گرفتاریاں اہم یا ریکوری
آصف زرداری کی گرفتاری اور نواز شریف کے جیل میں ہونے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔
وزیر اعظم عمران خان اپنے سیاسی مخالفین آصف زرداری اور حمزہ شہباز کی گرفتاری اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے جیل میں ہونے پر بڑے خوش ہیں۔ اسی کو ملک میں بڑی تبدیلی قرار دیتے ہیں کہ دو بڑی پارٹیوں کے سربراہ جو ملک کے صدر مملکت اور نواز شریف ملک کے تین بار وزیر اعظم رہے بیک وقت جیل میں ہیں جن کے خلاف یہ کارروائی عمران خان اپنی کامیابی قرار دیتے ہیں کیونکہ اقتدار میں آنے کے لیے انھوں نے ہی سابق حکمرانوں کو الیکشن مہم میں کرپشن کے الزام میں اپنا ٹارگٹ بنایا ہوا تھا۔
آصف زرداری کی گرفتاری اور نواز شریف کے جیل میں ہونے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔آصف زرداری کا دعویٰ ہے کہ انھیں سب سے زیادہ عرصہ جیل میں رکھا گیا مگرکوئی الزام ثابت نہیں ہوا اور وہ ہر مقدمے سے باعزت بری ہوئے اور آصف زرداری سے اسی صدر مملکت غلام اسحق خان نے وفاقی وزیرکا حلف بھی لیا تھا جنھوں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں کو کرپشن کے الزامات میں برطرف بھی کیا تھا ۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پہلی حکومت کو انھی کے اپنے صدر مملکت غلام اسحق خان نے برطرف کیا تھا اور ان کی دوسری حکومت بھی آمر کی مداخلت پر ختم ہوئی تھی جب پرویز مشرف سری لنکا سے واپسی پر فضا میں تھے مگر ان کے پہلے سے کیے گئے حفاظتی انتظامات کے باعث ان کے ساتھیوں نے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا کر پرویز مشرف کو ملک کا چیف ایگزیکٹیو بنوایا تھا۔
پرویز مشرف نے طیارہ کیس میں نواز شریف کیس میں خصوصی دلچسپی لے کر انھیں پہلے سزا دلائی تھی اور بعد میں غیر ملکی مداخلت پر جلاوطن بھی کیا تھا اور پھر نواز شریف کی مبینہ کرپشن کی تحقیقات بھی کرائی تھی۔ نواز حکومت کی برطرفی پر بے نظیر بھٹو نے خوشی منائی تھی اور پرویز مشرف کے اقدامات کو سراہا تھا۔ نواز شریف کو جلاوطن کرنے کے بعد پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو کے خلاف ایکشن لیا تو وہ خود جلا وطن ہوگئی تھیں اور آصف زرداری کرپشن الزامات میں نواز شریف کی طرح جیل میں تھے اور پھر رہا ہوکر وہ بھی بیرون ملک چلے گئے تھے۔
پرویز مشرف نے 2007 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی میں فارورڈ بلاک بنوا کر پی پی رہنماؤں کو وزیر بنایا تھا اور مسلم لیگ (ن) سے رہنما توڑکر مسلم لیگ (ق) کی مخلوط حکومت قائم کرائی تھی اور دونوں پارٹیوں کے منحرف رہنماؤں کو نیب کے ساتھ مل کر بے گناہ بنا کر حکومتی عہدے دیے تھے اور 2018 میں عمران خان کو وزیر اعظم بنوانے والوں نے یہی کیا اور مشرف کے سابق حلیفوں مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کو پی ٹی آئی حکومت میں حلیف بنوایا اور عمران خان اقتدار میں آئے اور چند ماہ بعد عمران خان نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے منحرف اور غیر منتخب رہنماؤں کو جو دونوں سابق حکمران جماعتوں میں اہم عہدوں پر تھے انھیں اپنی کابینہ میں اہم عہدے دے دیے ۔ پی ٹی آئی کے اپنے دیرینہ ساتھیوں کی جگہ انھیں لے آئے۔
