بچ بچا کر کہنا تو ہے
’’زبان ایک ایسا درندہ ہے کہ اگر تو اسے کھلا چھوڑ دے تو ممکن ہے کہ پلٹ کر تجھ ہی کوکھا جائے۔‘‘
کہتے ہیں محبت کا جذبہ بڑا عجیب ہوتا ہے، ٹھنڈا، میٹھا، متاثرکن جو خود بخود دل تک میں اتر جاتا ہے۔ چاہے الفاظ ترتیب میں ہوں یا بے ترتیب، نہ لہجہ، نہ موقع محل گویا زبانی جمع خرچ کے تمام فارمولے محبت کے اس جذبے تلے دم توڑ دیتے ہیں۔ دل اور محبت کا بڑا گہرا تعلق ہے جسے پہچاننا اتنا مشکل تو نہیں لیکن سمجھنے کے لیے بھی دل ہی چاہیے یہ تو دلوں سے دل کا ملاپ ہے۔
چاہے یہ رشتہ انسانوں کے بیچ ہو یا اپنے رب کے ساتھ۔ مولانا رومؒ نے اپنی مثنوی میں حضرت موسیٰؑ اور ایک چرواہے کا قصہ بیان کیا تھا جس میں چرواہا اپنے رب سے محبت کا اظہار کچھ اس طرح سے کرتا ہے جیسے رب العزت اس کی محبوبہ ہو، جس کے وہ پیار سے بال سنوارے، آنکھوں میں سرمہ ڈالے، غرض عجیب عجیب سی باتیں جو حضرت موسیٰؑ کو پسند نہ آئیں۔ ظاہر ہے کہ رب العزت کا پیغمبر اپنے رب کی شان میں ایسی باتیں سن کر اسے ملامت کرتا ہے کہ ان سے بہتر رب العزت کے درجے کو کون جان سکتا ہے لیکن اللہ رب العزت کو اپنے پیغمبر کی یہ بات پسند نہ آئی کیونکہ اس اعلیٰ قدر کو تو اس چرواہے کی وہی باتیں پسند تھیں جو وہ ناسمجھی میں اپنی محبت کی شدت کے باعث کیا کرتا تھا کہ یہ شدت ہی اس کی اپنے رب سے محبت کی انتہا تھی، جسے دلوں کے سب بھید جاننے والا بخوبی جانتا ہے،گویا محبت کی زبان ایسی بھی ہوتی ہے کہ مخاطب کا ہم کلام ہی سمجھ سکتا ہے جیسے ایک ماں اپنے ننھے بچے کی مسکراہٹ دیکھ کر کھل جاتی ہے اور بچہ ماں کا چہرہ دیکھ کر محبت سے ٹانگیں چلاتا ہے کہ یہ جذبے ایسے ہی پرلطف ہوتے ہیں کیوں اور کیسے کا سوال نہیں اٹھتا اس بیچ کہ محبت کی خود اپنی ہی زبان ہوتی ہے، محبت کے ساتھ جو رشتہ ابھرتا ہے وہ دوستی کے روپ میں نظر آتا ہے چاہے یہ دوستی اپنے بہن بھائیوں سے ہو، میاں بیوی میں ہو یا اولاد سے ہو، غرض تمام رشتے محبت کی مٹھاس سے قریب آجاتے ہیں۔
محبت اور دوستی کا ناتا بڑا پکا ہے لیکن انسانی فطرت ہے کہ ذرا سی عداوت، کینہ، کدورت اور اپنی غرض کے چکر میں رشتے ناتے سب نفرت کی دھول میں چھپ جاتے ہیں۔ محبت بھرے جملے توکیا نفرت کے تیر چلنا شروع ہو جاتے ہیں کسی نے سچ ہی کہا ہے نفرت کے تیر جو حقیقتاً تو تیر نہیں ہوتے پران الفاظ میں ایسی تیزی اتنا زہر بھرا ہوتا ہے جو دل کو جیسے کاٹ کر رکھ دیتا ہے، حالانکہ اس زہریلی بات سے کہنے والے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، مراد یہ ہے کہ مادی طور پر روپے پیسے کے لحاظ سے کچھ بھی نہیں ملتاپھر بھی اسے زہریلے نشتر چلانے سے دلی سکون محسوس ہوتا ہے، اس کا نفس اسے تھپکیاں دیتا ہے کہ بہت خوب یہ ہوئی ناں بات، کیسے چھیل کے رکھ دیا اور سنانے والا اپنے نفس کی اس تھپکی پر اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتا ہے، سورہ بنی اسرائیل میں ہے آیت 53(ترجمہ)
