سام راج اور اقبال
لفظ سام راج جو بعدازاں سامراج کی شکل میں دنیا کے سامنے آیا یہ لفظ اور یہ عام فہم اصطلاح کس کی ایجاد ہے
لفظ سام راج جو بعدازاں سامراج کی شکل میں دنیا کے سامنے آیا یہ لفظ اور یہ عام فہم اصطلاح کس کی ایجاد ہے اس کی صحیح تاریخ بتانا تو مشکل ہے البتہ اس لفظ کو کس طرح معرض وجود میں لایا گیا اس پر اگر کچھ نظر ڈال لی جائے تو یہ عام لوگوں کے لیے خاصا دلچسپ ہوگا، لفظ سام عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی زہر پھیلانے والے اجزا، زبردست جراثیمی اثرات رکھنے والی چیز، انسان کے لیے زہرہلاہل، پیغام قضا اردو شعرا نے اس لفظ کو بادسموم سے بھی تشبیہہ دی ہے یعنی ایسی ہوا جو درختوں کو جلاکر خشک کردیتی ہے، اس لفظ کو وضع کرنے میں جس اردو دان نے بھی متعارف کرایا ہے یقیناً وہ درجہ کمال پر فائز تھا کیونکہ اس لفظ میں ایک اور آہنگ کا خیال رکھا گیا ہے کہ انگریزی زبان میں جو عام طور پر قدیم نام رائج تھے ان میں Sam, Tom Dicken سام، ٹوم، ڈکن ہیں اردو زبان میں بھی چند نام یوں ہی عام تھے جیسے زید، بکر، عمر مگر ہر صدی کا ایک نیا انداز ثقافت ہوتا ہے اور نام بھی بدلتے رہتے ہیں مگر اصطلاحات میں تغیر مشکل ہی سے آتا ہے ۔
بہرصورت لفظ سام انگریزی حکومت کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ لہٰذا سامراج ایک ایسا لفظ بن کر سامنے آیا جو معنی، مطالب اور تاریخ کے زیور سے آراستہ ہے اور ایک وسیع و عریض مفہوم کا مالک ہے سامراج کی خوبو رکھنے والے جدید آلات حرب سے لیس ممالک پہلے تو قوموں کو مختلف طریقوں سے مغلوب کرتے تھے اور اگر وہ قابو میں نہ آئے تو پھر اپنی جنگی مشنری کو استعمال کرکے اپنا راج قائم کرتے تھے جنگ عظیم دوم کے بعد اقوام عالم کی بنائی ہوئی لیگ آف نیشن کا خاتمہ ہوا اور اقوام متحدہ نے کسی حد تک امن قائم کیا اور اس کے کچھ فوائد بھی عوام تک پہنچ گئے خصوصاً قوموں کی آزادی کی تحریکوں کا احیاء عوامی شعور کا ارتقا۔
اگر ہم برصغیر کا جائزہ لیں تو یہاں کی آزادی محض آزادی کے متوالوں، لیڈروں اور عوام کی قربانیوں کا نتیجہ نہ تھی بلکہ سامراجی نظام کے دو بلاک ایک دوسرے سے متصادم تھے ایک کی قیادت نازی جرمنی تو دوسرے کی قیادت برطانیہ، فرانس، امریکا اور ان کے اتحادی کر رہے تھے ۔ ضروریات زندگی سے لے کر آلات پیداوار تک بدلتے جارہے ہیں مگر ہر ترقی میں تمام لوگوں کے لیے یکساں ترقی موجود ہوتی ہے۔