متعلقہ حکام کی غفلت تاریخی ایمپریس مارکیٹ کے ترقیاتی کام 6 سال بعد بھی نامکمل
سندھ حکومت نے اس منصوبے کے لیے صرف 0.001ملین (ایک ہزار روپے) مختص کیے ہیں
RAWALPINDI:
ایمپریس مارکیٹ کے تاریخی احیا اور قرب و جوار کے ترقیاتی کاموں کا منصوبہ 6 سال گذرجانے کے باوجود مکمل نہیں کیا جاسکا۔
سندھ حکومت کی جانب سے فنڈز کا اجرانہ ہونے کی وجہ سے ایمپریس مارکیٹ کے قرب و جوار میں میر کرم علی تالپور روڈ پر فوڈ اسٹریٹ اور راجا غضنفر علی خان روڈ پر نائٹ بازار کے ترقیاتی کام ایک سال سے بند پڑے ہیں، منصوبہ 3 فیزوں پر مشتمل ہے جس میں فیز ون کا بیشتر کام مکمل ہوچکا ہے تاہم کچھ اجزا ادھورے ہیں جبکہ فیز ٹو اور فیز تھری پر ترقیاتی کام شروع نہیں کیا جاسکا ہے، سندھ حکومت نے اگلے مالی سال کے بجٹ میں اس منصوبے کے لیے صرف 0.001ملین (ایک ہزار روپے) مختص کیے ہیں۔
فیز ون کے ترقیاتی کاموں کی تکمیل کے لیے تقریباً30کروڑ روپے کی ضرورت ہے، صوبائی حکومت مسلسل اس منصوبے کی تکمیل میں عدم توجہی برت رہی ہے اور اگلے مالی سال میں فنڈز مختص نہ کیے جانے کے باعث یہ منصوبہ مکمل طور پر سرخ فیتے کی نذر ہوجائے گا، سپریم کورٹ کی ہدایت پر بلدیہ عظمیٰ کراچی نے آٹھ ماہ قبل ایمپریس مارکیٹ کے اطراف سے سیکڑوں تجاوزات کا خاتمہ کیا اور اپنے ایک ہزار سے زائد کرایہ داروں کو وہاں سے ہٹا کر عمارت کی قدیم حیثیت کافی حد تک بحال کردی ہے تاہم ایمپریس مارکیٹ کی خستہ حال عمارت کی مرمت و تزئین و آرائش اور خراب تاریخی وال کلاک کی درستگی کا کام بدستور التوا کا شکار ہے، بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ایک متعلقہ آفیسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ یہ ایک میگا منصوبہ ہے جس کا مرکز ایمپریس مارکیٹ کا تاریخی احیاہے جبکہ قرب و جوار کے ترقیاتی کام اس وجہ سے تشکیل دیے گئے ہیں تاکہ مجموعی طور پر پورے علاقے کو بہتر بناکر ایمپریس مارکیٹ کی خوبصورتی کو دوبالا کیا جاسکے، سندھ حکومت نے ایمپریس مارکیٹ کے قرب و جوار کے کچھ ترقیاتی کام تو مکمل کردیے ہیں لیکن اصل منصوبہ ایمپریس مارکیٹ کے تاریخی احیاپر عملدرآمد سے غفلت برت رہی ہے۔
ابھی تک یہ پالیسی ہی طے نہیں ہوسکی ہے کہ ایمپریس مارکیٹ کی تزئین وآرائش ومرمت بلدیہ عظمیٰ کراچی کریگی یا سندھ حکومت انجام دیگی، متعلقہ آفیسر نے کہا کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی سخت مالی بحران کا شکار ہے، سندھ حکومت کی جانب سے ترقیاتی فنڈز جاری نہ ہونے کی وجہ سے بلدیہ عظمیٰ کراچی رواں سال کئی ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد نہیں کراسکی تاہم بلدیہ عظمیٰ کراچی نے اپنے حصے کا کام کرتے ہوئے ایمپریس مارکیٹ سے غیرضروری دکانوں کا خاتمہ کیا اور صدر کی سڑکوں سے تجاوزات کو صاف کیا، یہ انتہائی مشکل کام تھا جو سپریم کورٹ کی ہدایت پر