'' (اے ہمارے رسولؐ) میرے بندوں سے کہہ دو کہ زبان سے وہ بات کہیں جو بہترین ہو۔''
گویا اس طرح کی بات کی جائے جو اچھی ہو کیونکہ انسان کی گفتگو سے ہی اس کے ایمان، کردار، سوچ اور خاندان کا پتہ چلتا ہے، محبت کے بے پناہ اور خوبصورت تقاضوں میں تو اٹھک بیٹھک بھی خوبصورت لگتی ہے لیکن اس تقاضے کے ادھر زندگی کی روش پر انسان کی گفتگوکی ادائیگی میں بھی ہمیں اپنے پروردگار کی جانب سے کہا گیا ہے کہ بہترین بات کی جائے، یہاں تک کہ آداب گفتگو پر اس قدر توجہ دی گئی ہے کہ زور زور سے چلا کر بولنے کو بھی رب العزت نے ناپسند فرمایا ہے، سورۃ لقمان میں واضح طور پر ہے ملاحظہ فرمائیے آیت نمبر 19(ترجمہ)
''اپنی آواز پست رکھو۔ بے شک بری آواز گدھے کی آواز ہے۔''
گویا فرما دیا وضاحت کے ساتھ کہ آہستہ آواز میں بولیے کہ بری آواز یعنی جو شخص آہستہ آواز کے برخلاف زور زور سے چلا کر بولے تو اس کی آواز کوگدھے کی آواز سے تشبیہ دی گئی ہے اورکم عقل رکھنے والوں کو یہ بھی سمجھا دیا گیا کہ گدھے کی آواز بری ہے، ذرا غورکیجیے گدھے کی آواز پر تو بات خودبخود کھلتی چلی جاتی ہے کہ کس قدر باریک بینی سے ہمارے سمجھانے کے لیے قرآن پاک میں کھول کھول کر بیان کیا گیا ہے۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ روز مرہ کی زندگی سے لے کر سیاسی ماحول میں بھی ایسے ایسے الفاظ، جملے اور طنزیہ فقرے استعمال ہوتے ہیں کہ جنھیں سن کر پڑھ کر دیکھ کر اچھا محسوس نہیں ہوتا، کئی بار بڑے بڑے پلیٹ فارمز پر غیر شائستہ گفتگو بھی سنی گئی۔ کیا اس طرح کے ماحول میں انسان دوسرے انسانوں کو اپنا دوست بنا سکتا ہے بلکہ وہ اپنے اچھے دوستوں کے دلوں میں بھی رنجش پیدا کردیتے ہیں۔ اچھا اور برا وقت ایسے آتا ہے جیسے دھوپ اور چھاؤں، کبھی دھوپ سخت تو کبھی چھاؤں میں بھی پیروں میں چھالے پڑ جاتے ہیں، بس اوپر والے کی رحمت ہی ہوتی ہے جو بار بار سمجھانے کے لیے انسان کو مواقع دیتے رہتے ہیں بس ہر حال میں شکر ادا کرتے یہ ضرور سوچنا چاہیے، اس سانس کے بعد دوسرا سانس نصیب بھی ہوتا ہے یا نہیں بس یہی کم وقت کی زندگی سوچ کر چلتے رہیے تو اپنے کوٹ کی جیب خودبخود ہلکی ہوتی جائے گی اور یہ ہلکا پن ضرورت مندوں میں دعائیں بن کر موتیوں کی طرح فضا میں پھیل جائے گا، ان شفاف خوبصورت موتیوں کو پھر کوئی طاقت نہیں روک سکتی بس آزمانے کی دیر ہے۔
ہمیں چاہیے کہ اپنے گھر میں، خاندان میں، دفتر میں اور دوسرے کام کرنے والی جگہوں پر، عوامی مقامات میں، پریس کانفرنسز میں یا عوامی جلسوں میں ایسے طنزیہ اور دل زخمی کردینے والے الفاظ نہ استعمال کریں کیونکہ اس طرح دشمنوں اور بدخواہوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ حضرت علیؓ نے بہت خوبصورت بات کہی ہے:
''زبان ایک ایسا درندہ ہے کہ اگر تو اسے کھلا چھوڑ دے تو ممکن ہے کہ پلٹ کر تجھ ہی کوکھا جائے۔''
چاہے یہ رشتہ انسانوں کے بیچ ہو یا اپنے رب کے ساتھ۔ مولانا رومؒ نے اپنی مثنوی میں حضرت موسیٰؑ اور ایک چرواہے کا قصہ بیان کیا تھا جس میں چرواہا اپنے رب سے محبت کا اظہار کچھ اس طرح سے کرتا ہے جیسے رب العزت اس کی محبوبہ ہو، جس کے وہ پیار سے بال سنوارے، آنکھوں میں سرمہ ڈالے، غرض عجیب عجیب سی باتیں جو حضرت موسیٰؑ کو پسند نہ آئیں۔ ظاہر ہے کہ رب العزت کا پیغمبر اپنے رب کی شان میں ایسی باتیں سن کر اسے ملامت کرتا ہے کہ ان سے بہتر رب العزت کے درجے کو کون جان سکتا ہے لیکن اللہ رب العزت کو اپنے پیغمبر کی یہ بات پسند نہ آئی کیونکہ اس اعلیٰ قدر کو تو اس چرواہے کی وہی باتیں پسند تھیں جو وہ ناسمجھی میں اپنی محبت کی شدت کے باعث کیا کرتا تھا کہ یہ شدت ہی اس کی اپنے رب سے محبت کی انتہا تھی، جسے دلوں کے سب بھید جاننے والا بخوبی جانتا ہے،گویا محبت کی زبان ایسی بھی ہوتی ہے کہ مخاطب کا ہم کلام ہی سمجھ سکتا ہے جیسے ایک ماں اپنے ننھے بچے کی مسکراہٹ دیکھ کر کھل جاتی ہے اور بچہ ماں کا چہرہ دیکھ کر محبت سے ٹانگیں چلاتا ہے کہ یہ جذبے ایسے ہی پرلطف ہوتے ہیں کیوں اور کیسے کا سوال نہیں اٹھتا اس بیچ کہ محبت کی خود اپنی ہی زبان ہوتی ہے، محبت کے ساتھ جو رشتہ ابھرتا ہے وہ دوستی کے روپ میں نظر آتا ہے چاہے یہ دوستی اپنے بہن بھائیوں سے ہو، میاں بیوی میں ہو یا اولاد سے ہو، غرض تمام رشتے محبت کی مٹھاس سے قریب آجاتے ہیں۔
محبت اور دوستی کا ناتا بڑا پکا ہے لیکن انسانی فطرت ہے کہ ذرا سی عداوت، کینہ، کدورت اور اپنی غرض کے چکر میں رشتے ناتے سب نفرت کی دھول میں چھپ جاتے ہیں۔ محبت بھرے جملے توکیا نفرت کے تیر چلنا شروع ہو جاتے ہیں کسی نے سچ ہی کہا ہے نفرت کے تیر جو حقیقتاً تو تیر نہیں ہوتے پران الفاظ میں ایسی تیزی اتنا زہر بھرا ہوتا ہے جو دل کو جیسے کاٹ کر رکھ دیتا ہے، حالانکہ اس زہریلی بات سے کہنے والے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، مراد یہ ہے کہ مادی طور پر روپے پیسے کے لحاظ سے کچھ بھی نہیں ملتاپھر بھی اسے زہریلے نشتر چلانے سے دلی سکون محسوس ہوتا ہے، اس کا نفس اسے تھپکیاں دیتا ہے کہ بہت خوب یہ ہوئی ناں بات، کیسے چھیل کے رکھ دیا اور سنانے والا اپنے نفس کی اس تھپکی پر اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتا ہے، سورہ بنی اسرائیل میں ہے آیت 53(ترجمہ)
'' (اے ہمارے رسولؐ) میرے بندوں سے کہہ دو کہ زبان سے وہ بات کہیں جو بہترین ہو۔''