دوسری طرف آج سے پہلے عوام کو سڑک پر لانا، ان کو جمع کرنا بڑا دشوار مرحلہ تھا لیکن اب آسان ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ جس کی ہنرمندی، بلند بینی جس قدر عمدہ ہوگی وہ معاملات کو بخوبی سمجھ کر قدم اٹھائے گا گویا یہ عہد ہنرمندی صلاحیت، بلند بینی کا منطقی دور ہے جو قومیں آپسی جھگڑوں، ریشہ دوانیوں میں جکڑی ہوئی ہیں اور جن کے حکمران رقوم بٹورنے میں مصروف ہیں وہ قومیں پستی کا سفر طے کرتی جارہی ہیں۔
یہ پستی ان قوموں کا مقدر بن گئی ہے جہاں سامراج نے جاتے جاتے اٹھارہویں صدی کے آخری دور کے آئین کو نافذ کرکے کوچ کیا بھارت میں جمہوریت ہے، مگر یہ جمہوریت جمہور کی اکثریت سے دور ہے ایسی آزادی رائے کا کوئی کیا کرے۔ خاص طور سے مسلم دنیا اور خصوصیت کے ساتھ پاکستان میں ، کیونکہ عوام طور پر یہ خیال ہے کہ قیام پاکستان کے مفکر علامہ اقبال ہیں مگر علامہ اقبال کو تو ملک میں ظاہری طور پر مقام عطا کیا گیا ہے، جہاں تک ان کے افکار کو ملک میں نافذ کرنا ہو تو کوئی حکومت اس میں کبھی بھی سنجیدہ نہیں رہی۔ ہوسکتا ہے کہ حکومت کرنے والوں کو اقبال کا کلام ہی سمجھ میں نہ آیا ہو اور نہ ان کا پیغام۔ اقبال تو انسانی عظمت کے علمبردار تھے وہ انسانی عظمت کے لیے خداوند کریم سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں:
قصور وار غریب الدیار ہوں لیکن
ترا خرابہ فرشتے نہ کرسکے آباد
جہاں انسان کے ہاتھوں انسان کی ذلت نہ ہو، بلکہ انسان جہان نو کی تعمیر میں اپنے اپنے تفکر، اپنی محنت اور اپنی صلاحیت کے اعتبار سے حقوق پائیں جہاں کوئی آجر تو ہو مگر دوسری جانب کوئی مجبور نہ ہو، استحصال سے پاک معاشرہ اور خودی سے لبریز قوم ہو۔
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی
قوموں کی آزادی کے لیے پھر اقبال اصرار کرتے نظر آتے ہیں:
آزاد کی اک آن ہے محکوم کا اک سال
کس درجہ گراں سیر ہیں محکوم کے اوقات
ہماری جمہوریت کے متعلق مفکر پاکستان پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں۔
ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
کچھ لوگ نہیں بلکہ خاصے لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ مغرب کی ترقی کی اصل وجہ ان کی عریانی، ناچ گانے، کلب ہیں درحقیقت ایسا ہرگز نہیں بلکہ ان کے یہاں موجود دانا لوگوں کی محفل ہے ، فرماتے ہیں:
قوت مغرب نہ ازچنگ و رباب
نے رقص دختران بے حجاب
وہ اس مسئلے کو یوں حل کرتے ہیں کہ مغرب کی اصل قوت تو ...
