یہ مرِے قتل کے سامان کہاں جاتے ہیں
یہ سامان کراچی میں ہی کسی جگہ اَن لوڈ کیا گیا اور یوں کروڑوں بلکہ اربوں روپے کچھ لوگوں نے مل کر خورد بُرد کر لیے۔
بھلے دنوں میں اس طرح کے دہشت ناک مصرعوں کا سارا زور دوسرے مصرعے کے ساتھ ہی ٹوٹ جاتا تھا کہ اس کے بعد شعر کی فضا ، مضمون اور دہشت انگیزی سب کے سب ایک ہلکے پھلکے قہقہے یا مسکراہٹ میں ہَوا ہوجاتے تھے ۔ مثال کے طور پر اسی شعر کے دونوں مصرعوں کو ذرا ایک ساتھ ملا کر پڑھیے :
پان لگ لگ کے مری جان کدھر جاتے ہیں
یہ مرے قتل کے سامان کدھر جاتے ہیں
یا داغؔ ہی کا یہ شعر کہ
ہم نے اُن کے سامنے پہلے تو خنجر رکھ دیا
پھر کلیجہ رکھ دیا ، دل رکھ دیا، سر رکھ دیا
لیکن جیسا میں نے شروع میں عرض کیا یہ باتیں نسبتاً بھلے دنوں کی ہیں۔ جب یہ آلاتِ حرب واقعی صرف استعارے ہوا کرتے تھے اب جن پکڑی جانے والی بارود سے بھری ہوئی گاڑیوں ، دستی بموں اور طرح طرح کے آٹو میٹک ہتھیاروں کا دیدار، ٹی وی چینلز پر کرایا جاتا ہے وہ سب کے سب اصلی ہوتے ہیں اگر مختلف رپورٹوں کی اوسط نکالی جائے تو مبیّنہ طور پر اس وقت وطنِ عزیز میں سات لاکھ کے قریب لائسنس یافتہ چھوٹے بڑے ہتھیاروں کے علاوہ تقریبا ایک کروڑ غیر قانونی اور ممنوعہ بور کے ہتھیار پائے جاتے ہیں جن میں ایسے ہتھیار بھی شامل ہیں جو بہت زیادہ تباہی پھیلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے لا محالہ جو پہلا سوال ذہن میں اُبھرتا ہے وہ یہی ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں یہ ہتھیار کیسے اور کہاں سے آئے۔ ان کی نقل و حرکت کو روکا کیوں نہیں گیا اور پابندی کے باوجود اسلحے کی نمائش کرنے والوں کو گرفتار کیوں نہیں کیا جاتا ۔
جہاں تک اسلحے کی ترسیل سے متعلق سرکاری بیانات کا تعلق ہے اس کے چند راستوں اور طریقوں کی تفصیل کچھ اس طرح سے بتائی جاتی ہے۔
۱)لائسنس یافتہ اور قانونی ذرایع سے عوام کی دسترس میں آنے والا اسلحہ۔
۲)سیاستدانوں کی ''مہربانیوں'' سے رشوت اوراقربا پروری کے حوالے سے پھیلائے گئے ہتھیار۔
۳)خیبر پختونخواہ کی 50 لائسنس یافتہ اسلحہ ساز فیکٹریوں میں بننے والے چھوٹے بڑے ہتھیار جو بہت بڑی تعداد میں غیر قانونی طریقوں سے حاصل کیے جاتے ہیں (ایک اطلاع کے مطابق گزشتہ پانچ برس میں ان فیکٹریوں کی تعداد 50 سے بڑھ کر 300 ہوگئی ہے)۔
۴) طالبان ، القاعدہ اور دیگر مسلکی تنظیموں کوغیر ملکی دہشت گرد ایجنسیوں اور تنظیموں سے ملنے والے اسمگل شدہ ہتھیار۔
۵)افغان مہاجرین کے ذریعے پاکستانی سرحدوں میں آنے والے ہتھیار۔
۶)نیٹو کے اسلحہ بردار کنٹینرز جو سمندر کے راستے کراچی اور وہاں سے سڑک کے ذریعے افغانستان پہنچنے کے دوران غائب کرکے دہشت گرد تنظیموں کو فروخت یا سپلائی کیے جاتے ہیں۔
آج کل اس آخری اور چھٹے طریقے یعنی سمندری راستے سے آنے والے کنٹینرز اور ان میں موجود اسلحے کو بندرگاہ سے کلیئر کروا کے غائب کرنے کے حوالے سے بہت سی خبریں گشت کر رہی ہیں ۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ ان میں نیٹو کے اسلحہ بردار کنٹینرز کے ساتھ ساتھ کسی اور آڑ میں لائے جانے والے کنٹینرز بھی شامل ہیںجن کی کُل تعداد 11 سے 19 ہزار کے درمیان ہوسکتی ہے لیکن امرِ واقعہ یہ ہے کہ ابھی تک اس معاملے کا سر پیر کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا ۔چوہدری نثار ہوں یا ڈی جی آئی ایس آئی ، دونوں ہی نے متعلقہ صورتِ حال کی نشاندہی تو کی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ ان کے وضاحتی بیانات بھی آنا شروع ہوگئے ہیں کہ ان کا روئے سخن کسی مخصوص پارٹی یا اس کے کسی خاص وزیر کی طرف نہیں ہے مگر لطف کی بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے متعلقہ وزیر بابر غوری صاحب نے ٹی وی پر آکر نہ صرف اس الزام کی تردید کی ہے بلکہ اس ضمن میں سپریم کورٹ سے ''نتارا'' کرانے کے عزم کا اظہار بھی کیا ہے۔
ان کی اور ان کی پارٹی کی طرف سے جو وضاحتی بیان اس وقت تک سامنے آئے ہیں ان کے مطابق کسی غیر قانونی طریقے سے بندرگاہ سے ایک کنٹینر نکلوانا بھی وزیر یا کسی اور کے بس میں نہیں ہوتا کیونکہ پانچ چھ ایجنسیاں اور ادارے کلیئرنگ کے عمل میں شامل ہوتے ہیں اور ان میں سے ایک دو کے سوا متعلقہ وزیر کا کسی سے بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا اور جہاں اس کا اختیار ہے بھی وہ بھی اس قدر محدود ہے کہ یہ اتنی بڑی کارروائی اس کے احاطے میں ہی نہیں آسکتی ۔
جہاں تک نیٹو اور افغان سپلائی سے متعلق کنٹینرز کا معاملہ ہے یہ بات (صحیح تعداد سے قطع نظر) اب تقریباً ثابت ہوگئی ہے کہ یہ کام بہت بڑے پیمانے پر اور نہایت مہارت سے انجام دیا گیا ہے ۔ کاغذات ہر طرح سے مکمل ہیں کہ یہ کنٹینرز کب، کیسے اور کتنے آئے، انھیں کس نے وصول کیا اور کس نے آگے بھجوایا ۔ اس کے بعد افغان بارڈر پر ان کی وصولی سے متعلق کاغذات بھی ہر اعتبار سے درست اور مستند دکھائے گئے ہیں کہ یہاں بھی وصول کنندہ سے متعلق تمام کارروائی مروّجہ قانون اور طریقہ کار کے مطابق ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات کے باقاعدہ ثبوت بھی موجود ہیں کہ جو ٹرک اور ٹرالر یہ کنٹینرز لے کر گئے تھے انھوں نے یہ کم از کم پانچ دن کا سفر آیندہ دس گھنٹوں میں مکمل کر لیا تھا کیونکہ اگلے دن اسی نمبر کا ٹرک اور اسی نام کا ڈرائیور پھر اسی مشن پر روانہ ہو رہا تھا۔
تحقیق کے مطابق یہ سامان کراچی میں ہی کسی جگہ اَن لوڈ کیا گیا اور یوں کروڑوں بلکہ اربوں روپے کچھ لوگوں نے مل کر خورد بُرد کر لیے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کنٹینرز میں ہر طرح کا سامان ہوتا تھا لیکن یہ حالیہ خبر اس حوالے سے مزید سنگین اور خطرناک ہے کہ یہاں غائب کیے جانے والے سب کے سب کنٹینرز مختلف طرح کے اسلحے سے بھرے ہوئے تھے اور غالباً زیادہ تر یہی وہ اسلحہ ہے جو پورے ملک میں بالعموم اور کراچی میں بالخصوص استعمال ہو رہا ہے سو اس واردات کا سراغ لگانا اور اصل مجرموں کو ( چاہے وہ کوئی بھی ہوں) قانون کی گرفت میں لانا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے کہ اب مزید تاخیر کی گنجائش باقی نہیں ہے۔
