انگلینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز میں آزمائش سے گزارنے کا فیصلہ کیا گیا،پیسر پہلا میچ کھیلے جو بارش کی نذر ہوگیا۔

بعد ازاں خسرے کی بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ایکشن میں نظر نہیں آسکے،اس دوران بولرز کی وہ درگت بنی کہ سلیکٹرز کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوگیا،وہاب ریاض اور محمد عامر کی تجربے کی کمی محسوس کرتے ہوئے انہیں سکواڈ میں شامل کیا گیا، جنید خان اور فہیم اشرف کو رخصتی کا پروانہ جاری کردیا گیا،آسٹریلیا کے خلاف ڈیبیو پر شاندار سنچری بنانے والے باصلاحیت عابد علی کو انگلینڈ کے ساتھ سیریز کے ایک میچ میں آزمایا گیا، باقی وقت پانی پیتے پلاتے رہے،اوپنر سرفراز احمد کے متبادل وکٹ کیپر اور کسی بھی نمبر پر بیٹنگ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے لیکن مسلسل ناکام شعیب ملک کی جگہ بچانے ان کی قربانی دے دی گئی۔

سلیکشن میں بروقت درست فیصلے اور مستقل مزاجی نہ ہونے کی وجہ سے قومی ٹیم کی کارکردگی میں تسلسل کی بھی توقع نہیں تھی، یہ اب تک ورلڈکپ میں نظر آیا ہے، چیف سلیکٹرز انضمام الحق گزشتہ ایک سال میں متوازن سکواڈ تشکیل دینے کے بجائے تجربات میں مصروف رہنے کے بعد بھی اپنی کاوش سے مطمئن نہیں اور پلیئنگ الیون کی سلیکشن میں اپنے ''قیمتی'' مشورے دینے کیلئے انگلینڈ میں ہی ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، شاید ہی کسی اور ملک کے سلیکٹرز کوچز اور کپتان کے کام میں مداخلت کیلئے اپنی ٹیم کے ساتھ موجود ہوں، اس طرح کی منفرد مثالیں انضمام الحق ہی قائم کرتے ہیں۔

ون ڈے کرکٹ میں مسلسل دستوں کا تمغہ سینے پر سجائے ورلڈ کپ کی مہم کا آغاز کرنے والی پاکستان ٹیم سے کسی دھماکہ خیز کارکردگی کی توقع نہیں تھی لیکن ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ میںبیٹنگ لائن نے جس طرح ہتھیار ڈالے اس کی بھی کوئی امید نہیں کر رہا تھا، شارٹ گیندوں پر گرین شرٹس کی کمزوریاں کھل کر عیاں ہوگئیں، صرف 105 رنز پر ڈھیر ہونے کے بعد بولرز کیلئے ہدف کا دفاع کرنا ممکن نہیں تھا، اس میچ میں پاکستان کیلئے واحد مثبت پہلو محمد عامر کی فارم میں واپسی تھی، چیمپئنز ٹرافی فائنل کے بعد صرف 5 وکٹیں حاصل کر پانے والے پیسر نے ویسٹ انڈیز کے تینوں شکار کرتے ہوئے اپنا اعتماد بحال کیا۔


کیربیئنز کے ہاتھوں 7 وکٹ سے شکست کے بعد کوئی توقع نہیں کر رہا تھا کہ پاکستان ٹیم عالمی نمبرون اور ٹائٹل فیورٹ انگلینڈ کے خلاف میچ میں کم بیک کرسکے گی لیکن اس مقابلے میں نہ صرف کے حیران کن طور پر بیٹنگ لائن نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 348 رنز کا قابل قدر مجموعہ حاصل کیا،محمد حفیظ، بابر اعظم، سرفراز احمد اچھی فارم میں نظر آئے، بعد ازاں بولرز نے جوزبٹلر اور جوئے روٹ کی سنچریز کے باوجود ہمت نہ ہارتے ہوئے تسلسل کے ساتھ وکٹیں حاصل کی، اس فتح میں تجربہ کار بولرز محمد عامر اور وہاب ریاض نے کلیدی کردار ادا کیا، ورلڈ کپ کی کمزور ٹیموں میں شمار کئے جانے والے سری لنکا کے خلاف 2 پوائنٹس حاصل کرنے کا موقع تھا لیکن بارش کی وجہ سے میچ منسوخ ہونے پر دونوں ٹیموں کو ایک ایک پوائنٹ پر اکتفا کرنا پڑا۔

دفاعی چیمپئن آسٹریلیا کے خلاف پاکستان نے شاداب خان کو باہر بٹھانے کا غلط فیصلہ کیا، ایک طرف سے محمد عامر نپی تلی بولنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیٹسمینوں کیلئے مشکلات پیدا کرتے رہے تو دوسرے اینڈ سے شاداب خان کی جگہ لینے والے شاہین شاہ آفریدی کی پٹائی ہوئی، وہاب ریاض اچھی بولنگ کے باوجود بدقسمت رہے کہ آصف علی نے کیچ چھوڑ کر کینگروز کو دباؤ میں لانے کا موقع گنوا دیا، پہلے 25 اوورز میں 150 سے زیادہ رنز دینے اور صرف ایک وکٹ لینے کے بعد پاکستانی بولرز نے کم بیک کیا اور دو مزید کیچز گرائے جانے کے باوجود حریف ٹیم کو 307 تک محدود رکھا، محمد عامر نے کیریئر کی بہترین بولنگ کرتے ہوئے صرف 30 رنز دے کر5 شکار کیے۔