سیکیورٹی اداروں کے تعاون سے انجام دیا گیا، سندھ حکومت جس کے پاس نہ صرف وافر مقدار میں فنڈز موجود ہیں بلکہ کئی سالوں سے یہ منصوبے صوبائی محکمہ بلدیات کی زیر نگرانی تعمیر کیا جارہا ہے اس لیے اسے پایہ تکمیل تک پہچانے کی ذمہ داری بھی اسی کی ہے، سندھ حکومت کے متعلقہ افسران کے مطابق ایمپریس مارکیٹ کے تاریخی احیااور قرب وجوار کے ترقیاتی کاموں کا منصوبہ 2013میں تشکیل پایا گیا اور اس پر عملدرآمد کا آغاز 2014 سے شروع ہوا بعدازاں کچھ ترمیم کرکے نئے منصوبے شامل کیے گئے۔
یہ منصوبہ تین فیزوں پر مشتمل ہے جو صوبائی محکمہ بلدیات اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے اشتراک سے کیا جارہا ہے، فوڈ اسٹریٹ میر کرم علی تالپور روڈ اور نائیٹ بازار راجہ غضفنر علی خان روڈ پر ترقیاتی کام 70فیصد مکمل ہوچکے ہیں ، منصوبہ بندی کے تحت دونوں اہم شاہرائیں صرف پیدل چلنے والے لوگوں کیلیے مخصوص ہونگی اور یہاں ٹریفک ممنوع ہوگی، منصوبے کے پہلے فیز میں پبلک ٹرانسپورٹ کی ری روٹنگ کی گئی جس کے تحت بسوں اور منی بسوں کا روٹ پریڈی اسٹریٹ اور دیگر سڑکوں سے جزوی طور پر ممنوع کردیا گیا ہے، 2014میں ری روٹنگ پر عملدرآمد کیا گیا تاہم اسوقت گرین لائن بس پروجیکٹ کی وجہ سے نمائش چورنگی مکمل طور پر بند ہے لہذا پبلک ٹرانسپورٹ عارضی طور پر صدر ایریا میں چل رہی ہے جیسے ہی گرین لائن بس منصوبہ مکمل ہوگا ، پبلک ٹرانسپورٹ کے منظور کردہ روٹ بحال کردیے جائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ فیز ون میں پبلک ٹرانسپورٹ کی ری روٹنگ، تجاوزات کا خاتمہ ، جہانگیر پارک کی تعمیر نو، میر کرم علی تالپور روڈ پر فوڈ اسٹریٹ کی تعمیر، راجہ غضفنر علی روڈ پر نائٹ بازار، پریڈی اسٹریٹ کی تعمیر نواور واٹر اینڈ سیوریج کی نئی لائنوں کی تنصیب شامل ہیں، فیز ٹو میں ایمپریس مارکیٹ کے تاریحی احیا، عمارت کی مرمت و تزئین آرائش، پارک اور آرٹ گیلری کی تعمیر شامل ہے، فیز تھری کے تحت پریڈی اسٹریٹ ایمپریس مارکیٹ تک سنگر انٹرسیکشن تک ٹرام وے چلانے کا منصوبہ شامل ہے، متعلقہ افسران کے مطابق اصل پروجیکٹ ایمپریس مارکیٹ کا احیااور قرب جوار کی ازسر نو تعمیر ہے، ایمپریس مارکیٹ تاریخی ورثہ ہے جس کی بحالی کیلیے یہ منصوبے بتدریج عملدرآمد کیے جارہے ہیں تاکہ کراچی کے شہری اپنے ثقافتی اور تاریخی ورثے کو حقیقی شکل میں دیکھ سکیں، علاوہ ازیں صدر کے علاقوں کو تجاوزات ، آلودگی اور گندگی سے پاک کرنا، پبلک ٹرانسپورٹ کی ری روٹنگ پر عملدرآمد اور لائنز ایریا پارکنگ پلازہ تا صدر شٹل بس سروس کا آغاز بھی اس منصوبے کا حصہ ہے، متعلقہ افسران نے کہا کہ اس منصوبے کے تحت جہانگیر پارک کی ازسرنو تعمیر کردی گئی ہے جبکہ پانچ سڑکوں کی تعمیر نو بھی ہوچکی ہے۔
ان سڑکوں میں مینز فیلڈ اسٹریٹ ، میر کرم علی تالپور روڈ، راجہ غضفنر علی روڈ، سرور شہید روڈ اور شاہراہ عراق شامل ہیں، سڑکوں کی تعمیر سے قبل پرانا و بوسیدہ پانی و سیوریج کا نظام مکمل طور پر تبدیل کردیا گیا ہے جس سے صدر کے رہائشیوں کو فراہمی و نکاسی آب کے مسائل سے نجات مل گئی ہے، صدر کے علاقوں میں 3.25کلومیٹر پانی کی نئی لائنوں کی تنصیب اور تقریباً 4کلومیٹر سیوریج لائنوں کی تنصب کی گئی ہے، مصروف ترین علاقے لکی اسٹار تا آواری ہوٹل 48انچ کی سیوریج کی مرکزی لائن ڈالی گئی جو کافی مشکل کام تھا تاہم بخوبی انجام دیا گیا،اسپیشل سیکریٹری ٹو لوکل گورنمنٹ اور پروجیکٹ ڈائریکٹر نیاز سومرو نے کہا کہ ایمپریس مارکیٹ کے تاریخی احیا اور قرب و جوار کے ترقیاتی کاموں کے منصوبے کے فیز ون کی اوریجنل پی سی ون 1006.2ملین کی ہے جس میں سے تقریباً ایک ارب روپے خرچ کیے جاچکے ہیں، سندھ حکومت کے فنڈز سے جہانگیر پارک کی تعمیر نو، مینز فیلڈ اسٹریٹ، میر کرم علی تالپور روڈ، راجہ غضفنر علی روڈ، سرور شہید روڈ اور شاہراہ عراق کی تعمیر نو کی جاچکی ہے، میر کرم علی تالپور روڈ پر فوڈ اسٹریٹ اور راجہ غضفنر علی روڈ پر نائٹ بازار کا تعمیراتی کام 70فیصد ہوچکا ہے۔
بقیہ تعمیراتی کام فنڈز کے نہ ہونے کی وجہ سے التوا کا شکار ہے، علاوہ ازیں جہانگیر پارک میں سولر پینل کی تنصیب بھی تاخیر کا شکار ہے، انھوں نے کہا کہ منصوبے کی نظرثانی شدہ پی سی ون ایک ارب 30کروڑ روپے کی ہے جو صوبائی محکمہ پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ نے منظور کرلی ہے اور ڈیولپمنٹ کمیٹی سے منظور ہونا باقی ہے، جلد ہی یہاں سے بھی منظوری حاصل کرلی جائیگی، انھوں نے کہا کہ اگرچہ کہ اگلے مالی سال میں اس منصوبے کے لیے فنڈز مختص نہیں کیے گئے ہیں لیکن صوبائی محکمہ لوکل گورنمنٹ سے درخواست کی جائیگی کہ اسے reappropriate کرلیا جائے ، توقع ہے کہ منصوبے کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے فنڈز مختص کردیئے جائیں گے، فنڈز کے اجراء ہوتے ہی فوڈ اسٹریٹ، نائٹ بازار اور دیگر ترقیاتی کام تین ماہ میں مکمل کیے جائیں گے، نیاز سومرو نے کہا کہ ایمپریس مارکیٹ کی مرمت و تزئین آرائش، پارک اور آرٹ گیلری کے منصوبے پر ابھی کوئی پالیسی تیار نہیں کی گئی ہے کہ اس منصوبے کو بلدیہ عظمیٰ کراچی تعمیر کریگی یا سندھ حکومت، جیسے ہی حتمی حکمت عملی تیار ہوگی اس کے تحت متعلقہ ادارہ تعمیرات شروع کردیگا۔
اس وقت صوبائی محکمہ بلدیات اپنے فنڈز سے ایمپریس مارکیٹ کے اطراف باؤنڈری وال تعمیر کررہی ہے جس میں تاریخی تعمیرات کو مدنظر رکھا جارہا ہے، اس حوالے سے ایمپریس مارکیٹ کا اوریجنل ڈیزائین متعلقہ ڈپارٹمنٹ سے منگوایا گیا ہے کہ تاکہ عمارت کے دیوار کی تعمیر پرانے ڈیزائین کے مطابق ہو، انھوں نے کہا کہ فیز تھری کے تحت ٹرام وے چلانے کے لیے کنسلٹنیسی کی جائیگی اس کے بعد یہ منصوبہ شروع کیا جائے گا، بلدیہ عظمیٰ کراچی کے میونسپل کمشنر ڈاکٹر سیف الرحمن نے ایکسپریس کا بتایا کہ ایمپریس مارکیٹ کی تزئین وآرائش و مرمت اور ماہرین آرکیالوجی کی مشاورت سے کی جائیگی تاکہ عمارت کا تاریخی تشخص برقرار رہ سکے، اس ضمن میں منصوبہ کا پی سی ون تیار کیا جارہا ہے، عمارت کی حالت بہت خراب ہے، کئی مقامات سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، کھڑکیاں اور چھتیں بھی مرمت طلب ہیں، تاریخی وال کلاک بھی مرمت کرانا ہے، ان تمام کاموں کے لیے کروڑوں روپے درکار ہونگے، پی سی ون کی تشکیل کے بعد اصل لاگت کا اندازہ ہوگا، انھوں نے کہا کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے پاس اتنے فنڈز موجود نہیں ہیں کہ یہ تمام ترقیاتی کام کرے لہذا فنڈز کے لیے سندھ حکومت سے درخواست کی جائیگی۔
انھوں نے کہا کہ اسوقت سندھ حکومت ایمپریس مارکیٹ کے ا طراف باؤنڈری وال تعمیر کررہی ہے، اس کی تکمیل کے بعد بلدیہ عظمیٰ کراچی اپنے فنڈز سے ایمپریس مارکیٹ کے چاروں طرف پارک تعمیر کردیگی، ایمپریس مارکیٹ کے دکانداروں کا کہنا ہے کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کی جانب سے تجاوزات کے خاتمے اور ایمپریس مارکیٹ سے سینکڑوں دکانداروں کی بے دخلی کے باعث سخت بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے جبکہ سندھ حکومت اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے اعلان کردہ منصوبے پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہوا ہے، یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ایک جانب صنعتیں بند پڑی ہیں ، کاروبار مندا ہے اور بے روزگاری عروج پر ہے جبکہ حکومت ترقیاتی منصوبوں کے نام پر روزگار ختم کررہی ہے جبکہ ان منصوبوں پر عملدرآمد بھی نہیں کیا جارہا ہے، ایمپریس مارکیٹ گروسری ویجیٹیبل اینڈ فروٹ مرچنٹ کے صدر لیاقت علی کا کہنا کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی نے ایمپریس مارکیٹ سے جن دکانوں کو ختم کیا ہے۔
ان کے مالکان کو ابھی تک متبادل جگہ نہیں ملی، دکانداروں کا بڑا نقصان ہوا ہے، اب جو متبادل جگہیں فراہم کی جارہی ہیں وہ وہ سابقہ دکانوں کی کاروباری حیثیت کے مطابق نہیں اور سائز میں بھی چھوٹی ہیں، لیاقت علی نے کہا کہ یہ شہر کی مرکزی مارکیٹ ہے اور اسوقت صرف 125دکانیں برقرار رہ گئی ہیں، انھوں نے میئر کراچی وسیم اختر درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ایمپریس مارکیٹ کے متاثرین کو ان کی خواہش کے مطابق فوری طور پر متبادل دکانیں الاٹ کی جائیں اور ایمپریس مارکیٹ میں موجودہ دکانوں کو برقرار رکھا جائے تاکہ اس کا تاریخی پس منظر قائم رہ سکے، ڈائریکٹر اسٹیٹ بلدیہ عظمیٰ کراچی عمران قدیر نے ایکسپریس کو بتایا کہ ایمپریس مارکیٹ کے تمام متاثرین کو دکانیں فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، کئی دکانداروں نے متبادل جگہیں قبول کرلی ہیں، ان کی الاٹمنٹ اور تعمیرات پر کام جارہی ہے، جلد ہی ان کی دکانیں وہاں قائم کردی جائیں