نیب پر مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور حکومت مخالف جماعتیں جانبداری کے الزامات مسلسل عائد کرتی آ رہی ہیں اور یہی الزامات نیب پر (ق) لیگ کی حکومت میں لگے تھے اور جو رہنما مسلم لیگ (ن) اور پی پی سے منحرف ہوئے تھے انھیں مسٹرکلین کے سرٹیفکیٹ دیے تھے اور وہ سب پرویز مشرف کے حامی بن گئے تھے اور مسلم لیگ (ق) نے اپنی 5 سالہ مدت آسانی سے مکمل کرلی تھی جس میں مسلم لیگ (ق) کی طرف سے میر ظفر اللہ جمالی صرف ایک ووٹ کی اکثریت لے کر وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے اور دس ماہ قبل بھی عمران خان چند ووٹوں کی اکثریت سے وزیر اعظم منتخب کرائے گئے تھے ۔
اس طرح مسلم لیگ(ق) کی طرح موجودہ پی ٹی آئی حکومت قائم ہوئی جس کی وجہ سے اپوزیشن عمران خان کو سلیکٹڈ وزیر اعظم قرار دیتی آ رہی ہے جو وزیر اعظم کو برا لگتا ہے اور وہ ایوان میں کم ہی آتے ہیں۔ پہلے مشرف کے دور میں بنائے گئے احتساب ادارے کو مسلم لیگ (ق) کی اکثریت بڑھانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا اور جو سیاسی رہنما پرویز مشرف کے حامی بن گئے تھے ان کے خلاف مقدمات واپس لے لیے گئے تھے جس طرح چوہدریوں کے خلاف مقدمات واپس لیے گئے ہیں۔ نیب کے بقول مقدمات ثبوت نہ ملنے پر واپس لیے گئے ہیں تو ایسے بے ثبوت مقدمات قائم ہی کیوں ہوئے تھے اور چوہدریوں کو کیوں بدنام کیا گیا ۔
پرویز مشرف نے اپنے دور میں بڑی کوشش کی تھی کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے کرپٹ رہنماؤں سے رقم نکلوائی جائے مگر وہ کسی کرپٹ سے ایک پیسہ نہیں نکلوا سکے تھے۔ اس وقت ج پرویز مشرف نے اپنے ساتھیوں سے کرپشن کی رقم کی ریکوری کے لیے مشورہ کیا تھا تو ان کے ایک ساتھی نے انھیں مشورہ دیا تھا کہ وہ کرپشن کرنے والوں کے خلاف دیانت داری سے پہلے مکمل تحقیقات کرائیں اور کرپشن کرنے والوں کو سزا دینے کی ابتدا بدعنوانوں کی انگلی کاٹ کر کی جائے مگر پرویز مشرف نے یہ تجویز ظالمانہ قرار دے کر مسترد کردی تھی۔ پرویز مشرف کو قائل کرنے کی یہ کہہ کرکوشش کی گئی کہ چورکی سزا ہاتھ کاٹنا مقرر ہے اگر چند انگلیاں کٹ گئیں تو کرپشن کی رقم ریکور ہو جائے گی ورنہ نہیں ہوگی اور یہی ہوا جنرل مشرف نیب کے ذریعے کوئی ریکوری نہیں کرا سکے تھے۔
سرکاری افسروں کے علاوہ کسی بھی سیاستدان سے کرپشن کا ایک پیسہ بھی اب تک ریکور نہیں کیا جاسکا ہے۔ ڈاکٹر عاصم، شرجیل میمن سمیت تینوں پارٹیوں کے متعدد رہنما گرفتار ہوئے جن میں کئی عدالتوں کے ذریعے ضمانت پر رہا ہوگئے مگر دو سالوں میں کسی سے بھی ایک پیسہ بھی ریکور نہیں ہوا جب کہ اس سلسلے میں اعلیٰ عدالتوں نے بھی سخت ریمارکسدیے تھے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے حال ہی میں نیب کے گرفتار دو ملزموں کو بری کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیب ملزمان کے خلاف الزامات کے ثبوت عدالتوں میں پیش کیوں نہیں ہوتے جو نیب کی تفتیش میں سامنے آتے ہیں وہ عدالتوں میں پیش ہونے چاہئیں۔
