’’سیمسین اینڈ ڈی لا ئلا‘‘ اور عمران خان

کیا عمران خان حکومت میں موجود مفاد پرستوں سے جان چھڑوا کر حالات کا دھارا بدل دیں گے؟

کیا عمران خان حکومت میں موجود مفاد پرستوں سے جان چھڑوا کر حالات کا دھارا بدل دیں گے؟

ہماری پیدائش سے ٹھیک پا نچ برس قبل21 دسمبر1949کو ہالی وڈ امریکا نے مشہور فلم سیمسین اینڈ ڈی لائلا بنائی تھی جس کے ڈائر یکٹر Cecil B.Denille اور کہانی نویس Ze,ev Jabotinsky تھے۔

اس فلم کو بیسٹ کسٹیوم ڈیزائن یعنی بہترین لباس کی بنیاد اوربہترین پروڈکشن پر اکیڈمی ایوارڈز دیئے گئے۔ اس فلم میں سیمسین کا کرداروکٹر میکچو ر Victor Mucture نے ہیروئن یعنی ڈی لائلا کا کردار ہیڈی لامارّ Hedy Lamarr نے اوراِس کی بڑی بہن سیمادر کا کردارAngela Lansbury نے ادا کیا تھا۔ ہم نے یہ فلم اپنے بچپن میں دیکھی تھی اور اتفاق دیکھیں کہ 4 اگست 1999 ء میں، میں اور میرا دوست اپنے بچوں کو لیکر یہ فلم دیکھنے کے لیے کوئٹہ کے ڈی لائٹ سینما ہال میں گئے تھے تو اُس وقت دوران ِ فلم وکٹر میکچور کی وفات کی خبر چلی، وکٹر جان میکچور29 جنوری 1914 ء میں پیدا ہوئے تھے اور اُن کی شہرت یہ تھی کہ وہ عموماً فلموں میں شیر اور دیگر درندوں سے لڑتے تھے، اس فلم کی کہانی قبل از مسیح کے فلسطین اور اسرائیل کے علاقے کی تھی سیمسین اور ڈی لائلا اور اُس کی بڑی بہن اور بادشاہ کے قریب تھے۔

کہانی یوںشروع ہوتی ڈی لائلا اور اُس کی بڑی بہن دونوں بہت خوبصورت ہوتی ہیں سیمسین بڑی بہن سے محبت کرتا ہے جب کہ چھوٹی بہن ڈی لائلا بھی سیمسین کو پسند کرتی ہے اور دوسری جانب بادشاہ کا نوجوان سپہ سالار بھی ڈی لائلا کی بڑی بہن کو پسند کرتا ہے اور جس دن اُس کی شادی ہو رہی ہوتی ہے تو سپہ سالار کو اس کی خبر ہو جاتی ہے اَس پر وہ مداخلت کرتا ہے اور اس لڑائی میں نیزہ لگنے سے ڈی لائلاکی بڑی بہن نئی نویلی دلہن ہلاک ہو جاتی ہے، سیمسین جو کپڑے کا سوداگر اور نہایت ہی طاقتور انسان ہے اکیلا ہی پورے فوجی دستے سے لڑتا ہے اوردرجنوں سپاہیوں کو ہلاک کر دیتا ہے اور پھر وہاں سے فرار ہو جاتا ہے۔ سپہ سالار اُس کی حیرت انگیز طاقت پر پریشان ہو جاتا ہے، اب سیمسین حکومت کا باغی ہوتا ہے اور اس کی سرکوبی کے لیے بادشاہ کے حکم سے ایک بڑی فوج سیمسین کو گرفتار کرنے جاتی ہے مگر سیمسین کی طاقت کے آگے سب بے بس ہو جاتے ہیں اور سینکڑوں سپاہی ہلاک ہو جاتے ہیں، بادشاہ کی شکست خوردہ فوج بڑے نقصان اور تباہی کے بعد واپس ہو جاتی ہے، اور سلطنت کا یہ علاقہ اب سیمسین کی وجہ سے سلطنت کے اہلکاروں کے لیے محفوظ نہیں رہتا، مگر پھر بھی سیمسین بادشاہت کا لحاظ کرتا ہے۔

