یادیں اور حقائق
سرورق پرایک لالٹین ہے جو پرنانی نکھی گوری کی یاد دلاتی ہے، یہ کتاب سات حصوں پر مشتمل ہے۔
زیر تبصرہ کتاب یادیں اور حقائق کے مصنف محمد امین بلوچ کی زندگی کا درد ناک پہلو یہ ہے کہ انھوں نے اپنی یہ سوانح حیات دن رات محنت کرکے مکمل کروائی تھی اور جس دن کتاب کی اشاعت مکمل ہوئی، اسی دن ان کا انتقال ہوگیا ۔ اس طرح وہ اپنی اس کتاب کی زندگی میں تقریب رونمائی سے محروم رہے لیکن ان کی زندگی کے وہ روشن پہلو جو سادگی ،شرافت اور انسان دوستی پرمبنی تھے ہمیشہ ہمارے دلوں میں نقش رہیں گے ۔ مرحوم کے چھوٹے بھائی محمد رفیق بلوچ جوکہ کسٹم آفیسر ہیں نے مرحوم کی اس خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کتاب کے آخری مراحل سر انجام دیے۔
مصنف محمد امین بلوچ نے اپنی اس کتاب کو اپنے خاندان کی اس عظیم اور بہادرخاتون گوری کے نام کیا ہے جنھیں 95سال (1878-1973)کی زندگی ملی جس کا بیشتر حصہ انھوں نے آخری سانس تک انسانی اقدار کی پاسداری کی سماجی بھلائی کے کام کیے اور خاندانی یکجہتی پر زور دے کر باہمی محبت کے جذبے کو بڑھایا اور 1946ء سے لے کر 1973ء تک محلہ میں مسجد کی لالٹین میں مٹی کا تیل فراہم کرتی رہیں ۔ مصنف لکھتے ہیں کہ ''میری بھی یہ خوش قسمتی ہے کہ میں بچپن میںنکھی گوری (پرنانی) کے اس کارخیر میں 1959ء سے 1964ء تک اس لالٹین کو مسجد سے لاتا اور لے جاتا۔
کتاب کے پیش لفظ میں عبدالوہاب خان لکھتے ہیں کہ سچ تو یہ ہے کہ امین کی یہ داستان حیات نوجوانوں کے لیے اور خاص طور پر دورافتادہ اور پسماندہ علاقوں میں رہنے والے بلوچ نوجوانوں کے لیے روشنی کا مینار ہے، اگر زندگی کی تمام تر صعوبتوں ، محرومیوں اور مشکلات کے باجود امین اپنی زندگی کا دشوار سفر پوری ہمت اور حوصلے سے طے کرتے ہیں اور ناممکن کو ممکن کر دکھاتے ہیں توکیا ہر بلوچ نوجوان یہ سفر اس عزم سے طے کرنے کا حوصلہ بہم نہیں پہنچا سکتا ؟
امین بلوچ کی اس داستان حیات میں بہت دلچسپ کردار سامنے آتے ہی جو تلخی حیات کو تھوڑا سا شیریں بنانے میں کوشاں نظر آتے ہیں ۔یہ وہ عام لوگ ہیں جن کی ہمت اور مثبت رویہ زندگی کو معنی بخشتے ہیں ۔ یہ عام لوگ اگر نہ ہوں تو زندگی کبھی اتنی معنی خیز نہ ہوکہ جہاں محروم لوگ حیات کے کوہ بے ستون سے امیدکے جوئے شیر دریافت کرلیں ۔کیسے زندگی کی کٹھن مشکلیں انسان کے جذبے اور عزم کے لیے مہمیزکا کام کرتی ہیں۔ یہ سب اور بہت کچھ اس کتاب میں ملے گا ۔ سچ پوچھیے تو امین بلوچ نے یہ کتاب لکھ کر اپنی مٹی کا قرض کسی حد تک ادا کردیا ہے۔