جو چند سزائیں ہوئی ہیں ان سے کوئی بھی ریکوری نہیں ہوئی اور سیاسی رہنما کبھی جرم تسلیم کریں گے اور نہ ہی کبھی ریکوری ہونے دیں گے جس کا حل نکلنا چاہیے۔
آصف زرداری کی گرفتاری اور نواز شریف کے جیل میں ہونے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔آصف زرداری کا دعویٰ ہے کہ انھیں سب سے زیادہ عرصہ جیل میں رکھا گیا مگرکوئی الزام ثابت نہیں ہوا اور وہ ہر مقدمے سے باعزت بری ہوئے اور آصف زرداری سے اسی صدر مملکت غلام اسحق خان نے وفاقی وزیرکا حلف بھی لیا تھا جنھوں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں کو کرپشن کے الزامات میں برطرف بھی کیا تھا ۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پہلی حکومت کو انھی کے اپنے صدر مملکت غلام اسحق خان نے برطرف کیا تھا اور ان کی دوسری حکومت بھی آمر کی مداخلت پر ختم ہوئی تھی جب پرویز مشرف سری لنکا سے واپسی پر فضا میں تھے مگر ان کے پہلے سے کیے گئے حفاظتی انتظامات کے باعث ان کے ساتھیوں نے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا کر پرویز مشرف کو ملک کا چیف ایگزیکٹیو بنوایا تھا۔
پرویز مشرف نے طیارہ کیس میں نواز شریف کیس میں خصوصی دلچسپی لے کر انھیں پہلے سزا دلائی تھی اور بعد میں غیر ملکی مداخلت پر جلاوطن بھی کیا تھا اور پھر نواز شریف کی مبینہ کرپشن کی تحقیقات بھی کرائی تھی۔ نواز حکومت کی برطرفی پر بے نظیر بھٹو نے خوشی منائی تھی اور پرویز مشرف کے اقدامات کو سراہا تھا۔ نواز شریف کو جلاوطن کرنے کے بعد پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو کے خلاف ایکشن لیا تو وہ خود جلا وطن ہوگئی تھیں اور آصف زرداری کرپشن الزامات میں نواز شریف کی طرح جیل میں تھے اور پھر رہا ہوکر وہ بھی بیرون ملک چلے گئے تھے۔
پرویز مشرف نے 2007 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی میں فارورڈ بلاک بنوا کر پی پی رہنماؤں کو وزیر بنایا تھا اور مسلم لیگ (ن) سے رہنما توڑکر مسلم لیگ (ق) کی مخلوط حکومت قائم کرائی تھی اور دونوں پارٹیوں کے منحرف رہنماؤں کو نیب کے ساتھ مل کر بے گناہ بنا کر حکومتی عہدے دیے تھے اور 2018 میں عمران خان کو وزیر اعظم بنوانے والوں نے یہی کیا اور مشرف کے سابق حلیفوں مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کو پی ٹی آئی حکومت میں حلیف بنوایا اور عمران خان اقتدار میں آئے اور چند ماہ بعد عمران خان نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے منحرف اور غیر منتخب رہنماؤں کو جو دونوں سابق حکمران جماعتوں میں اہم عہدوں پر تھے انھیں اپنی کابینہ میں اہم عہدے دے دیے ۔ پی ٹی آئی کے اپنے دیرینہ ساتھیوں کی جگہ انھیں لے آئے۔
