بیرون ملک قید پاکستانی
ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کے حوالے سے دو ممکنہ آپشن پر بھی غور کیا جارہا ہے۔
لاپتا افراد، ایجنسیوں کے ہاتھوں گرفتار اور بیرون ملک قید پاکستانی شہریوں کا مسئلہ قومی اہمیت کا حامل بن چکا ہے، دنیا بھر میں اس مسئلے کو خاص اہمیت دی جا رہی ہے اور بین الاقوامی سطح پر 30 اگست کو لاپتہ افراد کے عالمی دن کی حیثیت سے منایا جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف امریکا میں سالانہ 9 لاکھ افراد غائب کردیے جاتے ہیں جس سے اس مسئلے کی بین الاقوامی اہمیت اور سنگینی کا احساس ہوتا ہے۔ حکومت پاکستان ایک طرف سزائے موت کے خاتمے کے سلسلے میں بین الاقوامی دباؤ تو دوسری جانب لاپتہ افراد کی بازیابی کے سلسلے میں اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے سرزنش کا شکار بھی ہے۔ حکومت کو گاہے بہ گاہے مجرموں یا قیدیوں کے تبادلے، ان کی رہائی اور فرار کے سلسلے میں بھی تنقید اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس کوئی پالیسی اور اخلاقیات ہے نہ ہی قانون کی پاسداری کا عزم ہے۔
ملک کے سزا یافتہ افراد کو حکومتیں خود فرار کرتی رہی ہیں اور اپنے شہریوں کو بھی اغوا اور قید کرکے غیرملکیوں کے حوالے کرنے میں ملوث رہی ہیں۔ اس وقت شکیل آفریدی کی حوالگی و رہائی کا معاملہ بھی زور شور سے چل رہا ہے اور اس کے بدلے میں ڈاکٹر عافیہ کی واپسی کے تذکرے اور تجویز کافی عرصے سے چلی آرہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ خبر بھی آئی ہے کہ حکومت نے بیرون ملک سزا یافتہ پاکستانی قیدیوں کو واپس ملک میں لانے کا فیصلہ کرلیا ہے جس کے لیے چین، ایران، جنوبی کوریا، ترکی اور تھائی لینڈ وغیرہ سے معاہدہ کیا جائے گا۔ اس وقت مختلف ممالک میں 8 ہزار کے لگ بھگ پاکستانی شہری قید ہیں جن میں زیادہ تعداد امیگریشن قواعد کی خلاف ورزی اور منشیات کے جرائم میں ملوث افراد کی ہے۔ پاکستان کچھ عرصے سے امریکا و یورپ سمیت دنیا کے 20 ممالک سے اپنے قیدیوں کی واپسی کے لیے کوشاں ہے۔
ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کے حوالے سے دو ممکنہ آپشن پر بھی غور کیا جارہا ہے، ایک کونسل آف یورپ کنونشن کی توثیق کرنا جس کی وفاقی کابینہ منظوری دے چکی ہے، اس سلسلے میں سپریم کورٹ بھی حکومت پاکستان کو ہدایت دے چکی ہے کہ پاکستانیوں کی وطن واپسی اور باقی سزا ملک میں کاٹنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے جب کہ حوالگی، تحویل کے قوائد و ضوابط کے مطابق متعلقہ قیدی سے ہر قسم کے دباؤ و جبر سے آزاد ہوکر اس کی رضامندی اور رائے لی جانی چاہیے۔ 2002 میں ٹرانسفر آف ایکٹ ریفنڈر کے نام سے قانون منظور ہوچکا ہے۔ لیکن قانونی حلقے اس کے حق میں نہیں ہیں۔ کیونکہ اس کے جواب میں دیگر حکومتیں خاص طور پر امریکی کسی بھی مطلوب پاکستانی پر الزام لگا کر اس کی حوالگی کا مطالبہ کر سکتی ہے، کیونکہ اس کے تحت سزا یافتہ کے علاوہ الزام یافتہ کا تبادلہ بھی ممکن ہوجاتا ہے۔ قیدیوں کی اپنے وطن واپسی کی رائے بھی قابل اعتبار نہیں سمجھی جائے گی۔
امیگریشن قوانین کے تحت سزا پانے والے قیدیوں کی حد تک تو مسئلہ ٹھیک کیونکہ عموماً یہ بے ضرر ہوتے ہیں، جن میں بڑی تعداد ایسے شہریوں کی ہوتی ہے جو اپنی لاعلمی یا انسانی اسمگلنگ کے کاروبار میں ملوث گروہ یا ایجنٹوں کی دھوکا بازی کی بنا پر قانون کی زد میں آجاتے ہیں۔ لیکن منشیات جیسے دھندوں میں ملوث افراد کو لمبی لمبی سزائیں دی جاتی ہیں، ان پر حکومت کو اضافی اخراجات برداشت کرنے کے علاوہ بعض قیدیوں کو خصوصی سیکیورٹی بھی دینا ہوگی۔ ہمارے قانون، عدالتی نظام اور جیل خانوں میں منظم پیشہ ور گروہوں کے لیے بہت گنجائش، سہولیات و آسائشات موجود ہیں۔ منشیات اور انسانی اسمگلنگ میں ملوث مافیا کو تحویل ملزمان کے معاہدے سے بہت سی تن آسانیاں بھی میسر آسکتی ہیں۔ رشوت، سفارش، دباؤ کا کلچر، استغاثہ کی کمزوریاں اور باحیثیت و بااختیار قیدیوں کو جیلوں میں میسر آسائشات و تعیشات کی سہولیات ان جرائم کے مزید فروغ کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔
سزا یافتہ قیدیوں کی حوالگی اور باقی ماندہ سزا اپنے وطن میں کاٹنے کے سلسلے میں بہت سی مشکلات درپیش آسکتی ہیں۔ حکومت کو ان پہلوؤں پر خاص طور پر غور کرنا چاہیے مثلاً ڈاکٹر عافیہ جسے ناحق اور ماورائے قانون کارروائی کرکے 86 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی اگر غیروں کی قید سے لے کر اپنے زندانوں میں قید کردیا جائے تو ایک تو یہ عمل بذات خود ظلم ہوگا، دوسرے اس عمل سے اس فیصلے پر حکومت پاکستان کی مہر صداقت ثبت ہوجائے گی اور اس قسم کا اقدام قومی و ملی غیرت و حمیت کے بھی خلاف ہوگا۔ عافیہ کے معاملے میں خود اعلیٰ امریکی عہدیداران الزامات، مقدمے کی کارروائی اور سزا کو غیر قانونی، غیر اخلاقی اور بلاجواز قرار دے کر عافیہ کی بے گناہی کی وکالت اور رہائی کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں جن میں امریکی اٹارنی ٹینا فوسٹر، نو مسلم برطانوی صحافی مریم ایوان ریڈلے اور سابق امریکی اٹارنی جنرل ریمزے کلارک بھی شامل ہیں۔
ریمزے نے اس سلسلے میں پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا، ان کا موقف ہے کہ عافیہ پر امریکا میں مقدمہ غیر قانونی تھا، اس سے خود انھیں اور امریکی عوام کو دھچکا لگا ہے اور وہ پاکستان کی بیٹی کو رہائی دلوانے پاکستان آئے ہیں۔ ان کے علاوہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین سمیت قانونی ماہرین، دانشور اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے متعلق شخصیات عافیہ کے اغوا، الزامات، مقدمے کی کارروائی اور سزا کو غیرقانونی اور غیر انسانی قرار دے چکی ہیں۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم نے وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ عافیہ کے اہل خانہ اور پاکستانی عوام سے میرا وعدہ تھا کہ عافیہ کی واپسی کے لیے مخلصانہ کوششیں کروں گا۔
اب وعدے کی تکمیل کا وقت آگیا ہے۔ وفاقی کابینہ نے کونسل آف یورو کنونشن پر حکومت کی جانب سے دستخط کرنے کی منظوری دی۔ وزیراعظم نے ضرورت پڑنے پر انٹر امریکن اسٹیٹ کنونشن پر دستخط کرنے کے معاہدے کو بھی آیندہ اجلاس میں پیش کرنے کی ہدایت جاری کی۔ امریکا کئی سال قبل تجویز دے چکا تھا کہ کونسل آف یورو کنونشن اور انٹر امریکن کنونش ہی وہ ممکنہ راستے ہیں جن سے عافیہ کو واپس لایا جاسکتا ہے۔ حکومت کو اس سلسلے میں کوئی بھی اقدام اٹھانے سے قبل اپنے معروضی حالات اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے وسیع تر ملکی مفاد میں خوب سوچ و بچار کرلینا چاہیے۔
ملک کے سزا یافتہ افراد کو حکومتیں خود فرار کرتی رہی ہیں اور اپنے شہریوں کو بھی اغوا اور قید کرکے غیرملکیوں کے حوالے کرنے میں ملوث رہی ہیں۔ اس وقت شکیل آفریدی کی حوالگی و رہائی کا معاملہ بھی زور شور سے چل رہا ہے اور اس کے بدلے میں ڈاکٹر عافیہ کی واپسی کے تذکرے اور تجویز کافی عرصے سے چلی آرہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ خبر بھی آئی ہے کہ حکومت نے بیرون ملک سزا یافتہ پاکستانی قیدیوں کو واپس ملک میں لانے کا فیصلہ کرلیا ہے جس کے لیے چین، ایران، جنوبی کوریا، ترکی اور تھائی لینڈ وغیرہ سے معاہدہ کیا جائے گا۔ اس وقت مختلف ممالک میں 8 ہزار کے لگ بھگ پاکستانی شہری قید ہیں جن میں زیادہ تعداد امیگریشن قواعد کی خلاف ورزی اور منشیات کے جرائم میں ملوث افراد کی ہے۔ پاکستان کچھ عرصے سے امریکا و یورپ سمیت دنیا کے 20 ممالک سے اپنے قیدیوں کی واپسی کے لیے کوشاں ہے۔
ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کے حوالے سے دو ممکنہ آپشن پر بھی غور کیا جارہا ہے، ایک کونسل آف یورپ کنونشن کی توثیق کرنا جس کی وفاقی کابینہ منظوری دے چکی ہے، اس سلسلے میں سپریم کورٹ بھی حکومت پاکستان کو ہدایت دے چکی ہے کہ پاکستانیوں کی وطن واپسی اور باقی سزا ملک میں کاٹنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے جب کہ حوالگی، تحویل کے قوائد و ضوابط کے مطابق متعلقہ قیدی سے ہر قسم کے دباؤ و جبر سے آزاد ہوکر اس کی رضامندی اور رائے لی جانی چاہیے۔ 2002 میں ٹرانسفر آف ایکٹ ریفنڈر کے نام سے قانون منظور ہوچکا ہے۔ لیکن قانونی حلقے اس کے حق میں نہیں ہیں۔ کیونکہ اس کے جواب میں دیگر حکومتیں خاص طور پر امریکی کسی بھی مطلوب پاکستانی پر الزام لگا کر اس کی حوالگی کا مطالبہ کر سکتی ہے، کیونکہ اس کے تحت سزا یافتہ کے علاوہ الزام یافتہ کا تبادلہ بھی ممکن ہوجاتا ہے۔ قیدیوں کی اپنے وطن واپسی کی رائے بھی قابل اعتبار نہیں سمجھی جائے گی۔
امیگریشن قوانین کے تحت سزا پانے والے قیدیوں کی حد تک تو مسئلہ ٹھیک کیونکہ عموماً یہ بے ضرر ہوتے ہیں، جن میں بڑی تعداد ایسے شہریوں کی ہوتی ہے جو اپنی لاعلمی یا انسانی اسمگلنگ کے کاروبار میں ملوث گروہ یا ایجنٹوں کی دھوکا بازی کی بنا پر قانون کی زد میں آجاتے ہیں۔ لیکن منشیات جیسے دھندوں میں ملوث افراد کو لمبی لمبی سزائیں دی جاتی ہیں، ان پر حکومت کو اضافی اخراجات برداشت کرنے کے علاوہ بعض قیدیوں کو خصوصی سیکیورٹی بھی دینا ہوگی۔ ہمارے قانون، عدالتی نظام اور جیل خانوں میں منظم پیشہ ور گروہوں کے لیے بہت گنجائش، سہولیات و آسائشات موجود ہیں۔ منشیات اور انسانی اسمگلنگ میں ملوث مافیا کو تحویل ملزمان کے معاہدے سے بہت سی تن آسانیاں بھی میسر آسکتی ہیں۔ رشوت، سفارش، دباؤ کا کلچر، استغاثہ کی کمزوریاں اور باحیثیت و بااختیار قیدیوں کو جیلوں میں میسر آسائشات و تعیشات کی سہولیات ان جرائم کے مزید فروغ کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔
سزا یافتہ قیدیوں کی حوالگی اور باقی ماندہ سزا اپنے وطن میں کاٹنے کے سلسلے میں بہت سی مشکلات درپیش آسکتی ہیں۔ حکومت کو ان پہلوؤں پر خاص طور پر غور کرنا چاہیے مثلاً ڈاکٹر عافیہ جسے ناحق اور ماورائے قانون کارروائی کرکے 86 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی اگر غیروں کی قید سے لے کر اپنے زندانوں میں قید کردیا جائے تو ایک تو یہ عمل بذات خود ظلم ہوگا، دوسرے اس عمل سے اس فیصلے پر حکومت پاکستان کی مہر صداقت ثبت ہوجائے گی اور اس قسم کا اقدام قومی و ملی غیرت و حمیت کے بھی خلاف ہوگا۔ عافیہ کے معاملے میں خود اعلیٰ امریکی عہدیداران الزامات، مقدمے کی کارروائی اور سزا کو غیر قانونی، غیر اخلاقی اور بلاجواز قرار دے کر عافیہ کی بے گناہی کی وکالت اور رہائی کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں جن میں امریکی اٹارنی ٹینا فوسٹر، نو مسلم برطانوی صحافی مریم ایوان ریڈلے اور سابق امریکی اٹارنی جنرل ریمزے کلارک بھی شامل ہیں۔
ریمزے نے اس سلسلے میں پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا، ان کا موقف ہے کہ عافیہ پر امریکا میں مقدمہ غیر قانونی تھا، اس سے خود انھیں اور امریکی عوام کو دھچکا لگا ہے اور وہ پاکستان کی بیٹی کو رہائی دلوانے پاکستان آئے ہیں۔ ان کے علاوہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین سمیت قانونی ماہرین، دانشور اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے متعلق شخصیات عافیہ کے اغوا، الزامات، مقدمے کی کارروائی اور سزا کو غیرقانونی اور غیر انسانی قرار دے چکی ہیں۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم نے وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ عافیہ کے اہل خانہ اور پاکستانی عوام سے میرا وعدہ تھا کہ عافیہ کی واپسی کے لیے مخلصانہ کوششیں کروں گا۔
اب وعدے کی تکمیل کا وقت آگیا ہے۔ وفاقی کابینہ نے کونسل آف یورو کنونشن پر حکومت کی جانب سے دستخط کرنے کی منظوری دی۔ وزیراعظم نے ضرورت پڑنے پر انٹر امریکن اسٹیٹ کنونشن پر دستخط کرنے کے معاہدے کو بھی آیندہ اجلاس میں پیش کرنے کی ہدایت جاری کی۔ امریکا کئی سال قبل تجویز دے چکا تھا کہ کونسل آف یورو کنونشن اور انٹر امریکن کنونش ہی وہ ممکنہ راستے ہیں جن سے عافیہ کو واپس لایا جاسکتا ہے۔ حکومت کو اس سلسلے میں کوئی بھی اقدام اٹھانے سے قبل اپنے معروضی حالات اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے وسیع تر ملکی مفاد میں خوب سوچ و بچار کرلینا چاہیے۔