مصنف محمد امین بلوچ اپنی عرضداشت میں لکھتے ہیں کہ اس سے پہلے میں نے ایک کتاب انگریزی زبان میں Inside Ormaraکے نام سے لکھی تھی ۔اس کتاب میں جو میری آب بیتی کی صورت میں آپ کے ہاتھ میں ہے ، وہ واقعات ہیں جو میرے سامنے وقو ع پذیر ہوئے۔اس لیے ان کو مرتب کرنے میں دشواری نہیں ہوئی۔1958ء سے شروع کرکے 2016ء تک کے واقعات لکھے۔ پھر اچانک مجھے اپنی سرکاری گیارویں کامن یاد آگئی اور اپنے بیچ میٹس کے متعلق سوچنے لگا اور پتہ چلا کہ میرے بیچ میٹس اس وقت گریڈ 21 اور 22کے عہدوں پر پہنچ گئے ہیں ۔ پھر میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنی کتاب میں ان کا ذکرکیوں نہ کروں جو 21اور22گریڈ میں پہنچ کر ملک کی باگ ڈور پرکنٹرول حاصل کرگئے ہیں ۔
مجھے پتہ چلا کوئی 25افسران گریڈ 22میں ہیں اور 35افسران قریب گریڈ 21میں ہیں ۔ میرے پاس صرف چند افسران کے ٹیلی فون نمبرز تھے ۔ ان سے رابطہ کرنا ، ان کے فوٹوگرافس لینا ایک بہت ہی مشکل کام تھا ۔میں اپنے دیرینہ دوست محمد یحییٰ جو کسٹم گروپ کے سابق چیف کلکٹر تھے سے ملا اور پروگرام بتایا۔ انھوں نے ٹیلی فون پر سب سے رابطہ کیا جس پر میرے ساتھی افسران نے میرے اس مشن کی بھر پور تائید اور مدد کی یقین دہانی کرائی ۔میں ان تمام افسران کا ممنون ہوں جہنوں نے میرے ساتھ تعاون کرکے مجھے حوصلہ بھی دیا ۔اس طرح میرا یہ مشن اپنے وقت پر مکمل ہوگیا ۔ امید ہے کہ میرے ساتھی افسران اور دیگر قارئین کو میری تحریر کا کوئی نہ کوئی حصہ ضرور پسند آئے گا۔
مصنف اپنے جائے پیدائش آبائی علاقہ اورماڑہ بلوچستان کے بابت لکھتے ہیں کہ اورماڑہ ضلع گوادر کی ایک تحصیل ہے ۔ گوادر سے مشرقی جانب 280کلومیٹرکے فاصلے پر ہے، جب کہ کراچی سے مغربی جانب 340 کلومیٹر پر واقع ہے۔ مضافات سمیت اس کی آبادی 26600 نفوس پرمشتمل ہے ، جب کہ شہر کی آبادی 13280افراد پر مشتمل ہے ۔اورماڑہ تحصیل کا انتظامی نظم ونسق تحصیل دارکے پاس ہے ۔ یہاں ایک پولیس اسٹیشن بھی ہے ۔شہر میں ایک انٹر میڈیٹ کالج ہے ۔ 2سیکنڈری اسکول ہیں (ایک لڑکوں کا اور ایک لڑکیوں کے لیے) ۔2۔ مڈل اسکول لڑکوں کے جب کہ 12پرائمری اسکول ہیں ۔ اورماڑہ میں ابھی تک ڈگری کالج نہیں ہے جس کے قیام کی اشد ضرورت ہے، حکومت بلوچستان اس مسئلے پر ضرورغورکرے ۔ اورماڑہ میں 9 مساجد ہیں ۔
7ذکری کمیونٹی کے ذکر خانے اور اسماعیلی فرقہ کا ایک جماعت خانہ بھی ہے۔ علاوہ ازیں غوث اعظم دستگیرکا آستانہ ، بابا فریدکا حجرہ اور ایک ولی اللہ نیک نورمحمدکا مزار بھی۔اس مزار پر ہر سال شب برات کے موقع پر قوالی کی محفل منعقدکی جاتی ہے ۔ جس کا انتظام بچو فرید ولد چبد بچوکے ہاتھ میں ہے ۔اورماڑہ میں جون 1990ء سے لے کر 2003ء تک پی آئی اے کی سروس جاری تھی۔کوسٹل ہائی وے بننے کے بعد یہ سروس بند ہوگئی ۔روڈکا سفر بھی آسان رہا اور خرچہ بھی کم ہوگیا۔اس وقت اورماڑہ میں لوگوں کا معیار زندگی کسی حد تک بہتر ہوگیا ہے،جب کہ 50ء اور60ء کی دہائیوں میں یہاں کے بیشتر لوگ غربت کا شکار تھے ، جس محلہ میں نظر دوڑاتے ہر طرف چٹائی اور لکڑی سے بنے گھر نظر آتے۔اسلامی لین میں تین گھر ایسے تھے جوگیلی مٹی لکڑی اور مٹی کے بلاک کے تھے۔