ایمپریس مارکیٹ کے تاریخی احیا اور قرب و جوار کے ترقیاتی کاموں کا منصوبہ 6 سال گذرجانے کے باوجود مکمل نہیں کیا جاسکا۔
سندھ حکومت کی جانب سے فنڈز کا اجرانہ ہونے کی وجہ سے ایمپریس مارکیٹ کے قرب و جوار میں میر کرم علی تالپور روڈ پر فوڈ اسٹریٹ اور راجا غضنفر علی خان روڈ پر نائٹ بازار کے ترقیاتی کام ایک سال سے بند پڑے ہیں، منصوبہ 3 فیزوں پر مشتمل ہے جس میں فیز ون کا بیشتر کام مکمل ہوچکا ہے تاہم کچھ اجزا ادھورے ہیں جبکہ فیز ٹو اور فیز تھری پر ترقیاتی کام شروع نہیں کیا جاسکا ہے، سندھ حکومت نے اگلے مالی سال کے بجٹ میں اس منصوبے کے لیے صرف 0.001ملین (ایک ہزار روپے) مختص کیے ہیں۔
فیز ون کے ترقیاتی کاموں کی تکمیل کے لیے تقریباً30کروڑ روپے کی ضرورت ہے، صوبائی حکومت مسلسل اس منصوبے کی تکمیل میں عدم توجہی برت رہی ہے اور اگلے مالی سال میں فنڈز مختص نہ کیے جانے کے باعث یہ منصوبہ مکمل طور پر سرخ فیتے کی نذر ہوجائے گا، سپریم کورٹ کی ہدایت پر بلدیہ عظمیٰ کراچی نے آٹھ ماہ قبل ایمپریس مارکیٹ کے اطراف سے سیکڑوں تجاوزات کا خاتمہ کیا اور اپنے ایک ہزار سے زائد کرایہ داروں کو وہاں سے ہٹا کر عمارت کی قدیم حیثیت کافی حد تک بحال کردی ہے تاہم ایمپریس مارکیٹ کی خستہ حال عمارت کی مرمت و تزئین و آرائش اور خراب تاریخی وال کلاک کی درستگی کا کام بدستور التوا کا شکار ہے، بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ایک متعلقہ آفیسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ یہ ایک میگا منصوبہ ہے جس کا مرکز ایمپریس مارکیٹ کا تاریخی احیاہے جبکہ قرب و جوار کے ترقیاتی کام اس وجہ سے تشکیل دیے گئے ہیں تاکہ مجموعی طور پر پورے علاقے کو بہتر بناکر ایمپریس مارکیٹ کی خوبصورتی کو دوبالا کیا جاسکے، سندھ حکومت نے ایمپریس مارکیٹ کے قرب و جوار کے کچھ ترقیاتی کام تو مکمل کردیے ہیں لیکن اصل منصوبہ ایمپریس مارکیٹ کے تاریخی احیاپر عملدرآمد سے غفلت برت رہی ہے۔
ابھی تک یہ پالیسی ہی طے نہیں ہوسکی ہے کہ ایمپریس مارکیٹ کی تزئین وآرائش ومرمت بلدیہ عظمیٰ کراچی کریگی یا سندھ حکومت انجام دیگی، متعلقہ آفیسر نے کہا کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی سخت مالی بحران کا شکار ہے، سندھ حکومت کی جانب سے ترقیاتی فنڈز جاری نہ ہونے کی وجہ سے بلدیہ عظمیٰ کراچی رواں سال کئی ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد نہیں کراسکی تاہم بلدیہ عظمیٰ کراچی نے اپنے حصے کا کام کرتے ہوئے ایمپریس مارکیٹ سے غیرضروری دکانوں کا خاتمہ کیا اور صدر کی سڑکوں سے تجاوزات کو صاف کیا، یہ انتہائی مشکل کام تھا جو سپریم کورٹ کی ہدایت پر سیکیورٹی اداروں کے تعاون سے انجام دیا گیا، سندھ حکومت جس کے پاس نہ صرف وافر مقدار