وہ چاند سے آگے نکل گیا
زمین سے بلند ہوکرآسمانوں میں اڑنے کا انسانی خواب اتنا پرانا ہے جتنا خود باشعور انسان۔یونا
82 برس کی عمر میں وہ شخص فنا کی نامعلوم گھاٹیوں میں اتر گیا جسے دنیا بھر کے کروڑوں انسانوں نے چاند گاڑی کی سیڑھیوں سے اترتے اور اس چاند کی مٹی پر پہلا قدم رکھتے دیکھا تھا جس کی کہانیاں ساری دنیا کے بچے ہزاروں بر س سے سن رہے تھے اور جس میں انسان کی ہزاروں نسلوںنے محبوب کا چہرہ دیکھا تھا۔
وہ جوش و خروش اور وہ جشن کوئی بھلا نہیں سکتا جودنیاکے ان گنت انسانوں نے منایا تھا۔ ٹیلی ویژن کے اسکرین پر سفید و سیاہ تصویریں دکھائی دے رہی تھیں اپالو گیارہ کا چاند کی سطح پر اترنا اور پھراسپیس سوٹ پہنے ہوئے اس شخص کا باہر آنا جس کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا کہ وہ ہم سب کی نیابت اور نمایندگی کرتے ہوئے چاند کی مٹی پر اپنا پہلا قدم رکھے۔ پھر ریڈیائی لہروں کو چیرتی ہوئی لاکھوں میل سے ایک آواز آئی تھی۔ ''یہ ایک انسان کے لیے ایک چھوٹا سا قدم ہے لیکن بنی نوع انسان کے لیے یہ ایک بہت بڑی چھلانگ ہے۔''
یہ امریکی خلانورد نیل آرمسٹرانگ کی آواز تھی اور یہ 20 جولائی 1969 کی تاریخ تھی۔ انسان کے ہزاروں برس پرانے خواب کی تعبیر مل گئی تھی۔ تمام تصوراتی کہانیاں سچ ہوگئی تھیں، وہ انسان جو الف لیلہ و لیلہ، طلسم ہوشربا اور دوسری ان گنت کہانیوں میں کبھی جادوئی قالین اور کبھی اڑن کھٹولے پر اڑتا ہوا دوسرے شہروں میں جا پہنچتا تھا۔ ایچ جی ویلز اور جولیزورن جیسے سائنسی کہانیاں لکھنے والے جسے کبھی چاند پر اتارتے تھے اور کبھی کسی نامعلوم سیارے کے سفر پر روانہ کردیتے تھے وہ سب کہانیاں، داستانیں سچ ہوگئی تھیں۔
زمین سے بلند ہوکرآسمانوں میں اڑنے کا انسانی خواب اتنا پرانا ہے جتنا خود باشعور انسان۔یونانی، ہندوستانی، مصری اور دوسری تہذیبوں کی دیومالا پڑھ جائیں۔ کوئی اڑتا ہوالنکا جارہا ہے اور کوئی کوہ اولمپس کی خبر لارہا ہے۔ اس نے پرندوں کی طرح اڑنے کی کیسی کوششیں نہیں کیں۔ کوئی مہم جو اپنے شانوں سے بڑے بڑے پر باندھ کر کسی بلند مینار سے کود رہا ہے اور جان سے جار رہا ہے۔ کسی نے بڑے بڑے غباروں میں بیٹھ کر زمانے کی سیر کی۔ 'دنیا کے گرد 80 دن' ایک ایسی ہی خیالی مہم جوئی کا قصہ ہے جسے آج دنیا بھر کے بچے اپنی اپنی زبانوں میں ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں۔
اس ناول پر بننے والی فلمیں بچوں کے ساتھ بڑے بھی دیکھتے ہیں اور لطف لیتے ہیں۔یوں تو پرواز کرنے کی کوششوں میں بہت سے نام آتے ہیں لیکن آج سے 560 برس پہلے یہ نابغہ روزگار شخص لیونارڈوڈی ونچی تھا جسے ہم میں سے بیشتر لوگ اس کی ناقابل فراموش پیٹنگز کے حوالے سے جانتے ہیں۔ کم لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ وہ پائے کا انجینئر بھی تھا اور اس نے اڑنے والی مشینوں کے خاکے بنائے ۔ پرندوں کے پرکس طرح کام کرتے ہیں ان کی تفصیلات لکھیں۔ ان کے خاکے بنائے اور اپنے پیچھے ایسا سرمایہ چھوڑ گیا جو بیش قیمت ہے صرف ان خاکوں اور ان کی تفصیلات کے چند ورق لاکھوں کروڑوں ڈالروں میں فروخت ہوتے ہیں۔ چند برس پہلے مائیکر و سوفٹ کے بل گیٹس نے ایسے ہی چند ورق لاکھوں ڈالر میں خریدے ہیں۔