اسی دوران ڈی لائلا اپنے محافظو ں کے ہمراہ یہاں سے سفر کرتی اور کچھ فاصلے پر بادشاہ بھی یہاں اُس کے پیچھے کارواں کے ساتھ آرہا ہو تا ہے، سیمسین کے علاقے میں ڈی لائلا کی گھوڑا گاڑی کے سامنے اچانک شیر آجاتا ہے اور حملہ کرنے والا ہو تا ہے کہ سیمسین شیرکے مقابل آکر اس سے خالی ہاتھوں سے لڑتا ہے اور آخر شیر کا گلہ گھونٹ کر شیر کو ہلاک کر دیتا ہے۔اسی اثنا میں بادشاہ بھی پہنچ جا تا ہے تو ڈی لائلا بتاتی ہے کہ سیمسین نے خالی ہاتھوں شیر کو ہلا ک کیا۔ بادشاہ متاثر بھی ہوتا ہے اور قدرے خوفزدہ بھی کہ حکومت کا مخالف نہ صرف بہت طاقتور ہے بلکہ بہت بہادر بھی ہے، اس کے بعد ڈی لا ئلا اور سیمسین کا عشق شروع ہو جا تا ہے اور ڈی لائلا اُس سے ملنے جنگل میں جاتی ہے جہاں سیمسین کا قیام ہوتا ہے۔ جب سیمسین ڈی لائلا کے عشق میں پوری طرح گرفتار ہو جاتا ہے تو ڈی لائلا اُس سے اُسکی بے پناہ طاقت کا راز معلوم کر لیتی ہے سیمسین یہ بتا دیتا ہے کہ اُس کی طاقت اُس کے گھنے اور لمبے بالوں میں ہے ، ڈی لائلا اس راز کو وعدے کے مطابق

کسی کو نہیں بتاتی مگر اپنی محبت کی وجہ سے یہ چاہتی ہے کہ کسی طرح وہ بادشاہ سے بات کر کے سیمسین کو حاصل کر لے۔ یوں وہ بادشاہ کو بتاتی ہے کہ اگر بادشاہ اُس سے یہ وعدہ کر لے کہ گرفتاری کے بعد وہ سیمسین کو ڈی لائلا کو دے دے گا تو وہ اُسے دھوکے سے نشہ پلا کر گرفتار کروا دے گی۔ اس پر بادشاہ اُس سے وعدہ کر لیتا ہے اور ڈی لائلا اُسے دھوکے سے نشہ پلا کر بے ہوش کر دیتی ہے اور پھر تیز دھار خنجر سے اُس کے گھنے اور لمبے بال کا ٹ دیتی ہے اور یوں بادشاہ کے سپاہی اُس کی آواز پر آکر اُسے گرفتا رکر لیتے ہیں، مگر جب ڈی لائلا قید خانے میں بڑی شان کے ساتھ سیمسین کو دیکھنے جاتی ہے تو اُسے بڑا افسوس ہو تا ہے کہ بادشاہ نے سیمسین کو اندھا کروا دیا ہوتا ہے۔ وہ سیمسین کو بتاتی ہے کہ اُس نے تو بادشاہ سے اُسے مانگا تھا۔ قصہ مختصر کہ پھر سال بعد جب سیمسین کے گھنے بال دوبارہ بہت لمبے ہو جاتے ہیں تو پروگرام کے مطابق سالانہ جشن میں بڑے اسٹیدیم نما محل میں ہزاروں لوگوں کے سامنے عبرت کے لیے اندھے سیمسین کو ذلیل کرنا ہوتا ہے یہ محل نما اسٹیڈیم تعمیر کے اعتبار سے بڑا عجیب ہوتا ہے کہ سینکڑوں ٹن وزنی پتھروں اور چٹانوں کو تراش کر بنایا گیا ہوتا ہے اور اس کا پورا بوجھ چار سے پانچ فٹ کے فاصلے پر واقع سو، سو فٹ موٹے اور پچاس پچاس فٹ گول بلند تین ستونوں پر ہو تا ہے۔

