تعلیم اور ترجیحات کا مسئلہ
جو ریاستیں یا حکومتیں تعلیم سے غفلت کا مظاہرہ کرتی ہیں وہ عملا مجرمانہ غفلت کا شکار ہوتی ہیں۔
تعلیم کے شعبہ میں اصل مسئلہ قومی ترجیحات کا ہے۔ اگرچہ ریاست اور حکمران طبقات تعلیم کو بنیادی ترجیح قرار دیتے ہیںمگر عملی طور پر اگر ہم قومی ترجیحات کا جائزہ لیں تو اس میں تعلیم کا شعبہ عدم توجہی کا شکار نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ سیاسی کمٹمنٹ کا فقدان بھی ہے اور سیاسی قیادت کی ترجیحات میں تعلیم کا عمل بہت پیچھے نظر آتا ہے۔
اگر ہم اپنے سرکاری اعدادوشمار کو دیکھتے ہیں تو اس میں ہمیں بہت سے تضادات نظر آتے ہیں ۔پرائمری تعلیم سے لے کر ہائر ایجوکیشن تک ہمارے تعلیمی مسائل کافی سنگین ہیں ۔ہم نے کئی تعلیمی پالیسیاں ترتیب دیں ہیں لیکن ان پالیسیوں اور قانون سازی پر عملدرآمد کا نظام کمزور بھی ہے اور ہماری اہم ترجیحات کا حصہ بھی نہیں ہے ۔
حالیہ دنوں میں وفاق اورصوبو ں کا بجٹ سامنے آیا ہے ۔ پنجاب کے بجٹ پر نظر ڈالیں تو ہمیں اس میں تعلیم کے شعبہ میں ماضی کے مقابلے میں کچھ مثبت پہلو نظر آتے ہیں ۔مثال کے طور پر سابقہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے پنجاب میں 2017-18میں تعلیم کے لیے 345 بلین کا بجٹ مختص کیا تھا جو بجٹ کا 17.5فیصد بنتا تھا جب کہ2018-19 میں 373ارب کا بجٹ رکھا تھا ۔ اس کے برعکس موجودہ پنجاب کی حکومت نے جس کے سربراہ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار ہیں تعلیم کے شعبہ میں 383ارب روپے کا ریکارڈ بجٹ رکھا ہے اور اسی طرح ہائر ایجوکیشن کے لیے پنجاب کا بجٹ 50ارب سے بڑھا کر 73ارب، پی ایچ ای سی کے لیے 10کروڑ، پیف اسکالر شپ کے لیے 30 کروڑ رکھا گیا ہے ۔
صوبہ میں چار نئی یونیورسٹیوں کی تعمیر اور سب کیمپسز کے قیام کے لیے ایک ارب 35کروڑ اور پچاس لاکھ روپے رکھے گئے ہیں ۔نئی چار یونیورسٹیوں میں جھنگ، ناروال، اوکاڑہ اور ساہیوال شامل ہیں۔ محکمہ لٹریسی اوراینڈ نان فارمل ایجوکیشن کا بجٹ ایک ارب 80کروڑ سے بڑھا کر 2 ارب ساٹھ کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ جب کہ اسپیشل ایجوکیشن کے لیے ایک ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔ باباگورونانک یونیورسٹی کا قیام، 1.5بلین رقم انصاف اسکولز پروگرام جس کے تحت پچاس ہزار بچوں کو تعلیم دی جائے گی جو اسکولوں سے باہر ہیں۔2.1 بلین رقم اسکولوں اورکالجوں کی تعمیر، 2.84بلین درسی کتابوں کی فراہمی، 12.9بلین اسکول کونسلوں کے لیے رکھے گئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ موجودہ مشکل معاشی حالات میں وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے جو بجٹ میں تعلیم کے لیے مالی وسائل مختص کیے ہیں ان کی تعریف کرنی ہوگی۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم بجٹ کی مجموعی سیاست کا تجزیہ کرتے ہیں تو عمومی طورپر اول تو جو بجٹ رکھا جاتا ہے اس کا بہتر اورموثر استعمال سمیت پورے موجود وسائل بھی خرچ نہیں کیے جاتے، دوئم جو بجٹ رکھا جاتا ہے بعض اوقات صوبائی حکومتیں اپنی ترجیحات میں تبدیلی کے عمل تحت تعلیمی بجٹ میں کٹوتی کرکے وسائل کہیں اورخرچ کر دیتے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر بڑا مسئلہ نگرانی اور جوابدہی کے نظام کا ہے جو بہت کمزور ہے۔وزیر اعلی عثمان بزدار کو چاہیے تھا کہ وہ صوبہ میں دو کام کرتے۔
