بجٹ اور کفایت شعاری
خرچوں میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے لیکن آمدنی میں ریکارڈ کمی ہوئی ہے
صبح صبح ہی ایک قاری کا فون آیا کہ آپ ہر مسئلے پر لکھتے ہیں لیکن بجٹ پر کبھی نہیں لکھتے' حالانکہ اسی بجٹ کی وجہ سے عوام کی جان سولی پر لٹکی ہوئی ہے' عوام مہنگائی اور دوسرے مسائل سے دوچارہیں۔ بجٹ پر بہت سے دوستوں نے لکھا ہے لیکن میں پریشان ہوں کہ بجٹ پر کیا لکھوں؟ کیونکہ یہ وہ سالانہ بجٹ نہیں جو عوام کی زندگیوں پر اثر انداز ہو تا تھا۔ بجٹ budget)فرانسیسی زبان کا لفظ ہے'اس لفظ کا ماخذ فرانسیسی لفظ (bougette) ہے' جو بٹوے یا پرس کو کہتے تھے' یہ اصل میں اخراجات اور آمدنی کا تخمینہ ہوتا ہے' ۔ حکومتیںبجٹ سالانہ بنیادوں پر بناتی ہیں' آمدنی میں اضافہ کرنے کے لیے نئے ٹیکس لگائے جاتے ہیں اور اخراجات اور آمدنی کا گوشوارہ یا بجٹ پارلیمنٹ سے منظور کیا جاتا ہے۔
پاکستان کا مالی سال یکم جولائی سے 30 جون تک ہوتا ہے' اس مالی سال کے اندر جتنی متوقع آمدنی یا خرچ ہو وہ سب بجٹ میں آجاتی ہے' چند سال قبل اچھے وقتوں میں لوگ سارا سال جون کا انتظار کرتے تھے کیونکہ بجٹ اسی مہینے پاس ہوکر یکم جولائی سے نافذ ہو جاتا' بھلے دنوں میں ریلوے کا الگ بجٹ ہوتا تھا' دفاعی بجٹ جو اصل آمدنی کے زیادہ تر حصے پر مشتمل ہوتا ہے وہ کبھی بھی عوام کے نمایندوں کے سامنے پیش نہیں ہوتا' ہماری بدقسمتی ہے کہ حکمرانوں کے غیر پیداواری اخراجات روز بروز بڑھ رہے ہیں اس لیے ہمیشہ اخراجات زیادہ اور آمدنی کم ہوتی ہے' بڑے لوگوں سے ٹیکس وصولی چونکہ مشکل ہے۔
اس لیے ہمیشہ زائد اخراجات پورے کرنے کے لیے حکومت غیر ممالک سے قرضے لیتی ہے یا غریبوں پر بالواسطہ یا بلاواسطہ ٹیکس لگا دیتی ہے۔ اس لیے عوام کی فلاح و بہبود اور سوشل سیکٹر مثلاً تعلیم' علاج اور روزگار کے وسائل پیدا کرنے کے لیے بہت کم رقم بچتی ہے' پاکستان نے اپنے قومی غیرت اور جذبہ جہاد کی تسکین کے لیے ہندوستان نامی دشمن بھی پال رکھا ہے' اس کو شکست دینے کے لیے ایک بڑی فوج ہماری مجبوری ہے۔ عرصہ قبل میں نے بجٹ پر ایک کالم لکھا تھا اس کے بعد اس موضوع پر لکھنا بند کر دیا کیوں؟
پہلے عوام بڑی شدت سے بجٹ کا انتظار کرتے تھے سال میں ایک دفعہ جو کچھ بھی ہونا تھا وہ بجٹ میں ہی ہو جاتا تھا۔ مہنگائی کتنی ہو گی' کرایوں میں اضافہ کتنا ہو گا' ٹیکس کتنے لگیں گے' بجلی کے ریٹ آیندہ سال کیا ہوں گے' تیل اور گیس کے نرخ اگلے سال کتنے ہوں؟ وغیرہ وغیرہ' ریلوے کے بجٹ میں ریلوے کے کرایوںکا تعین بھی کر لیا جاتا۔ بجٹ تقریر سننے کے بعد ہر فرد ایک سال کے لیے گھر کا بجٹ بنا سکتا تھا' ہر شخص کو آسانی ہو جاتی کیونکہ اگلے سال کے بجٹ تک پھر کبھی ان پالیسیوں اور ٹیکسوں وغیرہ میں کمی بیشی نہ ہوتی' شدید ضرورت کے تحت اسمبلی میں ضمنی بجٹ یا مطالبات زر' منظوری کے لیے پیش کردیے جاتے۔
اب صورت حال مکمل طور پر بدل گئی ہے' نہ بجٹ کا تقدس قائم رہا اور نہ حکومت کے وزیر خزانہ کے الفاظ کا' اب بجٹ کے معنی بھی بدل گئے ہیں' بجٹ میں سال بھر کے متوقع آمدن کے ذرایع بھی دینے ہوتے ہیں' لیکن یہاں پر اب بات بدل گئی ہے' حکومت کے اصل ذرایع آمدنی اب اور ہیں' سروسز اور اشیاء جو وہ عوام کو مہیا کرتی ہے' ٹرانسپورٹ اور ریلوے کے کرایے' بجلی اور توانائی کے دوسرے ذرایع سمیت بہت سی اشیاء حکومت نے بجٹ کی لسٹ سے نکال دی ہیں' اب حکومت کی مرضی ہوتی ہے کہ کب وہ کسی چیز کے نرخ میں اضافہ کرتی ہے یا کمی' کمی کا لفظ میں نے ویسے ہی استعمال کر دیا ورنہ ہمیشہ قیمتوں میں اضافہ ہی ہوتا ہے' آج کل حکومت کا نہیں بلکہ نیپرا' اوگرا اور نہ جانے کن اداروں کی حکمرانی ہے۔
صبح اٹھ کر ٹی وی کھولیں تو خبر فلیش ہوتی ہے بلکہ بریکنگ نیوز آ جاتی ہے کہ رات بارہ بجے' نیپرا نے اچانک بجلی کے نرخ پانچ روپے فی یونٹ بڑھا دیے' بجلی کے نرخ کیا بڑھتے ہیں کہ کارخانوں میں بنائی گئی مصنوعات کی قیمتیں بھی آسمان کو چھونے لگتی ہیں' عوام کے استعمال کی تقریبا ہر چیز کارخانوں میں بنتی ہے اسی لیے ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے' زراعت کا انحصار بھی زیادہ تر ٹیوب ویل اور کھاد وغیرہ پر ہوتا ہے' بجلی کے نرخ بڑھنے سے ان کے نرخ بھی بڑھ جاتے ہیں'ابھی یہ غم تازہ ہوتا ہے کہ مہینے کا آخری دن آ جاتا ہے شام کو ہی اعلان ہو جاتا ہے کہ گیس اور پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں' اب پھر مصیبت کیونکہ ٹرانسپورٹ اور بجلی گھر سب کے سب تیل کے محتاج ہیں' اسی طرح پھر قیمتیں بڑھنی شروع ہو جاتی ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہر روز اور ہر مہینے نیا بجٹ آتا ہو تو سالانہ بجٹ کی افادیت اور ضرورت کیا رہ جاتی ہے؟۔ ایک خبر کے مطابق یکم جولائی سے تیل کی قیمتوں میں سات روپے تک اضافے کا امکان ' یعنی بجٹ کے متوازی یہ معاشی پالیسیاں اور قیمتیں بغیر کسی پارلیمانی اجازت یا مباحثے کی چل رہی ہیں' اسی لیے میں نے بجٹ پر لکھنا چھوڑ دیا ہے' کیونکہ روزانہ اور ماہانہ بنیادوں پر معاشی پالیسی اور نرخوں پر کون لکھ سکتا ہے لیکن آج کچھ اور مسائل کی وجہ سے اس موضوع پر کالم لکھ رہا ہوں۔
وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالنے پر عمران خان نے کہا تھا کہ نواز شریف اور ماضی کے دوسرے حکمرانوں نے بادشاہوں کی طرح اپنی عیاشیوں پر عوام کا پیسہ خرچ کیا' انھوں نے اعلان کیا کہ کفایت شعاری اور بچت مہم کا آغاز وہ اپنی ذات سے کریں گے' وزیر اعظم ہاؤس میں نہیں رہیں گے اور پانچ سو ملازمین کی جگہ صرف دو ملازم رکھیں گے' وزیر اعظم ہاؤس کی بھینسیں بھی فروخت کر دی گئیں اور گاڑیوں کو بھی نیلامی پر لگا دیا لیکن تحریک انصاف کی حکومت نے جو بجٹ پیش کیا ہے' اس کے مطابق موجودہ مالی سال میں' وزیر اعظم آفس نے مختص کردہ 98 کروڑ60 لاکھ روپے کے بجٹ سے زیادہ یعنی 1.09ارب روپے خرچ کیے' جب کہ آیندہ مالی سال 2019/20ء کے لیے اور زیادہ پیسے یعنی 1.17 ارب روپے مانگ لیے ہیں' وزیر اعظم صاحب نے اگر واقعی ملامین دو ہی رکھے ہیں اور سیکڑوں ملازمین جو ماضی کے حکمرانوں کے خدمت کے لیے رکھے گئے تھے' فارغ ہو چکے ہیں تو پھر بجٹ دستاویزات میں آیندہ سال کے لیے وزیر اعظم کے ہاؤس ہولڈ ملازمین کے لیے 7 کروڑ 95 لاکھ روپے کیوں رکھے گئے ہیں؟۔ کفایت شعاری مہم سے بجٹ میں کمی ہونی چائیے نہ کہ اضافہ؟؟۔
صدر پاکستان کے سالانہ بجٹ میں بھی اضافہ ہو گیا ہے' صدر عارف علوی تو کہتے تھے کہ وہ تو ایوان صدر کے بجائے پارلیمنٹ لاجز میں رہیں گے' لیکن وہ بھی اپنا وعدہ وفا نہ کر سکے' ان کے ملازمین کا خرچہ تو وزیر اعظم ہاؤس سے بھی زیادہ ہے' بجٹ میں ملازمین کے لیے صدر مملکت نے 11کروڑ 50 لاکھ مانگ لیے ہیں۔ ایوان صدر کے لیے تو CDA نے تقریباً 20 لاکھ کا طوطوں کے پنجرہ بنانے کا ٹینڈر بھی جاری کر دیا تھا' سوشل میڈیا کے شور مچانے پر فی الحال یہ ٹینڈر منسوخ کر دیا گیا ہے' معلوم نہیں کہ طوطے موجود ہیں یا نئے آنے والے تھے' میں نے سنا ہے کہ پنجرے اب خاموشی سے بنیں گے۔ ایوان صدر تو پہلے ہی ایک مشاعرے پر لاکھوں روپے خرچ کر کے تنازعہ کا باعث بن چکا ہے۔
وزارت پارلیمانی امور کی جانب سے موجودہ پالیمانی سیکریٹر یوں کی تعداد سے زائد کے لیے بجٹ تجویز کیا گیا ہے' اس وقت پارلیمانی سیکرٹریوں کی تعداد 23 ہے جب کہ بجٹ 42 کے لیے تجویز کیا گیا ہے تا کہ مستقبل میں ناراض ارکان کو عہدے دے کر راضی کیا جا سکے' یہ امر انتہائی حیران کن ہے کہ ایک طرف حکومت کفایت شعاری کی پالیسی کو شعار بنانے کا دعوی کرتی ہے اور دوسری طرف وزراء' پارلیمانی سیکرٹریوں' ترجمانوں' مشیروں اور معاونین خصوصی کی فوج ظفر موج اکھٹی کر رہی ہے' یہ حکومت اپنے کیے ہوئے ہر وعدے اور دعوے کی نفی کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
ایک خبر کے مطابق گورنر اور وزیر اعلی پنجاب کے اخراجات میں بھی نہ صرف موجودہ سال کے مختص بجٹ سے اضافہ ہوا' بلکہ آیندہ سال کے لیے اخراجات میں مزید اضافہ مانگ لیا گیا ہے' آیندہ مالی سال کے لیے گورنر ہاؤس کا بجٹ 40 کروڑ سے بڑھاکر 49 کروڑ روپے کرنے کی تجویز ہے ۔
خرچوں میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے لیکن آمدنی میں ریکارڈ کمی ہوئی ہے' وہ وعدہ بھی وفا نہ ہوا کہ جب ایماندار حکمران آئیں گے تو لوگ ٹیکس زیادہ دیں گے' ٹیکس میں ریکارڈ کمی کے علاوہ غیرملکی سرمایہ کاری بھی گزشتہ سال سے آدھی ہوچکی ہے' معاشی ترقی پہلے سے نصف سے بھی کم ہو گئی ہے' بیروزگاری میں اضافہ ہوا ' مہنگائی بھی گزشتہ حکومت کی نسبت دگنا ہوچکی ہے۔ وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ معاشی صورت حال مستحکم ہے خدا کرے اس دفعہ وہ سچ بولیں؟ حالانکہ '23 جون کے اخبارات کے مطابق اسٹیٹ بینک کا بیان ہے کہ ''موجودہ حکومت نے سابقہ حکومتوں کے مقابلے میں دگنا قرض لیا''۔
پاکستان کا مالی سال یکم جولائی سے 30 جون تک ہوتا ہے' اس مالی سال کے اندر جتنی متوقع آمدنی یا خرچ ہو وہ سب بجٹ میں آجاتی ہے' چند سال قبل اچھے وقتوں میں لوگ سارا سال جون کا انتظار کرتے تھے کیونکہ بجٹ اسی مہینے پاس ہوکر یکم جولائی سے نافذ ہو جاتا' بھلے دنوں میں ریلوے کا الگ بجٹ ہوتا تھا' دفاعی بجٹ جو اصل آمدنی کے زیادہ تر حصے پر مشتمل ہوتا ہے وہ کبھی بھی عوام کے نمایندوں کے سامنے پیش نہیں ہوتا' ہماری بدقسمتی ہے کہ حکمرانوں کے غیر پیداواری اخراجات روز بروز بڑھ رہے ہیں اس لیے ہمیشہ اخراجات زیادہ اور آمدنی کم ہوتی ہے' بڑے لوگوں سے ٹیکس وصولی چونکہ مشکل ہے۔
اس لیے ہمیشہ زائد اخراجات پورے کرنے کے لیے حکومت غیر ممالک سے قرضے لیتی ہے یا غریبوں پر بالواسطہ یا بلاواسطہ ٹیکس لگا دیتی ہے۔ اس لیے عوام کی فلاح و بہبود اور سوشل سیکٹر مثلاً تعلیم' علاج اور روزگار کے وسائل پیدا کرنے کے لیے بہت کم رقم بچتی ہے' پاکستان نے اپنے قومی غیرت اور جذبہ جہاد کی تسکین کے لیے ہندوستان نامی دشمن بھی پال رکھا ہے' اس کو شکست دینے کے لیے ایک بڑی فوج ہماری مجبوری ہے۔ عرصہ قبل میں نے بجٹ پر ایک کالم لکھا تھا اس کے بعد اس موضوع پر لکھنا بند کر دیا کیوں؟
پہلے عوام بڑی شدت سے بجٹ کا انتظار کرتے تھے سال میں ایک دفعہ جو کچھ بھی ہونا تھا وہ بجٹ میں ہی ہو جاتا تھا۔ مہنگائی کتنی ہو گی' کرایوں میں اضافہ کتنا ہو گا' ٹیکس کتنے لگیں گے' بجلی کے ریٹ آیندہ سال کیا ہوں گے' تیل اور گیس کے نرخ اگلے سال کتنے ہوں؟ وغیرہ وغیرہ' ریلوے کے بجٹ میں ریلوے کے کرایوںکا تعین بھی کر لیا جاتا۔ بجٹ تقریر سننے کے بعد ہر فرد ایک سال کے لیے گھر کا بجٹ بنا سکتا تھا' ہر شخص کو آسانی ہو جاتی کیونکہ اگلے سال کے بجٹ تک پھر کبھی ان پالیسیوں اور ٹیکسوں وغیرہ میں کمی بیشی نہ ہوتی' شدید ضرورت کے تحت اسمبلی میں ضمنی بجٹ یا مطالبات زر' منظوری کے لیے پیش کردیے جاتے۔
