پلیجو کی پہلی برسی
اچھا لگا کہ یہ کوئی روایتی قسم کی برسی نہیں تھی بلکہ رسول بخش پلیجو کی عالمانہ و سیاسی قد کا جشنِ اعتراف تھا۔
سندھ کے ایک بڑے دماغ رسول بخش پلیجو کے انتقال کو ایک برس ہو گیا۔پہلی برسی کی مناسبت سے تین تقریبات ہوئیں، ایک ٹھٹھہ میں، دوسری آرٹس کونسل کراچی میں اور تیسری پلیجو صاحب کے آبائی گاؤں گوٹھ منگھر خان پلیجو ( جنگ شاہی ) میں۔یعنی ایک تقریب عوامی رابطہ تحریک نے منظم کی ، دوسری ایاز لطیف پلیجو کی جماعت قومی عوامی تحریک نے اور تیسری رسول بخش پلیجو کی عوامی تحریک نے منعقد کی۔ دو تقریبات میں پیشہ ورانہ مصروفیات کے سبب خواہش کے باوجود شرکت کا موقع نہیں مل سکا۔البتہ گوٹھ منگھر خان کی تقریب میں شرکت کر پایا۔
اچھا لگا کہ یہ کوئی روایتی قسم کی برسی نہیں تھی بلکہ رسول بخش پلیجو کی عالمانہ و سیاسی قد کا جشنِ اعتراف تھا۔ اس میں کھوپرے کی مٹھائی اور مذہبی نشانات والی جیولری کے چند ٹھیلے اور اسٹال کسی پیر کے عرس کا تاثر بھی دے رہے تھے ، مگر سندھیانی تحریک کی خواتین کا جمِ غفیر اور عوامی تحریک کے کارکنوں اور ہمدردوں کا ایک منظم ہجوم انقلابی نعرے بھی لگا رہا تھا۔اسٹیج پر بچے بچیوں کے ترانے دار ٹیبلوز بھی ہو رہے تھے۔جلسہ بھی فرشی تھا اور پنڈال پر بھی کرسی نہ تھی۔اسٹیج کے سامنے جتنی بڑی خلقت سکون سے بیٹھی تھی اتنی بہت سے رہنماؤں کو زندگی میں بھی میسر نہیں آتی۔
اسٹیج پر نشستند شخصیات میں ان جماعتوں کے نمایندے بھی تھے جن کی سیاست و نظریے سے پلیجو صاحب اتفاق نہیں کرتے تھے مگر ان کی موجودگی ظاہر کر رہی تھی کہ پلیجو کا کام پلیجو کی ذات سے بڑا ہے۔شائد پلیجو جیسا وسیع المشرب و روادار سماج دیکھنا چاہتے تھے پنڈال اس کا چھوٹا سا نمونہ تھا۔
جس نے نماز پڑھنی تھی اس نے اسٹیج کے ہی ایک کونے میں جماعت کا اہتمام کر لیا ، جسے انقلابی دھن پر رقص کرنا تھا اس نے وہ کر لیا۔عجیب اسٹیج تھا جہاں مارکس ، لینن، اسٹالن، ماؤ اور شاہ لطیف ساتھ ساتھ تھے اور سندھیانی تحریک کی یونیفارمڈ بچیوں کے دستے نے ان سب کو سلامی دی ، پلیجو صاحب کے لیے دعاِ خیر بھی ہوئی ، کیمونسٹ انٹرنیشنل کا ترانہ بھی بجا ، کسی نے قوم پرستی کی کیسٹ بجائی تو کسی نے بین الاقوامیت کی دلیلی دوربین متعارف کروائی اور کسی نے اپنے خطاب میں جی ایم سید رہبر آ اور جئے پلیجو ایک ہی دھاگے میں پرو دیا۔تشدد کی بات کسی نے نہیں کی، تبدیلی کی بات اپنے اپنے انداز میں ضرور کی گئی۔دو نئی کتابوں کی بھی رونمائی ہوئی۔ایک کا نام ہے ''رسول بخش پلیجو ، مضامین ، انٹرویوز ، تقاریر''اور دوسری ہے '' عالمی سیاسی منظر نامہ''۔
اگر سندھ اور پاکستان اور خطے اور دنیا کا سماج بھی ایسا ہی ہو جائے جیسا کہ پنڈال میں تھا تو کیا ہی بات ہے۔مگر چند گھنٹے کے لیے ہی سہی پر دیکھ تو لیا کہ '' سانس لو اور سانس لینے دو'' کا کیا مطلب ہوتا ہے۔