پان لگ لگ کے مری جان کدھر جاتے ہیں
یہ مرے قتل کے سامان کدھر جاتے ہیں
یا داغؔ ہی کا یہ شعر کہ
ہم نے اُن کے سامنے پہلے تو خنجر رکھ دیا
پھر کلیجہ رکھ دیا ، دل رکھ دیا، سر رکھ دیا
لیکن جیسا میں نے شروع میں عرض کیا یہ باتیں نسبتاً بھلے دنوں کی ہیں۔ جب یہ آلاتِ حرب واقعی صرف استعارے ہوا کرتے تھے اب جن پکڑی جانے والی بارود سے بھری ہوئی گاڑیوں ، دستی بموں اور طرح طرح کے آٹو میٹک ہتھیاروں کا دیدار، ٹی وی چینلز پر کرایا جاتا ہے وہ سب کے سب اصلی ہوتے ہیں اگر مختلف رپورٹوں کی اوسط نکالی جائے تو مبیّنہ طور پر اس وقت وطنِ عزیز میں سات لاکھ کے قریب لائسنس یافتہ چھوٹے بڑے ہتھیاروں کے علاوہ تقریبا ایک کروڑ غیر قانونی اور ممنوعہ بور کے ہتھیار پائے جاتے ہیں جن میں ایسے ہتھیار بھی شامل ہیں جو بہت زیادہ تباہی پھیلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے لا محالہ جو پہلا سوال ذہن میں اُبھرتا ہے وہ یہی ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں یہ ہتھیار کیسے اور کہاں سے آئے۔ ان کی نقل و حرکت کو روکا کیوں نہیں گیا اور پابندی کے باوجود اسلحے کی نمائش کرنے والوں کو گرفتار کیوں نہیں کیا جاتا ۔
جہاں تک اسلحے کی ترسیل سے متعلق سرکاری بیانات کا تعلق ہے اس کے چند راستوں اور طریقوں کی تفصیل کچھ اس طرح سے بتائی جاتی ہے۔
۱)لائسنس یافتہ اور قانونی ذرایع سے عوام کی دسترس میں آنے والا اسلحہ۔
۲)سیاستدانوں کی ''مہربانیوں'' سے رشوت اوراقربا پروری کے حوالے سے پھیلائے گئے ہتھیار۔
۳)خیبر پختونخواہ کی 50 لائسنس یافتہ اسلحہ ساز فیکٹریوں میں بننے والے چھوٹے بڑے ہتھیار جو بہت بڑی تعداد میں غیر قانونی طریقوں سے حاصل کیے جاتے ہیں (ایک اطلاع کے مطابق گزشتہ پانچ برس میں ان فیکٹریوں کی تعداد 50 سے بڑھ کر 300 ہوگئی ہے)۔
۴) طالبان ، القاعدہ اور دیگر مسلکی تنظیموں کوغیر ملکی دہشت گرد ایجنسیوں اور تنظیموں سے ملنے والے اسمگل شدہ ہتھیار۔
۵)افغان مہاجرین کے ذریعے پاکستانی سرحدوں میں آنے والے ہتھیار۔
۶)نیٹو کے اسلحہ بردار کنٹینرز جو سمندر کے راستے کراچی اور وہاں سے سڑک کے ذریعے افغانستان پہنچنے کے دوران غائب کرکے دہشت گرد تنظیموں کو فروخت یا سپلائی کیے جاتے ہیں۔
آج کل اس آخری اور چھٹے طریقے یعنی سمندری راستے سے آنے والے کنٹینرز اور ان میں موجود اسلحے کو بندرگاہ سے کلیئر کروا کے غائب کرنے کے حوالے سے بہت سی خبریں گشت کر رہی ہیں ۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ ان میں نیٹو کے اسلحہ بردار کنٹینرز کے ساتھ ساتھ کسی اور آڑ میں لائے جانے والے کنٹینرز بھی شامل ہیںجن کی کُل تعداد 11 سے 19 ہزار کے درمیان ہوسکتی ہے لیکن امرِ واقعہ یہ ہے کہ ابھی تک اس معاملے کا سر پیر کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا ۔چوہدری نثار ہوں یا ڈی جی آئی ایس آئی ، دونوں ہی نے متعلقہ صورتِ حال کی نشاندہی تو کی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ ان کے وضاحتی بیانات بھی آنا شروع ہوگئے ہیں کہ ان کا روئے سخن کسی مخصوص پارٹی یا اس کے کسی خاص وزیر کی طرف نہیں ہے مگر لطف کی بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے متعلقہ وزیر بابر غوری صاحب نے ٹی وی پر آکر نہ صرف اس الزام کی تردید کی ہے بلکہ اس ضمن میں سپریم کورٹ سے ''نتارا'' کرانے کے عزم کا اظہار بھی کیا ہے۔
ان کی اور ان کی پارٹی کی طرف سے جو وضاحتی بیان اس وقت تک سامنے آئے ہیں ان کے مطابق کسی غیر قانونی طریقے سے بندرگاہ سے ایک کنٹینر نکلوانا بھی وزیر یا کسی اور کے بس میں نہیں ہوتا کیونکہ پانچ چھ ایجنسیاں اور ادارے کلیئرنگ کے عمل میں شامل ہوتے ہیں اور ان میں سے ایک دو کے سوا متعلقہ وزیر کا کسی سے بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا اور جہاں اس کا اختیار ہے بھی وہ بھی اس قدر محدود ہے کہ یہ اتنی بڑی کارروائی اس کے احاطے میں ہی نہیں آسکتی ۔
جہاں تک نیٹو اور افغان سپلائی سے متعلق کنٹینرز کا معاملہ ہے یہ بات (صحیح تعداد سے قطع نظر) اب تقریباً ثابت ہوگئی ہے کہ یہ کام بہت بڑے پیمانے پر اور نہایت مہارت سے انجام دیا گیا ہے ۔ کاغذات ہر طرح سے مکمل ہیں کہ یہ کنٹینرز کب، کیسے اور کتنے آئے، انھیں کس نے وصول کیا اور کس نے آگے بھجوایا ۔ اس کے بعد افغان بارڈر پر ان کی وصولی سے متعلق کاغذات بھی ہر اعتبار سے درست اور مستند دکھائے گئے ہیں کہ یہاں بھی وصول کنندہ سے متعلق تمام کارروائی مروّجہ قانون اور طریقہ کار کے مطابق ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات کے باقاعدہ ثبوت بھی موجود ہیں کہ جو ٹرک اور ٹرالر یہ کنٹینرز لے کر گئے تھے انھوں نے یہ کم از کم پانچ دن کا سفر آیندہ دس گھنٹوں میں مکمل کر لیا تھا کیونکہ اگلے دن اسی نمبر کا ٹرک اور اسی نام کا ڈرائیور پھر اسی مشن پر روانہ ہو رہا تھا۔
تحقیق کے مطابق یہ سامان کراچی میں ہی کسی جگہ اَن لوڈ کیا گیا اور یوں کروڑوں بلکہ اربوں روپے کچھ لوگوں نے مل کر خورد بُرد کر لیے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کنٹینرز میں ہر طرح کا سامان ہوتا تھا لیکن یہ حالیہ خبر اس حوالے سے مزید سنگین اور خطرناک ہے کہ یہاں غائب کیے جانے والے سب کے سب کنٹینرز مختلف طرح کے اسلحے سے بھرے ہوئے تھے اور غالباً زیادہ تر یہی وہ اسلحہ ہے جو پورے ملک میں بالعموم اور کراچی میں بالخصوص استعمال ہو رہا ہے سو اس واردات کا سراغ لگانا اور اصل مجرموں کو ( چاہے وہ کوئی بھی ہوں) قانون کی گرفت میں لانا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے کہ اب مزید تاخیر کی گنجائش باقی نہیں ہے۔