اول پرائمری ایجوکیشن کمیشن کا قیام اور دوئم صوبہ میں تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا جاتا۔ کیونکہ ان دونوں عوامل کو جوڑ کر ہی ہم صوبہ میں تعلیمی عمل میں بہتری پیدا کرسکتے ہیں۔پرائمری ایجوکیشن کے قیام اور تعلیمی ایمر جنسی سے ہمیں صوبہ میں ان تمام چیلنجز سے بہتر طور پر نمٹ سکتے ہیں جو اس وقت ہمیں درپیش ہیں۔اسی طرح اگر مضبوط مقامی نظام حکومت ہو گا تو اس کی مدد سے ضلعی حکومتیں ازخود تعلیم سے جڑے نظام میں موثر نگرانی اورعملدرآمد کے نظام کو ممکن بنانے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
یونیورسٹیوں کی سطح پر ایڈہاک پالیسی کا خاتمہ ہونا چاہیے اوراس وقت بھی پنجاب میں کئی ایسی یونیورسٹیاں موجود ہیں جہاں مستقل وائس چانسلر موجود نہیں اور ایڈہاک پالیسی کے تحت نظام چلایا جا رہا ہے۔ یونیورسٹیوں میں موجود سیاسی مداخلتوں نے تعلیم کے نظام کو خراب کیا ہے۔ اس سے ایک طرف میرٹ کی پالیسی متاثر ہوئی ہے تو دوسری طرف صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کو خود مختاری دینے کی بجائے اس کو کمزور کرکے نظام چلانے کی کوشش نے بھی اعلی تعلیمی درس گاہوں کا ماحول خراب کیا ہے۔ پنجاب میں راجہ یاسر ہمایوں ہائر ایجوکیشن کے وزیر ہیں اورکافی متحرک نظر آتے ہیں اوران کو چاہیے کہ وہ یونیورسٹیوں سے جڑے مسائل کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں اور ایڈہاک پالیسی کو ختم کرکے مستقبل پالیسی کے تحت آگے بڑھا جائے۔
وزیر اعلی پنجاب کے لیے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ سرکاری تعلیمی اداروں کی ساکھ کو بحال کریں۔ اس تاثر کی نفی ہونی چاہیے کہ ریاست یا حکومت ریاستی تعلیمی اداروں سے اپنی ذمے داری سے سبکدوش ہوگئی ہے۔ ریاست اورحکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ آئین کی شق 25-A کے تحت سب کو تعلیم دینا ریاست اورحکومت کی بنیادی ذمے داری بھی ہے اورحق بھی۔وزیر اعلی پنجاب کا اپنا تعلق جنوبی پنچاب سے ہے اورجنوبی پنجاب کے بہت سے ایسے اضلاع ہیں جہاں تعلیم کی شرح خواندگی شرمناک حد تک کم ہے۔بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم میں شرح خواندگی کی کمی ایک بڑا چیلنج ہے ۔