یہ تمام باتیںڈی لائلا سیمسین کو قید خانے میں بتا دیتی ہے اور سیمسین اُس سے یہ کہتا ہے کہ کسی طرح جشن کے روز اُسے اِن تین ستونوں کے پا س لے جانا۔ اس فلم میں جشن کا منظر قابل دید ہے کہ بادشاہ جہاں بیٹھا ہے وہاں اُس کے تخت کے ٹھیک اُوپر کوئی تیس فٹ کی بلندی پر اُن کے دیوتا کا بہت بڑا دیو ہیکل مجسمہ ہے جس کے پیٹ میں الاؤ ددھک رہا ہوتا ہے،خوبصورت ڈی لائلا بادشاہ کے پہلو میں بیٹھی ہوتی ہے اور کامیابی سے یہ تاثر دیتی ہے کہ وہ تو صرف اور صرف بادشاہ کی وفادار ہے، اُسے اندھے سیمسین سے اب کیا لینا۔ یوں جب سیمسین کو ہزاروں افراد کے سامنے عبرت کے لیے بونے نوکیلے تیروں سے کچوکے لگا لگا کر زخمی کرتے ہیں تو اس منظر سے ڈی لائلا بادشاہ اور تماشائیوں کے ساتھ قہقہے لگا کر خوشی کے اظہار کے ساتھ بظاہر لطف اندوز ہو تی ہے، اور آخر میںجب سیمسین کو واپس لے جانا ہوتا ہے تو وہ بادشاہ کی اجازت سے ایک بہت لمبے ہنٹر کیساتھ سیمسین کے قریب آتی ہے اُسے دو، تین ہنٹر مارتی ہے۔

بادشاہ سمیت تمام لو گ خوش ہوتے ہیں کہ وہ یہ جانتے ہیں کہ اسی حسینہ نے اس نہایت طاقتور انسان کو گرفتار کروایا تھا۔ پھر منصوبے کے مطابق وہ اس طرح سیمسین کو ہنٹر مارتی ہے کہ سیمسین ہنٹر کو پکڑ لیتا ہے اور اس کے سہارے نابینا سیمسین کو اُن تین ستونوں کے قریب لے آتی ہے جس میں سے دو ستونوں کے درمیان اور تیسرے ستون کے سامنے کھڑے ہو کر وہ دائیں بائیں دونوں ستونوں کو اپنے دونوں ہاتھوں کی قوت سے مخالف سمت میں دھکیلتا ہے جن پر پوری عمارت قائم ہے۔ اس پر بادشاہ سمیت اُس اسٹیڈیم نما محل میں موجود ہزاروں لوگ زور زور سے قہقہے لگاتے ہیںکہ اس حقیر اندھے انسان کو دیکھو کہ اس عظیم الشان عمارت کو گرانے چلا ہے کہ اچانک دونوں ستونوں کی ہزاروں ٹن وزنی سلیں ایک ارتعاش اور خوفناک آواز کے ساتھ سرکتی ہیں تو سب کے قہقہے اچانک خوف میں بدل جاتے ہیں اور جب تک سپاہی سیمسین اور ڈی لائلا کے قریب پہنچتے ہیں سیمسین دونوں ستونوں کو گرا دیتا ہے اور تیسرے ستون سے اُس کا سر ٹکراتا ہے۔