اچھی بات یہ تھی کہ پلیجو خاندان کے اندر بھلے ہی رسول بخش پلیجو کی فکری و سیاسی میراث کو لے کر جو بھی رسہ کشی چل رہی ہو مگر جلسے میں سب ہی متاثرینِ پلیجو بلا امتیاز شریک تھے۔رہی بات گروہ بندی کی تو یہ کلیہ کسی ایک جماعت پر نہیں بلکہ دائیں اور بائیں بازو کی تمام نظریاتی جماعتوں بشمول قوم پرست و وفاق پرست جماعتوں پر یکساں لاگو ہوتا ہے۔ مرکزی رہنما کے ہٹتے ہی بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ خلا خوش اسلوبی اور منظم طریقے سے فراغ دلی کے ساتھ پر ہو جائے۔اس جذبے کو انا پرستی ، ایک دوسرے کو ذاتی طور پر نیچا دکھانے کی کوشش اور سب میرا ہے کی جبلت ختم کر کے رکھ دیتی ہے۔یہ پروسس اپنے جوہر میں نہ اچھا ہے نہ برا ہے بلکہ فطری ہے۔
جیسے جیسے وقت گذرتاہے، گردبیٹھنے لگتی ہے، ترجیحات واضح ہونے لگتی ہیں اور صرف وہی نظریاتی وارث رہ جاتے ہیں جنھیں اردگرد کی عارضی ترغیبات اپنے ڈھرے سے ہلنے نہیں دیتیں۔اگر عوامی تحریک کے ساتھ بھی یہ ہو رہا ہے تو یہ بھی ارتقائی مدو جزر کا ہی عمل ہے۔اچھی بات یہ ہے کہ عوامی تحریک کی موجودہ قیادت موروثیت سے بچنے کے لیے انتخابی عمل اپنانے پر مجبور ہو گئی ہے۔اگر یہ کوشش برقرار رہتی ہے تو اس کا فائدہ ہی ہوگا اور شائد باقی نامزد گزیدہ تنظیمیں بھی اس سے کچھ سیکھ لیں۔
اینٹ پتھر کی وراثت پر دعوے داری سے قطع نظر پلیجو کی اصل وراثت فوری نتائج کے بجائے دورس اہداف حاصل کرنے کی جدوجہد تھی۔انھوں نے کبھی انتخابی سیاست اور اس سے نتھی سمجھوتے بازی کی مجبوریوں کو پاؤں کی بیڑی نہیں بننے دیا۔فاضل راہو اور پلیجو نے کوشش کی کہ ان کے زیر تربیت حضرات و خواتین و بچے بھلے آگے چل کے کہیں بھی رہیں ، کوئی بھی راستہ اپنائیں، کسی بھی پارٹی میں شامل ہوں مگر اپنے خمیر میں تنگ نظر نہ ہوں، دھرتی سے ضرور جڑے رہیں مگر صرف دھرتی کو ہی خدا نہ سمجھیں اور اپنے جیسے دیگر محروموں اور محکوموں پر بھی نظر رکھیں اور روابط استوار کریں۔
مگر یہ کام عورت کو ہم قدم کیے بغیر ممکن نہیں اور نہ ہی ان پڑھی کے زعم اور روایتی نعرے بازی کے ذریعے پھیپھڑے تھکانے سے ممکن ہے۔اس کے لیے دورس نگاہی چاہیے اور اس کے لیے پڑھائی کرنی پڑتی ہے اور صرف اپنے خیالات سے ہم آہنگ لٹریچر ہی نہیں پڑھنا بلکہ اوروں نے کیا لکھا ؟ اس پر بھی دھیان دینا ہے۔اگر کسی کی اس بنیادی پیغام پر نظر نہیں تو وہ بھلے زندگی بھر مرنے والوں کو عظیم ثابت کرتا پھرے مگر اس '' عظیم '' کا کام آگے نہیں بڑھا سکتا۔
لہذا جو کسی ایک بچے کو پڑھا سکتا ہے وہ یہ کام کرے، جو کسی کا انسانیت کے ناتے علاج کر سکتا ہے وہ کرے ، جو کسی کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد کر سکتا ہے وہ کرے۔اور یہ سوچ کے کرے کہ کوئی احسان نہیں۔اگر یہ سب نہیں ہو سکتا تو صرف جئے پلیجو کہنے سے کچھ نہیں ہو سکتا۔