میں فنڈز موجود ہیں بلکہ کئی سالوں سے یہ منصوبے صوبائی محکمہ بلدیات کی زیر نگرانی تعمیر کیا جارہا ہے اس لیے اسے پایہ تکمیل تک پہچانے کی ذمہ داری بھی اسی کی ہے، سندھ حکومت کے متعلقہ افسران کے مطابق ایمپریس مارکیٹ کے تاریخی احیااور قرب وجوار کے ترقیاتی کاموں کا منصوبہ 2013میں تشکیل پایا گیا اور اس پر عملدرآمد کا آغاز 2014 سے شروع ہوا بعدازاں کچھ ترمیم کرکے نئے منصوبے شامل کیے گئے۔
یہ منصوبہ تین فیزوں پر مشتمل ہے جو صوبائی محکمہ بلدیات اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے اشتراک سے کیا جارہا ہے، فوڈ اسٹریٹ میر کرم علی تالپور روڈ اور نائیٹ بازار راجہ غضفنر علی خان روڈ پر ترقیاتی کام 70فیصد مکمل ہوچکے ہیں ، منصوبہ بندی کے تحت دونوں اہم شاہرائیں صرف پیدل چلنے والے لوگوں کیلیے مخصوص ہونگی اور یہاں ٹریفک ممنوع ہوگی، منصوبے کے پہلے فیز میں پبلک ٹرانسپورٹ کی ری روٹنگ کی گئی جس کے تحت بسوں اور منی بسوں کا روٹ پریڈی اسٹریٹ اور دیگر سڑکوں سے جزوی طور پر ممنوع کردیا گیا ہے، 2014میں ری روٹنگ پر عملدرآمد کیا گیا تاہم اسوقت گرین لائن بس پروجیکٹ کی وجہ سے نمائش چورنگی مکمل طور پر بند ہے لہذا پبلک ٹرانسپورٹ عارضی طور پر صدر ایریا میں چل رہی ہے جیسے ہی گرین لائن بس منصوبہ مکمل ہوگا ، پبلک ٹرانسپورٹ کے منظور کردہ روٹ بحال کردیے جائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ فیز ون میں پبلک ٹرانسپورٹ کی ری روٹنگ، تجاوزات کا خاتمہ ، جہانگیر پارک کی تعمیر نو، میر کرم علی تالپور روڈ پر فوڈ اسٹریٹ کی تعمیر، راجہ غضفنر علی روڈ پر نائٹ بازار، پریڈی اسٹریٹ کی تعمیر نواور واٹر اینڈ سیوریج کی نئی لائنوں کی تنصیب شامل ہیں، فیز ٹو میں ایمپریس مارکیٹ کے تاریحی احیا، عمارت کی مرمت و تزئین آرائش، پارک اور آرٹ گیلری کی تعمیر شامل ہے، فیز تھری کے تحت پریڈی اسٹریٹ ایمپریس مارکیٹ تک سنگر انٹرسیکشن تک ٹرام وے چلانے کا منصوبہ شامل ہے، متعلقہ افسران کے مطابق اصل پروجیکٹ ایمپریس مارکیٹ کا احیااور قرب جوار کی ازسر نو تعمیر ہے، ایمپریس مارکیٹ تاریخی ورثہ ہے جس کی بحالی کیلیے یہ منصوبے بتدریج عملدرآمد کیے جارہے ہیں تاکہ کراچی کے شہری اپنے ثقافتی اور تاریخی ورثے کو حقیقی شکل میں دیکھ سکیں، علاوہ ازیں صدر کے علاقوں کو تجاوزات ، آلودگی اور گندگی سے پاک کرنا، پبلک ٹرانسپورٹ کی ری روٹنگ پر عملدرآمد اور لائنز ایریا پارکنگ پلازہ تا صدر شٹل بس سروس کا آغاز بھی اس منصوبے کا حصہ ہے، متعلقہ افسران نے کہا کہ اس منصوبے کے تحت جہانگیر پارک کی ازسرنو تعمیر کردی گئی ہے جبکہ پانچ سڑکوں کی تعمیر نو بھی ہوچکی ہے۔