اسی طرح کنٹگی لین میں پانچ گھر تھے ،جب کہ لوہار پاڑہ میں پھنور رمضان کا اور جونا لین میں ناخدا نور محمد ، ناخدا عبدالصمد ، استاد قادو جب کہ گزی لین پنجگ میں نیم پختہ گھر نہ تھے ۔ جب کہ کوہ بن میں داؤد صالم کا تھا البتہ اسماعیلی خوجوں کے گھر سب کے سب پختہ اور نیم پختہ تھے ۔ میں داد دیتا ہوں ان تین اشخاص کو جنھوں نے وہ نیکی اور احسان کیے کہ لوگ انھیں رہتی دنیا تک یاد کرتے رہیں گے ۔ناخدا قادر بخش مراد ، ناخدا لشکراں دادالرحمان اور عبدالقادرکریم داد کوہ بن ۔
ان تینوں نے 1965ء سے 1980ء اور پھر 1990ء تک اورماڑہ کے لوگوں کے لیے دبئی کا دروازہ کھولا جب کہ یہ تینوں وہاں عربوں کے لانچوں کے کیپٹن تھے اور اسی طرح اورماڑہ کے تقریبا 200آدمیوں کو انھوں نے فائدہ پہنچایا جس کی وجہ سے بہتوں کی مالی حالت سدھرگئی اور لوگوں نے پہلی فرصت میں اپنے گھر پختہ کرنا شروع کردیے اس طرح معیار زندگی بہتری کی طرف آنا شروع ہوگیا اور ساتھ ساتھ بڑے بڑے لانچ اور ماڑہ میں تیار ہونے لگے ۔ جس سے ماہی گیروں کا بھی معیار زندگی بہتر ہوا ۔
یادیں اورحقائق 376صفحات پرمشتمل کتاب ہے، سرورق پرایک لالٹین ہے جو پرنانی نکھی گوری کی یاد دلاتی ہے، یہ کتاب سات حصوں پر مشتمل ہے اور 73عنوانات پرمبنی ہے، ہرعنوان اپنے اندر معلومات کا خزینہ ہے،کاغذ اورپرنٹنگ معیاری ہیں۔ یہ کتاب عباسی کتب خانہ ، اولڈ ٹاؤن ،جونا مارکیٹ کراچی میں دستیاب ہے۔
مصنف محمد امین بلوچ نے اپنی اس کتاب کو اپنے خاندان کی اس عظیم اور بہادرخاتون گوری کے نام کیا ہے جنھیں 95سال (1878-1973)کی زندگی ملی جس کا بیشتر حصہ انھوں نے آخری سانس تک انسانی اقدار کی پاسداری کی سماجی بھلائی کے کام کیے اور خاندانی یکجہتی پر زور دے کر باہمی محبت کے جذبے کو بڑھایا اور 1946ء سے لے کر 1973ء تک محلہ میں مسجد کی لالٹین میں مٹی کا تیل فراہم کرتی رہیں ۔ مصنف لکھتے ہیں کہ ''میری بھی یہ خوش قسمتی ہے کہ میں بچپن میںنکھی گوری (پرنانی) کے اس کارخیر میں 1959ء سے 1964ء تک اس لالٹین کو مسجد سے لاتا اور لے جاتا۔
کتاب کے پیش لفظ میں عبدالوہاب خان لکھتے ہیں کہ سچ تو یہ ہے کہ امین کی یہ داستان حیات نوجوانوں کے لیے اور خاص طور پر دورافتادہ اور پسماندہ علاقوں میں رہنے والے بلوچ نوجوانوں کے لیے روشنی کا مینار ہے، اگر زندگی کی تمام تر صعوبتوں ، محرومیوں اور مشکلات کے باجود امین اپنی زندگی کا دشوار سفر پوری ہمت اور حوصلے سے طے کرتے ہیں اور ناممکن کو ممکن کر دکھاتے ہیں توکیا ہر بلوچ نوجوان یہ سفر اس عزم سے طے کرنے کا حوصلہ بہم نہیں پہنچا سکتا ؟
