’’طلاق طلاق طلاق‘‘

ہم نے ہر قسم اور نسل کی حکومت اور ہر مزاج کے حکمران دیکھے لیکن نہ معلوم کیوں کسی نے بھی ملک کی ترقی پر توجہ نہیں دی

Abdulqhasan@hotmail.com

لاہور:
تین طلاقیں امریکا پر یا امریکا کی تین طلاقیں پاکستان پر، جدائی ہو گئی امریکا میں ہمارے سابق سفیر اور امریکیوں سے زیادہ تیز و طرار سفارت کار حسین حقانی نے پاکستانیوں کو ان طلاقوں کی اطلاع دی ہے۔ طلاق مرد دیا کرتے ہیں کیونکہ وہ عورت سے زیادہ طاقت ور ہوتے ہیں عورتیں خلع لیا کرتی ہیں۔ اس لیے ہمارے سفیر کا مطلب غالباً یہی ہے کہ میرے ہموطنو امریکا نے تم کو طلاق دے دی ہے اور وہ بھی پکی طلاق۔ ایسی طلاق کو مرگ مفاجات بھی کہا جاتا ہے۔ ہم نے اپنی پوری عمر امریکا کے عقد میں گزار دی ہے اور ہمارے منکوحہ لیڈروں نے امریکا کی دولت پر خوب عیاشی کی ہے۔

یہ سلسلہ جاری ہے لیکن اب امریکا نے تنگ آ کر منہ دوسری طرف کر کے سونا شروع کر دیا ہے۔ حقانی کہتا ہے کہ کوریا نے امریکا سے دس ارب ڈالر امداد لی تھی اور اس سے اپنا ملک ایک معاشی طاقت بنا لیا۔ ہم نے چالیس ارب ڈالر مدد لی اور لینے والے خود کھا گئے۔ قوم اور ملک دیکھتے ہی رہ گئے۔ خوش خوراکی کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے بلکہ اب تو خوش خوراکوں کو ترقیاں دی جاتی ہیں، وزیر کو وزیر اعظم اور قید سے رہا ہونے والے کو پھر سے وزارت کی خوش خبری سنائی جاتی ہے اور یہ بالکل درست ہے۔

ایسے ہی لوگ ایسے حکمرانوں کے کام کے ہوتے ہیں۔ دیانت و امانت کے عادی شرم و حیا والے اور باپ دادا کے نام سے جھجھکنے والے ہمارے ایسے حکمرانوں کے لیے یہ لوگ بے کار ہی نہیں خطرناک بھی ہوتے ہیں۔ ایک مشہور و معروف حکمران نواب کالا باغ جب گورنر تھے اور وزارت دینا اسمبلی کا نہیں ان کا اختیار تھا تو ایک بار کسی نے میانوالی کے مولانا عبدالستار نیازی کی بہت تعریف کی اور ان کے کردار اور شخصیت کی خوبیاں بیان کیں۔ نواب صاحب نے ان پر مزید اضافہ کیا جس پر مولانا کے سفارشی نے کہا کہ آپ انھیں وزارت میں لے لیں، یہ سن کر ایک کامیاب حکمران نے جواب دیا کہ ایسے لوگ ہمارے کام کے نہیں ہوتے۔ ہمارے لیے بے کار ہوتے ہیں۔ تو آج کل بھی ایسے لوگ بے کار ہوتے ہیں اور دوسری قسم کے لوگ کارآمد اور مفید ہوتے ہیں خواہ وہ امریکا کے مطلقہ بھی کیوں نہ ہوں۔

ہم نے جس غلامانہ انداز میں امریکا کو اپنا حاکم تسلیم کیے رکھا ہے اور افغان جنگ میں جس کمزوری اور کمزور ذہنیت کا ثبوت دیا ہے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب امریکا نے ہمیں بے کار سمجھا تو ہمیں طلاق دے دی اور قطع تعلق کر لیا۔ نصف صدی سے زائد عرصہ گزر گیا، ہم نے ہر قسم اور نسل کی حکومت دیکھی اور ہر مزاج کے حکمران دیکھے لیکن نہ معلوم کیوں کسی نے بھی ملک کی ترقی پر توجہ نہیں دی معمول کی ترقی بھی نہیں ہو سکی۔ آج نہ ریل ہے نہ بجلی ہے اور نہ روٹی کپڑا اور مکان ہے ،کچھ بھی نہیں اور پاکستانی باہر دوڑ رہے ہیں۔ صرف پیپلز پارٹی ہے اور عدالتوں میں حاضری دینے والے اس کے وزیر اعظم ہیں۔


برطانیہ کے پاکستانی لارڈ نذیر کہہ رہے تھے کہ خدا کے لیے ملک کی ترقی پر توجہ دو، یہ عدالتی چکر کس کام کے اور جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے امریکا اور پاکستان کے تازہ ترین تعلقات کا جائزہ لیا ہے۔ جماعت' جو اب ایک اعلیٰ درجہ کی نظریاتی تھنک ٹینک ہے، مسلسل حالات کا جائزہ لیتی رہتی ہے اور قوم کو صحیح ترین صورت حال سے آگاہ کرتی ہے۔ اس کے پاس اطلاعات کے وسیع مواقعے ہیں۔ میں بطور ایک صحافی کے ان کے جائزوں سے مدد لیتا ہوں خصوصاً اس لیے بھی کہ وہ ایک کرپٹ ذہن کی پیداوار نہیں ہوتے۔ غلط ہو سکتے ہیں بدنیت نہیں۔

بات حسین حقانی کے تازہ جائزے کی ہو رہی تھی جو اس نے امریکا کی سرزمین پر بیٹھ کر ایک مستند ادارے میں پیش کیا ہے اور اس کی مختصر سی جھلک ہمیں دکھائی ہے۔ امریکا کی مدد امداد پر زندگی بسر کرنے والی اس قوم کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کو کس طرح لوٹا گیا ہے اور جس کسی نے بھی اس کی مدد کی اس کی مدد کو راستے میں ہی روک لیا ہے اور اسے اپنی جیبوں میں ڈال لیا ہے۔ یہ سلسلہ بہت پرانا ہے۔ ہمارے بڑے نیک نام یا یوں کہیں گے قبول عام بڑے نام والے لیڈروں کی حکومت بھی غیر ملکی امداد کھانے میں کسی سے پیچھے نہیں رہی بلکہ اس نے اس میں پہل کی۔ ایک زلزلہ آیا۔

زلزلہ کم تھا مگر اس کا پروپیگنڈا زیادہ کیا گیا۔ میں ان دو تین ملکوں اور حکمرانوں کے نام نہیں لکھتا جنہوں نے بھاری رقم کے چیک ہمارے حکمران کے ذاتی نام سے بھیجے۔ بعد میں ایک اور موقعے پر بھی ایسا ہی ہوا چنانچہ یہ رقم اتنی زیادہ تھی کہ اس پر خاندان میں لڑائی ہوئی کسی نے زہر تک کھا لی۔ خوش خوراکی کا یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اور اب ہمیں کوئی امداد تو نہیں دیتا بلکہ امدادی ادارے ہمارے حکمرانوں کے منہ پر کہتے ہیں کہ آپ تو امداد کی رقوم خود کھا جاتے ہیں۔ ہماری کرپشن نے دنیا بھر میں ڈھنڈورا دے رکھا ہے اب یہ بات اتنی پرانی ہو گئی ہے کہ اس کا ذکر بھی نہیں کیا جاتا صرف کبھی کبھار دنیا کے کرپٹ ملکوں میں پاکستان کا دوسرا تیسرا نمبر آ جاتا ہے۔

امریکا جو ایک نہایت ہی مشکل جنگ میں پھنسا ہوا ہے اور پاکستان کی سچی مدد کے بغیر وہاں سے نکل نہیں سکتا پاکستان کی بے رخی سے ناراض ہو کر اسے طلاق دے چکا ہے یا پاکستان کو بے کار اور بانجھ سمجھ کر اسے طلاق دے چکا ہے بہرحال طلاق ہو چکی ہے اور جو کمزور ہو گا اس طلاق کو وہی بھگتے گا۔
Load Next Story