پاکستان ریلوے کی بحالی
پھر جب ہوائی جہاز کی پرواز ایک مقررہ بلندی پر پہنچ کر ہموار ہوجاتی ہے
ہمیں ریل کے سفر میں جو لطف آتا ہے وہ اور کسی بھی سفر میں نہیں آتا۔ حتیٰ کہ ہوائی جہاز کے سفر میں بھی نہیں۔ سچ پوچھیے تو ہوائی جہاز کا سفر ہم نے ہمیشہ بحالت مجبوری ہی کیا ہے کیونکہ اندرون ملک اور بیرون ملک کم سے کم وقت میں اڑ کر صرف ہوائی جہاز کے ذریعے ہی پہنچنا ممکن ہے۔ ورنہ تو ہوائی جہاز میں بیٹھ کر یوں لگتا ہے گویا کوئی معذور وہیل چیئر پر بیٹھا ہوا ہو۔ اس کے علاوہ ہوائی جہاز کا ٹیک آف اور لینڈنگ بھی اونٹ کی سواری کے مترادف ہے جس کے بارے میں اپنے بڑوں کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ ''میاں اونٹ کی چڑھائی پر بھی لعنت اور اترائی پر بھی لعنت''۔
پھر جب ہوائی جہاز کی پرواز ایک مقررہ بلندی پر پہنچ کر ہموار ہوجاتی ہے تو قدرے جان میں جان آجاتی ہے لیکن پائلٹ جب یہ اعلان کرتا ہے کہ ہم 35 یا 40 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہے ہیں تو اس وقت ایک تھرتھری سی طاری ہوجاتی ہے اور کبھی کبھار تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا روح قفس عنصری سے پرواز کرنے والی ہے۔ سب سے زیادہ خوف اس وقت طاری ہوتا ہے جب فضائی میزبان پرواز سے تھوڑی دیر پہلے تمام مسافروں کو خدا نخواستہ کسی حادثے کی صورت میں جہاز سے پیراشوٹ کے ذریعے بچ نکلنے کی تدابیر سمجھانے کے لیے اشاروں کی زبان میں بعض احتیاطی تدابیر بتانے کی کوشش کر رہی ہوتی ہے۔
تو صاحبو! ریل کے سفر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انسان اس میں بیٹھ کر نہ وہیل چیئر پر بیٹھا ہوا معذور لگتا ہے اور نہ خود کو فضا میں معلق لٹکا ہوا محسوس کرتا ہے۔ ریل کا ڈبہ گھر کے ایک کمرے کی طرح ہوتا ہے جس میں آپ اپنی مرضی سے اٹھ سکتے ہیں، بیٹھ سکتے ہیں، لیٹ سکتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق چہل قدمی بھی کرسکتے ہیں۔ جیمز واٹ اور جارج اسٹیفنسن کے لیے دل سے ہزاروں دعائیں نکلتی ہیں کہ ان کی کاوشوں کے نتیجے میں ریل کی ایجاد ممکن ہوئی۔ برطانوی راج یا سامراج کی بے شمار خامیاں ایک طرف مگر برصغیر میں ریلوے کا جال بچھانا اس کا ناقابل فراموش کارنامہ اور بہت بڑا احسان ہے جس کی جانب نہایت خوبصورتی سے اشارہ کرتے ہوئے ممتاز مزاح نگار جناب دلاور نگار نے فرمایا تھا:
دور حاضر کو بھلا نسبت کہاں اس دور سے
آپ ہی سوچیں کہاں ٹٹو کہاں پنجاب میل
پنجاب میل اور فرنٹیر میل دو ایسی تیز رفتار مسافر ریل گاڑیاں تھیں جن کی ایک زمانے میں بڑی دھوم مچی ہوئی تھی۔ بچپن میں ان دونوں ٹرینوں کے سفر کی دھندلی سی یادیں ہمارے ذہن میں آج بھی محفوظ ہیں۔
آزادی کے بعد ہندوستان کا ریلوے نظام کس قسم کی بدنظمی کا شکار ہوگا اس کا دلچسپ نقشہ شوکت تھانوی نے اپنے طنزیہ و مزاحیہ شاہکار ''سودیشی ریل'' میں اپنے منفرد انداز میں کھینچا تھا۔ مگر ان کا یہ خاکہ ''آسمان پر تھوکا منہ پر آیا''ثابت ہوا کیونکہ آزادی کے بعد بھارت کا ریلوے نظام تو ایک جھٹکے کے بعد مسلسل بہتری کی جانب گامزن ہوگیا جب کہ پاکستان ریلوے کا نظام روزبروز ابتری بلکہ تباہی و بربادی کا شکار ہوتا چلا گیا۔
بھارتی ریلوے کی یہ خوش قسمتی تھی کہ اسے لال بہادر شاستری اور لالو پرشاد یادو جیسے وزیر باتدبیر میسر آئے جب کہ ہمارے حصے میں بیشتر وزیر ایسے آئے کہ ان کا بس چلتا تو پاکستان ریلوے کی پٹریاں اور سلیپر تک بیچ کر کھاجاتے۔ پاکستان ریلوے کی تباہی و بربادی کی کہانی نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں۔ بقول شاعر:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
ایک زمانہ وہ بھی تھا جب پاکستان ریلوے کا شمار ایشیا کی بہترین ریلویز میں ہوتا تھا اور دنیا کے کئی ممالک اسے رشک بھری نظروں سے دیکھا کرتے تھے اور اپنے ریلوے نظام کے لیے رول ماڈل تصور کرتے تھے۔ ایک رپورٹ کے مطابق آزادی کے بعد پاکستان ریلوے کے پاس 821 ریلوے انجن ہوا کرتے تھے جب کہ یہ تعداد کم ہوتے ہوتے اب صرف 528 رہ گئی ہے جن میں سے صرف 148 رو بصحت ہیں اور چالو حالت میں ہیں۔ ان میں سے کچھ امریکی ہیں، کچھ جاپانی اور کچھ جرمن اور چینی۔ ان میں سے تقریباً تینوں ہی کی ساخت میں کچھ نہ کچھ خامیاں موجود ہیں۔ ہمارے انجینئر، ٹیکنیشنز اور مستری مزدور ان انجنوں کو ٹھوک پیٹ کر اور ان کی مرمت کرکے کسی نہ کسی طرح رواں رکھے ہوئے ہیں۔ ریلوے کے ایک سابق وزیر جنرل (ر) جاوید اشرف قاضی کے دور میں چین سے خریدے گئے ریلوے انجنوں کا حال اب سب کے علم میں آچکا ہے جس کے نتیجے میں ریلوے کو خواہ مخواہ اور بیٹھے بٹھائے نقصان اٹھانا پڑا جس کے بارے میں صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ ''مفلسی اور آٹا گیلا''۔
بدانتظامی اور بدعنوانی ریلوے کے محکمے کو ایک عرصہ دراز سے دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ اس میں ریلوے کے منتظمین اعلیٰ سے لے کر معمولی ملازمین سمیت سبھی لوگ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ضرورت سے زیادہ عملہ یعنی Over Staffing بھی ریلوے کی مسلسل زبوں حالی کا ایک بہت بڑا سبب ہے۔ گھوسٹ ملازمین کا مسئلہ اس کے علاوہ ہے جو صرف تنخواہیں ہی وصول کرتے ہیں۔ یہ ملازمین ریلوے کے محکمے کے لیے آکاش بیل یا Parasites کی طرح نقصان دہ ہیں اور ڈوبتی ہوئی ناؤ کے لیے اضافی بوجھ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ماضی میں پاکستان ریلوے کو محمد خان جونیجو اور شیخ رشید احمد جیسے مخلص اور فعال وزرا بھی میسر آئے جنھوں نے اس محکمے کی حالت کو درست کرنے کی بہت کوشش کی اور اب یہ ذمے داری خواجہ سعد رفیق کے کندھوں پر آن پڑی ہے جو روزوشب اس دائمی مریض کی حالت کو سدھارنے اور اس کے تن مردہ میں جان ڈالنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ خواجہ سعد رفیق کے لیے ریلوے کا محکمہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے جو ناممکن کو ممکن بنادینے کے مترادف ہے۔ سچ پوچھیے تو ریلوے کا محکمہ خواجہ صاحب کے لیے ایک بہت بڑی آزمائش اور ایک کڑا امتحان ہے۔
پٹری سے اتری ہوئی پاکستان ریلوے کو دوبارہ پٹری پر چڑھانے کے لیے خلوص نیت اور عزم صمیم کے علاوہ ایک کارگر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ یہ حکمت عملی قلیل المدت اور طویل المدت منصوبوں پر مشتمل ہونی چاہیے۔ لیکن سب سے پہلے ان عوامل کا جائزہ لیا جانا چاہیے جو اس محکمے کے خسارے میں جانے کا سبب ہیں۔ ملک میں آبادی کے تیزی سے بڑھنے کے رجحان کے نتیجے میں ریلوے کے مسافروں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اس لیے ممکن نہیں کہ ریلوے کی آمدنی میں کمی کے لیے مسافروں کی تعداد کو بہانہ بنایا جائے۔