وزیر اعلی پنجاب کو تعلیمی اصلاحات میں بیوروکریسی پر زیادہ انحصار کرنے کی بجائے اپنے ارکان اسمبلی کو لے کر آگے بڑھیں۔سول سوسائٹی میں بہت سے ایسے ادارے ہیں جو تعلیم کی شرح خواندگی کو بڑھانے میں کام کر رہی ہیں، حکومت کو چاہیے ان کو بھی اپنی تحریک کا حصہ بنائیں ۔ایک چیلنج دیہی سطح اورچھوٹے شہروں میں موجود تعلیمی نظام میں اصلاحات پیدا کرنا اوروہاں ایسا سازگار ماحول پیدا کرنا جو لوگوں کو بہتر تعلیم کے مواقع فراہم کرسکے۔جب تک وزیر اعلی پنجاب جوابدہی کے نظام کو موثر نہیں بنائیں گے اورجو بھی کالی بھیڑیں ہیں جو اہم ذمے داریاں لینے کے باوجود کچھ نہیں کر رہے ان کو احتساب کے دائرہ کار میں لانا چاہیے۔
تعلیم محض ایک کاروبار نہیں بننا چاہیے اورجو لوگ بھی نجی شعبہ میں تعلیم کے میدان میں کام کر رہے ہیں ان کے لیے مضبوط، مربوط اور موثر ریگولیٹر ی نظام قائم کیا جائے۔ کسی بھی نجی تعلیمی ادارے کو یہ حق نہیں ہونا چاہیے کہ وہ از خود فیصلے کرکے ریاست یا حکومت کی رٹ کو چیلنج کرے ۔لیکن نجی شعبہ کے لیے بننے والی پالیسی مشاورت کے ساتھ جڑی ہونی چاہیے اوران کے بھی جو جائز معاملات ہیں ان کا بھی حل تلاش کرنا چاہیے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ جو ریاستیں یا حکومتیں تعلیم سے غفلت کا مظاہرہ کرتی ہیں وہ عملا مجرمانہ غفلت کا شکار ہوتی ہیں اوران کی ترجیحات میں تعلیم کا نہ ہونا ریاستی امر کو کمزور کرنے کا سبب بنتا ہے ۔قوموں کی پہچان تعلیم اورمعیاری تعلیم سے جڑی ہوتی ہے۔ آج کل دنیا میں جب بھی ملکوں کی کارکردگی کے تناظر میں درجہ بندی کرتے ہیں تو اس میں سماجی شعبہ کو بنیاد بنا کر درجہ بندی کی جاتی ہے اوراس میں تعلیم اوربالخصوص لڑکیوں کی تعلیم کو بھی بنیاد بنایا جاتا ہے۔ایک مسئلہ ہمارے سیاسی نظام کا بھی ہے جو بنیادی طور پر طاقت کے کھیل سے جڑا ہوتا ہے۔ اس کا عملی نقصان یہ ہوتا ہے کہ تعلیم جیسے بنیادی نوعیت کے مسائل پس پشت چلے جاتے ہیں اور تعلیم کی ترویج ایک بڑی تحریک کی صورت میں سامنے نہیں آ سکتی۔
اگر ہم اپنے سرکاری اعدادوشمار کو دیکھتے ہیں تو اس میں ہمیں بہت سے تضادات نظر آتے ہیں ۔پرائمری تعلیم سے لے کر ہائر ایجوکیشن تک ہمارے تعلیمی مسائل کافی سنگین ہیں ۔ہم نے کئی تعلیمی پالیسیاں ترتیب دیں ہیں لیکن ان پالیسیوں اور قانون سازی پر عملدرآمد کا نظام کمزور بھی ہے اور ہماری اہم ترجیحات کا حصہ بھی نہیں ہے ۔
حالیہ دنوں میں وفاق اورصوبو ں کا بجٹ سامنے آیا ہے ۔ پنجاب کے بجٹ پر نظر ڈالیں تو ہمیں اس میں تعلیم کے شعبہ میں ماضی کے مقابلے میں کچھ مثبت پہلو نظر آتے ہیں ۔مثال کے طور پر سابقہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے پنجاب میں 2017-18میں تعلیم کے لیے 345 بلین کا بجٹ مختص کیا تھا جو بجٹ کا 17.5فیصد بنتا تھا جب کہ2018-19 میں 373ارب کا بجٹ رکھا تھا ۔ اس کے برعکس موجودہ پنجاب کی حکومت نے جس کے سربراہ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار ہیں تعلیم کے شعبہ میں 383ارب روپے کا ریکارڈ بجٹ رکھا ہے اور اسی طرح ہائر ایجوکیشن کے لیے پنجاب کا بجٹ 50ارب سے بڑھا کر 73ارب، پی ایچ ای سی کے لیے 10کروڑ، پیف اسکالر شپ کے لیے 30 کروڑ رکھا گیا ہے ۔
