انتہا پسندی کا ذمے دار کون
ہمارے معاشرے کا یہ رویہ انتہا پسندانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے
میں زمانہ طالب علمی سے ہی کتاب کے مطالعے کا شوقین رہا ہوں۔کھیل کود میں میری دلچسپی واجبی سی رہی ہے۔ فلمیں دیکھنے کا مجھے کبھی بھی شوق نہیں رہا ۔ البتہ پاکستان میں ماضی میں گھریلو موضوع پر بننے والی چند فلمیں دیکھنے کا اتفاق ضرور ہوا ۔ مجھے ان فلموں میں عورت کے دوکردار نظر آئے۔ ایک وہ عورت جو اپنے شوہرکو خاطر میں نہیں لاتی بلکہ کلب میں ڈانس کرتی نظر آتی ہے اور دوسری نیک پروین جو اپنے خاوند سے مخاطب ہوتے ہوئے گاتی ہے، قدموں میں تیرے جینا مرنا ، اب دور یہاں سے جانا کہاں ۔ عورت کے یہ دونوں روپ دو انتہاؤں کو ظاہرکرتے ہیں۔ یہ رویہ فلمی دنیا میں ہی نہیں ہمیں سیاسی میدان میں بھی دکھائی دیتا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کی سیاست کے ایک عظیم رہنما تھے، ان کی اور ان کے خاندان کی سیاسی خدمات نا قابل فراموش ہیں ، ان کوکسی بھی صورت میں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ ان سے ان کی سیاسی زندگی میں کوئی ایک سیاسی غلطی سرزد نہ ہوئی ہو ؟ یقینا ان سے غلطیاں بھی ہوئی ہوں گی لیکن آپ ان کے حامی عناصر سے مکالمہ کرکے دیکھ لیں، بیشتر حامی عناصرکوئی ایک غلطی تسلیم کرنے کو تیار نظر نہیں آئیں گے۔ دوسری جانب مخالفین ہیں جو بھٹو صاحب اور ان کے خاندان کی سیاسی خدمات کی مکمل نفی کرتے دکھائی دیتے ہیں ، یہاں تک کہ ان کی اور ان کے خاندان کی شہادت کو نشان عبرت قرار دیتے ہیں۔
ہمارے معاشرے کا یہ رویہ انتہا پسندانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ رویہ کسی ایک سیاسی جماعت اور ان کے مخالفین کا نہیں بلکہ بیشتر سیاسی جماعتیں اسی انتہا پسندانہ رویے کا شکار نظر آتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس انتہا پسندانہ رویے کا ذمے دارکون ہے؟ میرے نزدیک اس کے ذمے دار وہ عناصر ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ تصویرکا دوسرا رخ پیش کرنے سے موقف کمزور ہوجاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنے سے موقف کمزور نہیں ہوتا بلکہ وہ زیادہ قابل قبول ہو جاتا ہے۔
ان عناصر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ جب آپ ان کے نقطہ نظر کے خلاف کوئی دلیل پیش کریں گے تو یہ آپ کی دلیل کو توجہ سے سننے اور اس کے صحیح اور درست ہونے کی صورت میں تسلیم کرنے کے بجائے اپنے ذہن کو اس جانب متحرک رکھیں گے کہ آپ کی بات کے جواب میں اس کے توڑ کا کیا جواب دیا جائے۔ چاہے اس کا منطق سے تعلق ہو یا نہ ہو۔ آپ کے خاموش ہوتے ہی جوابی گولہ تیار۔ اپنے حریف پر بالادستی حاصل کرنے کے لیے ایک اور حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ یہ کہ جو بات بھی کی جا رہی ہو اس بات کو اس کے دائرے سے نکال کر دوسرے دائرے میں لایا جائے، جس سے اصل موضوع کا کوئی تعلق نہ ہو۔ یوں گفتگو کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوجاتی ہے۔ ٹی وی چینل پر ہونے والے ٹاک شوز میں اس کے مناظر دیکھے جاسکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ انتہا پسندی کے رویے کا خاتمہ کیسے کیا جائے ؟ میرے نزدیک اگر ہم فلسفہ، ادب اور تاریخ کو اپنے مطالعے کا حصہ بنالیں تو انتہا پسندی کے رویے کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے، فلسفے کی بنیاد لفظ کیوں پر ہے اس سے انسان میں منطقی سوچ پیدا ہوتی ہے۔ فلسفہ ہمیں بتاتا ہے کہ نقطہ نظر کیسے وجود میں آتا ہے۔ اس کی مدد سے ہمیں دوسروں کی بات سمجھنے اور اپنی بات سمجھانے میں مدد ملتی ہے۔ ادب انسان میں احساس کی قوت کو جگاتا ہے، جس سے انسان کے رویے میں نرمی پیدا ہوتی ہے۔ تاریخ کے مطالعے سے ہمیں تاریخی شعور حاصل ہوتا ہے، جس کی مدد سے ہم بحرانوں کا تجزیہ کرنے اور مسائل کی اصل وجوہات کی تہہ تک پہنچنے اور اس کے حل کی صلاحیت حاصل کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔
تاریخ اس بنیاد پر ہم سے تحقیق میں غیر جانبداری اور سائنسی انداز فکر کا مطالعہ کرتی ہے۔ اس کے برعکس ہم تاریخ کو جذبات کی عینک سے دیکھتے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم تاریخ کو اپنی خواہشات کے مطابق موڑ دیتے ہیں ، نتیجے میں ہم تاریخی شعور سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ہمارا یہ رویہ انتہا پسندی کو فروغ دیتا ہے۔ ہمیں تاریخ کے حوالے سے اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ دنیا کا تہذیب و تمدن کسی ایک قوم کی کوششوں سے پروان نہیں چڑھا بلکہ اقوام عالم کی مجموعی کوششوں کا ثمر ہے۔ لہٰذا کسی بھی قوم کو صرف اپنے علمی اور تاریخی سرمایہ پر انحصار نہیں کرلینا چاہیے بلکہ عالمی تاریخ (قدیم اور جدید) کو اپنے مطالعے کا حصہ بنانا چاہیے اس کے مطالعے کے نتیجے میں قوموں کی تہذیبی اور تمدنی سطح جانچنے اور ان کی فکر کی گہرائیوں کا اندازہ لگانے اور ان کے خیالات اور رجحانات کے بارے میں واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ اس سے اجنبیت کا خاتمہ اور محبت اور امن کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔
تاریخ کے مطالعے کے حوالے سے ہم ایک غلطی اور بھی کرتے ہیں وہ یہ کہ ہم سیاسی تاریخ کو ہی تاریخ سمجھتے ہیں وہ بھی شخصیات کے حوالے سے مثلاً مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو ہم اس کی ذمے داری اس دور کی کسی ایک سیاسی شخصیت پر ڈال دیتے ہیں جب کہ اس علیحدگی کے سیاسی، سماجی اور معاشی عوامل بھی تھے جن کو ہم نظرانداز کردیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہم بحرانوں کا درست تجزیہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ شخصیات خود حالات کی پیداوار ہوتی ہیں۔ حالات کی تبدیلی کے ساتھ ہی شخصیات کا کردار ختم ہو جاتا ہے اور تاریخ صرف سیاسی تاریخ نہیں ہوتی بلکہ ہر شعبہ زندگی چاہے وہ معاشرت ہو، معیشت ہو یا مذہب اور سائنس اپنی ایک تاریخ رکھتی ہے۔ جب تک ہم تاریخ کا ان حوالوں سے مطالعہ نہیں کریں گے تاریخی شعور سے محروم رہیں گے۔ جو انتہا پسندی کی بڑی وجہ ہے۔
میرے نزدیک انتہا پسندی کے خاتمے میں اساتذہ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ایک استاد اپنے طلبا کے سامنے اشتراکیت اور سرمایہ داری نظام کا تقابلی جائزہ پیش کرتا ہے۔ وہ ایسا کرتے وقت ان دونوں نظاموں میں صرف ایک نظام کی خوبیاں بتائے اور دوسرے نظام کی خامیاں اور ان کی تشریح کرتے وقت اپنے ذاتی خیالات اور نصاب کو شامل کرے تو ہم اسے تعلیم نہیں بلکہ پروپیگنڈے کا نام دیں گے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک کے بیشتر اساتذہ کسی تحریک سے متاثر ہوکر اس سے وابستگی اختیارکرلیتے ہیں یہ وابستگی ان سے ایک خاص قسم کی وفاداری کا تقاضا کرتی ہے، جس کی وجہ سے وہ گروہی سیاست میں ملوث ہوکر اپنی آزادی کھو دیتے ہیں۔ نتیجے میں طلبا میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرنے کے بجائے انھیں پروپیگنڈے کا شکار بنادیتے ہیں۔ یہ پروپیگنڈا انتہا پسندی کے فروغ کا باعث بنتا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کی سیاست کے ایک عظیم رہنما تھے، ان کی اور ان کے خاندان کی سیاسی خدمات نا قابل فراموش ہیں ، ان کوکسی بھی صورت میں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ ان سے ان کی سیاسی زندگی میں کوئی ایک سیاسی غلطی سرزد نہ ہوئی ہو ؟ یقینا ان سے غلطیاں بھی ہوئی ہوں گی لیکن آپ ان کے حامی عناصر سے مکالمہ کرکے دیکھ لیں، بیشتر حامی عناصرکوئی ایک غلطی تسلیم کرنے کو تیار نظر نہیں آئیں گے۔ دوسری جانب مخالفین ہیں جو بھٹو صاحب اور ان کے خاندان کی سیاسی خدمات کی مکمل نفی کرتے دکھائی دیتے ہیں ، یہاں تک کہ ان کی اور ان کے خاندان کی شہادت کو نشان عبرت قرار دیتے ہیں۔
ہمارے معاشرے کا یہ رویہ انتہا پسندانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ رویہ کسی ایک سیاسی جماعت اور ان کے مخالفین کا نہیں بلکہ بیشتر سیاسی جماعتیں اسی انتہا پسندانہ رویے کا شکار نظر آتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس انتہا پسندانہ رویے کا ذمے دارکون ہے؟ میرے نزدیک اس کے ذمے دار وہ عناصر ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ تصویرکا دوسرا رخ پیش کرنے سے موقف کمزور ہوجاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنے سے موقف کمزور نہیں ہوتا بلکہ وہ زیادہ قابل قبول ہو جاتا ہے۔
ان عناصر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ جب آپ ان کے نقطہ نظر کے خلاف کوئی دلیل پیش کریں گے تو یہ آپ کی دلیل کو توجہ سے سننے اور اس کے صحیح اور درست ہونے کی صورت میں تسلیم کرنے کے بجائے اپنے ذہن کو اس جانب متحرک رکھیں گے کہ آپ کی بات کے جواب میں اس کے توڑ کا کیا جواب دیا جائے۔ چاہے اس کا منطق سے تعلق ہو یا نہ ہو۔ آپ کے خاموش ہوتے ہی جوابی گولہ تیار۔ اپنے حریف پر بالادستی حاصل کرنے کے لیے ایک اور حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ یہ کہ جو بات بھی کی جا رہی ہو اس بات کو اس کے دائرے سے نکال کر دوسرے دائرے میں لایا جائے، جس سے اصل موضوع کا کوئی تعلق نہ ہو۔ یوں گفتگو کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوجاتی ہے۔ ٹی وی چینل پر ہونے والے ٹاک شوز میں اس کے مناظر دیکھے جاسکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ انتہا پسندی کے رویے کا خاتمہ کیسے کیا جائے ؟ میرے نزدیک اگر ہم فلسفہ، ادب اور تاریخ کو اپنے مطالعے کا حصہ بنالیں تو انتہا پسندی کے رویے کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے، فلسفے کی بنیاد لفظ کیوں پر ہے اس سے انسان میں منطقی سوچ پیدا ہوتی ہے۔ فلسفہ ہمیں بتاتا ہے کہ نقطہ نظر کیسے وجود میں آتا ہے۔ اس کی مدد سے ہمیں دوسروں کی بات سمجھنے اور اپنی بات سمجھانے میں مدد ملتی ہے۔ ادب انسان میں احساس کی قوت کو جگاتا ہے، جس سے انسان کے رویے میں نرمی پیدا ہوتی ہے۔ تاریخ کے مطالعے سے ہمیں تاریخی شعور حاصل ہوتا ہے، جس کی مدد سے ہم بحرانوں کا تجزیہ کرنے اور مسائل کی اصل وجوہات کی تہہ تک پہنچنے اور اس کے حل کی صلاحیت حاصل کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔
تاریخ اس بنیاد پر ہم سے تحقیق میں غیر جانبداری اور سائنسی انداز فکر کا مطالعہ کرتی ہے۔ اس کے برعکس ہم تاریخ کو جذبات کی عینک سے دیکھتے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم تاریخ کو اپنی خواہشات کے مطابق موڑ دیتے ہیں ، نتیجے میں ہم تاریخی شعور سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ہمارا یہ رویہ انتہا پسندی کو فروغ دیتا ہے۔ ہمیں تاریخ کے حوالے سے اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ دنیا کا تہذیب و تمدن کسی ایک قوم کی کوششوں سے پروان نہیں چڑھا بلکہ اقوام عالم کی مجموعی کوششوں کا ثمر ہے۔ لہٰذا کسی بھی قوم کو صرف اپنے علمی اور تاریخی سرمایہ پر انحصار نہیں کرلینا چاہیے بلکہ عالمی تاریخ (قدیم اور جدید) کو اپنے مطالعے کا حصہ بنانا چاہیے اس کے مطالعے کے نتیجے میں قوموں کی تہذیبی اور تمدنی سطح جانچنے اور ان کی فکر کی گہرائیوں کا اندازہ لگانے اور ان کے خیالات اور رجحانات کے بارے میں واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ اس سے اجنبیت کا خاتمہ اور محبت اور امن کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔
تاریخ کے مطالعے کے حوالے سے ہم ایک غلطی اور بھی کرتے ہیں وہ یہ کہ ہم سیاسی تاریخ کو ہی تاریخ سمجھتے ہیں وہ بھی شخصیات کے حوالے سے مثلاً مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو ہم اس کی ذمے داری اس دور کی کسی ایک سیاسی شخصیت پر ڈال دیتے ہیں جب کہ اس علیحدگی کے سیاسی، سماجی اور معاشی عوامل بھی تھے جن کو ہم نظرانداز کردیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہم بحرانوں کا درست تجزیہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ شخصیات خود حالات کی پیداوار ہوتی ہیں۔ حالات کی تبدیلی کے ساتھ ہی شخصیات کا کردار ختم ہو جاتا ہے اور تاریخ صرف سیاسی تاریخ نہیں ہوتی بلکہ ہر شعبہ زندگی چاہے وہ معاشرت ہو، معیشت ہو یا مذہب اور سائنس اپنی ایک تاریخ رکھتی ہے۔ جب تک ہم تاریخ کا ان حوالوں سے مطالعہ نہیں کریں گے تاریخی شعور سے محروم رہیں گے۔ جو انتہا پسندی کی بڑی وجہ ہے۔
میرے نزدیک انتہا پسندی کے خاتمے میں اساتذہ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ایک استاد اپنے طلبا کے سامنے اشتراکیت اور سرمایہ داری نظام کا تقابلی جائزہ پیش کرتا ہے۔ وہ ایسا کرتے وقت ان دونوں نظاموں میں صرف ایک نظام کی خوبیاں بتائے اور دوسرے نظام کی خامیاں اور ان کی تشریح کرتے وقت اپنے ذاتی خیالات اور نصاب کو شامل کرے تو ہم اسے تعلیم نہیں بلکہ پروپیگنڈے کا نام دیں گے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک کے بیشتر اساتذہ کسی تحریک سے متاثر ہوکر اس سے وابستگی اختیارکرلیتے ہیں یہ وابستگی ان سے ایک خاص قسم کی وفاداری کا تقاضا کرتی ہے، جس کی وجہ سے وہ گروہی سیاست میں ملوث ہوکر اپنی آزادی کھو دیتے ہیں۔ نتیجے میں طلبا میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرنے کے بجائے انھیں پروپیگنڈے کا شکار بنادیتے ہیں۔ یہ پروپیگنڈا انتہا پسندی کے فروغ کا باعث بنتا ہے۔