نادان دوست بھی ہو تو

یہ ساری موشگافیاں محض اس لیے ہیں کہ ہم ’’دین‘‘کو دل کے بجائے ’’جسم‘‘پر نافذ کرکے خوش ہوتے ہیں۔

barq@email.com

ہماری ایک محترم قاریہ کو نہ جانے کیوں کیسے اور کب یہ غلطی ہوگئی ہے کہ ہم کوئی بہت بڑے دانا دانشور اور خاص طور پر دینی معاملات میں بڑے پہنچے ہوئے ہیں۔حالانکہ جہاں تک ہمارا اپنا خیال ہے ابھی ہم ''اپنے آپ''تک بھی نہیں پہنچے ہیں تو کہیں اور پہنچنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا

ابھی ہوس کو میسر نہیں دلوں کا گداز

ابھی یہ لوگ مقام نظر سے گزرے ہیں

بلکہ مسلمان بھی شاید پورے نہیں ہیں بقول ہمارے ایک دوست کے جو آج کل ہمارے دشمن نمبر ون ہیں ''ہم سب صرف مادرزاد''مسلمان ہیں، مسلمان گھرانے میں پیدا ہوگئے اور ''عادتاً''ہم بھی مسلمان بن گئے اور بن بھی کیا سکتے تھے کوئی اور''آپشن''جب تھا ہی نہیں۔ وہ ایک شخص جلیبیاں لے کر آیا تو اس کے بچے نے جلیبیاں پہلی مرتبہ کھاکرکہا کہ ابا یہ تو بڑی مزیدار ہیں یہ اتنی مزے کی چیز بناتا کون ہے؟ باپ نے کہا بیٹا ہندولوگ بناتے ہیں۔

اس پر بیٹے نے کہا ابا چلو ہم بھی ہندو ہوجائیں۔ اس زمانے میں ہندو ہی مالدار، ساہوکار سیٹھ اور پیسے والے ہوتے تھے۔باپ نے بیٹے کی بات پر ایک لمبی سانس لے کر کہا۔بیٹا ہماری اتنی قسمت کہاں؟۔مطلب یہ کہ ہم بھی بس نام کے مسلمان ہیں کام کے بالکل نہیں اور''دام''کے تو کبھی نہ تھے نہ ہیں اور نہ ہوں گے لیکن ان محترمہ کو نہ جانے کہاں سے یہ غلط فہمی لگی ہے کہ جیسے ہم بڑے دانا اور دین کے ہنر میں یکتا ہیں۔اس لیے کبھی کبھی فون پر عجیب عجیب بلکہ نصاب سے باہر سوالات پوچھتی رہتی ہیں اور پھر نہ جانے کہاں سے اور کیونکر ہمارے منہ سے کچھ ایسا نکل جاتا ہے کہ وہ مطمئن بھی ہوجاتی ہیں اور ہماری دانائی دانشوری کا رنگ جو حقیقت میں ہے ہی ان پر اور چڑھ جاتاہے۔

بالکل وہی معاملہ ہے جیسا ایک کہانی میں ہے کہ ایک بادشاہ کو ایک شخص کے بارے میں ایسی ہی غلط فہمی ہوجاتی ہے اور ہربار اس کے منہ سے جب کوئی نامعقول بات نکلتی ہے یا حرکت سرزد ہوجاتی ہے تو وہ سیدھی پڑجاتی ہے۔اب کے محترمہ نے پوچھا ہے کہ خدا کو کس طرح یاد کرنا چاہیے یا کس نام سے زیادہ بہتر ہے یا رحمان یا قیوم یا مالک وغیرہ۔ وہ تو ہم نے جو کچھ ذہن میں آیا کہہ دیا،کہ وہ عظیم ہستی جو زمین و آسمان کی مالک ہے، زبانیں ، الفاظ اور حروف بھی وہ تو ان سب سے ماوراء ہے۔اس لیے الفاظ کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔

اہمیت، جذبے خلوص اور نیت و ارادے کی ہے۔ وہ زبانیں بھی تو ساری اس کی ہیں الفاظ بھی اس کے ہیں اور بولنے والے سننے والے بھی اس کے ہیں اور وہ بھی ان سب کا ہے۔اگر کسی کو اپنی ایک چھوٹی سی محدود اور غیر معروف زبان کے علاوہ کوئی زبان نہیں آتی اور وہ اپنی زبان میں اسے یاد کرے گا اور محبت کا اظہار کرے گا تو کیا وہ اسے قبول نہیں کرے گا یا نہیں کرتا۔گڈریے کی اپنی زبان اور سوچ ہوتی ہے اور موسیٰ کی زبان اور سوچ کوئی اور ہوتی ہے۔وہ تو انسانوں میں ہوتا ہے کہ