اب آپ پوچھ سکتے ہیں کہ میں یہ سب کیوں لکھ رہا ہوں۔میری صحافتی غیر جانبداری کہاں گئی ؟ صحافتی غیر جانبداری صرف یہی نہیں کہ ایک فریق کیا کہہ رہا ہے اور دوسرا کیا کہہ رہا ہے۔بلکہ غیر جانبداری کا یہ بھی تقاضا ہے کہ اگر کوئی ایسی شخصیت سامنے آئے جس نے اپنی پوری زندگی دوسروں کے دماغ کھولنے کی کوشش میں کھپا دی تو ایسے شخص کی میراث پر غیر جانبدارانہ انداز سے بات کرنا ہی دراصل غیر جانبداری ہے۔جب ایسوں پر بھی کھل کے بات نہ ہو تو پھر کیسوں پر ہو ؟
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
اچھا لگا کہ یہ کوئی روایتی قسم کی برسی نہیں تھی بلکہ رسول بخش پلیجو کی عالمانہ و سیاسی قد کا جشنِ اعتراف تھا۔ اس میں کھوپرے کی مٹھائی اور مذہبی نشانات والی جیولری کے چند ٹھیلے اور اسٹال کسی پیر کے عرس کا تاثر بھی دے رہے تھے ، مگر سندھیانی تحریک کی خواتین کا جمِ غفیر اور عوامی تحریک کے کارکنوں اور ہمدردوں کا ایک منظم ہجوم انقلابی نعرے بھی لگا رہا تھا۔اسٹیج پر بچے بچیوں کے ترانے دار ٹیبلوز بھی ہو رہے تھے۔جلسہ بھی فرشی تھا اور پنڈال پر بھی کرسی نہ تھی۔اسٹیج کے سامنے جتنی بڑی خلقت سکون سے بیٹھی تھی اتنی بہت سے رہنماؤں کو زندگی میں بھی میسر نہیں آتی۔
اسٹیج پر نشستند شخصیات میں ان جماعتوں کے نمایندے بھی تھے جن کی سیاست و نظریے سے پلیجو صاحب اتفاق نہیں کرتے تھے مگر ان کی موجودگی ظاہر کر رہی تھی کہ پلیجو کا کام پلیجو کی ذات سے بڑا ہے۔شائد پلیجو جیسا وسیع المشرب و روادار سماج دیکھنا چاہتے تھے پنڈال اس کا چھوٹا سا نمونہ تھا۔
جس نے نماز پڑھنی تھی اس نے اسٹیج کے ہی ایک کونے میں جماعت کا اہتمام کر لیا ، جسے انقلابی دھن پر رقص کرنا تھا اس نے وہ کر لیا۔عجیب اسٹیج تھا جہاں مارکس ، لینن، اسٹالن، ماؤ اور شاہ لطیف ساتھ ساتھ تھے اور سندھیانی تحریک کی یونیفارمڈ بچیوں کے دستے نے ان سب کو سلامی دی ، پلیجو صاحب کے لیے دعاِ خیر بھی ہوئی ، کیمونسٹ انٹرنیشنل کا ترانہ بھی بجا ، کسی نے قوم پرستی کی کیسٹ بجائی تو کسی نے بین الاقوامیت کی دلیلی دوربین متعارف کروائی اور کسی نے اپنے خطاب میں جی ایم سید رہبر آ اور جئے پلیجو ایک ہی دھاگے میں پرو دیا۔تشدد کی بات کسی نے نہیں کی، تبدیلی کی بات اپنے اپنے انداز میں ضرور کی گئی۔دو نئی کتابوں کی بھی رونمائی ہوئی۔ایک کا نام ہے ''رسول بخش پلیجو ، مضامین ، انٹرویوز ، تقاریر''اور دوسری ہے '' عالمی سیاسی منظر نامہ''۔
اگر سندھ اور پاکستان اور خطے اور دنیا کا سماج بھی ایسا ہی ہو جائے جیسا کہ پنڈال میں تھا تو کیا ہی بات ہے۔مگر چند گھنٹے کے لیے ہی سہی پر دیکھ تو لیا کہ '' سانس لو اور سانس لینے دو'' کا کیا مطلب ہوتا ہے۔
اچھی بات یہ تھی کہ پلیجو خاندان کے اندر بھلے ہی رسول بخش پلیجو کی فکری و سیاسی میراث کو لے کر جو بھی رسہ کشی چل رہی ہو مگر جلسے میں سب ہی متاثرینِ پلیجو بلا امتیاز شریک تھے۔رہی بات گروہ بندی کی تو یہ کلیہ کسی ایک جماعت پر نہیں بلکہ دائیں اور بائیں بازو کی تمام نظریاتی جماعتوں بشمول قوم پرست و وفاق پرست جماعتوں پر یکساں لاگو ہوتا ہے۔ مرکزی رہنما کے ہٹتے ہی بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ خلا خوش اسلوبی اور منظم طریقے سے فراغ دلی کے ساتھ پر ہو جائے۔اس جذبے کو انا پرستی ، ایک دوسرے کو ذاتی طور پر نیچا دکھانے کی کوشش اور سب میرا ہے کی جبلت ختم کر کے رکھ دیتی ہے۔یہ پروسس اپنے جوہر میں نہ اچھا ہے نہ برا ہے بلکہ فطری ہے۔
