پلا مچھلی کی دریائے سندھ میں واپسی… آخری حصہ

پلا مچھلی دوسری مچھلیوں کی طرح کانٹے میں نہیں پھنستی کیونکہ وہ نہ تو مچھلی کھاتی ہے

پلا مچھلی وزن کے حساب سے نہیں بکتی ہے بلکہ اس کا سائز دیکھ کر بیچی جاتی ہے۔ یہ مچھلی کئی طریقوں سے پکائی جاتی ہے مگر خاص طور پر فرائی کرکے، اسٹیم اور ریت کی گرمی پر پکائی جاتی ہے۔ اس کے اندر جو کالے رنگ کا گوشت ہوتا ہے وہ بہت ہی زیادہ ٹیسٹی ہوتا ہے، اس کے کانٹے بڑے باریک ہوتے ہیں اس لیے اس کے کھانے میں احتیاط برتی جاتی ہے۔ یہ سندھ کی وہ مچھلی ہے جسے دوسرے صوبوں اور ملکوں میں تحفے کے طور پر بھیجا جاتا ہے خاص طور پر پہلے زمانے میں بادشاہوں کو اس کا تحفہ بھیجا جاتا تھا اور کچھ عرصہ پہلے سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں میں اس کی فروخت ہوتی تھی اور بیچنے والے گاؤں میں سائیکل پر لے آتے تھے اور باہر آوازیں لگاکر بیچتے تھے۔ اس کی فراوانی کی وجہ سے غریب سے لے کر امیر آدمی پلا کھاتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں ایک پلا مچھلی آٹھ روپے میں اور آنی (بیج والی) کے ساتھ دس روپے میں خریدتا تھا۔ جب سیزن آف ہوجاتا تھا جب بھی پلا ملتی تھی کیونکہ اسے نمک اور دوسرے مصالحے ڈال کر preserveمحفوظ کیا جاتا تھا جس کی وجہ سے ہم لوگ پورا سال پلا کھاتے تھے۔ اب تو یہ مچھلی غریبوں کے لیے ایک خواب بن گئی ہے۔

پلا مچھلی دوسری مچھلیوں کی طرح کانٹے میں نہیں پھنستی کیونکہ وہ نہ تو مچھلی کھاتی ہے اور نہ ہی آٹا یا پھر گوشت، وہ دریائے سندھ پر پھر سمندر میں گہرے پانی میں جاکر وہاں سے آئرن، ریت یا مٹی کھاتی ہے اس لیے اسے صرف جال میں پھنسایا جاتا ہے اور اس کے لیے بھی ایک خاص جال بنایا جاتا ہے۔ دریائے سندھ کی خوشبو پلا مچھلی کو ہزاروں کلومیٹر دور سے اپنی طرف کھینچتی ہے۔ وہ اپنے انڈے میٹھے پانی میں دیتی ہے اور باقی اس کی پرورش سمندر میں ہوتی ہے کیونکہ یہ بچے ٹھنڈے پانی میں سردی میں نہیں رہ سکتے ہیں اور انڈے سمندر میں نہیں بچ سکتے ہیں اس لیے انھیں سمندر اور دریا میں موسم کے حوالے سے رہنا ہوتا ہے۔

دریائے سندھ میں پانی کی کمی اور پلا مچھلی کا نہ ہونا ایک ایسی بات سے بھی لوگ منسلک کرنے لگے ہیں جن کا تعلق ان عورتوں سے ہے جو کالے علم سے لکھوائے ہوئے تعویذ گنڈے دریائے سندھ میں آکر پھینکتی ہیں جس کی وجہ سے نحوست ہوگئی ہے۔ اس سے پہلے یہ بھی سنا گیا تھا کہ مچھیرے سکھر کے قریب بکھر میں خواجہ خضر کے نام سے ایک بزرگ کے مقام سے خاک لاکر دریائے سندھ میں ڈالتے تھے تاکہ دریائے سندھ میں پانی زیادہ آئے اور اس میں پلا مچھلی سکھر تک پہنچے اور ان کا روزگار ہو۔ مچھیروں کا کہنا ہے کہ خواجہ خضر کا تعلق پانی سے ہے اس لیے اسے راضی کرنا ضروری ہے جو اب روٹھ گیا ہے ورنہ ایک وقت تھا کہ جامشورو اور سکھر کی مچھلی مارکیٹیں پلا مچھلی سے بھری ہوتی تھیں۔


پلا مچھلی بڑی تیزی کے ساتھ سفر کرتی ہے اور وہ ایک دن میں 71 کلومیٹر کا سفر طے کرلیتی ہے۔ اگر 1991 کے معاہدے پر عمل کرتے ہوئے دریائے سندھ میں پانی چھوڑا جائے تو پلا مچھلی ایک بار پھر ہمارے ساتھ رہ سکتی ہے مگر افسوس یہ کہ کچھ نا سمجھ لوگ کہتے ہیں کہ ڈیلٹا میں پانی چھوڑنا پانی کا زیاں ہے مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ اس کی وجہ سے ملک میں Ecology System اچھا رہے گا، جھینگا مچھلی، کیکڑا اور دوسری مچھلیاں افزائش کے لیے مل سکیں گی، باقی آبی زندگیاں بچ سکیں گی۔ مچھیروں کی ایک بڑی تعداد بھوک اور افلاس سے بچ جائے گی، ساحل کے ساتھ زرعی زمین آباد ہوجائے گی جسے سمندر کے پانی نے بنجر بنالیا ہے اور ہزاروں خاندان وہاں سے نقل مکانی کرچکے ہیں۔

ایک اور بڑا نقصان جو پلا مچھلی اور دوسری مچھلیوں کو پہنچ رہا ہے وہ ہے کارخانوں سے نکلنے والا زہریلا پانی جسے حکومت اور دوسرے متعلقہ ادارے روکنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ ڈیلٹا ایک قدرتی نظام ہے جسے بند کرنے اور روکنے سے نقصان پورے ملک کو ہوگا جس میں ہماری معیشت بھی شامل ہے۔ اگر پلا مچھلی کی فارمنگ ہوسکتی تو کیا اچھا نہ ہوتا؟ مگر یہ ممکن اس لیے نہیں ہے کہ پلا بڑی حساس مچھلی ہے جو جلد ہی مرجاتی ہے جسے فارم کی جگہ تک پہنچانا ممکن نہیں ہے۔

ہم دعا مانگتے ہیں کہ خدا کرے یہ پانی کا سلسلہ دریائے سندھ میں پہنچتا رہے جہاں سے دریا میں سے ڈیلٹا کے ذریعے سمندر میں گرتا رہے، وہاں سے پلا مچھلی آتی رہے اور ملک میں خوشحالی خاص کرکے مچھیروں میں چلتی رہے۔ اس کے لیے حکومت کو سوچنا چاہیے تاکہ سندھ کے لوگ اس نعمت سے محروم نہ رہیں۔
Load Next Story