بیجنگ
سڑکیں کشادہ، صاف ستھری اور ان کے اردگرد کی ہریالی مسلسل تراش خراش کی آئینہ دار تھی۔
میرے گزشتہ دورے سے اب تک کے درمیانی 28 برسوں میں چین اور بالخصوص بیجنگ شہر اس قدر ہمہ گیر اور تیزرفتار تبدیلیوں سے گزرا ہے کہ خود چینیوں کے بقول اگر صرف پچاس سال قبل مرا ہوا کوئی بیجنگ کا شہری دوبارہ زندہ ہو جائے تو وہ کبھی یہ ماننے کو تیار نہ ہو کہ یہ وہی شہر ہے جس میں اس نے زندگی گزاری تھی۔
فلک بوس High Rise عمارات جنھیں Sky Scrappers بھی کہا جاتا ہے، اس قدر کثیر تعداد میں قدم قدم پر استادہ ہیں کہ نیویارک کی Sky Line بھی ان کے سامنے ماند پڑتی دکھائی دیتی ہے۔ زیادہ تر عمارتیں تقریباً ایک جیسی اونچائی کی حامل ہیں جسے اندازاً چالیس منزلوں پر محیط کہا جا سکتا ہے۔ سڑکیں کشادہ، صاف ستھری اور ان کے اردگرد کی ہریالی مسلسل تراش خراش کی آئینہ دار تھی۔
ہوٹل کا ناشتہ نہ صرف عمدہ تھا بلکہ اس میں ایسی چیزوں کی بھی کثرت تھی جن سے ہم مانوس تھے اور جو آسانی سے کھائی جا سکتی تھیں چنانچہ پہلی بار ڈاکٹر ابراہیم اول سومرو نے سلاد اور چائے کے علاوہ کسی چیز کو ہاتھ لگایا۔ ہماری ترجمان سوئی اور اس کا ساتھی لی جس کا ہم نے سوئی کی رعایت سے اعزازی نام ''دھاگا'' رکھ دیا تھا، منٹوں کے حساب سے وقت کے پابند تھے۔
معلوم ہوا کہ جو کوسٹر ہمیں ایئرپورٹ لے کر آئی تھی وہ ہمارے دورے کے اختتام تک ہمارے ہی ساتھ رہے گی اور یہ کہ ساڑھے نو بجے ہمیں اپنے میزبانوں کے دفتر یعنی چائنا رائٹرز ایسوسی ایشن کے ہیڈآفس پہنچنا ہے جہاں استقبالیہ میٹنگ کے ساتھ ساتھ پاک چین دوستی کے ادبی محاذ کے حوالے سے تبادلہ خیال بھی کیا جائے گا۔ سوئی نے بتایا کہ ہماری خواہش کے مطابق اردو ترجمان پروفیسر تھانگ سے رابطہ ہو گیا ہے اور وہ اس ملاقات میں موجود ہوں گے۔ تھانگ بیجنگ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے استاد اور صدر شعبہ بھی رہے ہیں اور آج کل سی پیک کے حوالے سے زیادہ تر پاکستان ہی میں پائے جاتے ہیں۔
اگرچہ رائٹرز ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر جنرل چانگ انگریزی میں آسانی سے بات چیت کر سکتے تھے لیکن باقی لوگوں سے مکالمے کے لیے تھانگ کی مدد بہت سود مند رہی۔ ہمارا یہ دورہ کسی بھی پاکستانی وفد کا ادب وثقافت کے حوالے سے گزشتہ دس برس میں پہلا باقاعدہ دورہ تھا کہ 2012 میں چینی ادیبوں کے جس وفد نے آنا تھا وہ اس زمانے کی سیکیورٹی صورت حال کی وجہ سے نہ آ سکا۔ پھر 2014ء میں اس معاہدے کی میعاد بھی ختم ہو گئی جس کے تحت 20 وفود کا تبادلہ ہوا تھا۔ اب 2018 میں اس کی تجدید ہوئی ہے۔