نیب پر مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور حکومت مخالف جماعتیں جانبداری کے الزامات مسلسل عائد کرتی آ رہی ہیں اور یہی الزامات نیب پر (ق) لیگ کی حکومت میں لگے تھے اور جو رہنما مسلم لیگ (ن) اور پی پی سے منحرف ہوئے تھے انھیں مسٹرکلین کے سرٹیفکیٹ دیے تھے اور وہ سب پرویز مشرف کے حامی بن گئے تھے اور مسلم لیگ (ق) نے اپنی 5 سالہ مدت آسانی سے مکمل کرلی تھی جس میں مسلم لیگ (ق) کی طرف سے میر ظفر اللہ جمالی صرف ایک ووٹ کی اکثریت لے کر وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے اور دس ماہ قبل بھی عمران خان چند ووٹوں کی اکثریت سے وزیر اعظم منتخب کرائے گئے تھے ۔
اس طرح مسلم لیگ(ق) کی طرح موجودہ پی ٹی آئی حکومت قائم ہوئی جس کی وجہ سے اپوزیشن عمران خان کو سلیکٹڈ وزیر اعظم قرار دیتی آ رہی ہے جو وزیر اعظم کو برا لگتا ہے اور وہ ایوان میں کم ہی آتے ہیں۔ پہلے مشرف کے دور میں بنائے گئے احتساب ادارے کو مسلم لیگ (ق) کی اکثریت بڑھانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا اور جو سیاسی رہنما پرویز مشرف کے حامی بن گئے تھے ان کے خلاف مقدمات واپس لے لیے گئے تھے جس طرح چوہدریوں کے خلاف مقدمات واپس لیے گئے ہیں۔ نیب کے بقول مقدمات ثبوت نہ ملنے پر واپس لیے گئے ہیں تو ایسے بے ثبوت مقدمات قائم ہی کیوں ہوئے تھے اور چوہدریوں کو کیوں بدنام کیا گیا ۔
پرویز مشرف نے اپنے دور میں بڑی کوشش کی تھی کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے کرپٹ رہنماؤں سے رقم نکلوائی جائے مگر وہ کسی کرپٹ سے ایک پیسہ نہیں نکلوا سکے تھے۔ اس وقت ج پرویز مشرف نے اپنے ساتھیوں سے کرپشن کی رقم کی ریکوری کے لیے مشورہ کیا تھا تو ان کے ایک ساتھی نے انھیں مشورہ دیا تھا کہ وہ کرپشن کرنے والوں کے خلاف دیانت داری سے پہلے مکمل تحقیقات کرائیں اور کرپشن کرنے والوں کو سزا دینے کی ابتدا بدعنوانوں کی انگلی کاٹ کر کی جائے مگر پرویز مشرف نے یہ تجویز ظالمانہ قرار دے کر مسترد کردی تھی۔ پرویز مشرف کو قائل کرنے کی یہ کہہ کرکوشش کی گئی کہ چورکی سزا ہاتھ کاٹنا مقرر ہے اگر چند انگلیاں کٹ گئیں تو کرپشن کی رقم ریکور ہو جائے گی ورنہ نہیں ہوگی اور یہی ہوا جنرل مشرف نیب کے ذریعے کوئی ریکوری نہیں کرا سکے تھے۔
سرکاری افسروں کے علاوہ کسی بھی سیاستدان سے کرپشن کا ایک پیسہ بھی اب تک ریکور نہیں کیا جاسکا ہے۔ ڈاکٹر عاصم، شرجیل میمن سمیت تینوں پارٹیوں کے متعدد رہنما گرفتار ہوئے جن میں کئی عدالتوں کے ذریعے ضمانت پر رہا ہوگئے مگر دو سالوں میں کسی سے بھی ایک پیسہ بھی ریکور نہیں ہوا جب کہ اس سلسلے میں اعلیٰ عدالتوں نے بھی سخت ریمارکسدیے تھے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے حال ہی میں نیب کے گرفتار دو ملزموں کو بری کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیب ملزمان کے خلاف الزامات کے ثبوت عدالتوں میں پیش کیوں نہیں ہوتے جو نیب کی تفتیش میں سامنے آتے ہیں وہ عدالتوں میں پیش ہونے چاہئیں۔
جو چند سزائیں ہوئی ہیں ان سے کوئی بھی ریکوری نہیں ہوئی اور سیاسی رہنما کبھی جرم تسلیم کریں گے اور نہ ہی کبھی ریکوری ہونے دیں گے جس کا حل نکلنا چاہیے۔