ہر روز یوم دفاع ہے۔۔۔
6 ستمبر، یوم دفاع… یہ تاریخ شاید ہم جانتے ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ یہ دن کیوں منایا جاتا ہے!
KARACHI:
6 ستمبر، یوم دفاع... یہ تاریخ شاید ہم جانتے ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ یہ دن کیوں منایا جاتا ہے! شاید ہاں یا پھر نہیں... غالباً چھٹی یا ساتویں جماعت کی اردو کی درسی کتاب میں پڑھا تھا۔ پتا نہیں اب کسی درسی کتب میں یہ واقعہ ہے بھی یا نہیں لیکن واقعہ تھا کیا؟ شاید پاک بھارت بارڈر پر انڈیا نے حملہ کیا تھا، لاہور پر قبضے کی کوشش کی گئی تھی، ہماری فوج کا منہ توڑ جواب اور فتح، پاکستان کا بچ جانا... ہاں! شاید یہی ہوا تھا۔ کیوں ہر سال 6 ستمبر کو یوم دفاع کی یاد منائی جاتی ہے لیکن ہماری نئی نسل اس دن کی اہمیت سے یکسر نابلد ہے؟ لیکن قصوروار کون ہے؟ یوم دفاع اور اسی طرح کے دیگر قومی اہمیت کے دن ہمارے ذہن سے کیوں محو ہوتے جارہے ہیں؟ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور اندھی گولیوں کے باعث 15-20 شہریوں کی روزانہ ہلاکت کی خبریں۔
کوئٹہ میں متواتر دو بم دھماکے 25 ہلاک 5 زخمی۔ ایک اور ڈرون حملہ 10 طالبان ہلاک۔ ہلاک، ہلاک، ہلاک۔ اتنی ہلاکتوں کے بعد صرف ایک ہی خیال دل میں آتا ہے کہ یا اﷲ ہمارے گھر والوں کی خیر رکھنا۔ 6 ستمبر کے سانحے کے وقت بھی محافظوں کی زندگی کے لیے، ملک کے بچائو کے لیے، مسلمان بھائیوں کے لیے دعائیں کی جارہی تھیں۔ تو پھر اچانک ترجیحات کیوں بدل گئیں؟ ہم مطلبی کیوں ہوگئے؟ ملک کو کیوں بھول گئے؟ 6 ستمبر کے شہداء کو کیوں بھول گئے؟ کیا ہمیں ان شہداء کے نام بھی یاد ہیں؟ نہیں! کیونکہ یہاں تو روز ہی یوم دفاع منایا جارہا ہے۔ جب روز لاشیں اٹھیں گی، جب ملک کے آدھے حصے میں کسی بھی وقت کرفیو لگنے کا اعلان ہوجائے گا، ڈرون حملوں اور دہشت گردی کو روکنے والا کوئی نہیں ہوگا تو پھر ظاہر ہے کہ 1965 کی جنگ کا منظر پورا سال ہی آنکھوں کے سامنے رہے گا اور اس دن کی قربانی کیسے یاد رہے گی۔
ستمبر 1965 کو انڈیا نے پاکستان کی سرحد پر حملہ کیا۔ ان کے کمانڈر کی خواہش تھی کہ وہ لاہور پر قبضہ کرکے اس کے جم خانے میں شراب نوشی کرکے جشن منائیں۔ یہ جنگ کشمیر میں جاری جنگ کے تسلسل میں شروع ہوئی۔ پاکستانی قوم نے تمام رنجشیں، اختلافات، طبقاتی و لسانی فرق بھلا کر، ایک قوم بن کر اپنے ملک سے دشمنوں کو بھگانے میں مدد کی۔ انڈین آرمی نے بھاری تعداد میں فوجیوں اور پچاس ٹینکوں سے حملہ کیا تھا جس کے مقابلے میں پاکستانی افواج کے پاس ان سے دفاع کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ لیکن جب قوم ایک ہو اور سچے دل سے خدا کی طرف رجوع کریں تو فتح و نصرت سے کامیابی قدم چومتی ہے۔ اسی طرح ہماری فوج بھی دشمن کو پسپا کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ انڈین آرمی بڑی تعداد میں اسلحہ اور جنگی سامان چھوڑ کر فرار ہوگئی۔ 6 ستمبر کا دن ہم ان ہی شہداء کی یاد میں مناتے ہیں؟ یا پھر سال کے شروع میں کیلنڈر دیکھ کر صرف خوش ہوتے ہیں کہ چلو شکر ہے 6 ستمبر کو اتوار نہیں آرہا۔
