اس شہر پر آسیب کا سایہ ہے
اب یہاں کوئی سرمایہ لگانے، چھٹیاں گزارنے نہیں آتا بچے ماں کو تنگ کرتے ہیں تو انھیں یہ کہہ کر ڈرا دیا جاتا ہے
دل کے سنسان صحرا میں کوئی برگ و بار نہیں، آنکھیں دروازوں کو دیکھتے دیکھتے پتھرا چکی ہیں اور سر چوکھٹ پر رکھے رکھے کسی سوکھے ہوئے پرندے کی طرح بے جان ہو چکے ہیں اب ہواؤں میں گلابوں اور موگرے کی مہک نہیں بارود کی بو ہے، زندگی کے طلاطم خیز سمندر میں سانسوں کی بادبان ڈوب چکی ہے، ٹوٹ چکی ہے شہر کی گلیوں میں خوف کی روشنیاں جل بجھ رہی ہیں کوئی دوڑ کر نکڑ پر چھپ رہا ہے اور کوئی دونوں ہاتھ کانوں پر رکھے گولیوں کی گونج سے بچتا بچاتا جائے اماں کی تلاش میں ہے۔
جو گھر لوٹ آتا ہے تو جائے نماز پر ہزاروں پیشانیاں جھک جاتی ہیں کہ اے اللہ تعالیٰ شکر ہے کہ گھر والے بخیر و عافیت واپس آ گئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ دہلیز پار کرنے والا ہر شہری محاذ پر جا رہا ہے ہر شخص مجاہد ہے۔ سڑکوں پر نکلیے تو عجیب افراتفری کا عالم ہے سب کو جلدی ہے جیسے اگر وہ چند منٹ یہاں اور ٹھہرا تو مارا جائے گا، اعصاب شکن ٹریفک، دماغ کو ہلا دینے والا شور، جا بجا حادثات، نہ قانون ہے نہ قانون کی پاسداری کرنے والے، قانون کیا ہے، حکومت کہاں ہے ایک سوال ہے جس کی بازگشت لمحہ لمحہ بڑھ رہی ہے، عروس البلاد کراچی، پاکستان کا دل، اپنی بے بسی اور بے کسی پر نوحہ خواں ہے۔
اب یہاں کوئی سرمایہ لگانے، چھٹیاں گزارنے نہیں آتا بچے ماں کو تنگ کرتے ہیں تو انھیں یہ کہہ کر ڈرا دیا جاتا ہے کہ ستاؤ مت ورنہ کراچی بھجوا دیا جائے گا، مگر ہم۔۔۔۔ ہم تو خود اپنی حفاظت سے محروم ہیں تو اس حنائی دلہن کی مانگ میں افشاں کون چنے گا، وقت گزرتا ہے تو ہر ہر لمحہ ایک انسانی زندگی کے اختتام کی خبر دیتا ہے۔
اب آبادی کے اعداد و شمار تبدیل کر لیجیے کہ کراچی کی ڈیڑھ کروڑ آبادی کم ہوتی جا رہی ہے، آخری آرام گاہوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جہاں ہیروئن اور چرس کے سوداگر اپنے حصے کا رزق کما رہے ہیں، جہاں مرنے والوں کی ہڈیاں بک رہی ہیں مگر برائے فروخت کا بورڈ آویزاں نہیں ہے، مگر ان حالات میں بھی جو زندہ ہیں وہ صرف یہی کہتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ:
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
ایسے میں صرف میڈیا ہی عوام کا وہ واحد ترجمان ہے جو حقائق سے چلمن اٹھا رہا ہے اور اس کی پاداش میں دہشت گردوں اور سیاسی پارٹیوں کی گولیوں کا نشانہ بن رہا ہے کہ تم نے سچ کیوں بولا، حق کیوں لکھا البتہ جو منافقین قلم ہیں وہ دو سمتوں میں جا رہے ہیں۔
عدلیہ چیخ رہی ہے کہ یہاں جنگل کا قانون ہے دہشت گرد اور لاپتہ افراد کے ذمے دار کیوں نہیں پکڑے جا رہے، مجرموں کی پشت پناہی اور سرپرستی کیوں کی جا رہی ہے مگر نتیجہ کچھ نہیں نکل رہا، دس پندرہ روپے کلو بکنے والا آٹا 44 روپے کلو ہو گیا جو سرکاری نرخ ہے، گوشت تو کجا دال سبزی بھی بجٹ سے آؤٹ ہو گئی، روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والوں نے عوام کو کیا دیا؟ جو اب ارب پتی تاجروں اور صنعت کاروں کی حکومت دے دے گی۔
سچ تو یہ ہے کہ روشنیاں گھر کے بلبوں کی رخصت نہیں ہوئیں دلوں کی بھی بجھ گئی ہیں ہاں ایک امید ایسا لفظ ہے جس کے انتظار میں عمر بسر ہو رہی ہے ملک معدنیات اور تیل گیس کے ذخائر سے مالا مال ہے مگر جب ملک چلانے والوں کو گھر بیٹھے سب کچھ مل رہا ہے تو ان کی تلاش کے لیے کون غیر ملکی یا ملکی ماہروں کو دعوت دے؟
یہ شہر پاکستان کا تنہا شہر نہیں جہاں موت کا رقص جاری ہے بلوچستان ہو یا سرحد ہر طرف تباہی کا سماں ہے، البتہ پچھلے دنوں اسلام آباد میں ایک شخص نے اپنی ''بہادری''کے جوہر دکھائے تھے ورنہ بحیثیت مجموعی اسلام آباد کے معاملات اس لیے بہتر ہیں کہ وہ سخت سیکیورٹی کے حصار میں ہے کیونکہ وہاں وہ لوگ بستے ہیں جو بسے بسائے لوگوں کو اجڑتے دیکھ کر بھی خاموش ہیں۔
اے اہل وطن! تم بھی تو کرپشن کے سمندر میں گلے گلے ڈوب رہے ہو، تم تو خود ان لوگوں کو سنگھاسن پر بٹھاتے ہو جو ماضی میں تمہیں کچھ نہ دے سکے' تم خود دولت کے حصول کے لیے ناپ تول میں ڈنڈے مارتے ہو، ایک دوسرے کو فریب دیتے ہو، قرضہ لیتے ہو واپس نہیں کرتے ہو، ضرورت سے زیادہ کرایہ وصول کرتے ہو، گرانی کرتے ہو، ملاوٹ کرنے کو جرم نہیں سمجھتے ہو، نسلی تعصب، منافرت اور مذہب کے نام پر وہ سب کرنے پر دریغ نہیں کرتے جو گناہ سے بھی بدتر ہے' اپنے ہی بھائیوں کے خون سے نہاتے ہو اور پھر بھی مسجد میں جاتے ہو تو پھر تمہارے لیے ایسے ہی حکمراں ٹھیک ہیں کیونکہ یہ تمہارے بھی اعمالوں کی سزا ہے جیسا کہ کہا گیا ہے کہ جیسی قوم ہوتی ہے ویسے ہی حکمراں ہوتے ہیں۔
اب یہی طے ہوا کہ ہم تو خود اپنے ہاتھوں یرغمال بنے ہیں تو پھر اگر کوئی ہم پر کوڑے برسا رہا ہے تو شکوہ کیسا؟ مگر ان سب باتوں کے باوجود دعائیں ہیں کہ رکتی ہی نہیں، آنسو ہیں کہ تھمتے ہی نہیں، قلم خون سے معاشرے کا احوال لکھتے ہیں کہ ظلم تو پھر ظلم ہے جب بڑھے گا تو مٹ جائے گا مگر خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا۔
جو گھر لوٹ آتا ہے تو جائے نماز پر ہزاروں پیشانیاں جھک جاتی ہیں کہ اے اللہ تعالیٰ شکر ہے کہ گھر والے بخیر و عافیت واپس آ گئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ دہلیز پار کرنے والا ہر شہری محاذ پر جا رہا ہے ہر شخص مجاہد ہے۔ سڑکوں پر نکلیے تو عجیب افراتفری کا عالم ہے سب کو جلدی ہے جیسے اگر وہ چند منٹ یہاں اور ٹھہرا تو مارا جائے گا، اعصاب شکن ٹریفک، دماغ کو ہلا دینے والا شور، جا بجا حادثات، نہ قانون ہے نہ قانون کی پاسداری کرنے والے، قانون کیا ہے، حکومت کہاں ہے ایک سوال ہے جس کی بازگشت لمحہ لمحہ بڑھ رہی ہے، عروس البلاد کراچی، پاکستان کا دل، اپنی بے بسی اور بے کسی پر نوحہ خواں ہے۔
اب یہاں کوئی سرمایہ لگانے، چھٹیاں گزارنے نہیں آتا بچے ماں کو تنگ کرتے ہیں تو انھیں یہ کہہ کر ڈرا دیا جاتا ہے کہ ستاؤ مت ورنہ کراچی بھجوا دیا جائے گا، مگر ہم۔۔۔۔ ہم تو خود اپنی حفاظت سے محروم ہیں تو اس حنائی دلہن کی مانگ میں افشاں کون چنے گا، وقت گزرتا ہے تو ہر ہر لمحہ ایک انسانی زندگی کے اختتام کی خبر دیتا ہے۔
اب آبادی کے اعداد و شمار تبدیل کر لیجیے کہ کراچی کی ڈیڑھ کروڑ آبادی کم ہوتی جا رہی ہے، آخری آرام گاہوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جہاں ہیروئن اور چرس کے سوداگر اپنے حصے کا رزق کما رہے ہیں، جہاں مرنے والوں کی ہڈیاں بک رہی ہیں مگر برائے فروخت کا بورڈ آویزاں نہیں ہے، مگر ان حالات میں بھی جو زندہ ہیں وہ صرف یہی کہتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ:
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
ایسے میں صرف میڈیا ہی عوام کا وہ واحد ترجمان ہے جو حقائق سے چلمن اٹھا رہا ہے اور اس کی پاداش میں دہشت گردوں اور سیاسی پارٹیوں کی گولیوں کا نشانہ بن رہا ہے کہ تم نے سچ کیوں بولا، حق کیوں لکھا البتہ جو منافقین قلم ہیں وہ دو سمتوں میں جا رہے ہیں۔
عدلیہ چیخ رہی ہے کہ یہاں جنگل کا قانون ہے دہشت گرد اور لاپتہ افراد کے ذمے دار کیوں نہیں پکڑے جا رہے، مجرموں کی پشت پناہی اور سرپرستی کیوں کی جا رہی ہے مگر نتیجہ کچھ نہیں نکل رہا، دس پندرہ روپے کلو بکنے والا آٹا 44 روپے کلو ہو گیا جو سرکاری نرخ ہے، گوشت تو کجا دال سبزی بھی بجٹ سے آؤٹ ہو گئی، روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والوں نے عوام کو کیا دیا؟ جو اب ارب پتی تاجروں اور صنعت کاروں کی حکومت دے دے گی۔
سچ تو یہ ہے کہ روشنیاں گھر کے بلبوں کی رخصت نہیں ہوئیں دلوں کی بھی بجھ گئی ہیں ہاں ایک امید ایسا لفظ ہے جس کے انتظار میں عمر بسر ہو رہی ہے ملک معدنیات اور تیل گیس کے ذخائر سے مالا مال ہے مگر جب ملک چلانے والوں کو گھر بیٹھے سب کچھ مل رہا ہے تو ان کی تلاش کے لیے کون غیر ملکی یا ملکی ماہروں کو دعوت دے؟
یہ شہر پاکستان کا تنہا شہر نہیں جہاں موت کا رقص جاری ہے بلوچستان ہو یا سرحد ہر طرف تباہی کا سماں ہے، البتہ پچھلے دنوں اسلام آباد میں ایک شخص نے اپنی ''بہادری''کے جوہر دکھائے تھے ورنہ بحیثیت مجموعی اسلام آباد کے معاملات اس لیے بہتر ہیں کہ وہ سخت سیکیورٹی کے حصار میں ہے کیونکہ وہاں وہ لوگ بستے ہیں جو بسے بسائے لوگوں کو اجڑتے دیکھ کر بھی خاموش ہیں۔
اے اہل وطن! تم بھی تو کرپشن کے سمندر میں گلے گلے ڈوب رہے ہو، تم تو خود ان لوگوں کو سنگھاسن پر بٹھاتے ہو جو ماضی میں تمہیں کچھ نہ دے سکے' تم خود دولت کے حصول کے لیے ناپ تول میں ڈنڈے مارتے ہو، ایک دوسرے کو فریب دیتے ہو، قرضہ لیتے ہو واپس نہیں کرتے ہو، ضرورت سے زیادہ کرایہ وصول کرتے ہو، گرانی کرتے ہو، ملاوٹ کرنے کو جرم نہیں سمجھتے ہو، نسلی تعصب، منافرت اور مذہب کے نام پر وہ سب کرنے پر دریغ نہیں کرتے جو گناہ سے بھی بدتر ہے' اپنے ہی بھائیوں کے خون سے نہاتے ہو اور پھر بھی مسجد میں جاتے ہو تو پھر تمہارے لیے ایسے ہی حکمراں ٹھیک ہیں کیونکہ یہ تمہارے بھی اعمالوں کی سزا ہے جیسا کہ کہا گیا ہے کہ جیسی قوم ہوتی ہے ویسے ہی حکمراں ہوتے ہیں۔
اب یہی طے ہوا کہ ہم تو خود اپنے ہاتھوں یرغمال بنے ہیں تو پھر اگر کوئی ہم پر کوڑے برسا رہا ہے تو شکوہ کیسا؟ مگر ان سب باتوں کے باوجود دعائیں ہیں کہ رکتی ہی نہیں، آنسو ہیں کہ تھمتے ہی نہیں، قلم خون سے معاشرے کا احوال لکھتے ہیں کہ ظلم تو پھر ظلم ہے جب بڑھے گا تو مٹ جائے گا مگر خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا۔