طاقتور حکمران طبقہ یا کمزور سیاسی حکمت
پاکستان کے موجودہ پارلیمانی جمہوریت میں یہ کیسے سوچا جاسکتا ہے کہ پارلیمان سے زیادہ طاقتور چند افراد یا ادارے ہوں۔
پابندیوں اور زبان بندی کے لق دق صحرا میں کھڑا ، حبس اور چلچلاتی دھوپ کی حدت کے سامنے دنیا کے ان بااستقامت کرداروں پر سوچتا ہوں جنہوں نے انسانی آزادی اور اس کی حرمت کے لیے بے خوف وخطر اپنے عہد میں ذمے دارانہ عمل اور کام کیا تو میرا اعتماد تمام تر ملکی حبس اور تپش کے باوجود ایک '' باہمت جوالے'' میں تبدیل ہو جاتا ہے، ایسے ہی مواقعے کے لیے شاید تاریخ میں لکھنے کو محفوظ کرنے کا سوچا گیا ہوگا۔
انیسویں صدی کے اوائل کے امریکا کا 'جان ریڈ' کتنا نڈر اور صحافتی اصولوں کو سمجھنے والا ہوگا جس نے امریکا میں ہوتے ہوئے صحافتی اقدار اور فرائض کے تحت دنیا کے بدلتے ہوئے سیاسی حالات کو دیکھا اور ''زار روس'' کے انہدام کی پیش گوئی کرتے ہوئے تاریخی کتاب''دنیا کو جھنجھوڑنے والے دس دن'' لکھی اور دنیا کو ''روس کی طاقتور بادشاہت'' کے خاتمے کی پیش گوئی کی۔گو ہم ابھی شاید اس دور ابتلا میں ''جان ریڈ'' ایسے صحافی نہ دے پائیں (گو ہمارے پاس جمہوری سوچ اور نڈر صحافیوں کی تعداد ) ہنوز موجود ہے مگرصحافت پر نہ نظر آنیوالی صحافتی پابندیوں نے ضرور سوشل میڈیا کو متحرک کر دیا ہے جو عوام کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتا نظر آرہا ہے۔
گو اس پر بھی آمرانہ مزاج کے حکومتی مشرفی اور اشرافیائی جزبز ہوتے رہتے ہیں مگر شاید ٹیکنالوجی ان کی پابند سوچ سے زیادہ مضبوط ہے وگرنہ ہم تک شمالی وزیرستان میں کرفیو لگنے سے بلکتے سسکتے بچوں کی بھوک وپیاس کا علم نہ ہوتا اور نہ ہی ہم یہ جان پاتے کہ محمد بلال ایک ٹویٹ کے چار گھنٹے بعد بے رحمانہ انداز سے گولی کا نشانہ بن گیا مگر ان انسانیت سوز واقعات پر خبریں دینے والے چینل اور دیگر ذرایع نہ نظر آنیوالی پابندیوں کے زیر اثر ہیں جنہوں نے ان خبروں سے اب تک عوام کو آگاہ نہیں کیا ہے جوکہ کم ازکم جمہوری نظام میں نہ سوچا جاسکتا ہے اور نہ ہی منتخب حکومت سے اظہار رائے یا خبرکی ترسیل کی پابندی کی توقع کی جاسکتی ہے۔
پاکستان کے موجودہ پارلیمانی جمہوریت میں یہ کیسے سوچا جاسکتا ہے کہ پارلیمان سے زیادہ طاقتور چند افراد یا ادارے ہوں،گو پاکستان میں جمہوریت کے دو، ادوار بعد یہ خیال کسی حد تک مضبوط ہونے کی جانب گامزن تھاکہ اب پاکستان میں پارلیمینٹ ہی فیصلہ ساز عوامی ادارہ ہو گا جسکے آئینی فیصلے ہر ایک کو ماننے پڑیں گے مگر جب موجودہ اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر اسمبلی کے غیر حاضر یا گرفتار ارکان کی قانونی موجودگی کو یقینی نہ بنانے کی دلیل یہ کہہ آئی کر کہ ''اب اسمبلی ممبران کے پروڈکشن آرڈرجاری کرنا میرے اختیار میں نہیں'' تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ موجودہ اسمبلی کے حکومتی خواہ اپوزیشن اراکین سے زیادہ کوئی اور ''قوت متحرکہ'' ہے جو اس نظام کو عوام کے نام پر ربر اسٹمپ کی طرح چلانا چاہتی ہے۔
یہی صورتحال انیسویں صدی کے اوائل میں روس کی طاقتور '' زار شاہی '' کی تھی جو کسی طور بھی عوام اور اس کے حقوق کو خاطر میں نہیں لاتی تھی اور اپنی حکومتی و حربی طاقت کے بل پر عوام کے حقوق کو دبانے کا عمل جاری رکھے ہوئے تھی۔ اس پوری صورتحال میں ''درمیانی راستہ'' نکالنے کی کوشش اس وقت بھی کی گئی جس میں عوامی جدوجہد کے ایک دھڑے ''منشویکوں'' نے حکومتی مراعات کے لالچ میں عوام کے ساتھ کھلواڑکرنے کی کوشش کی مگر ''بالوشیک'' کا دوسرا دھڑا ''درمیانی رستے'' کو عوام کے ساتھ دھوکہ اور فراڈ سمجھتا تھا۔
امریکی صحافی جان ریڈ نے اس صورتحال پر واضح طور پر لکھا کہ '' گو منشویک روس کو پہلے مغربی جمہوری ریاستوں کی مانند پارلیمینٹری ریاست بناناچاہتے تھے جس پر انھوں نے حکومت کے صاحب جائیداد وطاقتور افراد کے ساتھ اشتراک بھی کیا مگر یہ عوام کو دھوکہ دینے کا وہ راستہ بن چکا تھا جس پر پارلیمان کی اکثریت کو بالشویک کا '' زار شاہی نظام ''کے خاتمے کا ساتھ دینا پڑا اور بقول،جان ریڈ''جب بالشویکیوں نے پورے کھوکھلے سمجھوتے کوگڑ بڑکردیا تو منشویکیوں اور سوشلسٹ انقلابیوں نے خود کو صاحب جائیداد طبقوں کی صف میں لڑتا ہوا پایا۔
آج دنیا کے تقریبا ہر ملک میں یہی مظہر نظر آرہا ہے'' یہ بات امریکی صحافی جان ریڈ نے کتاب ''دنیا کو جھنجھوڑنے والے دس دن ''کے دیباچے میں یکم جنوری 1919ء کو لکھی۔سو برس پہلے کیا جانے والا یہ صحافتی تجزیہ آج پاکستان کے کھوکھلے جمہوری نظام کا منہ چڑا رہا ہے جس میں پارلیمان کے اندر بیٹھی ہوئی طاقتیں ''طاقتور حکمران طبقے'' کواپنی جائیداد بچانے اور ذاتی مفادات کی تکمیل میں سر گرداں نظر آرہی ہیںجس میں سیاسی طور پہ مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور بی این پی مینگل اب تک ہچکچاہٹ اور ایک خاص وقت کی منتظر دکھائی دیتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ان جمہوری کہلانیوالی پارٹیوں کو عوام دشمن جمہوری حقوق کی پامالی لاپتہ افراد کا بڑھتا ہو خوف اور عوام کی زندگی اجیرن کردینے والی ناقص معاشی ٹیکس سے پر پالیسیوں کی موجودگی میں بھی عوام کی جانب سے ''خودرو'' تحریک منظم ہونے کا انتظار کیوں ہے؟ اگر پارلیمان میں اکثریت رکھنے والی سیاسی جماعتوں کی یہ سوچ ہو اوروہ پارلیمان میں یکسوئی کے ساتھ عوام دشمن بجٹ کو ناکام نہ بنا سکیں تو پھر یہ ''حکمران طبقات'' کو بھنور سے نکالنے اور لوٹ کھسوٹ کرنیوالی طاقتوں کے خلاف عوام کا غم و غصہ کم کرنے کی ایک بھونڈی سیاسی چال کے علاوہ کوئی اور دوسری حکمت نہیں ہوگی۔
ایک سینئر صحافی کا یہ انکشاف کیا چشم کشاء نہیں کہ ''طاقتور طبقے ہمارے چند صحافیوں کو اعتماد میں لے کر اس غیر انسانی اور غیر جمہوری سوچ کا اظہارکر رہے ہیں کہ پانچ ہزار افراد کو مصر اور چین کی طرز پر نشان عبرت بنائے بغیر ریاست درست نہ ہوگی'' اور جسے اس حکومت کے وزیر نے بھی قومی میڈیا پر ببانگ دہل کہا اور کسی بھی سیاسی جماعت نے اس ہولناک سوچ پرکوئی آواز نہ اٹھائی۔
کیا واقعی ہم جنگل کے قوانین کے پابند بنانے کی جانب رواں دواں ہیں یا ہمارے سیاسی اکابرین غیر سیاسی گملوں میں پروان چڑھنے کی وجہ سے سفاک اور مفاد پرست سیاستدان'' حکمران اشرافیہ'' کا حصہ رہنے کو ہی اپنی سیاسی بقا کا مسئلہ سمجھتے ہیں؟ موجودہ عوام دشمن اور جمہوری اقدار دشمن حکومت کے سامنے اپوزیشن سے اتحاد کی اختر مینگل کی یہ رائے کہ ''اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دیگر جماعتوں کی مدد سے حکمران اور طاقتور قوتوں سے معرکے کی جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں تو بی این پی بنا شرط اس سیاسی عمل کی حمایت کریگی''ایک اہم اور سیاسی موقف ہے جس کو اب تک کم ازکم پیپلز پارٹی تو بالکل قبول کرنے کے لیے تیار نہیں جب کہ مسلم لیگ ن کو شاید چند تحفظات کے ساتھ اختر مینگل کی اس سوچ کا حصہ بننا پڑے۔
دوسری جانب ہماری سیاسی تاریخ کی بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمیشہ ''طاقتور اسٹیبلشمنٹ'' کو بھنور سے نکالنے کا کاندھا پیپلز پارٹی نے ہی دیا مگر جہاں پیپلز پارٹی کی قیادت دو مرتبہ استعمال کا سہارا نہ بنی تو اسی طاقتور اسٹیبلشمنٹ نے دومنتخب وزیر اعظم کو راستے سے ہٹا دیا ، سیاست تجزیوں اور تاریخ کے بہاؤ کاکھیل ہے۔
اس میں کسی بھی قسم کی سیاسی مصلحت آخر کار سیاسی قوت کے خاتمے کا شکار ہی ہوتی ہے لہٰذا ''حکمران طبقے'' کو آصف زردار ی کی جانب سے بچانے کی یہ کوشش کسی طور پیپلز پارٹی یا بلاول بھٹو کی سیاست کو فائدہ نہیں پہنچائیگی۔
موجودہ ''طاقتور حکمران اشرافیہ'' اپنی کمزور قوت کے ساتھ بیچ منجدھار میں عوام کے غیظ و غضب اور عالمی معاشی اور سیاسی دباؤمیں طاقت کے استعمال نہ کرنے کی ایک ایسی نہج پر الجھن کا شکار ہے کہ جس میں اسے عدالتوں کے فیصلوں تک نے خوفزدہ کر دیاہے لہٰذا ایسی صورتحال میں نظریاتی سیاسی حکمت عملی اپنانے کا واحد راستہ اختر مینگل کی مذکورہ رائے ہے جس پر سنجیدگی سے سیاسی جماعتوں کو غورکرنے کی ضرورت ہے ۔وگرنہ سیاسی جماعتیں تاریخ کا مجرم بننے کے لیے تیار رہیں۔
انیسویں صدی کے اوائل کے امریکا کا 'جان ریڈ' کتنا نڈر اور صحافتی اصولوں کو سمجھنے والا ہوگا جس نے امریکا میں ہوتے ہوئے صحافتی اقدار اور فرائض کے تحت دنیا کے بدلتے ہوئے سیاسی حالات کو دیکھا اور ''زار روس'' کے انہدام کی پیش گوئی کرتے ہوئے تاریخی کتاب''دنیا کو جھنجھوڑنے والے دس دن'' لکھی اور دنیا کو ''روس کی طاقتور بادشاہت'' کے خاتمے کی پیش گوئی کی۔گو ہم ابھی شاید اس دور ابتلا میں ''جان ریڈ'' ایسے صحافی نہ دے پائیں (گو ہمارے پاس جمہوری سوچ اور نڈر صحافیوں کی تعداد ) ہنوز موجود ہے مگرصحافت پر نہ نظر آنیوالی صحافتی پابندیوں نے ضرور سوشل میڈیا کو متحرک کر دیا ہے جو عوام کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتا نظر آرہا ہے۔
گو اس پر بھی آمرانہ مزاج کے حکومتی مشرفی اور اشرافیائی جزبز ہوتے رہتے ہیں مگر شاید ٹیکنالوجی ان کی پابند سوچ سے زیادہ مضبوط ہے وگرنہ ہم تک شمالی وزیرستان میں کرفیو لگنے سے بلکتے سسکتے بچوں کی بھوک وپیاس کا علم نہ ہوتا اور نہ ہی ہم یہ جان پاتے کہ محمد بلال ایک ٹویٹ کے چار گھنٹے بعد بے رحمانہ انداز سے گولی کا نشانہ بن گیا مگر ان انسانیت سوز واقعات پر خبریں دینے والے چینل اور دیگر ذرایع نہ نظر آنیوالی پابندیوں کے زیر اثر ہیں جنہوں نے ان خبروں سے اب تک عوام کو آگاہ نہیں کیا ہے جوکہ کم ازکم جمہوری نظام میں نہ سوچا جاسکتا ہے اور نہ ہی منتخب حکومت سے اظہار رائے یا خبرکی ترسیل کی پابندی کی توقع کی جاسکتی ہے۔
پاکستان کے موجودہ پارلیمانی جمہوریت میں یہ کیسے سوچا جاسکتا ہے کہ پارلیمان سے زیادہ طاقتور چند افراد یا ادارے ہوں،گو پاکستان میں جمہوریت کے دو، ادوار بعد یہ خیال کسی حد تک مضبوط ہونے کی جانب گامزن تھاکہ اب پاکستان میں پارلیمینٹ ہی فیصلہ ساز عوامی ادارہ ہو گا جسکے آئینی فیصلے ہر ایک کو ماننے پڑیں گے مگر جب موجودہ اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر اسمبلی کے غیر حاضر یا گرفتار ارکان کی قانونی موجودگی کو یقینی نہ بنانے کی دلیل یہ کہہ آئی کر کہ ''اب اسمبلی ممبران کے پروڈکشن آرڈرجاری کرنا میرے اختیار میں نہیں'' تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ موجودہ اسمبلی کے حکومتی خواہ اپوزیشن اراکین سے زیادہ کوئی اور ''قوت متحرکہ'' ہے جو اس نظام کو عوام کے نام پر ربر اسٹمپ کی طرح چلانا چاہتی ہے۔
یہی صورتحال انیسویں صدی کے اوائل میں روس کی طاقتور '' زار شاہی '' کی تھی جو کسی طور بھی عوام اور اس کے حقوق کو خاطر میں نہیں لاتی تھی اور اپنی حکومتی و حربی طاقت کے بل پر عوام کے حقوق کو دبانے کا عمل جاری رکھے ہوئے تھی۔ اس پوری صورتحال میں ''درمیانی راستہ'' نکالنے کی کوشش اس وقت بھی کی گئی جس میں عوامی جدوجہد کے ایک دھڑے ''منشویکوں'' نے حکومتی مراعات کے لالچ میں عوام کے ساتھ کھلواڑکرنے کی کوشش کی مگر ''بالوشیک'' کا دوسرا دھڑا ''درمیانی رستے'' کو عوام کے ساتھ دھوکہ اور فراڈ سمجھتا تھا۔
امریکی صحافی جان ریڈ نے اس صورتحال پر واضح طور پر لکھا کہ '' گو منشویک روس کو پہلے مغربی جمہوری ریاستوں کی مانند پارلیمینٹری ریاست بناناچاہتے تھے جس پر انھوں نے حکومت کے صاحب جائیداد وطاقتور افراد کے ساتھ اشتراک بھی کیا مگر یہ عوام کو دھوکہ دینے کا وہ راستہ بن چکا تھا جس پر پارلیمان کی اکثریت کو بالشویک کا '' زار شاہی نظام ''کے خاتمے کا ساتھ دینا پڑا اور بقول،جان ریڈ''جب بالشویکیوں نے پورے کھوکھلے سمجھوتے کوگڑ بڑکردیا تو منشویکیوں اور سوشلسٹ انقلابیوں نے خود کو صاحب جائیداد طبقوں کی صف میں لڑتا ہوا پایا۔
آج دنیا کے تقریبا ہر ملک میں یہی مظہر نظر آرہا ہے'' یہ بات امریکی صحافی جان ریڈ نے کتاب ''دنیا کو جھنجھوڑنے والے دس دن ''کے دیباچے میں یکم جنوری 1919ء کو لکھی۔سو برس پہلے کیا جانے والا یہ صحافتی تجزیہ آج پاکستان کے کھوکھلے جمہوری نظام کا منہ چڑا رہا ہے جس میں پارلیمان کے اندر بیٹھی ہوئی طاقتیں ''طاقتور حکمران طبقے'' کواپنی جائیداد بچانے اور ذاتی مفادات کی تکمیل میں سر گرداں نظر آرہی ہیںجس میں سیاسی طور پہ مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور بی این پی مینگل اب تک ہچکچاہٹ اور ایک خاص وقت کی منتظر دکھائی دیتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ان جمہوری کہلانیوالی پارٹیوں کو عوام دشمن جمہوری حقوق کی پامالی لاپتہ افراد کا بڑھتا ہو خوف اور عوام کی زندگی اجیرن کردینے والی ناقص معاشی ٹیکس سے پر پالیسیوں کی موجودگی میں بھی عوام کی جانب سے ''خودرو'' تحریک منظم ہونے کا انتظار کیوں ہے؟ اگر پارلیمان میں اکثریت رکھنے والی سیاسی جماعتوں کی یہ سوچ ہو اوروہ پارلیمان میں یکسوئی کے ساتھ عوام دشمن بجٹ کو ناکام نہ بنا سکیں تو پھر یہ ''حکمران طبقات'' کو بھنور سے نکالنے اور لوٹ کھسوٹ کرنیوالی طاقتوں کے خلاف عوام کا غم و غصہ کم کرنے کی ایک بھونڈی سیاسی چال کے علاوہ کوئی اور دوسری حکمت نہیں ہوگی۔
ایک سینئر صحافی کا یہ انکشاف کیا چشم کشاء نہیں کہ ''طاقتور طبقے ہمارے چند صحافیوں کو اعتماد میں لے کر اس غیر انسانی اور غیر جمہوری سوچ کا اظہارکر رہے ہیں کہ پانچ ہزار افراد کو مصر اور چین کی طرز پر نشان عبرت بنائے بغیر ریاست درست نہ ہوگی'' اور جسے اس حکومت کے وزیر نے بھی قومی میڈیا پر ببانگ دہل کہا اور کسی بھی سیاسی جماعت نے اس ہولناک سوچ پرکوئی آواز نہ اٹھائی۔
کیا واقعی ہم جنگل کے قوانین کے پابند بنانے کی جانب رواں دواں ہیں یا ہمارے سیاسی اکابرین غیر سیاسی گملوں میں پروان چڑھنے کی وجہ سے سفاک اور مفاد پرست سیاستدان'' حکمران اشرافیہ'' کا حصہ رہنے کو ہی اپنی سیاسی بقا کا مسئلہ سمجھتے ہیں؟ موجودہ عوام دشمن اور جمہوری اقدار دشمن حکومت کے سامنے اپوزیشن سے اتحاد کی اختر مینگل کی یہ رائے کہ ''اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دیگر جماعتوں کی مدد سے حکمران اور طاقتور قوتوں سے معرکے کی جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں تو بی این پی بنا شرط اس سیاسی عمل کی حمایت کریگی''ایک اہم اور سیاسی موقف ہے جس کو اب تک کم ازکم پیپلز پارٹی تو بالکل قبول کرنے کے لیے تیار نہیں جب کہ مسلم لیگ ن کو شاید چند تحفظات کے ساتھ اختر مینگل کی اس سوچ کا حصہ بننا پڑے۔
دوسری جانب ہماری سیاسی تاریخ کی بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمیشہ ''طاقتور اسٹیبلشمنٹ'' کو بھنور سے نکالنے کا کاندھا پیپلز پارٹی نے ہی دیا مگر جہاں پیپلز پارٹی کی قیادت دو مرتبہ استعمال کا سہارا نہ بنی تو اسی طاقتور اسٹیبلشمنٹ نے دومنتخب وزیر اعظم کو راستے سے ہٹا دیا ، سیاست تجزیوں اور تاریخ کے بہاؤ کاکھیل ہے۔
اس میں کسی بھی قسم کی سیاسی مصلحت آخر کار سیاسی قوت کے خاتمے کا شکار ہی ہوتی ہے لہٰذا ''حکمران طبقے'' کو آصف زردار ی کی جانب سے بچانے کی یہ کوشش کسی طور پیپلز پارٹی یا بلاول بھٹو کی سیاست کو فائدہ نہیں پہنچائیگی۔
موجودہ ''طاقتور حکمران اشرافیہ'' اپنی کمزور قوت کے ساتھ بیچ منجدھار میں عوام کے غیظ و غضب اور عالمی معاشی اور سیاسی دباؤمیں طاقت کے استعمال نہ کرنے کی ایک ایسی نہج پر الجھن کا شکار ہے کہ جس میں اسے عدالتوں کے فیصلوں تک نے خوفزدہ کر دیاہے لہٰذا ایسی صورتحال میں نظریاتی سیاسی حکمت عملی اپنانے کا واحد راستہ اختر مینگل کی مذکورہ رائے ہے جس پر سنجیدگی سے سیاسی جماعتوں کو غورکرنے کی ضرورت ہے ۔وگرنہ سیاسی جماعتیں تاریخ کا مجرم بننے کے لیے تیار رہیں۔