گویا اس طرح کی بات کی جائے جو اچھی ہو کیونکہ انسان کی گفتگو سے ہی اس کے ایمان، کردار، سوچ اور خاندان کا پتہ چلتا ہے، محبت کے بے پناہ اور خوبصورت تقاضوں میں تو اٹھک بیٹھک بھی خوبصورت لگتی ہے لیکن اس تقاضے کے ادھر زندگی کی روش پر انسان کی گفتگوکی ادائیگی میں بھی ہمیں اپنے پروردگار کی جانب سے کہا گیا ہے کہ بہترین بات کی جائے، یہاں تک کہ آداب گفتگو پر اس قدر توجہ دی گئی ہے کہ زور زور سے چلا کر بولنے کو بھی رب العزت نے ناپسند فرمایا ہے، سورۃ لقمان میں واضح طور پر ہے ملاحظہ فرمائیے آیت نمبر 19(ترجمہ)
''اپنی آواز پست رکھو۔ بے شک بری آواز گدھے کی آواز ہے۔''
گویا فرما دیا وضاحت کے ساتھ کہ آہستہ آواز میں بولیے کہ بری آواز یعنی جو شخص آہستہ آواز کے برخلاف زور زور سے چلا کر بولے تو اس کی آواز کوگدھے کی آواز سے تشبیہ دی گئی ہے اورکم عقل رکھنے والوں کو یہ بھی سمجھا دیا گیا کہ گدھے کی آواز بری ہے، ذرا غورکیجیے گدھے کی آواز پر تو بات خودبخود کھلتی چلی جاتی ہے کہ کس قدر باریک بینی سے ہمارے سمجھانے کے لیے قرآن پاک میں کھول کھول کر بیان کیا گیا ہے۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ روز مرہ کی زندگی سے لے کر سیاسی ماحول میں بھی ایسے ایسے الفاظ، جملے اور طنزیہ فقرے استعمال ہوتے ہیں کہ جنھیں سن کر پڑھ کر دیکھ کر اچھا محسوس نہیں ہوتا، کئی بار بڑے بڑے پلیٹ فارمز پر غیر شائستہ گفتگو بھی سنی گئی۔ کیا اس طرح کے ماحول میں انسان دوسرے انسانوں کو اپنا دوست بنا سکتا ہے بلکہ وہ اپنے اچھے دوستوں کے دلوں میں بھی رنجش پیدا کردیتے ہیں۔ اچھا اور برا وقت ایسے آتا ہے جیسے دھوپ اور چھاؤں، کبھی دھوپ سخت تو کبھی چھاؤں میں بھی پیروں میں چھالے پڑ جاتے ہیں، بس اوپر والے کی رحمت ہی ہوتی ہے جو بار بار سمجھانے کے لیے انسان کو مواقع دیتے رہتے ہیں بس ہر حال میں شکر ادا کرتے یہ ضرور سوچنا چاہیے، اس سانس کے بعد دوسرا سانس نصیب بھی ہوتا ہے یا نہیں بس یہی کم وقت کی زندگی سوچ کر چلتے رہیے تو اپنے کوٹ کی جیب خودبخود ہلکی ہوتی جائے گی اور یہ ہلکا پن ضرورت مندوں میں دعائیں بن کر موتیوں کی طرح فضا میں پھیل جائے گا، ان شفاف خوبصورت موتیوں کو پھر کوئی طاقت نہیں روک سکتی بس آزمانے کی دیر ہے۔
ہمیں چاہیے کہ اپنے گھر میں، خاندان میں، دفتر میں اور دوسرے کام کرنے والی جگہوں پر، عوامی مقامات میں، پریس کانفرنسز میں یا عوامی جلسوں میں ایسے طنزیہ اور دل زخمی کردینے والے الفاظ نہ استعمال کریں کیونکہ اس طرح دشمنوں اور بدخواہوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ حضرت علیؓ نے بہت خوبصورت بات کہی ہے:
''زبان ایک ایسا درندہ ہے کہ اگر تو اسے کھلا چھوڑ دے تو ممکن ہے کہ پلٹ کر تجھ ہی کوکھا جائے۔''