محبت میں گرفتار نوجوان نسل اور طلاق کی بڑھتی شرح

شادی کے بعد محبت کا بھوت اترتے ہی ایک دوسرے کی خامیاں اور زندگی کے تلخ حقائق جھگڑے کا باعث بنتے ہیں

محبت کی شادیوں میں طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

میرے ایک انتہائی عزیز کو ایک لڑکی سے محبت ہوگئی۔ دن رات فون پر لمبی گفتگو اور صبح شام محبوبہ کی گلی کے چکر لگاتا۔ جب بھی ملاقات ہوتی، اُسی حسینہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے پایا۔ ہر وقت خیالوں کی دنیا میں رہتا۔ خیر وقت گزرتا گیا اور بات لیلیٰ مجنوں کے گھر والوں تک جاپہنچی۔ جب دونوں جانب بھڑکتی آگ کو دیکھا تو مزاحمت کے بجائے شادی کی تیاریاں شروع کردی گئیں۔

شادی کی رسم خوب دھوم دھام سے ہوئی۔ پریمی جوڑے کے درمیان ہونے والی گفتگو اور انداز کو دیکھ کر تقریب میں آئے مہمان ناصرف رشک کررہے تھے بلکہ ان کےلیے اچھے مستقبل اور خوشحالی کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ شادی کے چند ماہ بعد اُس عزیز سے ملاقات ہوئی اور بھابھی کے بارے میں پوچھا تو اس کے لہجے میں چاشنی اور آنکھوں میں وہ چمک نہیں تھی، بلکہ میری بات سنتے ہی افسردہ ہوگیا۔

کافی ٹال مٹول کے بعد موصوف نے بتایا کہ لیلیٰ ناراض ہوکر میکے چلی گئی ہے۔ اس بات پر مجھے بہت حیرانی ہوئی، مگر موقع کی مناسبت کو دیکھتے ہوئے میں نے اُسے تسلی دی اور گھر کی راہ لی۔ چند دن بعد معلوم ہوا کہ لیلیٰ کے گھر والوں کی جانب سے دباؤ اور عدالتی احکامات کے باعث مجنوں نے طلاق کے پیپر پر سائن کردیئے ہیں اور یوں محض 7 ماہ گزرنے کے بعد ایک پیار کی کہانی مکمل ہوگئی۔ لیکن آخر ایسا کیا واقعہ پیش آیا کہ دونوں کی برسوں کی محبت چھوٹی چھوٹی رنجشوں کے سامنے ٹک نہ پائی؟ کافی غور وفکر اور تحقیق کرنے کے بعد اس گتھی کو سلجھانے میں مدد ملی۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ محبت ایک فطری عمل ہے اور ہمارے دین اسلام سے محبت کا گہرا رشتہ ہے۔ اخوت، رواداری اور ایثار محبت کے اہم جزو ہیں، لیکن دور حاضر میں پیار یا محبت جیسے پاکیزہ رشتے میں بہت جلدی دراڑیں پڑجاتی ہیں۔ پیار کرنے والوں اور ایک دوسرے پر اپنی جان نچھاور کرنے والوں کی شادیوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔ شادی کے بعد کی بحث سے پہلے اگرمحبت کا جائزہ لیں تواس میں اخوت، رواداری اور ایثار کے بجائے فلمی ڈائیلاگ اور تحفے تحائف کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے۔ دونوں پریمی یہ سمجھتے ہیں کہ شادی کے بعد زندگی کسی ڈرامے یا فلم کے کردار کی طرح ہنسی خوشی گزر جائے گی۔ لیکن حقیقت اس سے بالکل برعکس ہوتی ہے۔

چند دنوں میں پروان چڑھنے والی محبت کے نتائج کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ضلع راولپنڈی کی 31 فیملی اور سول عدالتوں نے رواں سال کے پہلے 5 ماہ یکم جنوری سے 31 مئی تک مجموعی طور پر 1794 خواتین کے حق میں طلاق کی ڈگریاں جاری کیں۔ طلاق حاصل کرنے والی خواتین میں پسند کی شادیاں کرنے والی خواتین کی اکثریت ہے۔ ان کی یہ شادیاں 4 ماہ سے ایک سال میں ہی ناکام ہوگئیں، جبکہ اس عرصے میں مجموعی طور پر 2693 خواتین نے طلاق، حق مہر، خرچہ، سامان جہیز کی واپسی، بچوں کی حوالگی کے مقدمات درج کرائے۔ پہلے 5 ماہ میں مجموعی طور پر 118 خواتین گھروں سے بھاگ کر دارالامان، دارالفلاح پناہ کےلیے گئیں۔ اس سال ضلع راولپنڈی میں طلاق کی شرح میں اب تک ریکارڈ اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔


تحریر کا مقصد محبت کی شادی کو غلط ثابت کرنا نہیں، بلکہ دور حاضر میں شادی کے بعد پیش آنے والے مسائل کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا ہے۔ ہمارے معاشرے میں محبت کے شکار نوجوان خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں، لیکن شادی ہونے کے بعد جب ان کے کندھوں پر ذمے داری کا بوجھ پڑتا ہے تو حقیقی زندگی ان کے انتہائی تکلیف دہ ثابت ہوتی ہے۔

اگر خواتین کا جائزہ لیں تو محبت میں بغیر سوچے سمجھے نجانے کیسے کیسے دعوے کیے جاتے ہیں، مثلاً تمہارے ساتھ جھونپڑی میں رہ لوں گی، وغیرہ۔ یہ دعوے اکثر اس وقت کیے جاتے ہیں جب لڑکی کسی اچھے گھرانے سے تعلق رکھتی ہو، جبکہ نوجوان کسی مڈل کلاس گھرانے کا چشم وچراغ ہو۔ گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کے بعد چاند تارے توڑنے کے دعوے کرنے والوں کو دن میں تارے نظر آجاتے ہیں اور چند دن بعد ہی دونوں کا ایک ساتھ رہنا محال ہوجاتا ہے، کیونکہ لڑکی کی ضروریات کو پورا کرنا اس مڈل کلاس مجنوں کے بس میں نہیں ہوتا اور بات طلاق تک جا پہنچتی ہے۔ اور یوں لڑکی کی باقی ماندہ زندگی دارالامان اور دیگر فلاحی اداروں میں تنگ دستی اور کسمپرسی کی حالت میں گزر جاتی ہے۔

شادی میں ناکامی کی ایک اور وجہ محبت کے آغاز میں دونوں پریمی خود کو بے عیب سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے کی کمزوریوں اور خامیوں کو نظر انداز کردیتے ہیں، لیکن شادی کے بعد قوت براداشت نہ ہونے کے باعث نفرتیں جنم لینا شروع کردیتی ہیں۔ اکثر نوجوانوں کی محبت کی بنیاد ہی جھوٹ پر ٹکی ہوتی ہے۔ شادی کی خاطر اپنی حیثیت سے بڑھ کر بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں۔ مثلاً بطور سیلزمین کام کرنے والا خود کو کسی بڑی کمپنی کا منیجر بتاتا ہے۔ لڑکی کے گھر والے بھی ہنسی خوشی بیاہ کردیتے ہیں، لیکن کچھ عرصے بعد بہت ہی بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں۔ مشکلات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ شروع ہوتی ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں طلاق یافتہ خواتین کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا، بلکہ زیادہ تر کیسز میں تو عورت ہی کو ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ طلاق کے بعد نسبتاً مرد کے بجائے عورت کو دوسری شادی کےلیے دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس ساری بحث کا مقصد نوجوان نسل کو یہ باور کروانا ہے کہ خیالی دنیا سے نکل کر حقیقت کو اپنائیے۔ عفو و درگزر سے کام لیں اور بلند بانگ دعوؤں سے پرہیز کیجئے۔ رشتوں میں انا کو آڑے مت آنے دیں۔ خاص طور پر محبت کے رشتے کو مضبوط کرنے کی کوشش کیجئے اور ایک دوسرے کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کریں، کیونکہ صرف طلاق ہی تمام تر مسائل کا حل نہیں ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story