قوت افرنگ از علم و فن است
مگر افسوس کی بات کہ ہمارے ملک میں ہر اشتہار پر ایک بنت حوا کا ٹھمکا ضروری ہے اور صاحبان علم و فن سرنگوں ہیں، آپ کا نظریہ واضح ہے، فرماتے ہیں:
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
آفتاب تازہ پیدائش بطن گیتی سے ہو
آسماں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک
آج ملک بحران میں ہے ہر لیڈر اپنے اپنے مفاد کے نغمے سنا رہا ہے۔تقسیم شدہ امت کب کسی مسئلے پر متفق ہوگی کیونکہ جب مفکر پاکستان کے نظریے سے منحرف ہیں تو پھر یہ کیسے راست اقدام کریں گے ، سامراج کی ریشہ دوانیاں یہاں زور و شور سے جاری ہیں یہ مسئلہ پاکستان کا نہیں پوری مسلم دنیا کا ہے نہ کوئی سمت ہے، نہ کوئی راستہ، نہ کوئی منزل ہے نہ کوئی راہ نما ہماری قسمت کا فیصلہ ہم نہیں بلکہ سامراج جمہوریت کے نام پر کرتا رہے گا۔ آج دنیا پھر جنگوں کے دہانے پر کھڑی ہے ۔ ابھی افغانستان خالی بھی نہ ہونے پایا تھا کہ ایک دوسری سرزمین پر جنگ کے بیج بوئے جارہے ہیں پاکستانی معیشت بس تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے بجلی کے نرخ، بھتہ خوری، کرپشن، غیر ملکی دباؤ عوام کا گلا دبانے کو تیار کھڑے ہیں۔ دیکھنا ہے اب کون کرے گا راج اقبال کا خواب یا سامراج؟
اقبال کو دم آخر تک انقلابی تبدیلی کی امید ہے اور وہ دنیا میں تبدیلی آکے رہے گی۔ ذات الٰہی سے تغیرکی صدا محسوس کر رہے ہیں لہٰذا ان کے افکار جگمگا کے رہیں گے۔
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون
بہرصورت لفظ سام انگریزی حکومت کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ لہٰذا سامراج ایک ایسا لفظ بن کر سامنے آیا جو معنی، مطالب اور تاریخ کے زیور سے آراستہ ہے اور ایک وسیع و عریض مفہوم کا مالک ہے سامراج کی خوبو رکھنے والے جدید آلات حرب سے لیس ممالک پہلے تو قوموں کو مختلف طریقوں سے مغلوب کرتے تھے اور اگر وہ قابو میں نہ آئے تو پھر اپنی جنگی مشنری کو استعمال کرکے اپنا راج قائم کرتے تھے جنگ عظیم دوم کے بعد اقوام عالم کی بنائی ہوئی لیگ آف نیشن کا خاتمہ ہوا اور اقوام متحدہ نے کسی حد تک امن قائم کیا اور اس کے کچھ فوائد بھی عوام تک پہنچ گئے خصوصاً قوموں کی آزادی کی تحریکوں کا احیاء عوامی شعور کا ارتقا۔
اگر ہم برصغیر کا جائزہ لیں تو یہاں کی آزادی محض آزادی کے متوالوں، لیڈروں اور عوام کی قربانیوں کا نتیجہ نہ تھی بلکہ سامراجی نظام کے دو بلاک ایک دوسرے سے متصادم تھے ایک کی قیادت نازی جرمنی تو دوسرے کی قیادت برطانیہ، فرانس، امریکا اور ان کے اتحادی کر رہے تھے ۔ ضروریات زندگی سے لے کر آلات پیداوار تک بدلتے جارہے ہیں مگر ہر ترقی میں تمام لوگوں کے لیے یکساں ترقی موجود ہوتی ہے۔دوسری طرف آج سے پہلے عوام کو سڑک پر لانا، ان کو جمع کرنا بڑا دشوار مرحلہ تھا لیکن اب آسان ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ جس کی ہنرمندی، بلند بینی جس قدر عمدہ ہوگی وہ معاملات کو بخوبی سمجھ کر قدم اٹھائے گا گویا یہ عہد ہنرمندی صلاحیت، بلند بینی کا منطقی دور ہے جو قومیں آپسی جھگڑوں، ریشہ دوانیوں میں جکڑی ہوئی ہیں اور جن کے حکمران رقوم بٹورنے میں مصروف ہیں وہ قومیں پستی کا سفر طے کرتی جارہی ہیں۔
