قومی مشاعرہ اور ضلعی حکومت
یہ طوفان پشاور کی ضلعی حکومت نے اس’’قومی مشاعرے‘‘کی صورت میں اٹھایا جو پندرہ جون کو نشترہال میں برپاہوا۔
مرشد نے کہاہے کہ
دل میں پھر گریہ نے اک شور اٹھایاغالب
آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سوطوفان نکلا
یہ طوفان پشاور کی ضلعی حکومت نے اس''قومی مشاعرے''کی صورت میں اٹھایا جو پندرہ جون کو نشترہال میں برپاہوا اور جس میں پاکستان بھر کے اردو،پشتو،ہندکو اور سرائیکی شعرا کی نمایندگی موجود تھی۔ہمیں ایک گونہ حیرت ہوئی جب اباسین یوسف زئی نے اس مشاعرے کی دعوت دی۔ یہ سارا کارنامہ ہی اباسین یوسف زئی کا تھا، اگر تمام بوجھ ضلعی حکومت اور اس کے ناظم اعلیٰ عاصم خان نے اٹھایا تھا لیکن انتظامات کے لیے اباسین یوسف زئی ہی روح رواں تھا۔اباسین یوسف زئی کے ساتھ ہمارا سرسید اور اکبرالہ آبادی جیسا تعلق ہے۔ اکبرالہ آبادی بھی سرسید احمدخان کی چٹکیاں جی بھر کر لیتاتھا لیکن سید کی وفات پر اس نے یوں خراج عقیدت پیش کیا کہ
ہماری باتیں ہی باتیں تھیں سید''کام''کرتاتھا
ہماری بھی صرف باتیں ہی باتیں ہیں، اباسین یوسف زئی کام کرتاہے، جب بھی ایسا کوئی ایونٹ اس کے ہاتھ آتاہے اور اکثر آتاہے کیونکہ اباسین یوسف زئی بہترین اسپیکر اور منتظم قسم کا آدمی ہے۔اور اس کی ترجیح ہوتی ہے کہ ان شاعروں کو شامل کیاجائے جو اچھے شاعر ہونے کے باوجود محروم،مجبور،مستحق اور مدد کے لائق ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسا کام ہے جس پر ہم اسے سات خون بھی معاف کرسکتے ہیں کہ ''بسولہ''اپنی طرف نہیں مارتا بلکہ آرے کی طرح دوسروں کو بھی کچھ نہ کچھ دلادیتاہے۔لیکن سب سے بڑی حیرت ہمیں ضلعی حکومت اور اس کے ناظم اعلیٰ عاصم خان پرہوئی، ان کی تصویریں اور خبریں ہم دیکھتے تھے تو کبھی سان وگمان بھی نہیں تھا کہ وہ اتنا بڑا''طوفان'' اٹھائیں گے۔
کیونکہ ادب نوازی اور فنکار نوازی کاباب موجودہ صوبائی حکومت کے آتے ہی مکمل طور پر بند ہوچکا ہے۔ حالانکہ پرویزخٹک کے دور میں پہلی بار فنکاروں، شعراء، ادباء اور نادار اور کسمپرسوں کی اشک شوئی ہوئی تھی اور بڑی اچھی ہوئی تھی۔لیکن نئے سیٹ اپ میں اور سب تو چھوڑیے کہ ثقافت کا محکمہ ہی نہ جانے کس جہاں میں کھو چکاہے اور یہ ایک بہت بڑا عجیب واقعہ ہے کہ محکمے کا وزیر بھی موجود ہے، سیکریٹری بھی ہے اور باقی سارے چٹے بٹے بھی ہیں لیکن ''محکمے''کا کہیں نام ونشان تک نہیں ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ موجودہ سیٹ اپ میں وزیراعلیٰ کا مصرف تو صرف افتتاح کرنا اور حسب معمول ''گا''، گے، گی کا وظیفہ پڑھناہے اور سیاہ وسفید کے مالک دو وزیر ہیں جن کو شاید''فن وفنکار'' کا پتہ نہیں کہ ایسی کوئی مخلوق بھی صوبے میں ہوتی ہے۔