سو سب سے پہلے تو اس تعطل پر دو طرفہ تشویش کا اظہار ہوا اور پھر یہ طے کیا گیا کہ آیندہ اس کے تسلسل کو نہ صرف برقرار رکھا جائے گا بلکہ اس کی گہرائی اور وسعت میں مزید اضافہ بھی کیا جائے گا۔ ڈاکٹر راشد حمید نے مشورہ دیا کہ کیوں نہ ادارہ جاتی سطح پر ایک ایسا MOU سائن کیا جائے کہ حکومتی معاہدوں کے علاوہ بھی چین اور پاکستان ادب کے حوالے سے مزید قریب آتے چلے جائیں۔
چینی دوستوں نے اس تجویز کا خیرمقدم کیا۔ یہ بھی طے پایا کہ دونوں ادارے اپنی اپنی زبانوں میں منتخب ادب کے مجموعے تسلسل سے شائع کریں اور چند نامور ادیبوں کی تخلیقات کو علیحدہ سے کتابوں کی شکل میں بھی مرتب کیا جائے۔ اس کے بعد اکادمی ادبیات کی طرف سے لائے گئے تحائف پیش کیے گئے جن میں چینی ادب کے تراجم پر مشتمل وہ کتابیں بھی تھیں جو اب تک شائع کی جا چکی ہیں۔
پاکستانی سفارت خانے کی خوب صورت اور وسیع عمارت میں ڈپٹی چیف آف مشن محترمہ ممتاز زہرا بلوچ اور فرسٹ سیکریٹری راحیل طارق نے ہمارا استقبال کیا۔ تھوڑی دیر میں سفیر محترم مسعود خالد بھی تشریف لے آئے۔ لنچ سے پہلے اس کے دوران اور بعد میں پاک چین دوستی، دونوں ملکوں کے ادب کی صورت حال اور تیزی سے بدلے ہوئے چین کی ترقی کے اسباب پر تفصیل سے بات ہوتی رہی اور شاعری کا ایک مختصر سا سیشن بھی ہوا۔
مسعود خالد نے بتایا کہ یہاں ان کا قیام اب آخری مراحل میں ہے لیکن اس دوران میں انھوں نے جو کچھ دیکھا اور سمجھا ہے وہ ان کی ملازمت کے دورانیے کے بہترین اثاثوں میں سے ایک ہے۔ ایئرپورٹ پر آنے والے سفارتی نمائندے ذوالفقار سمیت کئی اور دوستوں سے بھی ملاقات ہوئی اور بہت اچھا وقت گزرا۔ باہر نکلے تو سوئی نے انگریزی اور دھاگے نے مسکراہٹ کی زبان میں بتایا کہ اب ہمیں Forbidden City جانا ہے جس کا تفصیلی احوال میں اپنے سفرنامے ''ریشم ریشم'' میں بیان کر چکا ہوں لیکن اب پتہ چلا کہ اس کے اندر تو بہت لمبا پیدل چلنا پڑتا ہے مگر اب حکومت نے سیاحوں کی بڑی گاڑیوں یعنی کوسٹرز وغیرہ کے لیے ایک علاقہ مخوص کر دیا ہے جہاں سے آگے پیدل جانا پڑتا ہے۔
اتفاق سے اس دن دھوپ بھی بہت تیز تھی۔ سو ہوا یوں کہ داخلی دروازے تک پہنچتے پہنچتے ہماری ٹانگیں باقاعدہ احتجاج کرنا شروع ہو گئیں۔ یہ شہر ممنوع 1406 سے 1420 کے درمیان منگ خاندان کی حکومت کے دوران تعمیر ہوا تھا۔ سوئی نے ہمارے لیے کچھ ایسے آلات کا انتظام کر دیا تھا جن کی مدد سے ہمیں انگریزی میں ان عمارات کی تاریخ، خصوصیات اور ان سے متعلق روایات کے بارے میں ساتھ ساتھ پتہ چلتا رہا۔
اگر درمیان میں بار بار بہت سی سیڑھیاں نہ آتیں، سورج ذرا کم پھرتیاں دکھاتا اور فاصلہ کچھ سمٹ جاتا تو ہم اس سے زیادہ لطف اندوز ہوتے۔ کئی مقامات پر میرا ذہن پتہ نہیں کیوں یہاں کی گزشتہ سیر کی طرف بار بار لوٹا اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے منیر نیازی، اجمل خٹک، حسن رضوی، علی احمد بروہی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، نواز طاہر اور عزیز بگتی یہیں کہیں میرے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور اپنی ہی نظم کی ایک لائن بار بار میرا راستہ کاٹتی رہی کہ:
وقت سے کوئی کہے یار، ذرا آہستہ
فلک بوس High Rise عمارات جنھیں Sky Scrappers بھی کہا جاتا ہے، اس قدر کثیر تعداد میں قدم قدم پر استادہ ہیں کہ نیویارک کی Sky Line بھی ان کے سامنے ماند پڑتی دکھائی دیتی ہے۔ زیادہ تر عمارتیں تقریباً ایک جیسی اونچائی کی حامل ہیں جسے اندازاً چالیس منزلوں پر محیط کہا جا سکتا ہے۔ سڑکیں کشادہ، صاف ستھری اور ان کے اردگرد کی ہریالی مسلسل تراش خراش کی آئینہ دار تھی۔
ہوٹل کا ناشتہ نہ صرف عمدہ تھا بلکہ اس میں ایسی چیزوں کی بھی کثرت تھی جن سے ہم مانوس تھے اور جو آسانی سے کھائی جا سکتی تھیں چنانچہ پہلی بار ڈاکٹر ابراہیم اول سومرو نے سلاد اور چائے کے علاوہ کسی چیز کو ہاتھ لگایا۔ ہماری ترجمان سوئی اور اس کا ساتھی لی جس کا ہم نے سوئی کی رعایت سے اعزازی نام ''دھاگا'' رکھ دیا تھا، منٹوں کے حساب سے وقت کے پابند تھے۔
معلوم ہوا کہ جو کوسٹر ہمیں ایئرپورٹ لے کر آئی تھی وہ ہمارے دورے کے اختتام تک ہمارے ہی ساتھ رہے گی اور یہ کہ ساڑھے نو بجے ہمیں اپنے میزبانوں کے دفتر یعنی چائنا رائٹرز ایسوسی ایشن کے ہیڈآفس پہنچنا ہے جہاں استقبالیہ میٹنگ کے ساتھ ساتھ پاک چین دوستی کے ادبی محاذ کے حوالے سے تبادلہ خیال بھی کیا جائے گا۔ سوئی نے بتایا کہ ہماری خواہش کے مطابق اردو ترجمان پروفیسر تھانگ سے رابطہ ہو گیا ہے اور وہ اس ملاقات میں موجود ہوں گے۔ تھانگ بیجنگ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے استاد اور صدر شعبہ بھی رہے ہیں اور آج کل سی پیک کے حوالے سے زیادہ تر پاکستان ہی میں پائے جاتے ہیں۔
اگرچہ رائٹرز ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر جنرل چانگ انگریزی میں آسانی سے بات چیت کر سکتے تھے لیکن باقی لوگوں سے مکالمے کے لیے تھانگ کی مدد بہت سود مند رہی۔ ہمارا یہ دورہ کسی بھی پاکستانی وفد کا ادب وثقافت کے حوالے سے گزشتہ دس برس میں پہلا باقاعدہ دورہ تھا کہ 2012 میں چینی ادیبوں کے جس وفد نے آنا تھا وہ اس زمانے کی سیکیورٹی صورت حال کی وجہ سے نہ آ سکا۔ پھر 2014ء میں اس معاہدے کی میعاد بھی ختم ہو گئی جس کے تحت 20 وفود کا تبادلہ ہوا تھا۔ اب 2018 میں اس کی تجدید ہوئی ہے۔
سو سب سے پہلے تو اس تعطل پر دو طرفہ تشویش کا اظہار ہوا اور پھر یہ طے کیا گیا کہ آیندہ اس کے تسلسل کو نہ صرف برقرار رکھا جائے گا بلکہ اس کی گہرائی اور وسعت میں مزید اضافہ بھی کیا جائے گا۔ ڈاکٹر راشد حمید نے مشورہ دیا کہ کیوں نہ ادارہ جاتی سطح پر ایک ایسا MOU سائن کیا جائے کہ حکومتی معاہدوں کے علاوہ بھی چین اور پاکستان ادب کے حوالے سے مزید قریب آتے چلے جائیں۔