اب پورا اسٹیڈیم اپنی بھاری سلوں کے ساتھ زمیں بوس ہو جاتا ہے اور تمام لوگ اس کے ملبے میں دب کر ہلا ک ہو جا تے ہیں۔آج کے قومی علاقائی اور بین لاقوامی تناظر میں جب میں دیکھتا ہوں تو فلم سیمسین کے اُن تین ستونوں کے اعتبار سے علامتی طور پر کئی تین طرح کی صورتیں دکھا ئی دیتی ہیں ، مثلاً عالمی یا بین الاقوامی طور پر دیکھیں تو خطے میں خصوصاً پاکستان کے حوالے سے تین بڑی طاقتیں واضح طور پر نظر آتی ہیں نمبر1 امریکہ ، نمبر 2 روس جو اِس خطے کی گریٹ گیم کے پرانے کھلاڑی ہیں اور اب گذشتہ تین دہائیوں سے تیسری قوت چین کی ہے اور اِن کے مقابلے میں علاقے کے تین کم طاقتور اور ترقی پذیر ملک ، نمبر 1۔ پاکستان، نمبر 2 ۔ ایران اور نمبر 3 ۔افغانستان ہیں ۔

پھر دنیا میں اقوام متحدہ کی میز پر عالمی سطح کے تین بڑے اور اہم مسئلے ہیں نمبر 1 ۔کشمیر، نمبر2 ۔ فلسطین اور نمبر 3 ۔افغانستان ۔ علاقائی سطح پر جائز ہ لیں تو نمبر1۔ چین جو 1964 ء میں ایٹمی قوت بنا، نمبر 2 ۔ بھارت جس نے 1974 ء میں ایٹمی دھماکہ تو کیا مگر پوری طرح ایٹمی قوت بننے کے اعتبار سے اُس نے مئی 1998 ء میں ایٹمی دھماکے کئے اور اعلانیہ دنیا کی چھٹی ایٹمی قوت بن گیا اور اس کے جواب میں پاکستان نے چند روز بعد ہی 28 مئی 1998 ء میں بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے مقابلے چھ ایٹمی دھماکے کئے اور دنیا کی ساتویں اعلانیہ ایٹمی قوت بن گیا۔ واضح رہے کہ اِن تینوں ملکو ں کے درمیان ایٹمی قوت بننے سے قبل جنگیں ہوئی ہیں ۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان 1948 ء میں پھر 1965 ء میں اور آخری جنگ 1971 ء میں ہوئی۔ جب کہ چین اور بھارت کے درمیان 1962 ء میں جنگ ہوئی اور یہ تلخ حقیقت ہے کہ اِن ملکوں کی رنجشیں اور تناعازت ختم نہیں ہوئے بلکہ کئی ایسے مواقع آئے جب بھارت اور پاکستان میں جنگ کے اندیشے بہت بڑھ گئے اور اس وقت بھی صورتحال بہت کشیدہ ہے۔

یہ تین ملک جواب دنیا کی سات ایٹمی قوتوں میں سے تین ہیں ان تینوں ملکوں کی سرحدیں بھی آپس میں ملتیں ہیں اور انہی سرحدوں پر تنازعات بھی ہیں یہ تینوں ممالک دنیا میں آبادی کے لحاظ سے بھی تین بڑے ملک ہیں چین پہلے ، بھارت دوسرے اور پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ جہاں تک ملکوں کی مضبوطی اور ترقی و خوشحالی کا تعلق ہے تو حقیقی معنوں میںصرف چین ایسا ملک ہے جو نہ صرف دنیا کی تیسری فوجی قوت بن رہا ہے بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ اقتصادی صنعتی طور پر بھی چین خود انحصاری کی مضبوط بنیاد کے بعد اب دنیا کی تجارت اور صنعت میں تیسرا بڑا حصہ دار بن رہا ہے، یوں اس کے تیسرے حصہ دار بننے سے عالمی اقتصادیات میں پہلی قوتوں کے حصے کا تناسب کم ہو رہا ہے اس لیے اُسے روکنے کے لیے علاقائی سطح پر میدان گرم کیا جا رہا ہے اور بھارت کو گذشتہ 25 برسوں سے رفتہ رفتہ اس کے مقابل لا کھڑا کیا گیا ہے اور پاکستا ن جس نے 1965 ء کی جنگ اور پھر1971 ء کی جنگ میں تمام تر انحصار امریکہ پر کیا تھا اُس نے امریکہ سے تعلقات کو متوازن کرنے کے لیے چین سے زیادہ مضبوط تعلقات قائم کئے تھے۔