صوبہ میں چار نئی یونیورسٹیوں کی تعمیر اور سب کیمپسز کے قیام کے لیے ایک ارب 35کروڑ اور پچاس لاکھ روپے رکھے گئے ہیں ۔نئی چار یونیورسٹیوں میں جھنگ، ناروال، اوکاڑہ اور ساہیوال شامل ہیں۔ محکمہ لٹریسی اوراینڈ نان فارمل ایجوکیشن کا بجٹ ایک ارب 80کروڑ سے بڑھا کر 2 ارب ساٹھ کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ جب کہ اسپیشل ایجوکیشن کے لیے ایک ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔ باباگورونانک یونیورسٹی کا قیام، 1.5بلین رقم انصاف اسکولز پروگرام جس کے تحت پچاس ہزار بچوں کو تعلیم دی جائے گی جو اسکولوں سے باہر ہیں۔2.1 بلین رقم اسکولوں اورکالجوں کی تعمیر، 2.84بلین درسی کتابوں کی فراہمی، 12.9بلین اسکول کونسلوں کے لیے رکھے گئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ موجودہ مشکل معاشی حالات میں وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے جو بجٹ میں تعلیم کے لیے مالی وسائل مختص کیے ہیں ان کی تعریف کرنی ہوگی۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم بجٹ کی مجموعی سیاست کا تجزیہ کرتے ہیں تو عمومی طورپر اول تو جو بجٹ رکھا جاتا ہے اس کا بہتر اورموثر استعمال سمیت پورے موجود وسائل بھی خرچ نہیں کیے جاتے، دوئم جو بجٹ رکھا جاتا ہے بعض اوقات صوبائی حکومتیں اپنی ترجیحات میں تبدیلی کے عمل تحت تعلیمی بجٹ میں کٹوتی کرکے وسائل کہیں اورخرچ کر دیتے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر بڑا مسئلہ نگرانی اور جوابدہی کے نظام کا ہے جو بہت کمزور ہے۔وزیر اعلی عثمان بزدار کو چاہیے تھا کہ وہ صوبہ میں دو کام کرتے۔
اول پرائمری ایجوکیشن کمیشن کا قیام اور دوئم صوبہ میں تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا جاتا۔ کیونکہ ان دونوں عوامل کو جوڑ کر ہی ہم صوبہ میں تعلیمی عمل میں بہتری پیدا کرسکتے ہیں۔پرائمری ایجوکیشن کے قیام اور تعلیمی ایمر جنسی سے ہمیں صوبہ میں ان تمام چیلنجز سے بہتر طور پر نمٹ سکتے ہیں جو اس وقت ہمیں درپیش ہیں۔اسی طرح اگر مضبوط مقامی نظام حکومت ہو گا تو اس کی مدد سے ضلعی حکومتیں ازخود تعلیم سے جڑے نظام میں موثر نگرانی اورعملدرآمد کے نظام کو ممکن بنانے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
یونیورسٹیوں کی سطح پر ایڈہاک پالیسی کا خاتمہ ہونا چاہیے اوراس وقت بھی پنجاب میں کئی ایسی یونیورسٹیاں موجود ہیں جہاں مستقل وائس چانسلر موجود نہیں اور ایڈہاک پالیسی کے تحت نظام چلایا جا رہا ہے۔ یونیورسٹیوں میں موجود سیاسی مداخلتوں نے تعلیم کے نظام کو خراب کیا ہے۔ اس سے ایک طرف میرٹ کی پالیسی متاثر ہوئی ہے تو دوسری طرف صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کو خود مختاری دینے کی بجائے اس کو کمزور کرکے نظام چلانے کی کوشش نے بھی اعلی تعلیمی درس گاہوں کا ماحول خراب کیا ہے۔ پنجاب میں راجہ یاسر ہمایوں ہائر ایجوکیشن کے وزیر ہیں اورکافی متحرک نظر آتے ہیں اوران کو چاہیے کہ وہ یونیورسٹیوں سے جڑے مسائل کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں اور ایڈہاک پالیسی کو ختم کرکے مستقبل پالیسی کے تحت آگے بڑھا جائے۔