ان سڑکوں میں مینز فیلڈ اسٹریٹ ، میر کرم علی تالپور روڈ، راجہ غضفنر علی روڈ، سرور شہید روڈ اور شاہراہ عراق شامل ہیں، سڑکوں کی تعمیر سے قبل پرانا و بوسیدہ پانی و سیوریج کا نظام مکمل طور پر تبدیل کردیا گیا ہے جس سے صدر کے رہائشیوں کو فراہمی و نکاسی آب کے مسائل سے نجات مل گئی ہے، صدر کے علاقوں میں 3.25کلومیٹر پانی کی نئی لائنوں کی تنصیب اور تقریباً 4کلومیٹر سیوریج لائنوں کی تنصب کی گئی ہے، مصروف ترین علاقے لکی اسٹار تا آواری ہوٹل 48انچ کی سیوریج کی مرکزی لائن ڈالی گئی جو کافی مشکل کام تھا تاہم بخوبی انجام دیا گیا،اسپیشل سیکریٹری ٹو لوکل گورنمنٹ اور پروجیکٹ ڈائریکٹر نیاز سومرو نے کہا کہ ایمپریس مارکیٹ کے تاریخی احیا اور قرب و جوار کے ترقیاتی کاموں کے منصوبے کے فیز ون کی اوریجنل پی سی ون 1006.2ملین کی ہے جس میں سے تقریباً ایک ارب روپے خرچ کیے جاچکے ہیں، سندھ حکومت کے فنڈز سے جہانگیر پارک کی تعمیر نو، مینز فیلڈ اسٹریٹ، میر کرم علی تالپور روڈ، راجہ غضفنر علی روڈ، سرور شہید روڈ اور شاہراہ عراق کی تعمیر نو کی جاچکی ہے، میر کرم علی تالپور روڈ پر فوڈ اسٹریٹ اور راجہ غضفنر علی روڈ پر نائٹ بازار کا تعمیراتی کام 70فیصد ہوچکا ہے۔
بقیہ تعمیراتی کام فنڈز کے نہ ہونے کی وجہ سے التوا کا شکار ہے، علاوہ ازیں جہانگیر پارک میں سولر پینل کی تنصیب بھی تاخیر کا شکار ہے، انھوں نے کہا کہ منصوبے کی نظرثانی شدہ پی سی ون ایک ارب 30کروڑ روپے کی ہے جو صوبائی محکمہ پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ نے منظور کرلی ہے اور ڈیولپمنٹ کمیٹی سے منظور ہونا باقی ہے، جلد ہی یہاں سے بھی منظوری حاصل کرلی جائیگی، انھوں نے کہا کہ اگرچہ کہ اگلے مالی سال میں اس منصوبے کے لیے فنڈز مختص نہیں کیے گئے ہیں لیکن صوبائی محکمہ لوکل گورنمنٹ سے درخواست کی جائیگی کہ اسے reappropriate کرلیا جائے ، توقع ہے کہ منصوبے کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے فنڈز مختص کردیئے جائیں گے، فنڈز کے اجراء ہوتے ہی فوڈ اسٹریٹ، نائٹ بازار اور دیگر ترقیاتی کام تین ماہ میں مکمل کیے جائیں گے، نیاز سومرو نے کہا کہ ایمپریس مارکیٹ کی مرمت و تزئین آرائش، پارک اور آرٹ گیلری کے منصوبے پر ابھی کوئی پالیسی تیار نہیں کی گئی ہے کہ اس منصوبے کو بلدیہ عظمیٰ کراچی تعمیر کریگی یا سندھ حکومت، جیسے ہی حتمی حکمت عملی تیار ہوگی اس کے تحت متعلقہ ادارہ تعمیرات شروع کردیگا۔
اس وقت صوبائی محکمہ بلدیات اپنے فنڈز سے ایمپریس مارکیٹ کے اطراف باؤنڈری وال تعمیر کررہی ہے جس میں تاریخی تعمیرات کو مدنظر رکھا جارہا ہے، اس حوالے سے ایمپریس مارکیٹ کا اوریجنل ڈیزائین متعلقہ ڈپارٹمنٹ سے منگوایا گیا ہے کہ تاکہ عمارت کے دیوار کی تعمیر پرانے ڈیزائین کے مطابق ہو، انھوں نے کہا کہ فیز تھری کے تحت ٹرام وے چلانے کے لیے کنسلٹنیسی کی جائیگی اس کے بعد یہ منصوبہ شروع کیا جائے گا، بلدیہ عظمیٰ کراچی کے میونسپل کمشنر ڈاکٹر سیف الرحمن نے ایکسپریس کا بتایا کہ ایمپریس مارکیٹ کی تزئین وآرائش و مرمت اور ماہرین