اب بھارت امریکہ تعلقات کے تناظر میں پاکستا ن کی خارجہ پالیسی کے لیے چین پاکستان امریکہ تعلقات توازن کے اعتبار سے آزمائش کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔ علاقائی سطح پر مزید تین صورتیں یہ ہیں کہ علاقے میں پراکسی وار جاری ہے جس میں فوجوں کے مقابلے میں ملکوں کے اندر ہی قومی، نسلی، لسانی اور مذہبی فرق کو نمایاں کرتے ہوئے تضادات کو تصادم تک پہنچایا جاتا ہے اور پھر اِن بنیادوں پر گروہی تصادم کروا کے اور معاشی و سیاسی بے چینی پیدا کر کے ملکوں کو کمزور کیا جا تا ہے اور بعض مرتبہ ملکوں کو تقسیم بھی کر دیا جاتا ہے جہاں تک چین کا تعلق ہے تو یہ ملک اپنے قدرے آمرانہ نظام ِحکومت اور اپنی نسلی، لسانی، قومی، ثقافتی اور معاشرتی مضبوط بنت کے لحاظ سے دنیاکا سب سے مضبوط ملک ہے مگر اس کے مقابلے میں بھارت، پاکستان اور افغانستان کمزور ہیں۔ پاکستان اور افغانستان 72 برسوں سے مذہب ِ اسلام کی بنیاد پر یک جہتی اور سالمیت کو قائم رکھنے کی کامیاب کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیںاوردوسری قوتیں اِنھیںکمزور کرنے کی کو ششیں بھی کرتی رہی ہیں جس میں کہیں زیادہ تیزی اور شدت آچکی ہے۔

بھارت اپنے رقبے اور آبادی کے اعتبار سے پاکستان اور افغانستا ن کے مقابلے میںسات سے آٹھ گنا بڑا ملک ہے جہاں اسی تناسب سے نسلی، لیسانی ، قومی، مذہبی ، ثقافتی، فرق موجود ہیں جو صدیوں سے تضادات کی شدت کے ساتھ بڑے تصادم کی صورت رونما بھی ہوتے رہے۔ بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا ملک ہے جو حقیقت میں اب پہلے نمبر پر آچکا ہے اور اس کا اعلان 2021 ء میں ہونے والی مردم شماری میں ہو جائے گا۔ بھارت کی جہاںآبادی بھی بہت زیادہ ہے اور ساتھ ہی تضادات بھی تصادم کی طرف جا رہے ہیں ۔2011 ء کی مردم شماری کے مطابق بھارت کی کل آبادی ایک ارب21 کروڑ ہو چکی ہے جس میں 79.8% ہندو، 14.2% مسلمان، 2,3% عیسائی، 1.7 فیصد سکھ اور باقی بدھ مت،جین مت اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے آباد ہیں۔

مجموعی ہندو آبادی جو ایک ارب کے قریب ہے اس میں دنیا کے بہت سے مذاہب کے مقابلے میں تناسب اور تعداد کے اعتبار سے کہیں زیادہ تعداد اور تناسب ہے یعنی ایک ارب ہندو آبادی میں اعلیٰ ذات کے ہندوں کا تناسب 26 فیصد دیگر کم درجے کی ہندو آبادی کا تنا سب 43% اور شیڈول کاسٹ کا تناسب 22% ہے۔ دیگر لسانی، قومی اور ثقافتی بنیادوں پر یہ ایک ارب 21 کروڑکی آبادی 35 سے زیادہ بڑے گروہوں میں تقسیم ہے، افغانستان اور پاکستان کی 98 فیصد آبادی مسلمان ہے جس کو اسلامی قوت کی بنیاد پر یکجا، رکھنے کی کامیاب کو ششوں کے مقابلے میں بھارت نے اپنی بڑی آبادی کو یکجا، رکھنے اور ملکی اتحاد کو قائم رکھنے کے لیے سیکولرازم اور جمہوریت کو بنیاد بنائے رکھا جو بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی قومی پالیسی تھی مگر اب بدقسمتی سے اس پالیسی کو نریندر مودی نے ترک کر دیا ہے جو بھارت کی ملکی یک جہتی کے لیے نقصا ن دہ ثابت ہو سکتا ہے کہ وہ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر پھینک رہے ہیں۔

یہ تو وہ تین پہلو یا عالمی اور علاقائی صورتیں ہیں جو پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کوعالمی اورعلاقائی سطحوںپر درپیش ہیں۔ اب اندرونی یا ملکی اور قومی تناظر میں سیمسین اینڈ ڈی لا ئلاکے تین ستونوں کے علامتی نقطے کو مدنظر رکھ کر جائزہ لیتے ہیں۔ پاکستان میں 1970 ء کے پہلے عام انتخابات میں دو جماعتیں سامنے آئی تھیں۔ 1977 ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے مقابلے قومی اتحاد قائم ہوا تو پھر دو قوتی سیاسی صورتحال بنی مگر ضیاالحق کے مارشل لاء کے بعد 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کے بعد مصنوعی طور پر ایک جماعتی نظام نافذ کرنے کی کو شش کی گئی اور پھر جب 1988 کے انتخابات ہوئے تو ڈھائی پارٹی یا جماعتی نظام سامنے آیا کہ جو ایم کیو ایم کی صورت 2008 کے عام انتخابات تک رہا اور 2008 کے انتخابات کے بعد وفاقی سطح پر دو جماعتی پارلیمانی جمہوری عمل چلا جس کی بنیاد محترمہ بینظر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان ہونے والے میثاق ِ جمہوریت کو بھی کہا گیا۔ 2008 کے عام انتخابات بینظر بھٹو کی شہادت کے بعد ہوئے جس میں ٹرن آوٹ 44.10% رہا۔ پیپلز پارٹی 30.5% ووٹ کے ساتھ قومی اسمبلی کی 91 جنرل نشستیں حاصل کر سکی ۔

مسلم لیگ ق نے کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے23.12% ووٹ لیکر 38 جنرل نشستیں حاصل کیں۔ مسلم لیگ ن 19.65 فیصد ووٹ لیکر 69 نشستیں حاصل کیں جب کہ ایم کیو ایم 7.43% ووٹ لیکر اگر چہ قومی اسمبلی میں چوتھی جماعت تھی مگر سندھ کی صوبائی اسمبلی میں پی پی پی کی 93 جنرل نشستوں کے مقابلے میں کراچی کی بنیاد پر 51 نشستیں حاصل کر کے ایک طاقتور پوزیشن میں تھی اور یوں 1988 ء سے 2008 ء تک ملک میں وفاقی حکومت سازی کے لحاظ سے دو جماعتیں تو اہم تھیں مگر اکثر ان کو توازن ایم کیو ایم کی حمایت سے ملتا تھا لیکن 2013 ء میں انتخابات کے بعد سہہ قومی سیاسی منظر نامہ سامنے آیا۔ اِن عام انتخابات میں کل 45388404 ووٹوں میں سے مسلم لیگ ن نے32.77 فیصد یعنی کل 14874104 ووٹوں کی بنیاد پر قومی اسمبلی کی 126 جنرل نشستیں حاصل کیں۔ پی پی پی نے 15.23% کی بنیاد پرکل ووٹو ں میں سے6911218 ووٹ لیے اور اِن کی قومی اسمبلی میں 33 جنرل نشستیں تھیں۔ قومی اسمبلی میں 28 نشستیں لے کر تیسری پوزیشن تحریک انصاف نے حاصل کی جب کہ مجموعی طور پرتحریک انصاف نے پیپلز پارٹی سے زیادہ ووٹ حاصل کئے۔

اِن کے کل ووٹ 7679954 تھے جو 16.92% تھے۔ یہ انتخابات ایسے تھے کہ وکٹری اسٹینڈ پر پہلی پوزیشن پر مسلم لیگ ن تھی، دوسری پوزیشن پی پی پی تھی اور تیسری پوزیشن پر نئی سیاسی قوت کی حیثیت سے پاکستان تحریک انصاف تھی۔ پاکستان میں دوسری مرتبہ دوسری منتخب حکومت نے اپنی پانچ سال کی مدت پوری کی مگر ان پانچ برسوں میں تحریک انصاف نے حکومت پر انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کرکے مشکل وقت دیا تھا اور پھر جون 2018 ء کے عام انتخابات میں کل ڈالے گئے 53123733 ووٹوں میں پی ٹی آئی نے 16903702 ووٹ یعنی 31.82% حاصل کئے اور اس کی قومی اسمبلی میں 116 جنرل نشستیں تھیں، مسلم لیگ ن نے 12934589 ووٹ یعنی24.35% ووٹ لے کر قومی اسمبلی کی 64 جنرل نشستیں لیں اور پاکستا ن پیپلز پارٹی 6924356 ووٹ یعنی 13.03% پر قومی اسمبلی کی 43 جنرل نشتیں لے کر تیسری پو زیشن پر رہی۔ یوں یہ ملک میں پارلیمانی جمہوریت کی بنیادوں پر ہونے والے تین مسلسل انتخابات کے بعد ایسی حکومت ہے جو اس تسلسل کو بھی قائم رکھے ہوئے ہے کہ انتخابات کے بعد حکومت مختلف جماعت کی ہے۔ عمران خان نے جو منشور اور پروگرام انتخابات میںعوام کو دیا تھا وہ اندرونی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو گیا ہے۔

اب قومی اسمبلی میں بھی تین مضبوط سیاسی جماعتیں ہیں ایک اقتدار میں ہے اور دو اپوزیشن میں ہیں،آخری مثلث یا تکون ریاست کے تین ستون ہیں جس میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ شامل ہیں۔ نیب کے حوالے سے معاملات سیاسی لیڈروں کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں اور سیاست دان اس کے خلاف بھی ہو چکے ہیں۔ انتظامیہ یعنی بیوروکریسی بھی بقول حکومت مشکلات پیدا کر رہی ہے اور یوں لگتا ہے کہ اب عمران خان انتظامیہ اور مقننہ کے دو ستونوں کے درمیان کھڑے ہیں اور سامنے عدلیہ کا ستون ہے ۔ انتظامیہ گذشتہ 35 برسوں میں پی پی پی یا مسلم لیگ کی حکومتوں کے ساتھ چلتی رہی ہے اور تحریک ِ انصا ف کی حکومت مختلف بھی ہے یوں اس وقت مجموعی طور پر حکومت اور اپوزیشن تو ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہیں ہی مگر افسوس یہ ہے کہ عوام کو اس کا زیادہ خمیازہ بھگتنا پڑا رہا ہے۔ پی ٹی آئی نے حکومت حاصل کرنے کے لیے پرانے اور ہر انتخا ب میں منتخب ہو نے والوں کو شامل رکھا ہے جن میں سے بہت سوں پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں۔ عمران حکومت کو اندرونی طور پر سب سے بڑا مسئلہ معاشی اقتصادی بحران کا ہے جس کی جڑیں ، تنا ، شاخیں ، ٹہنیاں سب ہی 1988 ء سے تقویت پاتے رہے ہیں۔