بات نیل آرمسٹرانگ کی رخصت سے شروع ہوئی تھی۔ آرمسٹرانگ انسانی جستجو، ذہانت، تجربے اور تحقیق کی ایک طویل زنجیر کی کڑی تھا۔ اس زنجیر کی ہر کڑی اپنی جگہ نہایت اہم ہے۔ رائٹ بھائیوں کے نام ہم کیسے بھلا سکتے ہیں جنہوں نے پہلی مرتبہ اپنی بنائی ہوئی فلائنگ مشین سے چند سو گز کی اڑان بھری تھی۔ یہ بہت پرانا قصہ نہیں صرف 100 اور 110 برس پہلے کی بات ہے جب انسان کے ہزاروں برس پرانے خواب کو تعبیر مل گئی تھی اور اس کے 60 برس بعد انسان نے چاند پر پہلا قدم رکھا تھا۔ آرمسٹرانگ نے غلط تو نہیں کہا تھا کہ ''یہ انسان کے لیے ایک چھوٹا سا قدم ہے لیکن بنی نوع انسان کے لیے یہ ایک بہت بڑی چھلانگ ہے۔''
رائٹ برادران اور کٹی ہاک کے بنائے ہوئے ابتدائی جہازوں سے اپالو11، ڈسکوری، وائیکنگ اور اب چند دنوں پہلے مریخ کی سطح پر اترنے والی ''کیوریوسٹی'' تک کیسا لمبا سفر ہے جو انسان نے طے کیا ہے ۔ اس مرحلے پر غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے۔
ہوتا ہے نہاں، گرد میں صحرا مرے ہوتے
گھستا ہے جبیں، خاک پہ دریا مرے آگے
آرمسٹرانگ کے بعد 11دوسرے خلاء بازوں نے چاند کی مٹی پر قدم رکھا۔ وہاں سے پتھر اور مٹی سمیٹی اور زمین پر لائے ۔ چاند کے ٹکڑوں کی نمائش دنیا کے مختلف ملکوں میں ہوئی۔ اور بچے، بڑے ، بوڑھے سب ہی چاند کی چٹان سے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے کو حیرت سے دیکھتے رہے۔ چاند پر مزید تحقیقات کا مشن رقم کی کمی کی وجہ سے بند کیا جاچکا ہے۔ جس کا اصل صدمہ ''ناسا'' کے سائنسدانوں کو ہے لیکن مریخ پر جانے والی ''کیوریوسٹی'' نے ان کے آنسو پونچھ دیے ہیں۔ مریخ کی ابتدائی تصویریں جولائی 1965میں انسان نے دیکھی تھیں۔
اس کے بعد سے اس سرخ سیارے سے سائنسدانوں کی دلچسپی بڑھتی چلی گئی اور وہ سیارہ جسے یونانیوں اور رومنوں نے ''جنگ کا دیوتا'' قرار دیا تھا، اب اس کی مٹی کا کیمیاوی تجزبہ ہورہا ہے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس سیارے پر کبھی زندگی موجود تھی یا نہیں؟ اور وہ تمام نقشے جو اب سے صدیوں پہلے ہئیت دان بنا گئے تھے اور جس میں مریخ کے شہروں اور نہروں کے نام تک لکھ دیے تھے وہ سب قصہ کہانی ہوئے۔
وہ تمام سائنسدان، خلانورد اور تحقیق کرنے والے جنہوں نے نیل آرمسٹرانگ سے مریخ پر اترنے والی کیوریورسٹی تک کا سفر ممکن بنایا وہ کسی ایک قوم، قبیلے، مذہب، مسلک یاملک سے تعلق نہیں رکھتے لیکن ان کی جستجو کے سفر کی بنیاد ایک کھلا ماحول، سائنسی سوچ کو بڑھاوا دینے والا نظام تعلیم اور سرکاری سطح پر ذہانت کی پرورش ہے۔ آرمسٹرانگ کی مثال بالکل سامنے کی ہے۔ 6 برس کی عمر میں اس قصباتی لڑکے کو ایک کھڑکھڑاتے ہوئے معمولی سی فلائنگ مشین میں ہوائی سفر کا موقع ملا اور اس نے اس کا رشتہ آسمانوں میں پرواز کے لانہایت شوق سے جوڑ دیا۔ اسے ہوا بازی سیکھنے کی دھن سوار ہوگئی یہاں تک کہ 15 برس کی عمر میں اسے جہاز اڑانے کا لائسنس مل گیا۔