امین بلوچ کی اس داستان حیات میں بہت دلچسپ کردار سامنے آتے ہی جو تلخی حیات کو تھوڑا سا شیریں بنانے میں کوشاں نظر آتے ہیں ۔یہ وہ عام لوگ ہیں جن کی ہمت اور مثبت رویہ زندگی کو معنی بخشتے ہیں ۔ یہ عام لوگ اگر نہ ہوں تو زندگی کبھی اتنی معنی خیز نہ ہوکہ جہاں محروم لوگ حیات کے کوہ بے ستون سے امیدکے جوئے شیر دریافت کرلیں ۔کیسے زندگی کی کٹھن مشکلیں انسان کے جذبے اور عزم کے لیے مہمیزکا کام کرتی ہیں۔ یہ سب اور بہت کچھ اس کتاب میں ملے گا ۔ سچ پوچھیے تو امین بلوچ نے یہ کتاب لکھ کر اپنی مٹی کا قرض کسی حد تک ادا کردیا ہے۔
مصنف محمد امین بلوچ اپنی عرضداشت میں لکھتے ہیں کہ اس سے پہلے میں نے ایک کتاب انگریزی زبان میں Inside Ormaraکے نام سے لکھی تھی ۔اس کتاب میں جو میری آب بیتی کی صورت میں آپ کے ہاتھ میں ہے ، وہ واقعات ہیں جو میرے سامنے وقو ع پذیر ہوئے۔اس لیے ان کو مرتب کرنے میں دشواری نہیں ہوئی۔1958ء سے شروع کرکے 2016ء تک کے واقعات لکھے۔ پھر اچانک مجھے اپنی سرکاری گیارویں کامن یاد آگئی اور اپنے بیچ میٹس کے متعلق سوچنے لگا اور پتہ چلا کہ میرے بیچ میٹس اس وقت گریڈ 21 اور 22کے عہدوں پر پہنچ گئے ہیں ۔ پھر میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنی کتاب میں ان کا ذکرکیوں نہ کروں جو 21اور22گریڈ میں پہنچ کر ملک کی باگ ڈور پرکنٹرول حاصل کرگئے ہیں ۔
مجھے پتہ چلا کوئی 25افسران گریڈ 22میں ہیں اور 35افسران قریب گریڈ 21میں ہیں ۔ میرے پاس صرف چند افسران کے ٹیلی فون نمبرز تھے ۔ ان سے رابطہ کرنا ، ان کے فوٹوگرافس لینا ایک بہت ہی مشکل کام تھا ۔میں اپنے دیرینہ دوست محمد یحییٰ جو کسٹم گروپ کے سابق چیف کلکٹر تھے سے ملا اور پروگرام بتایا۔ انھوں نے ٹیلی فون پر سب سے رابطہ کیا جس پر میرے ساتھی افسران نے میرے اس مشن کی بھر پور تائید اور مدد کی یقین دہانی کرائی ۔میں ان تمام افسران کا ممنون ہوں جہنوں نے میرے ساتھ تعاون کرکے مجھے حوصلہ بھی دیا ۔اس طرح میرا یہ مشن اپنے وقت پر مکمل ہوگیا ۔ امید ہے کہ میرے ساتھی افسران اور دیگر قارئین کو میری تحریر کا کوئی نہ کوئی حصہ ضرور پسند آئے گا۔
مصنف اپنے جائے پیدائش آبائی علاقہ اورماڑہ بلوچستان کے بابت لکھتے ہیں کہ اورماڑہ ضلع گوادر کی ایک تحصیل ہے ۔ گوادر سے مشرقی جانب 280کلومیٹرکے فاصلے پر ہے، جب کہ کراچی سے مغربی جانب 340 کلومیٹر پر واقع ہے۔ مضافات سمیت اس کی آبادی 26600 نفوس پرمشتمل ہے ، جب کہ شہر کی آبادی 13280افراد پر مشتمل ہے ۔اورماڑہ تحصیل کا انتظامی نظم ونسق تحصیل دارکے پاس ہے ۔ یہاں ایک پولیس اسٹیشن بھی ہے ۔شہر میں ایک انٹر میڈیٹ کالج ہے ۔ 2سیکنڈری اسکول ہیں (ایک لڑکوں کا اور ایک لڑکیوں کے لیے) ۔2۔ مڈل اسکول لڑکوں کے جب کہ 12پرائمری اسکول ہیں ۔ اورماڑہ میں ابھی تک ڈگری کالج نہیں ہے جس کے قیام کی اشد ضرورت ہے، حکومت بلوچستان اس مسئلے پر ضرورغورکرے ۔ اورماڑہ میں 9 مساجد ہیں ۔
7ذکری کمیونٹی کے ذکر خانے اور اسماعیلی فرقہ کا ایک جماعت خانہ بھی ہے۔ علاوہ ازیں غوث اعظم دستگیرکا آستانہ ، بابا فریدکا حجرہ اور ایک ولی اللہ نیک نورمحمدکا مزار بھی۔اس مزار پر ہر سال شب برات کے موقع پر قوالی کی محفل منعقدکی جاتی ہے ۔ جس کا انتظام بچو فرید ولد چبد بچوکے ہاتھ میں ہے ۔اورماڑہ میں جون 1990ء سے لے کر 2003ء تک پی آئی اے کی سروس جاری تھی۔کوسٹل ہائی وے بننے کے بعد یہ سروس بند ہوگئی ۔روڈکا سفر بھی آسان رہا اور خرچہ بھی کم ہوگیا۔اس وقت اورماڑہ میں لوگوں کا معیار زندگی کسی حد تک بہتر ہوگیا ہے،جب کہ 50ء اور60ء کی دہائیوں میں یہاں کے بیشتر لوگ غربت کا شکار تھے ، جس محلہ میں نظر دوڑاتے ہر طرف چٹائی اور لکڑی سے بنے گھر نظر آتے۔اسلامی لین میں تین گھر ایسے تھے جوگیلی مٹی لکڑی اور مٹی کے بلاک کے تھے۔
اسی طرح کنٹگی لین میں پانچ گھر تھے ،جب کہ لوہار پاڑہ میں پھنور رمضان کا اور جونا لین میں ناخدا نور محمد ، ناخدا عبدالصمد ، استاد قادو جب کہ گزی لین پنجگ میں نیم پختہ گھر نہ تھے ۔ جب کہ کوہ بن میں داؤد صالم کا تھا البتہ اسماعیلی خوجوں کے گھر سب کے سب پختہ اور نیم پختہ تھے ۔ میں داد دیتا ہوں ان تین اشخاص کو جنھوں نے وہ نیکی اور احسان کیے کہ لوگ انھیں رہتی دنیا تک یاد کرتے رہیں گے ۔ناخدا قادر بخش مراد ، ناخدا لشکراں دادالرحمان اور عبدالقادرکریم داد کوہ بن ۔
ان تینوں نے 1965ء سے 1980ء اور پھر 1990ء تک اورماڑہ کے لوگوں کے لیے دبئی کا دروازہ کھولا جب کہ یہ تینوں وہاں عربوں کے لانچوں کے کیپٹن تھے اور اسی طرح اورماڑہ کے تقریبا 200آدمیوں کو انھوں نے فائدہ پہنچایا جس کی وجہ سے بہتوں کی مالی حالت سدھرگئی اور لوگوں نے پہلی فرصت میں اپنے گھر پختہ کرنا شروع کردیے اس طرح معیار زندگی بہتری کی طرف آنا شروع ہوگیا اور ساتھ ساتھ بڑے بڑے لانچ اور ماڑہ میں تیار ہونے لگے ۔ جس سے ماہی گیروں کا بھی معیار زندگی بہتر ہوا ۔
یادیں اورحقائق 376صفحات پرمشتمل کتاب ہے، سرورق پرایک لالٹین ہے جو پرنانی نکھی گوری کی یاد دلاتی ہے، یہ کتاب سات حصوں پر مشتمل ہے اور 73عنوانات پرمبنی ہے، ہرعنوان اپنے اندر معلومات کا خزینہ ہے،کاغذ اورپرنٹنگ معیاری ہیں۔ یہ کتاب عباسی کتب خانہ ، اولڈ ٹاؤن ،جونا مارکیٹ کراچی میں دستیاب ہے۔