نوجوانو! یہ ہیں ہمارے اندر کا حال، جس سے ہم منہ نہیں موڑ سکتے۔ ہم سب کی سوچ ایک سی ہی ہوگئی ہے کیونکہ ہم پستی کا شکار ہوچکے ہیں، اپنے رویوں کی بنا پر، اپنی نادانیوں کی بنا پر، اپنی سستی کی بنا پر۔ اگر ہم متحد ہوجائیں تو کوئی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اگر ہم ملک کو، خود کو اور آنے والی نسلوں کو بچانے کے لیے یہ سرد جنگ بھی اسی جوش، جذبے اور ولولے کے ساتھ لڑیں جو 1965 میں ملک کے دفاع میں لڑی تھی تو کوئی شک نہیں کہ آج بھی اپنے اور اس ملک کے دفاع میں متحد ہوکر خدا کے حضور جھک جانے سے ہم یہ جنگ بھی جیت جائیں۔ لیکن اس کے لیے ہمیں اپنے ضمیر کو جگانا ہوگا، بیدار کرنا ہوگا اپنے آس پاس کے لوگوں کو جو صرف ملک کو کوستے ہیں، جن کی سوچ مائوف ہے۔
قائداعظم کی قیادت میں لاکھوں مسلمانوں نے مل کر پاکستان حاصل کیا تھا تو اب کیا ہم سب مل کر اس بنے ہوئے پاکستان پر سے صرف گردوغبار صاف نہیں کرسکتے؟ اس وقت تو ہم غیر مذاہب سے لڑ رہے تھے لیکن اب تو ہم آپس میں ہی ایک سازش کے تحت تفرقے پیدا کرکے ایک دوسرے کو ختم کر رہے ہیں۔ ہم زبان، نسل، فرقے اور اسٹیٹس کی بنیادوں پر فرق کیے بیٹھے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو یہ سرد جنگ ہم اپنی سوچ میں تبدیلی پیدا کرکے جیت سکتے ہیں۔ ہم آج بھی اگر کوشش شروع کردیں تو اس دھرتی کی ماند پڑتی چمک کو واپس نکھار سکتے ہیں۔ آج بھی شاعر ابو بکر صدیق کی نظم ہم گنگنا سکتے ہیں اور اس پر عمل پیرا بھی ہوسکتے ہیں، وہ لکھتے ہیں:
جب دھرتی ماں نے یاد کیا، لبیک دیوانے چل نکلے
اس پاک وطن کی مٹی پر، ہم جان لٹانے چل نکلے
کھائی ہے تیری عزت کی قسم، یہ عہد نبھانے چل نکلے
اے پاک وطن تو شان اپنی، ہم شان بڑھانے چل نکلے
اس پاک وطن کی شان میں اضافہ کرنے کے لیے، اس کے باسیوں کو مل جل کر ہی کام کرنا ہوگا۔ تاریخ کو مد نظر رکھتے ہوئے اگلا لائحہ عمل طے کرکے ہی ہم ترقی کرسکتے ہیں، لیکن سب سے پہلے ہمیں متحد ہوکر پاکستانی قوم بننا پڑے گا۔
آخر میں سلام ان شہداء کو اور اس ملک کے ہر اس شخص کو جو اس ملک کی قدر کرتا ہے، ہماری افواج کو اور ان بزرگوںکو جن کی بدولت آج ہم آزاد ہیں۔ اٹھو اس ملک کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ لے کر۔ سوچو کہ اب بھی وقت نہیں گزرا ہے۔
اے راہ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو
تمھیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
6 ستمبر، یوم دفاع... یہ تاریخ شاید ہم جانتے ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ یہ دن کیوں منایا جاتا ہے! شاید ہاں یا پھر نہیں... غالباً چھٹی یا ساتویں جماعت کی اردو کی درسی کتاب میں پڑھا تھا۔ پتا نہیں اب کسی درسی کتب میں یہ واقعہ ہے بھی یا نہیں لیکن واقعہ تھا کیا؟ شاید پاک بھارت بارڈر پر انڈیا نے حملہ کیا تھا، لاہور پر قبضے کی کوشش کی گئی تھی، ہماری فوج کا منہ توڑ جواب اور فتح، پاکستان کا بچ جانا... ہاں! شاید یہی ہوا تھا۔ کیوں ہر سال 6 ستمبر کو یوم دفاع کی یاد منائی جاتی ہے لیکن ہماری نئی نسل اس دن کی اہمیت سے یکسر نابلد ہے؟ لیکن قصوروار کون ہے؟ یوم دفاع اور اسی طرح کے دیگر قومی اہمیت کے دن ہمارے ذہن سے کیوں محو ہوتے جارہے ہیں؟ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور اندھی گولیوں کے باعث 15-20 شہریوں کی روزانہ ہلاکت کی خبریں۔
کوئٹہ میں متواتر دو بم دھماکے 25 ہلاک 5 زخمی۔ ایک اور ڈرون حملہ 10 طالبان ہلاک۔ ہلاک، ہلاک، ہلاک۔ اتنی ہلاکتوں کے بعد صرف ایک ہی خیال دل میں آتا ہے کہ یا اﷲ ہمارے گھر والوں کی خیر رکھنا۔ 6 ستمبر کے سانحے کے وقت بھی محافظوں کی زندگی کے لیے، ملک کے بچائو کے لیے، مسلمان بھائیوں کے لیے دعائیں کی جارہی تھیں۔ تو پھر اچانک ترجیحات کیوں بدل گئیں؟ ہم مطلبی کیوں ہوگئے؟ ملک کو کیوں بھول گئے؟ 6 ستمبر کے شہداء کو کیوں بھول گئے؟ کیا ہمیں ان شہداء کے نام بھی یاد ہیں؟ نہیں! کیونکہ یہاں تو روز ہی یوم دفاع منایا جارہا ہے۔ جب روز لاشیں اٹھیں گی، جب ملک کے آدھے حصے میں کسی بھی وقت کرفیو لگنے کا اعلان ہوجائے گا، ڈرون حملوں اور دہشت گردی کو روکنے والا کوئی نہیں ہوگا تو پھر ظاہر ہے کہ 1965 کی جنگ کا منظر پورا سال ہی آنکھوں کے سامنے رہے گا اور اس دن کی قربانی کیسے یاد رہے گی۔
ستمبر 1965 کو انڈیا نے پاکستان کی سرحد پر حملہ کیا۔ ان کے کمانڈر کی خواہش تھی کہ وہ لاہور پر قبضہ کرکے اس کے جم خانے میں شراب نوشی کرکے جشن منائیں۔ یہ جنگ کشمیر میں جاری جنگ کے تسلسل میں شروع ہوئی۔ پاکستانی قوم نے تمام رنجشیں، اختلافات، طبقاتی و لسانی فرق بھلا کر، ایک قوم بن کر اپنے ملک سے دشمنوں کو بھگانے میں مدد کی۔ انڈین آرمی نے بھاری تعداد میں فوجیوں اور پچاس ٹینکوں سے حملہ کیا تھا جس کے مقابلے میں پاکستانی افواج کے پاس ان سے دفاع کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ لیکن جب قوم ایک ہو اور سچے دل سے خدا کی طرف رجوع کریں تو فتح و نصرت سے کامیابی قدم چومتی ہے۔ اسی طرح ہماری فوج بھی دشمن کو پسپا کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ انڈین آرمی بڑی تعداد میں اسلحہ اور جنگی سامان چھوڑ کر فرار ہوگئی۔ 6 ستمبر کا دن ہم ان ہی شہداء کی یاد میں مناتے ہیں؟ یا پھر سال کے شروع میں کیلنڈر دیکھ کر صرف خوش ہوتے ہیں کہ چلو شکر ہے 6 ستمبر کو اتوار نہیں آرہا۔