یہ پستی ان قوموں کا مقدر بن گئی ہے جہاں سامراج نے جاتے جاتے اٹھارہویں صدی کے آخری دور کے آئین کو نافذ کرکے کوچ کیا بھارت میں جمہوریت ہے، مگر یہ جمہوریت جمہور کی اکثریت سے دور ہے ایسی آزادی رائے کا کوئی کیا کرے۔ خاص طور سے مسلم دنیا اور خصوصیت کے ساتھ پاکستان میں ، کیونکہ عوام طور پر یہ خیال ہے کہ قیام پاکستان کے مفکر علامہ اقبال ہیں مگر علامہ اقبال کو تو ملک میں ظاہری طور پر مقام عطا کیا گیا ہے، جہاں تک ان کے افکار کو ملک میں نافذ کرنا ہو تو کوئی حکومت اس میں کبھی بھی سنجیدہ نہیں رہی۔ ہوسکتا ہے کہ حکومت کرنے والوں کو اقبال کا کلام ہی سمجھ میں نہ آیا ہو اور نہ ان کا پیغام۔ اقبال تو انسانی عظمت کے علمبردار تھے وہ انسانی عظمت کے لیے خداوند کریم سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں:
قصور وار غریب الدیار ہوں لیکن
ترا خرابہ فرشتے نہ کرسکے آباد
جہاں انسان کے ہاتھوں انسان کی ذلت نہ ہو، بلکہ انسان جہان نو کی تعمیر میں اپنے اپنے تفکر، اپنی محنت اور اپنی صلاحیت کے اعتبار سے حقوق پائیں جہاں کوئی آجر تو ہو مگر دوسری جانب کوئی مجبور نہ ہو، استحصال سے پاک معاشرہ اور خودی سے لبریز قوم ہو۔
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی
قوموں کی آزادی کے لیے پھر اقبال اصرار کرتے نظر آتے ہیں:
آزاد کی اک آن ہے محکوم کا اک سال
کس درجہ گراں سیر ہیں محکوم کے اوقات
ہماری جمہوریت کے متعلق مفکر پاکستان پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں۔
ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
کچھ لوگ نہیں بلکہ خاصے لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ مغرب کی ترقی کی اصل وجہ ان کی عریانی، ناچ گانے، کلب ہیں درحقیقت ایسا ہرگز نہیں بلکہ ان کے یہاں موجود دانا لوگوں کی محفل ہے ، فرماتے ہیں:
قوت مغرب نہ ازچنگ و رباب
نے رقص دختران بے حجاب
وہ اس مسئلے کو یوں حل کرتے ہیں کہ مغرب کی اصل قوت تو ...
قوت افرنگ از علم و فن است
مگر افسوس کی بات کہ ہمارے ملک میں ہر اشتہار پر ایک بنت حوا کا ٹھمکا ضروری ہے اور صاحبان علم و فن سرنگوں ہیں، آپ کا نظریہ واضح ہے، فرماتے ہیں:
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
آفتاب تازہ پیدائش بطن گیتی سے ہو
آسماں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک
آج ملک بحران میں ہے ہر لیڈر اپنے اپنے مفاد کے نغمے سنا رہا ہے۔تقسیم شدہ امت کب کسی مسئلے پر متفق ہوگی کیونکہ جب مفکر پاکستان کے نظریے سے منحرف ہیں تو پھر یہ کیسے راست اقدام کریں گے ، سامراج کی ریشہ دوانیاں یہاں زور و شور سے جاری ہیں یہ مسئلہ پاکستان کا نہیں پوری مسلم دنیا کا ہے نہ کوئی سمت ہے، نہ کوئی راستہ، نہ کوئی منزل ہے نہ کوئی راہ نما ہماری قسمت کا فیصلہ ہم نہیں بلکہ سامراج جمہوریت کے نام پر کرتا رہے گا۔ آج دنیا پھر جنگوں کے دہانے پر کھڑی ہے ۔ ابھی افغانستان خالی بھی نہ ہونے پایا تھا کہ ایک دوسری سرزمین پر جنگ کے بیج بوئے جارہے ہیں پاکستانی معیشت بس تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے بجلی کے نرخ، بھتہ خوری، کرپشن، غیر ملکی دباؤ عوام کا گلا دبانے کو تیار کھڑے ہیں۔ دیکھنا ہے اب کون کرے گا راج اقبال کا خواب یا سامراج؟
اقبال کو دم آخر تک انقلابی تبدیلی کی امید ہے اور وہ دنیا میں تبدیلی آکے رہے گی۔ ذات الٰہی سے تغیرکی صدا محسوس کر رہے ہیں لہٰذا ان کے افکار جگمگا کے رہیں گے۔
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون