لُہولُہان کراچی امید بھری نظروں سے آپ کی طرف دیکھ رہا ہے

پاکستان کو مسائل سے نکالنے کے لیے سب کو مل کر بیٹھنا ہوگا۔۔

کراچی میں امن وامان کے لیے کوئی جماعت پسندیدہ یا ناپسندیدہ نہیں ہے اور سیاسی جماعتوں سے مشاورت کا مقصد کراچی میں امن لانا ہے، وزیراعظم فوٹو : فائل

وزیراعظم نوازشریف منگل کا دورۂ کراچی شہر کے حالات اور وفاقی حکومت کی جانب سے ٹارگیٹڈ آپریشن کے اعلان کے پیش نظر بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے۔

ساتھ ہی سندھ کے دارالحکومت کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اور یہاں جلد شروع کیے جانے والے آپریشن کے خدوخال طے کرنے کے لیے شہرِقائد میں وفاقی کابینہ کا اجلاس کا انعقاد بھی ایک اہم واقعہ ہے۔ وفاقی کابینہ کے اسلام آباد سے باہر کسی شہر میں منعقد کرنے کی روایت پاکستان پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومت نے ڈالی تھی۔ کسی صوبے یا شہر سے متعلق فیصلوں کے لیے اسی صوبے اور شہر میں اس نوعیت کا اجلاس کرنا ایک مثبت روایت ہے۔

منگل کو کراچی پہنچنے سے قبل وزیراعظم نے اسلام آباد میں اعلیٰ سطح کے اجلاس سے خطاب اور وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان سے ملاقات میں بات چیت کرتے ہوئے ہدایت کی کہ کراچی میں ہونے والے ٹارگیٹڈ آپریشن کی کمانڈ حکومتِ سندھ کو دی جائے۔ انھوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ حکومت شہرِقائد کی رونقیں بحال کرنے کے لیے ہرممکن اقدام کرے گی۔ وزیراعظم کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں انھوں نے باضابطہ طور پر کراچی میں ٹارگیٹڈ آپریشن کی اجازت دے دی۔



اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس کے اگلے روز وزیراعظم شہریوں کی لیے امن وامان کی روشن امید لیے شہرقائد پہنچے، یہاں انھوں نے پاک بحریہ کی جانب سے منعقدہ تقریب میں شرکت کی۔ بعدازاں میاں محمد نواز شریف نے گورنرہاؤس میں منعقد ہونے والی کُل جماعتی کانفرنس میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں امن وامان کے لیے کوئی جماعت پسندیدہ یا ناپسندیدہ نہیں ہے اور سیاسی جماعتوں سے مشاورت کا مقصد کراچی میں امن لانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں امن کے قیام کے معاملے پر سیاست نہیں کروں گا۔

وزیراعظم نے مزید کہا کہ ہم تمام جماعتوں کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں۔ میرے لیے تمام جماعتیں قابلِ احترام ہیں۔ قیامِ امن کے لیے تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ کراچی میں امن کے قیام کے لیے مختلف تجاویز دی جارہی ہیں۔ کوئی ٹارگیٹڈ آپریشن کا مطالبہ کر رہا ہے تو کوئی فوج بلانے کا، سیاسی جماعتوں سے مشاورت کا مقصد کراچی میں امن قائم کرنا ہے۔ نواز شریف نے کہا کہ اگر ملک میں بدامنی رہی تو یہاں کوئی سرمایہ کاری نہیں کرے گا اور اگر سرمایہ کاری نہیں ہوئی تو ملک ترقی کیسے کرے گا۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کو دہشت گردی سمیت کئی مسائل کا سامنا ہے۔ پاکستان کو مسائل سے نکالنے کے لیے سب کو مل کر بیٹھنا ہوگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ کراچی ملک کا سب سے اہم شہر ہے۔ کراچی میں امن کے لیے اتفاقِ رائے پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے گورنرسندھ ڈاکٹر عشرت العباد اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سے بھی بات چیت کی ہے۔

وزیراعظم نواز شریف نے آل پارٹیز کانفرنس میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ شہرِقائد میں امن وامان کے حوالے سے ان کے عزائم اور آرزوؤں کا اظہار ہے۔ اس حوالے سے دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ کراچی میں آپریشن کرنے کا فیصلہ ایک مشکل فیصلہ ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب خیبر پختون خواہ عسکریت پسندوں کا ہدف بنا ہوا ہے اور وہاں بدامنی عروج پر ہے، بلوچستان میں علیحدگی پسند عناصر کی دہشت پسندانہ کارروائیاں اور وہاں جاری آپریشن صوبے کو جہنم بناچکے ہیں، مرکزی حکومت کے لیے کراچی جیسے معاشی اور سیاسی لحاظ سے اہم شہر میں قیام امن کے لیے بڑے پیمانے پر کارروائی حکومت اور ملک کے لیے مشکلات میں اضافہ بھی کرسکتی ہے۔




مگر وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو یہ مشکل فیصلہ ناگزیر سمجھتے ہوئے کرنا پڑا، کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ ملک کی ترقی، قوم کو لوڈشیڈنگ سے نجات دلانے اور عام آدمی کی حالت بہتر بنانے کے جن وعدوں کے ساتھ مسلم لیگ ن انتخابات میں کام یابی حاصل کرکے اقتدار میں آئی ہے، ان پر عمل درآمد کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں اقتصادی ترقی ہو، بجلی کی پیداوار صنعتی اور رہائشی صارفین کی ضروریات کے اعتبار سے بڑھائی جائیں، سرمایہ متحرک ہو جس کے نتیجے میں صنعتیں لگیں اور تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہو، پیداوار بڑھے اور پاکستان کی برآمدات بڑھیں، لیکن امن کے قیام کے بغیر ترقی کا یہ خواب تعبیر نہیں دے سکتا۔ یوں تو ملک کا کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں بدامنی کا عفریت اپنے خونی پنجے گاڑے ہوئے نہ ہو، مگر کراچی کا معاملہ اس اعتبار سے کہیں زیادہ اہم ہے کہ یہ ملک کی واحد بندرگاہ اور سب سے بڑا صنعتی و تجارتی شہر ہے، جس کی صورت حال پورے ملک کی معیشت پر اثرانداز ہوتی ہے۔

عروس البلاد اور روشنیوں کا شہر کہلانے والا کراچی، جس نے پورے برصغیر سے آنے والے لوگوں کو امن، خوشی، روزگار اور خوش حالی کی نعمتیں عطا کیں، 1980 کے عشرے سے بدامنی کی جس آگ میں جلنا شروع ہوا وہ مختلف سمتوں میں پھیلتی ہی چلی گئی اور اس کی تپش بڑھتی ہی چلی گئی۔ بشریٰ زیدی کیس کے بعد زبان کے نام پر ہونے والے فسادات کا سلسلہ برسوں جاری رہنے اور سیکڑوں گھر اجاڑنے کے بعد تھما، تو شہریوں نے سکون کا سانس لیا، مگر ان کی قسمت میں چین کے چند دن ہی لکھے تھے۔ بعد کے برسوں میں دہشت پھیلانے اور خون بہانے کا چلن تعصبات کی سیاہ روایت کے ساتھ مفادات پر استوار ہوگیا۔ قیمتی زمینوں پر قبضے کرنے والے گروہوں نے سیاسی جماعتوں کے جھنڈوں کی آڑ لے لی، جس کے بعد وہ اور بھی طاقت ور ہوگئے اور ان کی سرگرمیاں پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑھ گئیں، سرکاری اراضی کے ساتھ عام شہریوں کی زمینیں بھی ان گروہوں کی ہوس کی زد میں ہیں، بھتا لینے کا سلسلہ اتنا دراز ہوا کہ شہر میں مینڈیٹ رکھنے والی کوئی جماعت ایسی نہیں جس کے دامن پر بھتا خوری کا الزام نہ ہو، ساتھ ہی عوامی حمایت سے محروم مگر طاقت اور کارکنوں کی بڑی تعداد رکھنے والی بعض مذہبی وسیاسی تنظیمیں بھی بھتے کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے لگیں۔

تاجروں اور صنعت کاروں سے ڈاکٹروں تک مالی طور پر مستحکم کوئی طبقہ بھتا خوروں کے مطالبات سے محفوظ نہیں رہا۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جو شہری پہلے کسی ایک گروہ کو بھتا دے کر سکون کا سانس لیتا تھا اب اسے کئی گروہوں کے پھیلے ہاتھوں کا سامنا ہے۔ آتشیں اسلحے سے لیس یہ ہاتھ انکار کی صورت میں دست ِ اجل بن جاتے ہیں۔ لینڈ مافیا اور بھتا خوری تو ان لوگوں کا ''کاروبار'' ٹھہرا جن کے پاس اسلحے کے ساتھ سیاسی اثرورسوخ اور پولیس کے تعاون کی طاقت بھی ہے، جن جرائم پیشہ افراد اور چھوٹے گروہوں کو یہ طاقت میسر نہیں وہ بھی بے روزگار اور مایوس نہیں، کہ شہر میں ڈکیتیوں اور سڑکوں پر موبائل سمیت نقدی، قیمتی سامان اور گاڑیاں چھین لینا باعزت طریقے سے روزگار حاصل کرنے کے مقابلے میں کہیں زیادہ آسان ہے۔

شہر کے دگرگوں حالات میں لیاری میں بدامنی کا معاملہ اس طرح سامنے آیا کہ باقی سارے معاملات پیچھے چلے گئے۔ کراچی کے اس قدیم علاقے میں مسلح گروہوں کا باہمی ٹکراؤ، ان کے پاس موجود جدید ترین اسلحہ اور اس کا بھرپور استعمال، اس علاقے سے اٹھنے والی بھتا خوری کی شدید اور خوف ناک لہر جس نے شہر کے صنعت کاروں اور تاجروں کی زندگی اجیرن کردی ہے، اور پھر دو لسانی برادریوں کے درمیان خونیں تصادم کے واقعات جن کے باعث ایک برادری کے سیکڑوں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔۔۔اس ساری صورت حال نے لیاری کو پاکستان میں بدامنی کے ''ماڈل'' میں بدل کر رکھ دیا ہے۔

اس سب کے ساتھ ٹارگیٹڈ کلنگ کی ڈائن برسوں سے شہریوں کا خون پی رہی ہے۔ اس بلا سے کسی سیاسی جماعت کے کارکن محفوظ ہیں اور علماء، وکیل، ڈاکٹر، تاجر، صنعت کار اور عام شہری۔ صرف یہ پتا چلتا ہے کہ کون مارا گیا، کیوں مارا گیا؟ کا سوال جواب ڈھونڈتا ہی رہ جاتا ہے۔



یہی وہ حالات ہیں جن میں کراچی میں فوجی آپریشن کرنے اور شہر کو اسلحے سے پاک کرنے کے مطالبات مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے سامنے آتے رہے ہیں۔ کراچی کی سب سے بڑی اور نمائندہ جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی جانب سے کراچی میں فوج بلانے کا مطالبہ بھی اسی تناظر میں ہے، جس کی کئی سیاسی جماعتوں نے مخالفت کی ہے، تاہم کراچی کے تجارتی حلقے بھی یہی مطالبہ کر رہے ہیں کہ کراچی کو فوج کے حوالے کیا جائے۔

وزیراعظم کی کراچی میں سرگرمیاں اور ان کے بیانات بتاتے ہیں کہ وہ شہرقائد میں امن لانے کے لیے سنجیدہ ہیں۔ ٹارگیٹڈ آپریشن کی کمانڈ حکومت سندھ کے حوالے کرنے کے فیصلے اور کُل جماعتی کانفرنس بلانے کے اقدام سے اندازہ ہوتا ہے کہ وزیراعظم اس آپریشن کو متنازع بنانا نہیں چاہتے اور سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ اس ضمن میں کراچی میں وفاقی کابینہ کا ہونے والا اجلاس بہت اہمیت کا حامل ہے، جس کے بعد آپریشن کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔ ''آپریشن'' کا لفظ کراچی کے شہریوں کے بہت سے خدشات میں مبتلا کردیتا ہے۔

اس شہر میں 1992میں شروع ہوکر وقفے وقفے سے جاری رہنا والے آپریشن کی تلخ یادیں شہریوں کے دل و دماغ میں تازہ ہیں۔ ان خدشات اور حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومت اور متعلقہ اداروں کو یہ امر یقینی بنانا ہو گا کہ یہ آپریشن ''ٹارگیٹڈ'' ہی رہے، جس میں جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں، خواہ ان کا تعلق کسی بھی گروہ اور سیاسی جماعت سے ہو، کو ہی ہدف بنایا جائے، آپریشن کے نتیجے میں عام شہریوں کو تحفظ کا احساس ملے اور کوئی بھی ایسی کارروائی نہ کی جائے جس سے عام اور بے گناہ شہریوں کی عزت نفس مجروح ہو۔ کراچی کے باسی وزیراعظم کے دورے اور آپریشن کی تیاریوں کو امید اور اندیشوں کے ملے جُلے جذبات کے ساتھ دیکھ رہے ہیں، خدا کرے اندیشے ہار جائیں اور امید کی جیت ہو۔
Load Next Story