بارھواں بلاک

وہاں درجنوں نہیں، سیکڑوں پُل ہیں، لاجواب سڑکیں ہیں، مگر کسی بھی جگہ کسی سیاستدان کے نام کی تختی نہیں لگائی گئی

raomanzar@hotmail.com

کوپن ہیگن، آٹھ لاکھ لوگوں پرمشتمل ایک انتہائی خوبصورت شہرہے۔ ایرک،اسی شہر میں فائر ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتا تھا۔ مغرب میں فائر ڈیپارٹمنٹ ہرقسم کی ایمرجنسی کے لیے بنایا گیا ہے۔ اب توخیراوربھی کئی محکمے موجودہیں جو لوگوں کوچوبیس گھنٹے مددفراہم کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔

مگر چالیس برس پہلے صرف فائرڈیپارٹمنٹ ہی شہرکی ایمرجنسی کامنتظم تھا۔ویسے کوپن ہیگن دنیاکے پہلے تین بہترین شہروں میں آتاہے۔جہاں ہرانسان کوسہولت مہیا کی گئی ہے۔جہاں ہرحکومت دل وجان سے عوام کی فلاح کرنے کے لیے سخت ترین کوشش کرتی ہے۔ ویسے اس شہر میں ایک اورخاص بات بھی ہے۔

وہاں درجنوں نہیں، سیکڑوں پُل ہیں،پبلک پارکس ہیں، لاجواب سڑکیں ہیں، مگر کسی بھی جگہ کسی سیاستدان کے نام کی تختی نہیں لگائی گئی۔کہ جناب فلاں وزیراعظم یاوزیراعلیٰ یا وزیرنے ''کمال مہربانی'' کرتے ہوئے پُل یاپارک کاافتتاح فرمایاتھا۔وہاں ہمارے ملک جیسے جعلی بلکہ ادنیٰ افتتاحوں کاکوئی رواج نہیں ہے۔وجہ صرف ایک کہ سہولتوں کی تعمیرکے لیے لوگوں کے ٹیکس کے دیے گئے پیسے خرچ کیے جاتے ہیں۔یہ کسی سیاستدان کا قطعاً احسان نہیں ہوتا۔پھرتختی لگاکرذاتی تشہیر کیسی۔

ایرک اپنے سادہ سے دفترمیں بیٹھا ہوا تھا۔ کالے رنگ کاپراناٹیلیفون ساتھ پڑاہواتھا۔رات کے گیارہ بج چکے تھے۔تقریباًتین گھنٹے سے کوئی ٹیلیفون نہیں آیاتھا۔ شہر پُرسکون تھااورایرک آرام سے ایک کتاب پڑھ رہاتھا۔ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ایرک نے پھرتی سے فون اُٹھایا۔ دوسری طرف سے ایک نحیف سی آوازآرہی تھی۔ایک بزرگ خاتون بڑی آہستہ آہستہ بول رہی تھی۔میں کمرے میں گرگئی ہوں اور سرپرچوٹ آئی ہے۔ مجھے کچھ یادنہیں آرہا۔

ایرک پریشان ہوگیا۔سوال کیاکہ نام کیاہے۔عورت نے آہستہ سے جواب دیا کہ اسے یادنہیں ہے کہ اسکانام کیاہے۔ایرک نے دوسرا سوال کیاکہ آپ کو یاد ہے کہ آپ کس شہرسے بول رہی ہیں۔ جواب تھا،مجھے کچھ یادنہیں۔اب ایرک کی پریشانی بڑھ رہی تھی۔ محلہ کانام یادہے یاوہ بھی نہیں ۔جواب مکمل طورپرنفی میں تھا۔

عورت کی آوازکمزورسے کمزور تر ہورہی تھی۔ گھر کا ایڈریس پوچھا،تووہ بھی یادنہ تھا۔ایرک کو پسینہ آگیا۔ایک عورت، جسے سرپرچوٹ آئی ہے، مددکی ضرورت ہے۔اس کا ایڈریس،کوئی معلومات،کسی قسم کامحل وقوع،کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔آواز سے لگتاتھاکہ عورت سخت تکلیف میں ہے اورکافی معمر ہے۔ اسے مددکی واقعی ضرورت ہے۔مگرسوال تھامددکیسے کی جائے۔

سب سے پہلے،ایرک نے شہرکی مین ایکسچینج میں فون کیا۔ آپریٹرنے سخت کوشش کرکے بتایاکہ فون اسی شہرسے آیاتھا یعنی کوپن ہیگن سے۔ مگراتنے بڑے شہرمیں اس عورت کوکیسے تلاش کیا جائے۔ ایرک نے عورت کوکہاکہ کسی بھی صورت میں اس نے فون بندنہیں کرنااورفون کے نزدیک رہنا ہے۔ عورت کی نبض ڈول رہی تھی اورساتھ ساتھ بولنے کی قوت بھی ختم ہورہی تھی۔اس نے فون بندنہیں کیا۔

اب صرف فون پر بزرگ عورت کی ڈوبتی ہوئی سانسوں کی آوازسنائی دے رہی تھی۔ایرک نے فوراً اپنے سینئرسے بات کی اورساری صورتحال بتائی۔ اپنا فیصلہ بھی بتایاکہ وہ ہرقیمت پراس بوڑھی عورت کی زندگی بچائے گا۔سینئرفائرمین نے رات کوایک بجے شہرکے منتظم کونیندسے اُٹھاکرمطلع کیا۔


صرف تین چار منٹ میں فیصلہ ہوا کہ تمام حکومتی وسائل،ایرک کے لیے فراہم کیے جائیں تاکہ عورت کی مدد ہوسکے۔ ہاں،ایرک کوعورت نے صرف یہ بتایا تھاکہ اس کے کمرے کی کھڑکیاں چوکورہیں۔اس سے ایک بات تومعلوم ہوچکی تھی کہ وہ شہرکے پرانے حصے میں رہتی ہے۔مگرشہرکے اس حصے میں بھی لاکھوں لوگ رہتے تھے اور ہزاروں کھڑکیاں چوکورتھیں۔ایرک نے فون پربڑی منت کرکے عورت کوپیغام دیاکہ اس نے اپنے کمرے کی لائٹ کسی صورت میں بندنہیں کرنی۔عورت کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔مگرایرک کویقین تھاکہ وہ اسے سن رہی ہے۔ شائدجواب نہیں دے پارہی۔

ایرک نے ایمرجنسی گاڑیوں کوبارہ حصوں میں تقسیم کیا۔ اس لیے کہ شہرکے پرانے حصے میں بارہ بلاک تھے۔گاڑیوں کے ڈرائیوروں کوکہاکہ انھوں نے پوری طاقت سے سائرن بجانے ہیں۔اب ایرک فون سے کان لگاکربیٹھ گیا۔دس منٹ بعد اسے فون پرسائرن کی آوازآنے لگی۔اب سوال یہ تھاکہ وہ زخمی عورت کس بلاک میں ہے۔ایرک نے گاڑیوں کے ڈرائیوروں کو کہا کہ صرف ایک گاڑی اپنا سائرن بجائے۔ اپنے بلاک کا چکر لگائے اور پھرسائرن بندکرلے۔اس کے بعد ترتیب سے دوسری گاڑی اپنے مختص بلاک میں سائرن بجائے اورپھرچکرمکمل کرکے دوبارہ خاموش ہوجائے۔ایک ایک کرکے گاڑیوں نے اپنے سائرن بندکرکے انتہائی منظم طریقے سے اپنی باری پرسائرن بجاناشروع کردیا۔ آدھا گھنٹہ گزر گیا فون پرسائرن کی کوئی آوازسنائی نہیں دی گئی۔

گیارہ گاڑیاں اپنے اپنے بلاکس میں سائرن بجاکرخاموش ہوگئیں۔اب صرف ایک گاڑی اورایک بلاک رہ گیا تھا۔ ایرک پریشان تر ہوتاگیا۔بارھویں بلاک یعنی آخری بلاک میں ایمرجنسی گاڑی نے سائرن آن کیااوربلاک میں آہستہ آہستہ چلناشروع کر دیا۔ایرک کوٹیلیفون پرسائرن کی آواز آنے لگی۔یعنی عورت کاگھراسی بلاک میں تھا۔وہ خودوہاں پہنچ گیا۔مگروہاں پہنچ کر پریشان ہوگیا۔کیونکہ اس بلاک میں سیکڑوں گھرتھے اور سب کی کھڑکیاں چکورتھیں۔ان میں سے ایک گھرتک پہنچنا ناممکن تھا۔

اتنی دیرمیں صوبے کاچیف منتظم یاوزیراعلیٰ بھی موقعہ پرآچکے تھے۔وہ مکمل خاموش تھا۔ موجودگی اس لیے ضروری تھی کہ ایرک کووسائل کے لحاظ سے کوئی دقت نہ ہو۔ دیکھا جائے توپوری حکومت،اس وقت ایرک کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی۔فون پرایرک نے بزرگ عورت سے بات کرنے کی کوشش کی۔مگرجواب نہ آیا۔ایرک بڑی تشویش میں گاڑی سے باہرنکلااورٹہلناشروع کردیا۔اب کیاکیا جائے۔ سیکڑوں گھرتھے۔سب کی کھڑکیاں چکور تھیں۔ ہزاروں کمروں کی لائٹیں آن تھیں۔

اچانک ایرک کے ذہن میں نایاب خیال آیا۔گاڑی میں گیااورمائیک پراعلان کیاکہ اس بلاک میں ایک بوڑھی عورت زخمی حالت میں ہے۔اسے امدادنہ ملی تووہ مرجائیگی۔لہذااعلان کوسننے والے حضرات اپنے گھروں کی تمام لائٹیں بندکرلیں۔کیاآپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس حکم کاردِعمل کیاہوا۔صرف ایک منٹ میں پورے بلاک کے لوگوں نے انسانی جان بچانے کے لیے اپنے گھروں کی لائٹیں فی الفوربندکرلیں۔پورے بلاک میں اندھیرا ہوگیا۔

اس پُرسکون اندھیرے میں صرف ایک گھرکی چوکورکھڑکی کی لائٹ آن تھی۔یہی اس عورت کاگھر تھا۔ ایرک نے عملہ سمیت اس بلڈنگ کی طرف دوڑناشروع کردیا۔ فلیٹ کادروازہ بند تھا۔ اسے توڑکرپوری ٹیم گھرکے اندرداخل ہوئی۔فرش پربزرگ عورت بیہوش پڑی تھی۔اس کے سرسے خون نکل رہاتھا۔ اور پرانے ٹیلیفون کاچونگااس کے قریب پڑا ہواتھا۔ٹیم نے اسٹریچرپربیہوش عورت کولٹایااوراسپتال لے گئے۔وہاں ماہر ترین ڈاکٹر ایمرجنسی میں انتظارکررہے تھے۔تین گھنٹے کے طویل آپریشن کے بعدعورت ہوش میں آئی۔

اس کی جان بچ گئی۔وجہ صرف اورصرف ایرک کی حکمتِ عملی اور حکومت کی عملی پشت پناہی تھی۔جس نے ایک انسانی جان بچانے کے لیے ایرک کوتمام وسائل مہیاکردیے۔چالیس برس پہلے کایہ واقعہ ڈنمارک میں پیش آیا۔ایرک بائیس برس کا نوجوان تھااورکالج سے چھٹیوں میں سماجی کام کررہا تھا۔ اس کا فائرڈیپارٹمنٹ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔وہ اتفاق سے اس دن ڈیوٹی پرتھا۔

یہ واقعہ مغربی معاشرے کی صرف ایک جھلک پیش کرتاہے۔ اگر بروقت طبی امدادنہ پہنچتی تو بزرگ عورت اپنے گھرمیں ہی مرجاتی۔وہ اکیلی رہتی تھی اور اس کے گھرمیں کوئی بھی نہیں تھا۔ مقصد یہ ہے کہ ہمیں یہ شعورہوکہ عملی طورپرانسانیت کیا ہے۔ مغرب میں حکومت اپنے شہریوں کی فلاح وبہبودکے لیے کہاں تک جاسکتی ہے۔رات کودوبجے بھی پورے حکومتی عمال اُٹھ کر،ایک عورت کی جان بچانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ویسے مجھے یہ واقعہ نہیں لکھناچاہیے تھا۔اس لیے کہ شعوری طورپریقین ہے کہ ہم لوگ انسانی سطح سے بہت نیچے کی زندگی گزاررہے ہیں۔
Load Next Story