یہ محکمہ کتابیں چھپوانے کے لیے فنڈ بھی دیتارہاہے لیکن چار پانچ سال میں دو لفظوںکے چھپوانے کی بھی غلطی نہیں کی ہے اور اس کا پتہ ہمیں اس لیے ہے کہ دوتین سال سے خود ہماری اپنی کتاب اس کے دفاتر میں کہیں میزوں پرلڑھک رہی ہے۔ پہلے ہم اس کا پوچھتے تھے جس کا جواب''فنڈز'' نہیں ہیں کی صورت میں ملتاہے اور یہ تو ہم نے آپ کو کسی پچھلے کالم میں بتارکھاہے کہ ''فنڈز''نہیں''۔کے بعد۔یہ جو ''ہیں''لگایاجاتاہے ساراچکر اسی''ہیں'' بلکہ ''نہیں''اور''ہیں'' میںہے۔ ''فنڈز نہیں'' پر بات ختم ہوجانی چاہیے اور عوام ''ختم'' بھی سمجھ لیتے ہیں لیکن اس کے بعد خواہ مخواہ کا یہ ''ہیں''۔فنڈز نہیں، ہیں۔
صاف صاف یہ کہیے کہ باہر والوں کے لیے ''نہیں'' اور اندر والوں کے لیے ''ہیں''۔خیریہ تو بیچ میں ویسے ہی ایک بات نے دُم ہلائی، اصل بات ضلعی حکومت کا اتنا بڑا طوفان اٹھانے کی ہے۔ ایک ایسا مشاعرہ جو ہرلحاظ سے مثالی تھا،نہ کہیں کسی شاعر کو شکایت ہوئی نہ سامعین کو۔ کھانے پینے کا باقاعدہ لگژری اور بے خطا انتظام تھا۔ یہاں تک کہ مشاعرے کے دوران باہر چائے پانی اور شربت کے سماوار بھی صلائے عام تھے یاران تشنہ کام کے لیے۔جتنے اچھے طریقے پر یہ مشاعرہ ہوا اتنے اچھے طریقے پر سنا بھی گیا اور سراہا بھی گیا۔
ہماری حیرت ابھی تک رفع نہیں ہوئی ہے کہ تصاویر میں دکھائی دینے والے ناظم اعلیٰ عاصم خان کے اندریہ ''گن''جو آخرتک شاعروں کے درمیان بیٹھ کر مشاعرے کو ایک سامع کی طرح سنتے اور انجوائے بھی کرتے رہے ، وہ بھی اسٹیج کی کسی خاص کرسی پرنہیں بلکہ سامعین میں بیٹھ کر۔ہم نے یہاں بھی اپنی تحقیق کا سلسلہ جاری رکھا اور ادھر ادھر کھوجتے رہے کہ ان کاتعلق کس خاندان سے ہے لیکن کوئی خاص ایسی کڑی نہیں ملی۔
لیکن یقین اب بھی ہے کہ ضرور اس کے خون میں کہیں نہ کہیں ادب اور ادب دوستی کا کوئی دھارا شامل ہوگا۔ بہرحال بعد مدت اور انتہائی مایوسی (صوبائی حکومت سے) کے عالم میں ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا تھا جس کی یاد مدتوں تک دلوں میں زندہ رہے گی اور بچارے کسمپرس شعراء وادباء کو بھی احساس ہوگیاہوگا کہ کوئی تو ان کا پوچھنے والا بھی ہے۔باقی تو پشتو کہاوت کے مطابق ''سدم تہ شین دے''۔ ویسے بھئی ''ان''سے گلہ کرنا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ ''ان'' کے پاس بھی ''وقت کم''اور ''کام'' (کرنے والا نہیں دکھانے والا) بہت ہے۔ شعروادب اور فکروفن کے لیے وقت کہاں۔ وہ ایک عورت دوسری سے شکایت کررہی تھی کہ بہن کیا کروں، آج کل اتنا کام ہے کہ کسی کے ساتھ'' بھاگنے'' کے لیے بھی وقت نہیں ہے جب کہ فنڈز بھی نہیں، ہیں۔