چینی دوستوں نے اس تجویز کا خیرمقدم کیا۔ یہ بھی طے پایا کہ دونوں ادارے اپنی اپنی زبانوں میں منتخب ادب کے مجموعے تسلسل سے شائع کریں اور چند نامور ادیبوں کی تخلیقات کو علیحدہ سے کتابوں کی شکل میں بھی مرتب کیا جائے۔ اس کے بعد اکادمی ادبیات کی طرف سے لائے گئے تحائف پیش کیے گئے جن میں چینی ادب کے تراجم پر مشتمل وہ کتابیں بھی تھیں جو اب تک شائع کی جا چکی ہیں۔
پاکستانی سفارت خانے کی خوب صورت اور وسیع عمارت میں ڈپٹی چیف آف مشن محترمہ ممتاز زہرا بلوچ اور فرسٹ سیکریٹری راحیل طارق نے ہمارا استقبال کیا۔ تھوڑی دیر میں سفیر محترم مسعود خالد بھی تشریف لے آئے۔ لنچ سے پہلے اس کے دوران اور بعد میں پاک چین دوستی، دونوں ملکوں کے ادب کی صورت حال اور تیزی سے بدلے ہوئے چین کی ترقی کے اسباب پر تفصیل سے بات ہوتی رہی اور شاعری کا ایک مختصر سا سیشن بھی ہوا۔
مسعود خالد نے بتایا کہ یہاں ان کا قیام اب آخری مراحل میں ہے لیکن اس دوران میں انھوں نے جو کچھ دیکھا اور سمجھا ہے وہ ان کی ملازمت کے دورانیے کے بہترین اثاثوں میں سے ایک ہے۔ ایئرپورٹ پر آنے والے سفارتی نمائندے ذوالفقار سمیت کئی اور دوستوں سے بھی ملاقات ہوئی اور بہت اچھا وقت گزرا۔ باہر نکلے تو سوئی نے انگریزی اور دھاگے نے مسکراہٹ کی زبان میں بتایا کہ اب ہمیں Forbidden City جانا ہے جس کا تفصیلی احوال میں اپنے سفرنامے ''ریشم ریشم'' میں بیان کر چکا ہوں لیکن اب پتہ چلا کہ اس کے اندر تو بہت لمبا پیدل چلنا پڑتا ہے مگر اب حکومت نے سیاحوں کی بڑی گاڑیوں یعنی کوسٹرز وغیرہ کے لیے ایک علاقہ مخوص کر دیا ہے جہاں سے آگے پیدل جانا پڑتا ہے۔
اتفاق سے اس دن دھوپ بھی بہت تیز تھی۔ سو ہوا یوں کہ داخلی دروازے تک پہنچتے پہنچتے ہماری ٹانگیں باقاعدہ احتجاج کرنا شروع ہو گئیں۔ یہ شہر ممنوع 1406 سے 1420 کے درمیان منگ خاندان کی حکومت کے دوران تعمیر ہوا تھا۔ سوئی نے ہمارے لیے کچھ ایسے آلات کا انتظام کر دیا تھا جن کی مدد سے ہمیں انگریزی میں ان عمارات کی تاریخ، خصوصیات اور ان سے متعلق روایات کے بارے میں ساتھ ساتھ پتہ چلتا رہا۔
اگر درمیان میں بار بار بہت سی سیڑھیاں نہ آتیں، سورج ذرا کم پھرتیاں دکھاتا اور فاصلہ کچھ سمٹ جاتا تو ہم اس سے زیادہ لطف اندوز ہوتے۔ کئی مقامات پر میرا ذہن پتہ نہیں کیوں یہاں کی گزشتہ سیر کی طرف بار بار لوٹا اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے منیر نیازی، اجمل خٹک، حسن رضوی، علی احمد بروہی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، نواز طاہر اور عزیز بگتی یہیں کہیں میرے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور اپنی ہی نظم کی ایک لائن بار بار میرا راستہ کاٹتی رہی کہ:
وقت سے کوئی کہے یار، ذرا آہستہ