اب صورت حال مکمل طور پر بدل گئی ہے' نہ بجٹ کا تقدس قائم رہا اور نہ حکومت کے وزیر خزانہ کے الفاظ کا' اب بجٹ کے معنی بھی بدل گئے ہیں' بجٹ میں سال بھر کے متوقع آمدن کے ذرایع بھی دینے ہوتے ہیں' لیکن یہاں پر اب بات بدل گئی ہے' حکومت کے اصل ذرایع آمدنی اب اور ہیں' سروسز اور اشیاء جو وہ عوام کو مہیا کرتی ہے' ٹرانسپورٹ اور ریلوے کے کرایے' بجلی اور توانائی کے دوسرے ذرایع سمیت بہت سی اشیاء حکومت نے بجٹ کی لسٹ سے نکال دی ہیں' اب حکومت کی مرضی ہوتی ہے کہ کب وہ کسی چیز کے نرخ میں اضافہ کرتی ہے یا کمی' کمی کا لفظ میں نے ویسے ہی استعمال کر دیا ورنہ ہمیشہ قیمتوں میں اضافہ ہی ہوتا ہے' آج کل حکومت کا نہیں بلکہ نیپرا' اوگرا اور نہ جانے کن اداروں کی حکمرانی ہے۔
صبح اٹھ کر ٹی وی کھولیں تو خبر فلیش ہوتی ہے بلکہ بریکنگ نیوز آ جاتی ہے کہ رات بارہ بجے' نیپرا نے اچانک بجلی کے نرخ پانچ روپے فی یونٹ بڑھا دیے' بجلی کے نرخ کیا بڑھتے ہیں کہ کارخانوں میں بنائی گئی مصنوعات کی قیمتیں بھی آسمان کو چھونے لگتی ہیں' عوام کے استعمال کی تقریبا ہر چیز کارخانوں میں بنتی ہے اسی لیے ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے' زراعت کا انحصار بھی زیادہ تر ٹیوب ویل اور کھاد وغیرہ پر ہوتا ہے' بجلی کے نرخ بڑھنے سے ان کے نرخ بھی بڑھ جاتے ہیں'ابھی یہ غم تازہ ہوتا ہے کہ مہینے کا آخری دن آ جاتا ہے شام کو ہی اعلان ہو جاتا ہے کہ گیس اور پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں' اب پھر مصیبت کیونکہ ٹرانسپورٹ اور بجلی گھر سب کے سب تیل کے محتاج ہیں' اسی طرح پھر قیمتیں بڑھنی شروع ہو جاتی ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہر روز اور ہر مہینے نیا بجٹ آتا ہو تو سالانہ بجٹ کی افادیت اور ضرورت کیا رہ جاتی ہے؟۔ ایک خبر کے مطابق یکم جولائی سے تیل کی قیمتوں میں سات روپے تک اضافے کا امکان ' یعنی بجٹ کے متوازی یہ معاشی پالیسیاں اور قیمتیں بغیر کسی پارلیمانی اجازت یا مباحثے کی چل رہی ہیں' اسی لیے میں نے بجٹ پر لکھنا چھوڑ دیا ہے' کیونکہ روزانہ اور ماہانہ بنیادوں پر معاشی پالیسی اور نرخوں پر کون لکھ سکتا ہے لیکن آج کچھ اور مسائل کی وجہ سے اس موضوع پر کالم لکھ رہا ہوں۔
وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالنے پر عمران خان نے کہا تھا کہ نواز شریف اور ماضی کے دوسرے حکمرانوں نے بادشاہوں کی طرح اپنی عیاشیوں پر عوام کا پیسہ خرچ کیا' انھوں نے اعلان کیا کہ کفایت شعاری اور بچت مہم کا آغاز وہ اپنی ذات سے کریں گے' وزیر اعظم ہاؤس میں نہیں رہیں گے اور پانچ سو ملازمین کی جگہ صرف دو ملازم رکھیں گے' وزیر اعظم ہاؤس کی بھینسیں بھی فروخت کر دی گئیں اور گاڑیوں کو بھی نیلامی پر لگا دیا لیکن تحریک انصاف کی حکومت نے جو بجٹ پیش کیا ہے' اس کے مطابق موجودہ مالی سال میں' وزیر اعظم آفس نے مختص کردہ 98 کروڑ60 لاکھ روپے کے بجٹ سے زیادہ یعنی 1.09ارب روپے خرچ کیے' جب کہ آیندہ مالی سال 2019/20ء کے لیے اور زیادہ پیسے یعنی 1.17 ارب روپے مانگ لیے ہیں' وزیر اعظم صاحب نے اگر واقعی ملامین دو ہی رکھے ہیں اور سیکڑوں ملازمین جو ماضی کے حکمرانوں کے خدمت کے لیے رکھے گئے تھے' فارغ ہو چکے ہیں تو پھر بجٹ دستاویزات میں آیندہ سال کے لیے وزیر اعظم کے ہاؤس ہولڈ ملازمین کے لیے 7 کروڑ 95 لاکھ روپے کیوں رکھے گئے ہیں؟۔ کفایت شعاری مہم سے بجٹ میں کمی ہونی چائیے نہ کہ اضافہ؟؟۔
صدر پاکستان کے سالانہ بجٹ میں بھی اضافہ ہو گیا ہے' صدر عارف علوی تو کہتے تھے کہ وہ تو ایوان صدر کے بجائے پارلیمنٹ لاجز میں رہیں گے' لیکن وہ بھی اپنا وعدہ وفا نہ کر سکے' ان کے ملازمین کا خرچہ تو وزیر اعظم ہاؤس سے بھی زیادہ ہے' بجٹ میں ملازمین کے لیے صدر مملکت نے 11کروڑ 50 لاکھ مانگ لیے ہیں۔ ایوان صدر کے لیے تو CDA نے تقریباً 20 لاکھ کا طوطوں کے پنجرہ بنانے کا ٹینڈر بھی جاری کر دیا تھا' سوشل میڈیا کے شور مچانے پر فی الحال یہ ٹینڈر منسوخ کر دیا گیا ہے' معلوم نہیں کہ طوطے موجود ہیں یا نئے آنے والے تھے' میں نے سنا ہے کہ پنجرے اب خاموشی سے بنیں گے۔ ایوان صدر تو پہلے ہی ایک مشاعرے پر لاکھوں روپے خرچ کر کے تنازعہ کا باعث بن چکا ہے۔
وزارت پارلیمانی امور کی جانب سے موجودہ پالیمانی سیکریٹر یوں کی تعداد سے زائد کے لیے بجٹ تجویز کیا گیا ہے' اس وقت پارلیمانی سیکرٹریوں کی تعداد 23 ہے جب کہ بجٹ 42 کے لیے تجویز کیا گیا ہے تا کہ مستقبل میں ناراض ارکان کو عہدے دے کر راضی کیا جا سکے' یہ امر انتہائی حیران کن ہے کہ ایک طرف حکومت کفایت شعاری کی پالیسی کو شعار بنانے کا دعوی کرتی ہے اور دوسری طرف وزراء' پارلیمانی سیکرٹریوں' ترجمانوں' مشیروں اور معاونین خصوصی کی فوج ظفر موج اکھٹی کر رہی ہے' یہ حکومت اپنے کیے ہوئے ہر وعدے اور دعوے کی نفی کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
ایک خبر کے مطابق گورنر اور وزیر اعلی پنجاب کے اخراجات میں بھی نہ صرف موجودہ سال کے مختص بجٹ سے اضافہ ہوا' بلکہ آیندہ سال کے لیے اخراجات میں مزید اضافہ مانگ لیا گیا ہے' آیندہ مالی سال کے لیے گورنر ہاؤس کا بجٹ 40 کروڑ سے بڑھاکر 49 کروڑ روپے کرنے کی تجویز ہے ۔
خرچوں میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے لیکن آمدنی میں ریکارڈ کمی ہوئی ہے' وہ وعدہ بھی وفا نہ ہوا کہ جب ایماندار حکمران آئیں گے تو لوگ ٹیکس زیادہ دیں گے' ٹیکس میں ریکارڈ کمی کے علاوہ غیرملکی سرمایہ کاری بھی گزشتہ سال سے آدھی ہوچکی ہے' معاشی ترقی پہلے سے نصف سے بھی کم ہو گئی ہے' بیروزگاری میں اضافہ ہوا ' مہنگائی بھی گزشتہ حکومت کی نسبت دگنا ہوچکی ہے۔ وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ معاشی صورت حال مستحکم ہے خدا کرے اس دفعہ وہ سچ بولیں؟ حالانکہ '23 جون کے اخبارات کے مطابق اسٹیٹ بینک کا بیان ہے کہ ''موجودہ حکومت نے سابقہ حکومتوں کے مقابلے میں دگنا قرض لیا''۔