فخر زمان کی وکٹ جلد گنوانے کے بعد پاکستان نے بحالی کا سفر جاری رکھتے ہوئے 2وکٹوں کے نقصان پر 136 رنز بنا لیے تھے کہ اس موقع پر امام الحق اور محمد حفیظ نے معمولی گیندوں پر وکٹوں کی قربانی پیش کرتے ہوئے آسٹریلیا کو حاوی ہونے کا موقع فراہم کر دیا، شعیب ملک کی ثابت قدمی پاکستان کو فتح کے راستے پر گامزن رکھ سکتی تھی لیکن وہ سینئر کا کردار ادا کرنے میں ناکام رہے، آصف علی بھی ذمہ داری کا بوجھ نہیں اٹھا سکے، اگرچہ بعد میں حسن علی اور وہاب ریاض کے دلکش سٹروکس کھیل کر بیٹسمینوں کو شرمندہ کیا، پاکستان کی فتح کے امکانات بھی روشن ہوئے لیکن دونوں مشن مکمل کرنے میں ناکام رہے، لوئر آرڈر میں بیٹنگ کیلئے ہمیشہ سے غیرموزوں کپتان سرفراز احمد ٹیسٹ مزاج کی بیٹنگ کرنے کے بعد بالآخر خود بھی رن آؤٹ ہو گئے۔

مشکلات میں گھری پاکستانی ٹیم کو اس وقت فتح کی سخت ضرورت اور اگلا امتحان بھی بہت سخت ہے، مانچسٹر کے اولڈ ٹریفورڈ اسٹیڈیم میں آج ان فارم بھارتی ٹیم کو زیر کرنے کیلئے ٹیم کمبی نیشن اور حکمت عملی پر ازسرنو غور کرنا ہوگا، اوپنر شیکھر دھون کے انجرڈ ہو جانے کے باوجود بلو شرٹس کی طاقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، چیمپئنز ٹرافی کے لیگ میچ میں پاکستان ٹیم بری طرح ناکام ہوئی تھی۔

فائنل میں فخر زمان کے بیٹ سے جاری ہونے والا رنز کا سیلاب بھارتی بولرز کے حوصلے پست کر گیا تھا جس کا فائدہ پاکستان کے دیگر بیٹسمینوں نے بھی اٹھایا، محمد عامر کی ابتدا میں کاری ضربوں نے بھارتی بیٹنگ لائن کا اعتماد متزلزل کیا جس کے بعد فتح کا سفر آسان ہوتا چلا گیا، آج کے میچ میں بھی ان دونوں کی کارکردگی انتہائی اہمیت کی حامل ہوگی، دوسری صورت میں توقعات کا بوجھ اٹھانے کیلئے دیگر کرکٹرز کو سخت محنت کرنا ہوگی،امام الحق، بابر اعظم اور محمد حفیظ کو کوشش کرنا ہوگی کہ ایک بار سیٹ ہونے کے بعد طویل اننگز کھیلیں،بولرز اپنی لائن اور لینتھ سے بھارتی بیٹسمینوں روہت شرما،کپتان ویرات کوہلی اور مہندار سنگھ دھونی کو رنز بنانے سے روک کر وکٹیں حاصل کرنے کا مقصد حاصل کرسکتے ہیں۔

پاکستان اور بھارت کی ٹیموں کے مابین ابھی تک مجوعی طور پر131ون ڈے میچز کھیلے گئے ہیں، ان میں سے گرین شرٹس نے 73میں فتح پائی، 54میں شکست ہوئی، 4میچ بے نتیجہ رہے، پاکستان نے سب سے بڑا مجموعہ مارچ 2004 میں کراچی میں بنانے کے باوجود ناکامی کا سامنا کیا تھا، گرین شرٹس کا بھارت کے خلاف کم ازکم ٹوٹل 87 مارچ 1985میں شارجہ میں بنایا گیا جب پاکستان ٹیم 126کاہدف بھی نہیں حاصل کرپائی تھی، ورلڈ کپ میں اب تک 6بار ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوئی ہیں، ان تمام مقابلوں میں پاکستان ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، دونوں ٹیموں اب ساتویں بار میگا ایونٹ میں مقابل ہوں گی۔

مجموعی طور پر بھی آئی سی سی ایونٹس میں بھارتی ٹیم گرین شرٹس پر حاوی رہی ہے، پاکستان کی اکلوتی کامیابی چیمپئنز ٹرافی 2017 کے فائنل میں تھی،گزشتہ سال ایشیا کپ میں بھی سرفراز الیون کو دونوں میچز میں شکست ہوئی،گزشتہ ورلڈکپ میں بھارت نے ایڈیلیڈ میں کھیلے جانے والے میچ میں 301کے جواب میں پاکستان ٹیم 224پر ڈھیر ہوگئی تھی۔ یہ ریکارڈز ماضی کا حصہ بن چکے،اولڈ ٹریفورڈ میں نیا میچ اور نیا چیلنج ہوگا،اپنے حواس اور اعصاب پر قابو رکھتے ہوئے صلاحیتوں کا بہترین اظہار کرنے والی ٹیم کامیاب ہوگی، بھارت کو فیورٹ قرار دیا جارہا ہے لیکن ویسٹ انڈیز سے ہارنے کے بعد عالمی نمبر ون ٹیم کو ہرانے والے گرین شرٹس فارم میں آگئی تو سب اندازے غلط بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔
Load Next Story