البتہ یہ ضرور ہے کہ اس کے نہایت تلخ اور پتھر جیسے پھل عمران خان کی حکومت کے پہلے ہی سال اقتصادی بحران کی تند و تیز آندھیوں سے 22 کروڑ عوام پر گرنے لگے ہیں۔ اس کی تیز رفتاری میں عالمی اور علاقائی عناصر کے ساتھ اندرونی عناصر بھی شامل ہیں، اس وقت جب قومی بجٹ 2019-20 ء آنے والا ہے اور آئی ایم ایف سے معاہدہ حتمی مراحل میں ہے، امریکی ڈالر کی قیمت 150 روپے سے زیادہ ہوتی دکھائی دے رہی ہے، ملک کی لوٹی ہوئی دولت کی واپسی جس کے لیے گذشتہ دونوں حکومتیں بھی دعوٰے کرتی رہیں، واپس نہیں آسکی، عمران کی حکومت کو معمولی عددی برتری حاصل ہے، بعض اطلاعات کے مطابق تینوں بڑی جماعتوں میں مختلف گروپ بھی موجود ہیں جو اپنی قیادتوں سے منا سب وقت پر منحرف ہو سکتے ہیں، جب کہ یہ سامنے ہے کہ طویل عرصے کے بعد ملک میں حکومت مخالف ایک بڑا ایسا سیاسی اتحاد قائم ہوا ہے جس میں شامل جماعتیں ایک دوسرے کی شدید مخالف ہیں اور یہ اتحاد حکومت مخا لف تحریک کا اعلان بھی کر چکا ہے۔

اس وقت اپوزیشن کی جماعتیں حکومت کو ہلانا تو چاہتی ہیں مگر گرانا نہیں چاہتیں کیونکہ مقننہ اور انتظامیہ کے ستونوں کے ہلنے یا سرکنے سے پوری سیاسی عمارت کے تمام سیاسی جماعتوں پر گرنے کا شدید اندیشہ ہے۔ یوں اپوزیشن کے بعض لیڈر اس کوشش میں بھی ہیں کہ اگر وزیر اعظم عمران خان اسمبلی کو تحلیل کرنے کے لیے اسپیکر اسمبلی کو کہتے ہیں تو اپوزیشن، پی ٹی آئی کے بعض الیکٹبل ممبران کے ساتھ مل کر اس اقدام کو عدالت میں چیلنج کر دے کیونکہ اپوزیشن اور حکومتی اراکین بھی یہ جانتے ہیں کہ اگر اس بار اسمبلیاں تحلیل ہو تی ہیں پھر 2000 ء تا 2002 ء کی طرح صرف دو سال کے لیے نگران یا عبوری حکومت نہیں آئے گی ، بلکہ اس کی مدت بھی زیادہ ہو گی اور اِس کا بھی اندیشہ ہے کہ ملک میں طرز حکومت اور آئین بھی تبدیل ہو جائے ؟ تو اب پوری عمارت کھڑی ہے، کیا عمران خان ستونوں کو خستہ اور بوسید قرار دیکر گرانے کی قوت رکھتے ہیں؟ کیونکہ اس وقت کا سیمسین ''عمران'' ستونون کے درمیان تو آچکا ہے اور ہر جانب سے قہقہے بھی بلند ہو رہے ہیں۔

اب دیکھئے کیا ہوتا ہے ؟وہ سیمسین جس نے شیر کو خالی ہاتھوں ہلاک کیا تھا اُسے بونے نوکیلے تیر لے کر متواتر زخمی بھی کرتے رہے پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کسی ایسے انسان جس کے بال بہت گھنے ہوں اُن کو شمار کر نا مشکل ہوتا ہے البتہ کمپیوٹر اُن کی تعداد کروڑوں میں شمار کرتا ہے، بالو ں میں طاقت دنیا میں آبادی کے اعتبار سے چھٹے ملک پاکستان کے عوام کی علامت بھی ہو سکتا ہے، اِسے بس اتفاق سمجھیں کہ میری توجہ نہ معلوم کیوں فلم سیمسین اینڈ ڈی لائلا کی جانب گئی۔
Load Next Story