جب تک دہان زخم نہ پیدا کرے کوئی
مشکل کہ تم سے راہ سخن وا کرے کوئی
دل میں پھر گریہ نے اک شور اٹھایاغالب
آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سوطوفان نکلا
یہ طوفان پشاور کی ضلعی حکومت نے اس''قومی مشاعرے''کی صورت میں اٹھایا جو پندرہ جون کو نشترہال میں برپاہوا اور جس میں پاکستان بھر کے اردو،پشتو،ہندکو اور سرائیکی شعرا کی نمایندگی موجود تھی۔ہمیں ایک گونہ حیرت ہوئی جب اباسین یوسف زئی نے اس مشاعرے کی دعوت دی۔ یہ سارا کارنامہ ہی اباسین یوسف زئی کا تھا، اگر تمام بوجھ ضلعی حکومت اور اس کے ناظم اعلیٰ عاصم خان نے اٹھایا تھا لیکن انتظامات کے لیے اباسین یوسف زئی ہی روح رواں تھا۔اباسین یوسف زئی کے ساتھ ہمارا سرسید اور اکبرالہ آبادی جیسا تعلق ہے۔ اکبرالہ آبادی بھی سرسید احمدخان کی چٹکیاں جی بھر کر لیتاتھا لیکن سید کی وفات پر اس نے یوں خراج عقیدت پیش کیا کہ
ہماری باتیں ہی باتیں تھیں سید''کام''کرتاتھا
ہماری بھی صرف باتیں ہی باتیں ہیں، اباسین یوسف زئی کام کرتاہے، جب بھی ایسا کوئی ایونٹ اس کے ہاتھ آتاہے اور اکثر آتاہے کیونکہ اباسین یوسف زئی بہترین اسپیکر اور منتظم قسم کا آدمی ہے۔اور اس کی ترجیح ہوتی ہے کہ ان شاعروں کو شامل کیاجائے جو اچھے شاعر ہونے کے باوجود محروم،مجبور،مستحق اور مدد کے لائق ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسا کام ہے جس پر ہم اسے سات خون بھی معاف کرسکتے ہیں کہ ''بسولہ''اپنی طرف نہیں مارتا بلکہ آرے کی طرح دوسروں کو بھی کچھ نہ کچھ دلادیتاہے۔لیکن سب سے بڑی حیرت ہمیں ضلعی حکومت اور اس کے ناظم اعلیٰ عاصم خان پرہوئی، ان کی تصویریں اور خبریں ہم دیکھتے تھے تو کبھی سان وگمان بھی نہیں تھا کہ وہ اتنا بڑا''طوفان'' اٹھائیں گے۔
کیونکہ ادب نوازی اور فنکار نوازی کاباب موجودہ صوبائی حکومت کے آتے ہی مکمل طور پر بند ہوچکا ہے۔ حالانکہ پرویزخٹک کے دور میں پہلی بار فنکاروں، شعراء، ادباء اور نادار اور کسمپرسوں کی اشک شوئی ہوئی تھی اور بڑی اچھی ہوئی تھی۔لیکن نئے سیٹ اپ میں اور سب تو چھوڑیے کہ ثقافت کا محکمہ ہی نہ جانے کس جہاں میں کھو چکاہے اور یہ ایک بہت بڑا عجیب واقعہ ہے کہ محکمے کا وزیر بھی موجود ہے، سیکریٹری بھی ہے اور باقی سارے چٹے بٹے بھی ہیں لیکن ''محکمے''کا کہیں نام ونشان تک نہیں ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ موجودہ سیٹ اپ میں وزیراعلیٰ کا مصرف تو صرف افتتاح کرنا اور حسب معمول ''گا''، گے، گی کا وظیفہ پڑھناہے اور سیاہ وسفید کے مالک دو وزیر ہیں جن کو شاید''فن وفنکار'' کا پتہ نہیں کہ ایسی کوئی مخلوق بھی صوبے میں ہوتی ہے۔