آرکیالوجی کی مشاورت سے کی جائیگی تاکہ عمارت کا تاریخی تشخص برقرار رہ سکے، اس ضمن میں منصوبہ کا پی سی ون تیار کیا جارہا ہے، عمارت کی حالت بہت خراب ہے، کئی مقامات سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، کھڑکیاں اور چھتیں بھی مرمت طلب ہیں، تاریخی وال کلاک بھی مرمت کرانا ہے، ان تمام کاموں کے لیے کروڑوں روپے درکار ہونگے، پی سی ون کی تشکیل کے بعد اصل لاگت کا اندازہ ہوگا، انھوں نے کہا کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے پاس اتنے فنڈز موجود نہیں ہیں کہ یہ تمام ترقیاتی کام کرے لہذا فنڈز کے لیے سندھ حکومت سے درخواست کی جائیگی۔
انھوں نے کہا کہ اسوقت سندھ حکومت ایمپریس مارکیٹ کے ا طراف باؤنڈری وال تعمیر کررہی ہے، اس کی تکمیل کے بعد بلدیہ عظمیٰ کراچی اپنے فنڈز سے ایمپریس مارکیٹ کے چاروں طرف پارک تعمیر کردیگی، ایمپریس مارکیٹ کے دکانداروں کا کہنا ہے کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کی جانب سے تجاوزات کے خاتمے اور ایمپریس مارکیٹ سے سینکڑوں دکانداروں کی بے دخلی کے باعث سخت بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے جبکہ سندھ حکومت اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے اعلان کردہ منصوبے پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہوا ہے، یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ایک جانب صنعتیں بند پڑی ہیں ، کاروبار مندا ہے اور بے روزگاری عروج پر ہے جبکہ حکومت ترقیاتی منصوبوں کے نام پر روزگار ختم کررہی ہے جبکہ ان منصوبوں پر عملدرآمد بھی نہیں کیا جارہا ہے، ایمپریس مارکیٹ گروسری ویجیٹیبل اینڈ فروٹ مرچنٹ کے صدر لیاقت علی کا کہنا کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی نے ایمپریس مارکیٹ سے جن دکانوں کو ختم کیا ہے۔
ان کے مالکان کو ابھی تک متبادل جگہ نہیں ملی، دکانداروں کا بڑا نقصان ہوا ہے، اب جو متبادل جگہیں فراہم کی جارہی ہیں وہ وہ سابقہ دکانوں کی کاروباری حیثیت کے مطابق نہیں اور سائز میں بھی چھوٹی ہیں، لیاقت علی نے کہا کہ یہ شہر کی مرکزی مارکیٹ ہے اور اسوقت صرف 125دکانیں برقرار رہ گئی ہیں، انھوں نے میئر کراچی وسیم اختر درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ایمپریس مارکیٹ کے متاثرین کو ان کی خواہش کے مطابق فوری طور پر متبادل دکانیں الاٹ کی جائیں اور ایمپریس مارکیٹ میں موجودہ دکانوں کو برقرار رکھا جائے تاکہ اس کا تاریخی پس منظر قائم رہ سکے، ڈائریکٹر اسٹیٹ بلدیہ عظمیٰ کراچی عمران قدیر نے ایکسپریس کو بتایا کہ ایمپریس مارکیٹ کے تمام متاثرین کو دکانیں فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، کئی دکانداروں نے متبادل جگہیں قبول کرلی ہیں، ان کی الاٹمنٹ اور تعمیرات پر کام جارہی ہے، جلد ہی ان کی دکانیں وہاں قائم کردی جائیں