جیسے جیسے وقت گذرتاہے، گردبیٹھنے لگتی ہے، ترجیحات واضح ہونے لگتی ہیں اور صرف وہی نظریاتی وارث رہ جاتے ہیں جنھیں اردگرد کی عارضی ترغیبات اپنے ڈھرے سے ہلنے نہیں دیتیں۔اگر عوامی تحریک کے ساتھ بھی یہ ہو رہا ہے تو یہ بھی ارتقائی مدو جزر کا ہی عمل ہے۔اچھی بات یہ ہے کہ عوامی تحریک کی موجودہ قیادت موروثیت سے بچنے کے لیے انتخابی عمل اپنانے پر مجبور ہو گئی ہے۔اگر یہ کوشش برقرار رہتی ہے تو اس کا فائدہ ہی ہوگا اور شائد باقی نامزد گزیدہ تنظیمیں بھی اس سے کچھ سیکھ لیں۔
اینٹ پتھر کی وراثت پر دعوے داری سے قطع نظر پلیجو کی اصل وراثت فوری نتائج کے بجائے دورس اہداف حاصل کرنے کی جدوجہد تھی۔انھوں نے کبھی انتخابی سیاست اور اس سے نتھی سمجھوتے بازی کی مجبوریوں کو پاؤں کی بیڑی نہیں بننے دیا۔فاضل راہو اور پلیجو نے کوشش کی کہ ان کے زیر تربیت حضرات و خواتین و بچے بھلے آگے چل کے کہیں بھی رہیں ، کوئی بھی راستہ اپنائیں، کسی بھی پارٹی میں شامل ہوں مگر اپنے خمیر میں تنگ نظر نہ ہوں، دھرتی سے ضرور جڑے رہیں مگر صرف دھرتی کو ہی خدا نہ سمجھیں اور اپنے جیسے دیگر محروموں اور محکوموں پر بھی نظر رکھیں اور روابط استوار کریں۔
مگر یہ کام عورت کو ہم قدم کیے بغیر ممکن نہیں اور نہ ہی ان پڑھی کے زعم اور روایتی نعرے بازی کے ذریعے پھیپھڑے تھکانے سے ممکن ہے۔اس کے لیے دورس نگاہی چاہیے اور اس کے لیے پڑھائی کرنی پڑتی ہے اور صرف اپنے خیالات سے ہم آہنگ لٹریچر ہی نہیں پڑھنا بلکہ اوروں نے کیا لکھا ؟ اس پر بھی دھیان دینا ہے۔اگر کسی کی اس بنیادی پیغام پر نظر نہیں تو وہ بھلے زندگی بھر مرنے والوں کو عظیم ثابت کرتا پھرے مگر اس '' عظیم '' کا کام آگے نہیں بڑھا سکتا۔
لہذا جو کسی ایک بچے کو پڑھا سکتا ہے وہ یہ کام کرے، جو کسی کا انسانیت کے ناتے علاج کر سکتا ہے وہ کرے ، جو کسی کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد کر سکتا ہے وہ کرے۔اور یہ سوچ کے کرے کہ کوئی احسان نہیں۔اگر یہ سب نہیں ہو سکتا تو صرف جئے پلیجو کہنے سے کچھ نہیں ہو سکتا۔
اب آپ پوچھ سکتے ہیں کہ میں یہ سب کیوں لکھ رہا ہوں۔میری صحافتی غیر جانبداری کہاں گئی ؟ صحافتی غیر جانبداری صرف یہی نہیں کہ ایک فریق کیا کہہ رہا ہے اور دوسرا کیا کہہ رہا ہے۔بلکہ غیر جانبداری کا یہ بھی تقاضا ہے کہ اگر کوئی ایسی شخصیت سامنے آئے جس نے اپنی پوری زندگی دوسروں کے دماغ کھولنے کی کوشش میں کھپا دی تو ایسے شخص کی میراث پر غیر جانبدارانہ انداز سے بات کرنا ہی دراصل غیر جانبداری ہے۔جب ایسوں پر بھی کھل کے بات نہ ہو تو پھر کیسوں پر ہو ؟
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)