یہ محکمہ کتابیں چھپوانے کے لیے فنڈ بھی دیتارہاہے لیکن چار پانچ سال میں دو لفظوںکے چھپوانے کی بھی غلطی نہیں کی ہے اور اس کا پتہ ہمیں اس لیے ہے کہ دوتین سال سے خود ہماری اپنی کتاب اس کے دفاتر میں کہیں میزوں پرلڑھک رہی ہے۔ پہلے ہم اس کا پوچھتے تھے جس کا جواب''فنڈز'' نہیں ہیں کی صورت میں ملتاہے اور یہ تو ہم نے آپ کو کسی پچھلے کالم میں بتارکھاہے کہ ''فنڈز''نہیں''۔کے بعد۔یہ جو ''ہیں''لگایاجاتاہے ساراچکر اسی''ہیں'' بلکہ ''نہیں''اور''ہیں'' میںہے۔ ''فنڈز نہیں'' پر بات ختم ہوجانی چاہیے اور عوام ''ختم'' بھی سمجھ لیتے ہیں لیکن اس کے بعد خواہ مخواہ کا یہ ''ہیں''۔فنڈز نہیں، ہیں۔
صاف صاف یہ کہیے کہ باہر والوں کے لیے ''نہیں'' اور اندر والوں کے لیے ''ہیں''۔خیریہ تو بیچ میں ویسے ہی ایک بات نے دُم ہلائی، اصل بات ضلعی حکومت کا اتنا بڑا طوفان اٹھانے کی ہے۔ ایک ایسا مشاعرہ جو ہرلحاظ سے مثالی تھا،نہ کہیں کسی شاعر کو شکایت ہوئی نہ سامعین کو۔ کھانے پینے کا باقاعدہ لگژری اور بے خطا انتظام تھا۔ یہاں تک کہ مشاعرے کے دوران باہر چائے پانی اور شربت کے سماوار بھی صلائے عام تھے یاران تشنہ کام کے لیے۔جتنے اچھے طریقے پر یہ مشاعرہ ہوا اتنے اچھے طریقے پر سنا بھی گیا اور سراہا بھی گیا۔
ہماری حیرت ابھی تک رفع نہیں ہوئی ہے کہ تصاویر میں دکھائی دینے والے ناظم اعلیٰ عاصم خان کے اندریہ ''گن''جو آخرتک شاعروں کے درمیان بیٹھ کر مشاعرے کو ایک سامع کی طرح سنتے اور انجوائے بھی کرتے رہے ، وہ بھی اسٹیج کی کسی خاص کرسی پرنہیں بلکہ سامعین میں بیٹھ کر۔ہم نے یہاں بھی اپنی تحقیق کا سلسلہ جاری رکھا اور ادھر ادھر کھوجتے رہے کہ ان کاتعلق کس خاندان سے ہے لیکن کوئی خاص ایسی کڑی نہیں ملی۔
لیکن یقین اب بھی ہے کہ ضرور اس کے خون میں کہیں نہ کہیں ادب اور ادب دوستی کا کوئی دھارا شامل ہوگا۔ بہرحال بعد مدت اور انتہائی مایوسی (صوبائی حکومت سے) کے عالم میں ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا تھا جس کی یاد مدتوں تک دلوں میں زندہ رہے گی اور بچارے کسمپرس شعراء وادباء کو بھی احساس ہوگیاہوگا کہ کوئی تو ان کا پوچھنے والا بھی ہے۔باقی تو پشتو کہاوت کے مطابق ''سدم تہ شین دے''۔ ویسے بھئی ''ان''سے گلہ کرنا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ ''ان'' کے پاس بھی ''وقت کم''اور ''کام'' (کرنے والا نہیں دکھانے والا) بہت ہے۔ شعروادب اور فکروفن کے لیے وقت کہاں۔ وہ ایک عورت دوسری سے شکایت کررہی تھی کہ بہن کیا کروں، آج کل اتنا کام ہے کہ کسی کے ساتھ'' بھاگنے'' کے لیے بھی وقت نہیں ہے جب کہ فنڈز بھی نہیں، ہیں۔
جب تک دہان زخم نہ پیدا کرے کوئی
مشکل کہ تم سے راہ سخن وا کرے کوئی