وزیر اعلی پنجاب کے لیے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ سرکاری تعلیمی اداروں کی ساکھ کو بحال کریں۔ اس تاثر کی نفی ہونی چاہیے کہ ریاست یا حکومت ریاستی تعلیمی اداروں سے اپنی ذمے داری سے سبکدوش ہوگئی ہے۔ ریاست اورحکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ آئین کی شق 25-A کے تحت سب کو تعلیم دینا ریاست اورحکومت کی بنیادی ذمے داری بھی ہے اورحق بھی۔وزیر اعلی پنجاب کا اپنا تعلق جنوبی پنچاب سے ہے اورجنوبی پنجاب کے بہت سے ایسے اضلاع ہیں جہاں تعلیم کی شرح خواندگی شرمناک حد تک کم ہے۔بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم میں شرح خواندگی کی کمی ایک بڑا چیلنج ہے ۔
وزیر اعلی پنجاب کو تعلیمی اصلاحات میں بیوروکریسی پر زیادہ انحصار کرنے کی بجائے اپنے ارکان اسمبلی کو لے کر آگے بڑھیں۔سول سوسائٹی میں بہت سے ایسے ادارے ہیں جو تعلیم کی شرح خواندگی کو بڑھانے میں کام کر رہی ہیں، حکومت کو چاہیے ان کو بھی اپنی تحریک کا حصہ بنائیں ۔ایک چیلنج دیہی سطح اورچھوٹے شہروں میں موجود تعلیمی نظام میں اصلاحات پیدا کرنا اوروہاں ایسا سازگار ماحول پیدا کرنا جو لوگوں کو بہتر تعلیم کے مواقع فراہم کرسکے۔جب تک وزیر اعلی پنجاب جوابدہی کے نظام کو موثر نہیں بنائیں گے اورجو بھی کالی بھیڑیں ہیں جو اہم ذمے داریاں لینے کے باوجود کچھ نہیں کر رہے ان کو احتساب کے دائرہ کار میں لانا چاہیے۔
تعلیم محض ایک کاروبار نہیں بننا چاہیے اورجو لوگ بھی نجی شعبہ میں تعلیم کے میدان میں کام کر رہے ہیں ان کے لیے مضبوط، مربوط اور موثر ریگولیٹر ی نظام قائم کیا جائے۔ کسی بھی نجی تعلیمی ادارے کو یہ حق نہیں ہونا چاہیے کہ وہ از خود فیصلے کرکے ریاست یا حکومت کی رٹ کو چیلنج کرے ۔لیکن نجی شعبہ کے لیے بننے والی پالیسی مشاورت کے ساتھ جڑی ہونی چاہیے اوران کے بھی جو جائز معاملات ہیں ان کا بھی حل تلاش کرنا چاہیے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ جو ریاستیں یا حکومتیں تعلیم سے غفلت کا مظاہرہ کرتی ہیں وہ عملا مجرمانہ غفلت کا شکار ہوتی ہیں اوران کی ترجیحات میں تعلیم کا نہ ہونا ریاستی امر کو کمزور کرنے کا سبب بنتا ہے ۔قوموں کی پہچان تعلیم اورمعیاری تعلیم سے جڑی ہوتی ہے۔ آج کل دنیا میں جب بھی ملکوں کی کارکردگی کے تناظر میں درجہ بندی کرتے ہیں تو اس میں سماجی شعبہ کو بنیاد بنا کر درجہ بندی کی جاتی ہے اوراس میں تعلیم اوربالخصوص لڑکیوں کی تعلیم کو بھی بنیاد بنایا جاتا ہے۔ایک مسئلہ ہمارے سیاسی نظام کا بھی ہے جو بنیادی طور پر طاقت کے کھیل سے جڑا ہوتا ہے۔ اس کا عملی نقصان یہ ہوتا ہے کہ تعلیم جیسے بنیادی نوعیت کے مسائل پس پشت چلے جاتے ہیں اور تعلیم کی ترویج ایک بڑی تحریک کی صورت میں سامنے نہیں آ سکتی۔