جب کہ ڈرائیونگ لائسنس تین برس بعد 18 برس کی عمر میں ملا۔ کالج کی تعلیم کے بعد وہ جٹ فائٹر کا ہوا بازہوا۔ اس سفر میں قدم بہ قدم آگے بڑھتے ہوئے اس نے 6500 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنا خاص طیارہ اڑایا اور خلائے بسیط کے کنارے تک جاپہنچا۔ چاند کے سفر کی اہمیت اس کے لیے یوں بہت زیادہ تھی کہ اس طرح اسے خلائی راکٹ میں سفر کرنے کا موقع ملنے والا تھا جو اڑنے کا ایک نیا انداز، ایک نیا تجربہ تھا۔ 6500 کلومیٹر فی گھنٹہ سے کہیں زیادہ تیز رفتاری سے سفر کی سنسنی نے اس کا دل موہ لیا۔ اب تک وہ ہوا باز تھا۔ اپالومشن کا حصہ بننے کے بعد وہ خلانورد ہوگیا۔ اس دوران اس نے خلائی سفر کی ان گنت کہانیاں پڑھ ڈالی تھیں لیکن اسی سفر نے اسے انسانی تاریخ میں ایک بیمثال مقام عطا کیا۔
ایک کامیاب اور ہیرو کی زندگی گزار کر وہ جاچکا ہے۔ اس کے دو اور ساتھی اس سفر پر گئے تھے۔ لیکن جیسی شہرت اسے ملی، وہ اس کے دوسرے ساتھیوں کے حصے میں نہیں آئی۔ ان میںایک ایڈرین بھی تھا۔ یہ تینوں ایک دوسرے سے اپنے جذبات چھپاتے تھے۔ اس نے لکھا ہے کہ جس لمحے وہ چاند کی سطح پر اترے انھوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ شاید جذبات کی شدت اور اس لمحے کی اہمیت نے انھیں گنگ کردیا تھا۔ پھر انھوں نے ایک دوسرے کے شانے پر ہاتھ مارا ۔ وہ ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے ''کمال ہے۔
ہم نے یہ کام کردکھایا'' ۔انھوں نے ہزاروں برس سے لاکھوں کروڑوں انسانوں کے خوابوں کو تعبیر عطا کردی تھی۔ واقعی کمال کردیا تھا۔ لیکن یہ صرف ان کا نہیں ان تمام انسانوںکی محنت اور سائنسی سوچ کا کمال تھا جو فضا میں پرواز کی کوششوں میں مصروف تھے اوربہت سے جان سے گئے تھے اور بہت سے وہ بھی تھے جنہوں نے اس سفر کو قدم بہ قدم آگے بڑھایا۔ 1969 میں کون جانتا تھا کہ 2012 میں انسان کا بنایا ہوا خلائی جہاز مریخ پر جا اترے گا۔ اور ''کیوریوسٹی'' ہر گھنٹے ہزاروں تصویریں بھیجتی رہے گی۔
یہ ان کا قصہ ہے جن سے ہمیں ہزاروں اختلافات ہیں اور جنھیں ہم مشرک اور کافر کہتے ہیں۔ ہمارے شاعر چاند ستاروں کی خبریں اپنے اشعار میں لاتے ہیں اور ہم 3 عیدیں مناکر مطمئن رہتے ہیں۔اسے دانش کا اعلیٰ شاہکار نہیں تو اور کیا کہیں گے کہ آج بھی ہمارے درمیان وہ دانشور اور عالم وفاضل حضرات موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ انسان چاند پر اتر ہی نہیں سکتا۔ اسٹوڈیو میں فلم بناکر امریکیوں نے ساری دنیا کو بے وقوف بنایا ہے۔
ان لوگوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ایک خلائی گاڑی کیوریوسٹی (تجسس) مریخ پر اتر کر اس سیارے کی سیر کررہی ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے ایک مشکل اور آنے والی ہے کہ چین نے بھی اگلے برس انسان کو چاند پر اتارنے کا اعلان کردیا ہے۔
وہ جوش و خروش اور وہ جشن کوئی بھلا نہیں سکتا جودنیاکے ان گنت انسانوں نے منایا تھا۔ ٹیلی ویژن کے اسکرین پر سفید و سیاہ تصویریں دکھائی دے رہی تھیں اپالو گیارہ کا چاند کی سطح پر اترنا اور پھراسپیس سوٹ پہنے ہوئے اس شخص کا باہر آنا جس کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا کہ وہ ہم سب کی نیابت اور نمایندگی کرتے ہوئے چاند کی مٹی پر اپنا پہلا قدم رکھے۔ پھر ریڈیائی لہروں کو چیرتی ہوئی لاکھوں میل سے ایک آواز آئی تھی۔ ''یہ ایک انسان کے لیے ایک چھوٹا سا قدم ہے لیکن بنی نوع انسان کے لیے یہ ایک بہت بڑی چھلانگ ہے۔''
یہ امریکی خلانورد نیل آرمسٹرانگ کی آواز تھی اور یہ 20 جولائی 1969 کی تاریخ تھی۔ انسان کے ہزاروں برس پرانے خواب کی تعبیر مل گئی تھی۔ تمام تصوراتی کہانیاں سچ ہوگئی تھیں، وہ انسان جو الف لیلہ و لیلہ، طلسم ہوشربا اور دوسری ان گنت کہانیوں میں کبھی جادوئی قالین اور کبھی اڑن کھٹولے پر اڑتا ہوا دوسرے شہروں میں جا پہنچتا تھا۔ ایچ جی ویلز اور جولیزورن جیسے سائنسی کہانیاں لکھنے والے جسے کبھی چاند پر اتارتے تھے اور کبھی کسی نامعلوم سیارے کے سفر پر روانہ کردیتے تھے وہ سب کہانیاں، داستانیں سچ ہوگئی تھیں۔
زمین سے بلند ہوکرآسمانوں میں اڑنے کا انسانی خواب اتنا پرانا ہے جتنا خود باشعور انسان۔یونانی، ہندوستانی، مصری اور دوسری تہذیبوں کی دیومالا پڑھ جائیں۔ کوئی اڑتا ہوالنکا جارہا ہے اور کوئی کوہ اولمپس کی خبر لارہا ہے۔ اس نے پرندوں کی طرح اڑنے کی کیسی کوششیں نہیں کیں۔ کوئی مہم جو اپنے شانوں سے بڑے بڑے پر باندھ کر کسی بلند مینار سے کود رہا ہے اور جان سے جار رہا ہے۔ کسی نے بڑے بڑے غباروں میں بیٹھ کر زمانے کی سیر کی۔ 'دنیا کے گرد 80 دن' ایک ایسی ہی خیالی مہم جوئی کا قصہ ہے جسے آج دنیا بھر کے بچے اپنی اپنی زبانوں میں ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں۔
اس ناول پر بننے والی فلمیں بچوں کے ساتھ بڑے بھی دیکھتے ہیں اور لطف لیتے ہیں۔یوں تو پرواز کرنے کی کوششوں میں بہت سے نام آتے ہیں لیکن آج سے 560 برس پہلے یہ نابغہ روزگار شخص لیونارڈوڈی ونچی تھا جسے ہم میں سے بیشتر لوگ اس کی ناقابل فراموش پیٹنگز کے حوالے سے جانتے ہیں۔ کم لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ وہ پائے کا انجینئر بھی تھا اور اس نے اڑنے والی مشینوں کے خاکے بنائے ۔ پرندوں کے پرکس طرح کام کرتے ہیں ان کی تفصیلات لکھیں۔ ان کے خاکے بنائے اور اپنے پیچھے ایسا سرمایہ چھوڑ گیا جو بیش قیمت ہے صرف ان خاکوں اور ان کی تفصیلات کے چند ورق لاکھوں کروڑوں ڈالروں میں فروخت ہوتے ہیں۔ چند برس پہلے مائیکر و سوفٹ کے بل گیٹس نے ایسے ہی چند ورق لاکھوں ڈالر میں خریدے ہیں۔
بات نیل آرمسٹرانگ کی رخصت سے شروع ہوئی تھی۔ آرمسٹرانگ انسانی جستجو، ذہانت، تجربے اور تحقیق کی ایک طویل زنجیر کی کڑی تھا۔ اس زنجیر کی ہر کڑی اپنی جگہ نہایت اہم ہے۔ رائٹ بھائیوں کے نام ہم کیسے بھلا سکتے ہیں جنہوں نے پہلی مرتبہ اپنی بنائی ہوئی فلائنگ مشین سے چند سو گز کی اڑان بھری تھی۔ یہ بہت پرانا قصہ نہیں صرف 100 اور 110 برس پہلے کی بات ہے جب انسان کے ہزاروں برس پرانے خواب کو تعبیر مل گئی تھی اور اس کے 60 برس بعد انسان نے چاند پر پہلا قدم رکھا تھا۔ آرمسٹرانگ نے غلط تو نہیں کہا تھا کہ ''یہ انسان کے لیے ایک چھوٹا سا قدم ہے لیکن بنی نوع انسان کے لیے یہ ایک بہت بڑی چھلانگ ہے۔''
رائٹ برادران اور کٹی ہاک کے بنائے ہوئے ابتدائی جہازوں سے اپالو11، ڈسکوری، وائیکنگ اور اب چند دنوں پہلے مریخ کی سطح پر اترنے والی ''کیوریوسٹی'' تک کیسا لمبا سفر ہے جو انسان نے طے کیا ہے ۔ اس مرحلے پر غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے۔
ہوتا ہے نہاں، گرد میں صحرا مرے ہوتے
گھستا ہے جبیں، خاک پہ دریا مرے آگے
آرمسٹرانگ کے بعد 11دوسرے خلاء بازوں نے چاند کی مٹی پر قدم رکھا۔ وہاں سے پتھر اور مٹی سمیٹی اور زمین پر لائے ۔ چاند کے ٹکڑوں کی نمائش دنیا کے مختلف ملکوں میں ہوئی۔ اور بچے، بڑے ، بوڑھے سب ہی چاند کی چٹان سے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے کو حیرت سے دیکھتے رہے۔ چاند پر مزید تحقیقات کا مشن رقم کی کمی کی وجہ سے بند کیا جاچکا ہے۔ جس کا اصل صدمہ ''ناسا'' کے سائنسدانوں کو ہے لیکن مریخ پر جانے والی ''کیوریوسٹی'' نے ان کے آنسو پونچھ دیے ہیں۔ مریخ کی ابتدائی تصویریں جولائی 1965میں انسان نے دیکھی تھیں۔
اس کے بعد سے اس سرخ سیارے سے سائنسدانوں کی دلچسپی بڑھتی چلی گئی اور وہ سیارہ جسے یونانیوں اور رومنوں نے ''جنگ کا دیوتا'' قرار دیا تھا، اب اس کی مٹی کا کیمیاوی تجزبہ ہورہا ہے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس سیارے پر کبھی زندگی موجود تھی یا نہیں؟ اور وہ تمام نقشے جو اب سے صدیوں پہلے ہئیت دان بنا گئے تھے اور جس میں مریخ کے شہروں اور نہروں کے نام تک لکھ دیے تھے وہ سب قصہ کہانی ہوئے۔
وہ تمام سائنسدان، خلانورد اور تحقیق کرنے والے جنہوں نے نیل آرمسٹرانگ سے مریخ پر اترنے والی کیوریورسٹی تک کا سفر ممکن بنایا وہ کسی ایک قوم، قبیلے، مذہب، مسلک یاملک سے تعلق نہیں رکھتے لیکن ان کی جستجو کے سفر کی بنیاد ایک کھلا ماحول، سائنسی سوچ کو بڑھاوا دینے والا نظام تعلیم اور سرکاری سطح پر ذہانت کی پرورش ہے۔ آرمسٹرانگ کی مثال بالکل سامنے کی ہے۔ 6 برس کی عمر میں اس قصباتی لڑکے کو ایک کھڑکھڑاتے ہوئے معمولی سی فلائنگ مشین میں ہوائی سفر کا موقع ملا اور اس نے اس کا رشتہ آسمانوں میں پرواز کے لانہایت شوق سے جوڑ دیا۔ اسے ہوا بازی سیکھنے کی دھن سوار ہوگئی یہاں تک کہ 15 برس کی عمر میں اسے جہاز اڑانے کا لائسنس مل گیا۔
جب کہ ڈرائیونگ لائسنس تین برس بعد 18 برس کی عمر میں ملا۔ کالج کی تعلیم کے بعد وہ جٹ فائٹر کا ہوا بازہوا۔ اس سفر میں قدم بہ قدم آگے بڑھتے ہوئے اس نے 6500 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنا خاص طیارہ اڑایا اور خلائے بسیط کے کنارے تک جاپہنچا۔ چاند کے سفر کی اہمیت اس کے لیے یوں بہت زیادہ تھی کہ اس طرح اسے خلائی راکٹ میں سفر کرنے کا موقع ملنے والا تھا جو اڑنے کا ایک نیا انداز، ایک نیا تجربہ تھا۔ 6500 کلومیٹر فی گھنٹہ سے کہیں زیادہ تیز رفتاری سے سفر کی سنسنی نے اس کا دل موہ لیا۔ اب تک وہ ہوا باز تھا۔ اپالومشن کا حصہ بننے کے بعد وہ خلانورد ہوگیا۔ اس دوران اس نے خلائی سفر کی ان گنت کہانیاں پڑھ ڈالی تھیں لیکن اسی سفر نے اسے انسانی تاریخ میں ایک بیمثال مقام عطا کیا۔
ایک کامیاب اور ہیرو کی زندگی گزار کر وہ جاچکا ہے۔ اس کے دو اور ساتھی اس سفر پر گئے تھے۔ لیکن جیسی شہرت اسے ملی، وہ اس کے دوسرے ساتھیوں کے حصے میں نہیں آئی۔ ان میںایک ایڈرین بھی تھا۔ یہ تینوں ایک دوسرے سے اپنے جذبات چھپاتے تھے۔ اس نے لکھا ہے کہ جس لمحے وہ چاند کی سطح پر اترے انھوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ شاید جذبات کی شدت اور اس لمحے کی اہمیت نے انھیں گنگ کردیا تھا۔ پھر انھوں نے ایک دوسرے کے شانے پر ہاتھ مارا ۔ وہ ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے ''کمال ہے۔
ہم نے یہ کام کردکھایا'' ۔انھوں نے ہزاروں برس سے لاکھوں کروڑوں انسانوں کے خوابوں کو تعبیر عطا کردی تھی۔ واقعی کمال کردیا تھا۔ لیکن یہ صرف ان کا نہیں ان تمام انسانوںکی محنت اور سائنسی سوچ کا کمال تھا جو فضا میں پرواز کی کوششوں میں مصروف تھے اوربہت سے جان سے گئے تھے اور بہت سے وہ بھی تھے جنہوں نے اس سفر کو قدم بہ قدم آگے بڑھایا۔ 1969 میں کون جانتا تھا کہ 2012 میں انسان کا بنایا ہوا خلائی جہاز مریخ پر جا اترے گا۔ اور ''کیوریوسٹی'' ہر گھنٹے ہزاروں تصویریں بھیجتی رہے گی۔
یہ ان کا قصہ ہے جن سے ہمیں ہزاروں اختلافات ہیں اور جنھیں ہم مشرک اور کافر کہتے ہیں۔ ہمارے شاعر چاند ستاروں کی خبریں اپنے اشعار میں لاتے ہیں اور ہم 3 عیدیں مناکر مطمئن رہتے ہیں۔اسے دانش کا اعلیٰ شاہکار نہیں تو اور کیا کہیں گے کہ آج بھی ہمارے درمیان وہ دانشور اور عالم وفاضل حضرات موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ انسان چاند پر اتر ہی نہیں سکتا۔ اسٹوڈیو میں فلم بناکر امریکیوں نے ساری دنیا کو بے وقوف بنایا ہے۔
ان لوگوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ایک خلائی گاڑی کیوریوسٹی (تجسس) مریخ پر اتر کر اس سیارے کی سیر کررہی ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے ایک مشکل اور آنے والی ہے کہ چین نے بھی اگلے برس انسان کو چاند پر اتارنے کا اعلان کردیا ہے۔