نوجوانو! یہ ہیں ہمارے اندر کا حال، جس سے ہم منہ نہیں موڑ سکتے۔ ہم سب کی سوچ ایک سی ہی ہوگئی ہے کیونکہ ہم پستی کا شکار ہوچکے ہیں، اپنے رویوں کی بنا پر، اپنی نادانیوں کی بنا پر، اپنی سستی کی بنا پر۔ اگر ہم متحد ہوجائیں تو کوئی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اگر ہم ملک کو، خود کو اور آنے والی نسلوں کو بچانے کے لیے یہ سرد جنگ بھی اسی جوش، جذبے اور ولولے کے ساتھ لڑیں جو 1965 میں ملک کے دفاع میں لڑی تھی تو کوئی شک نہیں کہ آج بھی اپنے اور اس ملک کے دفاع میں متحد ہوکر خدا کے حضور جھک جانے سے ہم یہ جنگ بھی جیت جائیں۔ لیکن اس کے لیے ہمیں اپنے ضمیر کو جگانا ہوگا، بیدار کرنا ہوگا اپنے آس پاس کے لوگوں کو جو صرف ملک کو کوستے ہیں، جن کی سوچ مائوف ہے۔
قائداعظم کی قیادت میں لاکھوں مسلمانوں نے مل کر پاکستان حاصل کیا تھا تو اب کیا ہم سب مل کر اس بنے ہوئے پاکستان پر سے صرف گردوغبار صاف نہیں کرسکتے؟ اس وقت تو ہم غیر مذاہب سے لڑ رہے تھے لیکن اب تو ہم آپس میں ہی ایک سازش کے تحت تفرقے پیدا کرکے ایک دوسرے کو ختم کر رہے ہیں۔ ہم زبان، نسل، فرقے اور اسٹیٹس کی بنیادوں پر فرق کیے بیٹھے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو یہ سرد جنگ ہم اپنی سوچ میں تبدیلی پیدا کرکے جیت سکتے ہیں۔ ہم آج بھی اگر کوشش شروع کردیں تو اس دھرتی کی ماند پڑتی چمک کو واپس نکھار سکتے ہیں۔ آج بھی شاعر ابو بکر صدیق کی نظم ہم گنگنا سکتے ہیں اور اس پر عمل پیرا بھی ہوسکتے ہیں، وہ لکھتے ہیں:
جب دھرتی ماں نے یاد کیا، لبیک دیوانے چل نکلے
اس پاک وطن کی مٹی پر، ہم جان لٹانے چل نکلے
کھائی ہے تیری عزت کی قسم، یہ عہد نبھانے چل نکلے
اے پاک وطن تو شان اپنی، ہم شان بڑھانے چل نکلے
اس پاک وطن کی شان میں اضافہ کرنے کے لیے، اس کے باسیوں کو مل جل کر ہی کام کرنا ہوگا۔ تاریخ کو مد نظر رکھتے ہوئے اگلا لائحہ عمل طے کرکے ہی ہم ترقی کرسکتے ہیں، لیکن سب سے پہلے ہمیں متحد ہوکر پاکستانی قوم بننا پڑے گا۔
آخر میں سلام ان شہداء کو اور اس ملک کے ہر اس شخص کو جو اس ملک کی قدر کرتا ہے، ہماری افواج کو اور ان بزرگوںکو جن کی بدولت آج ہم آزاد ہیں۔ اٹھو اس ملک کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ لے کر۔ سوچو کہ اب بھی وقت نہیں گزرا ہے۔
اے راہ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو
تمھیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں