حُسنِ معاشرت
’’ لوگوں کے ساتھ ایسا میل جول رکھو کہ مرجاؤ تو لوگ گِریہ کریں اور زندہ رہو تو تمہارے مشتاق رہیں۔‘‘
رب کریم نے اپنی آخری کتاب ہدایت قرآن حکیم و فرقان حمید میں ارشاد فرمایا: '' اور تم سب کے سب (مل کر) خدا کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو اور اپنے حالِ زار پر خدا کے احسان کو تو یاد کرو جب تم آپس میں (ایک دوسرے کے) دُشمن تھے تو خدا نے تمہارے دِلوں میں (ایک دوسرے کی) اُلفت پیدا کردی تو تم اُس کے فضل سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے اور تم گویا سلگتی ہوئی آگ کی بھٹی (دوزخ) کے لب پر کھڑے تھے اور گِرنے ہی والے تھے کہ خدا نے تم کو اس سے بچا لیا، تو خدا اپنے احکام یوں واضح کرکے بیان کرتا ہے تاکہ تم راہِ راست پر آجاؤ۔''
رسالت مآب نبی کریم ، شفیع المذنبین آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نورانی کلام کی خُوش بُو ملاحظہ فرمائیے: ''جو اِس عالَم میں صبح کرے کہ مسلمانوں کے اُمور کی فکر اور اس کا اہتمام نہ کرے، وہ مسلمان نہیں ہے۔ اِسی طرح جو مسلمانوں کو مدد کے لیے پکار رہا ہو تو جو بھی اُس کی آواز پر لبّیک نہ کہے، وہ بھی مسلمان نہیں ہے۔'' (بحار الانوار)
خاتونِ جنت، سیّدۃ النساء العالمین حضرتِ بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا یوں راہ نمائی فرماتی ہیں: '' لوگوں کے درمیان میرے پدرِ گرامی آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہدایت کے لیے کھڑے ہوئے اور اُن کو گم راہی سے نجات دی اور اندھے پن سے روشنی کی طرف راہ نمائی کی، مضبوط دین کی طرف ہدایت فرمائی، صراطِ مستقیم کی طرف دعوت دی۔''
امیر المومنین، امام المتقین، حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ ہمیں یہ دائمی درس دے رہے ہیں: '' (دعوتِ اتّحاد و اتّفاق) تمہارے چھوٹوں کو چاہیے کہ اپنے بڑوں کی پیروی کریں اور بڑوں کا فرض ہے کہ اپنے چھوٹوں پر مہربانی کریں اور خبردار! تم لوگ جاہلیت کے ان ظالموں جیسے نہ ہوجانا جو نہ دین کا علم حاصل کرتے تھے اور نہ اللہ کے بارے میں عقل و فہم سے کام لیتے تھے۔ ان کی مثال ان انڈوں کے چھلکوں جیسی ہے جو شُتر مرغ کے انڈے دینے کی جگہ پر رکھے ہَوں کہ ان کا توڑنا تو جرم ہے، لیکن پرورش کرنا بھی سوائے شر کے کوئی نتیجہ نہیں دے سکتا ہے۔''
'' لوگوں کے ساتھ ایسا میل جول رکھو کہ مرجاؤ تو لوگ گِریہ کریں اور زندہ رہو تو تمہارے مشتاق رہیں۔''
عصری علوم کے ساتھ ساتھ تمام تعلیمی اداروں اور مدارس وغیرہ میں دینی علوم کی جدید تعلیمی و تدریسی خدمات اشد ضروری ہیں۔ اِس ضمن میں دیگر مکاتبِ فکر کے علمائے کرام، ریسرچ اسکالرز اور دیگر ذمّے داروں کی تحریروں سے آشنائی ازبس ضروری ہے۔
تحمل و برداشت اور رواداری:
ہم سب کے لیے بہترین نمونۂ عمل حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ فرماتے ہیں: '' اگر مجھے فیصلہ کرنے کا موقع دیا جاتا، تو میں اہلِ انجیل کے معاملات کا انجیل سے، اہلِ زبور کے معاملات کا زبور سے اور اہلِ تورات کے معاملات کا تورات سے فیصلہ کرتا۔''
اِس کے مفہوم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اپنے اپنے مکتبِ فکر سے اگر فیصلہ کرانے والے میرے پاس رجوع کریں، تو میں اُنہی کے مکتبِ فکر کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ اپنے مکتب کے فیصلے کو کسی پر زبردستی نافذ نہیں کروں گا۔ اِس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تحمل و برداشت اور رواداری ہر مکتبِ فکر کے افراد کے لیے کس قدر ضروری اور لازمی ہے۔ انسانیت کا رشتہ ہونا چاہیے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کی تعلیمات کے مطابق دِین کا رشتہ سب سے حاکم رشتہ ہے۔
دِین بھی ہمیں انسانیت، محبت، خلوص اور باہمی احترام و رواداری ہی کا درس دیتا ہے۔ اتحادِ اُمّت کا تیسرا اہم سبب مسلم حکم رانوں کی سیرت و کردار اور اُن کے رویّوں سے متعلق ہے۔ اگر ان کا قبلہ دُرست ہے، تو مسائل کم اور فضائل کا باب وَا ہوگا۔ مسلم اُمّہ کے تمام حکم رانوں کا اسلامی حقائق سے آشنا اور مخلص ہونا انتہائی ضروری ہے۔ مثل مشہور ہے کہ عوام اپنے پیشواؤں کے دِین پر ہوتے ہیں۔ اگر حکم ران متقی اور پرہیز گار ہَوں، تو لا محالہ عوام کے دلوں میں بھی خوفِ خدا رہے گا۔ اگر حکم ران رعایا سے محبت کرتے ہوں گے، اُن کے حقوق کے محافظ ہوں گے، تو رعایا بھی اپنے فرائض اور وظائف بہتر انداز میں انجام دے گی۔
دل سے دل کو راہ ہوتی ہے: اتحاد ِاُمّت کے اسباب میں سے چوتھا اہم سبب معاشرے میں علمائے کرام سے متعلق ہے۔ صاحبانِ فکر، صاحبانِ دِقّت، صاحبانِ بصیرت، ایثار گر، فداکار، تحمل مزاج، مہربان، پُرمودّت، معاملہ فہم شخصیات، علماء و فضلا کی معاشرے میں حیثیت و اہمیت تب ہی تسلیم کی جاتی ہے، جب علم و تقویٰ میں اضافے کی وجہ سے اُن کی سیرت و کردار کے نقوش بہتر سے بہتر ہَوں۔
رسالت مآب نبی کریم ، شفیع المذنبین آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نورانی کلام کی خُوش بُو ملاحظہ فرمائیے: ''جو اِس عالَم میں صبح کرے کہ مسلمانوں کے اُمور کی فکر اور اس کا اہتمام نہ کرے، وہ مسلمان نہیں ہے۔ اِسی طرح جو مسلمانوں کو مدد کے لیے پکار رہا ہو تو جو بھی اُس کی آواز پر لبّیک نہ کہے، وہ بھی مسلمان نہیں ہے۔'' (بحار الانوار)
خاتونِ جنت، سیّدۃ النساء العالمین حضرتِ بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا یوں راہ نمائی فرماتی ہیں: '' لوگوں کے درمیان میرے پدرِ گرامی آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہدایت کے لیے کھڑے ہوئے اور اُن کو گم راہی سے نجات دی اور اندھے پن سے روشنی کی طرف راہ نمائی کی، مضبوط دین کی طرف ہدایت فرمائی، صراطِ مستقیم کی طرف دعوت دی۔''
امیر المومنین، امام المتقین، حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ ہمیں یہ دائمی درس دے رہے ہیں: '' (دعوتِ اتّحاد و اتّفاق) تمہارے چھوٹوں کو چاہیے کہ اپنے بڑوں کی پیروی کریں اور بڑوں کا فرض ہے کہ اپنے چھوٹوں پر مہربانی کریں اور خبردار! تم لوگ جاہلیت کے ان ظالموں جیسے نہ ہوجانا جو نہ دین کا علم حاصل کرتے تھے اور نہ اللہ کے بارے میں عقل و فہم سے کام لیتے تھے۔ ان کی مثال ان انڈوں کے چھلکوں جیسی ہے جو شُتر مرغ کے انڈے دینے کی جگہ پر رکھے ہَوں کہ ان کا توڑنا تو جرم ہے، لیکن پرورش کرنا بھی سوائے شر کے کوئی نتیجہ نہیں دے سکتا ہے۔''
'' لوگوں کے ساتھ ایسا میل جول رکھو کہ مرجاؤ تو لوگ گِریہ کریں اور زندہ رہو تو تمہارے مشتاق رہیں۔''
عصری علوم کے ساتھ ساتھ تمام تعلیمی اداروں اور مدارس وغیرہ میں دینی علوم کی جدید تعلیمی و تدریسی خدمات اشد ضروری ہیں۔ اِس ضمن میں دیگر مکاتبِ فکر کے علمائے کرام، ریسرچ اسکالرز اور دیگر ذمّے داروں کی تحریروں سے آشنائی ازبس ضروری ہے۔
تحمل و برداشت اور رواداری:
ہم سب کے لیے بہترین نمونۂ عمل حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ فرماتے ہیں: '' اگر مجھے فیصلہ کرنے کا موقع دیا جاتا، تو میں اہلِ انجیل کے معاملات کا انجیل سے، اہلِ زبور کے معاملات کا زبور سے اور اہلِ تورات کے معاملات کا تورات سے فیصلہ کرتا۔''
اِس کے مفہوم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اپنے اپنے مکتبِ فکر سے اگر فیصلہ کرانے والے میرے پاس رجوع کریں، تو میں اُنہی کے مکتبِ فکر کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ اپنے مکتب کے فیصلے کو کسی پر زبردستی نافذ نہیں کروں گا۔ اِس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تحمل و برداشت اور رواداری ہر مکتبِ فکر کے افراد کے لیے کس قدر ضروری اور لازمی ہے۔ انسانیت کا رشتہ ہونا چاہیے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کی تعلیمات کے مطابق دِین کا رشتہ سب سے حاکم رشتہ ہے۔
دِین بھی ہمیں انسانیت، محبت، خلوص اور باہمی احترام و رواداری ہی کا درس دیتا ہے۔ اتحادِ اُمّت کا تیسرا اہم سبب مسلم حکم رانوں کی سیرت و کردار اور اُن کے رویّوں سے متعلق ہے۔ اگر ان کا قبلہ دُرست ہے، تو مسائل کم اور فضائل کا باب وَا ہوگا۔ مسلم اُمّہ کے تمام حکم رانوں کا اسلامی حقائق سے آشنا اور مخلص ہونا انتہائی ضروری ہے۔ مثل مشہور ہے کہ عوام اپنے پیشواؤں کے دِین پر ہوتے ہیں۔ اگر حکم ران متقی اور پرہیز گار ہَوں، تو لا محالہ عوام کے دلوں میں بھی خوفِ خدا رہے گا۔ اگر حکم ران رعایا سے محبت کرتے ہوں گے، اُن کے حقوق کے محافظ ہوں گے، تو رعایا بھی اپنے فرائض اور وظائف بہتر انداز میں انجام دے گی۔
دل سے دل کو راہ ہوتی ہے: اتحاد ِاُمّت کے اسباب میں سے چوتھا اہم سبب معاشرے میں علمائے کرام سے متعلق ہے۔ صاحبانِ فکر، صاحبانِ دِقّت، صاحبانِ بصیرت، ایثار گر، فداکار، تحمل مزاج، مہربان، پُرمودّت، معاملہ فہم شخصیات، علماء و فضلا کی معاشرے میں حیثیت و اہمیت تب ہی تسلیم کی جاتی ہے، جب علم و تقویٰ میں اضافے کی وجہ سے اُن کی سیرت و کردار کے نقوش بہتر سے بہتر ہَوں۔