روہنگیا مسلم مہاجرین عالمی بے حسی کی انتہا

میانمار ان روہنگیا مسلمانوں کو قبول کرنے سے واضح طور پر ہچکچا رہا ہے اور اس معاملے میں عالمی بے حسی بھی انتہا کی ہے

روہنگیا مسلمانوں کی گھر واپسی اور بحالی کو مسلسل کھٹائی میں ڈالا جارہا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

2017 میں میانمار سے بنگلہ دیش جانے والے روہنگیا مسلمانوں کی خانہ بدوشی کے بعد ان بیچارے بے گھر اور غریب الوطن روہنگیا کے مسلمانوں کے بارے میں ساری دنیا نے لکھا تو بہت کچھ، مگر کیا ابھی تک کچھ نہیں۔ دو سال ہونے کو آئے مگر اس نام نہاد مہذب دنیا نے ان مسلمانوں کے بارے کچھ بھی نہیں کیا، یہاں تک کہ ان کے بارے اب کوئی بات ہی نہیں کررہا۔ دنیا نے جیسے ان مظلوموں پر ہوئے مظالم کو طاق نسیاں میں ڈال دیا اور کیوں نہ ڈالے۔ یہ مسلمان جو ٹھہرے۔ اگر دنیا کا کوئی اور مذہبی طبقہ ہوتا تو اب تک بہت کچھ ہوچکا ہوتا۔ ممکن تھا کہ برما پر حملہ بھی ہوچکا ہوتا اور اس کے خلاف ہر طرح کی پابندیاں بھی لگ چکی ہوتیں۔

ان روہنگیا مسلمانوں کی گھر واپسی اور بحالی کو مسلسل کھٹائی میں ڈالا جارہا ہے۔ میانمار اس سلسلے میں کچھوے کی چال سے بھی سست ہے۔ جو روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ گزین ہیں، وہ چٹاگانگ والوں سے ہر طرح کی مماثلت رکھتے ہیں۔ ان کے حلیے بول چال اور رہن سہن کا انداز چٹاگانگ والوں سے ملتا جلتا ہے۔ بنگلہ دیش والوں کو ڈر ہے کہ یہ اپنی اس مماثلت کی بنا پر یہیں کے ہی ہوکر نہ رہ جائیں۔ آنگ سان سوچی اور اس کا آرمی چیف من آنگ ہلینگ بہت ہی پرسکون ہیں کہ ان سے جان چھوٹی اور یہ میانمار سے نکل گئے۔ اب وہ دوبارہ انہیں اپنے ملک میں لانے میں تامل محسوس کررہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہ کبھی واپس ہی نہ آئیں۔ اس سلسلے میں سفارتی سستی بھی یہی ظاہر کرتی ہے کہ میانمار ان روہنگیا مسلمانوں کو قبول کرنے سے واضح طور پر ہچکچا رہا ہے۔

اس علاقے کے بڑے ممالک انڈیا اور چین، جو روہنگیا مسلمانوں کی وطن واپسی کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور اس کی مخالفت کررہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ روہنگیا مسلمان بنگالی ہیں اور انہیں بنگال میں ہی رہنا چاہیے۔ مزید وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں بنگلہ دیش ہی کی پشت پناہی حاصل ہے۔ کیونکہ میانمار کے ہمسایہ ممالک میں بنگلہ دیش ہی ایک مسلمان ملک ہے۔


ہندوستان ہندو اکثریت اور برما یعنی میانمار بدھ اکثریت والا ملک ہے۔ جب کہ چین میں کسی مذہب کا نام لینا ہی جرم ہے۔ انڈیا کی مودی حکومت نے چالیس ہزار روہنگیا مسلمان مہاجرین کو پناہ دینے سے انکار کردیا تھا، جس پر اقوام متحدہ نے ناچار ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا تھا۔ ہندوستان مسلم دشمنی میں ہمیشہ اخلاقیات کو پس پشت ڈالتا ہے۔ اسی تناظر میں مودی اور اس کے آرمی چیف کو بنگلہ دیش کی مسلم اکثریت اور بنگلہ دیش کی بڑھتی ہوئی آبادی پر بھی بہت سے تحفظات ہیں۔ علاوہ ازیں انڈیا اپنا اثر و رسوخ بے آف بنگال میں بڑھانا چاہتا ہے، تاکہ اپنے کمزور ہمسایہ ممالک کو آنکھیں دکھاتا رہے۔

ہندوستان اور میانمار ملتزم ہیں کہ بنگلہ دیش کی مسلم اکثریت ان کے علاقوں میں داخل ہوتی رہتی ہے۔ دوسری طرف چین ہے، جس نے اپنی بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ کے سلسلے میں راکھائین میں بھاری سرمایہ کاری بھی کی ہوئی ہے۔ چین بے آف بنگال کے ذریعے بحر ہند تک رسائی چاہتا ہے۔ اس لیے چین نے ان تمام مظالم کو، جو روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے گئے، یکسر نظر انداز کیا۔ چین میں مذہبی آزادی کا نام تک نہیں لیا جاسکتا۔ چین میں موجود مسلمان چینی حکومت کی آنکھ میں بال ہیں۔ چینی اور ہندوستانی حکومتیں میانمار کو اپنے زیر اثر کرنے میں مقابلہ کررہی ہیں، اسی لیے انہیں روہنگیا مسلمانوں پر ہوئے ریاستی مظالم پر زبان کھولنا یا ان کی مذمت تک کرنا بھی گوارا نہیں ہوا۔

اگر روس کی پالیسی کا جائزہ لیں تو وہ بھی مسلم مخالف ہی نظر آتی ہے۔ روس آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ سے نالاں ہے۔ اسے بھی مسلمانوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ اس تناظر میں مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ نے بھی اپنے کردار سے غفلت برتی اور دنیا کے تھانے دار امریکا نے بھی اپنی تھانے داری مسلمانوں کو ہی دکھائی۔ غیر سرکاری تنظیموں کی ویسے ہی موج لگی ہوئی ہے کہ انہیں مخیر حضرات اور اداروں سے بہت سا چندہ وصول ہوجاتا ہے۔ اور وہ امدادی سرگرمیوں میں ہی خوش ہیں۔ اس ساری صورت حال کا جائزہ لیں تو مستقبل میں دور دور تک اس مسئلے کا کوئی مناسب اور قابل عمل حل نظر نہیں آرہا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story