یارب نہ وہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات


دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور

ابرو سے ہے کیا اس نگہ ناز کو پیوند

ہے تیر مقرر مگر اس کی ہے''کماں'' اور

یعنی مطلب ''تیر''سے ''کماں''سے نہیں

الفاظ کے اس چکر میں غالباً شیخ سعدی کی ایک حکایت ہے کہ چار لوگ کسی راستے پر اکٹھے جارہے تھے ایک ترکی ایک ایرانی ایک عرب اور ایک مصری۔راستے میں ان کو ایک اشرفی پڑی ہوئی مل گئی تو چاروں کی اکٹھی ہوگئی۔ایک نے کوئی نام لیاہے کہ اس سے فلاں چیز خرید کر کھائیں گے دوسرے نے کہا نہیں فلاں چیز تیسرے نے کچھ اور، اور چوتھے نے کچھ اور نام لیا۔باقی تو ایک دوسرے کی زبان سے واقف نہیں تھے لیکن ایک دوسرے کو مختلف نام لے کر انکار کرنے لگے اور اپنی اپنی زبان کا نام لیتے ہوئے آپس میں لڑپڑے اور ایک دوسرے کو لہولہان کردیا۔اتفاق سے وہاں سے ایک ایسے خدا کے بندے کا گزر ہوا، یہ چاروں لڑتے ہوئے اس تک پہنچے، چاروں نے اپنا اپنا موقف دہرایا تو وہ شخص ہنس پڑا کیونکہ وہ چاروں کی زبانیں جانتا اور چاروں ہی اپنی اپنی زبان میں ''انگور'' خریدنے پر مصر تھے۔

الفاظ کے اس گورکھ دھندے پر ہمیں بہت پرانے اپنے ایک قاری کا خط یاد آرہاہے۔اس نے لکھا تھا کہ ہم اس پر ایک زوردار کالم لکھیں کہ سڑکوں پر بعض شہروں اور اضلاع کے اختتام پر جو بورڈ لگائے گئے ہیں ان پر ''خدا حافظ'' لکھا ہوتا ہے جو غلط ہے ''اللہ حافظ'' کہنا چاہیے۔اور یہ ایک زمانے میں بلکہ شاید اب بھی کچھ لوگوں کا خیال ہے اور ٹی وی وغیرہ پر یا مجلسی زندگی میں کچھ لوگ خدا حافظ کی جگہ اللہ حافظ کہنے پر اصرار کرتے ہیں۔

یہ ساری موشگافیاں محض اس لیے ہیں کہ ہم ''دین''کو دل کے بجائے ''جسم''پر نافذ کرکے خوش ہوتے ہیں۔ الفاظ اور نام صرف جسمانی اور مادی ذرایع ہیں جب کہ روح میں اس کا نام صرف ایک ہے اور وہ ایک نام ہی سب ناموں میں سمایا ہوا ہے کہ کائنات کی ہر چیز کا نام صرف نام ہے باقی سب کچھ ایک عظیم وحدت ہے۔بچپن میں جب ہم پہلیاں بوجھتے بجھاتے تھے تو ان میں ایک پہیلی یہ بھی تھی کہ وہ کونسی چیز ہے جس کا محتاج خدا بھی ہے خدا اور محتاج؟ سننے والا سن ہوکر رہ جاتا تھا لیکن جواب ملنے پر مسکرادیا،وہ چیز ہے''نام''

لیکن اب گہرائی میں جاکر سمجھ میں آیا کہ وہ ہماری نادانی تھی جو خدا کو نام کا محتاج سمجھتے تھے، محتاج تو ہم تھے اور ہیں اس نے ہماری ہی''محتاجی''کے لیے کچھ نام ہمیں بتائے ہیں ورنہ نام تو امتیاز کے لیے ہوتے ہیں، خود اسی نے شعوب وقبائل کو صرف''لتعارفو''کے لیے بنائے ہیں کہ آپس میں پہچانے جائیں۔ البتہ یہ ضرورت انسان کی ہوتی ہے کہ اسے مکمل اور پورے کا پورا نہ دیکھ سکتاہے،نہ سمجھ سکتاہے اس لیے جتنا دیکھے گا سمجھے گا اسی کے مطابق اس کا نام رکھے گا اتنی ساری اور لاتعداد صفات کو کسی ایک نام میں کافی وشافی کیسے بیان کیاجاسکتاہے اگر کوئی ''انگور'' کے ناموں پرلڑتاہے تو یہ اس کی نادانی ہے اور نادان تو نادان ہوتا ہے چاہے دوست ہی کیوں نہ ہو۔
Load Next Story