عام مشاہدہ بھی یہی بتاتا ہے کہ ہر ریل گاڑی مسافروں سے کھچاکھچ بھری ہوئی ہوتی ہے اور عالم یہ ہے کہ ریل کے ڈبوں کے بیت الخلا تک میں مسافر بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ریلوے کے ٹکٹوں کی بکنگ کے نظام کو سائنسی بنیادوں پر درست (Stream Line) کیا جائے تاکہ بدعنوان عناصر کی حوصلہ شکنی ہو۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ یہ بدعنوانی ریلوے کے عملے کے علاوہ قلیوں اور پولیس اہلکاروں کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ریلوے کے محکمے کی سب سے زیادہ دکھتی ہوئی رگ یہی ہے۔ اگر ان بدعنوان عناصر کی اچھی طرح سرکوبی کرلی جائے تو ریلوے کے خسارے کو کافی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔
ریلوے کا دوسرا اہم حصہ اس کی مال گاڑیاں ہیں جن کی تعداد میں بھی ماضی کی بہ نسبت بہت کمی واقع ہوئی ہے۔ یہاں بھی ریلوے انجنوں کی تعداد میں مسلسل کمی ایک بنیادی سبب ہے۔ انجنوں کی بروقت عدم دستیابی اور راستے میں اچانک خرابی نے مال گاڑیوں کی آمدورفت کو بہت بری طرح متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے لوگوں نے روڈ گڈز ٹرانسپورٹ کو ترجیح دینا شروع کردی ہے۔ ظاہر ہے تاجر طبقہ مال گاڑیوں کی آمدورفت میں غیر معمولی تاخیر اور ان کے نظام میں غیر یقینی صورت حال کا متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ وقت کی پابندی کو ہر کاروبار میں نمایاں اور سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا وزیر ریلوے کو ہمارا سب سے پہلا مشورہ یہ ہے کہ وہ ٹرینوں کی آمدورفت کو زیادہ سے زیادہ بروقت اور یقینی بنائیں اور اس کے بعد فالتو اسٹاف کی اسکریننگ اور فرسودہ انجنوں، بوگیوں اور دیگر سازو سامان کی تبدیلی کا اہتمام کریں تاکہ ریلوے کے محکمے پر عوام اور بالخصوص تاجر برادری کا کھویا ہوا اعتماد بحال ہوسکے۔
پھر جب ہوائی جہاز کی پرواز ایک مقررہ بلندی پر پہنچ کر ہموار ہوجاتی ہے تو قدرے جان میں جان آجاتی ہے لیکن پائلٹ جب یہ اعلان کرتا ہے کہ ہم 35 یا 40 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہے ہیں تو اس وقت ایک تھرتھری سی طاری ہوجاتی ہے اور کبھی کبھار تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا روح قفس عنصری سے پرواز کرنے والی ہے۔ سب سے زیادہ خوف اس وقت طاری ہوتا ہے جب فضائی میزبان پرواز سے تھوڑی دیر پہلے تمام مسافروں کو خدا نخواستہ کسی حادثے کی صورت میں جہاز سے پیراشوٹ کے ذریعے بچ نکلنے کی تدابیر سمجھانے کے لیے اشاروں کی زبان میں بعض احتیاطی تدابیر بتانے کی کوشش کر رہی ہوتی ہے۔
تو صاحبو! ریل کے سفر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انسان اس میں بیٹھ کر نہ وہیل چیئر پر بیٹھا ہوا معذور لگتا ہے اور نہ خود کو فضا میں معلق لٹکا ہوا محسوس کرتا ہے۔ ریل کا ڈبہ گھر کے ایک کمرے کی طرح ہوتا ہے جس میں آپ اپنی مرضی سے اٹھ سکتے ہیں، بیٹھ سکتے ہیں، لیٹ سکتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق چہل قدمی بھی کرسکتے ہیں۔ جیمز واٹ اور جارج اسٹیفنسن کے لیے دل سے ہزاروں دعائیں نکلتی ہیں کہ ان کی کاوشوں کے نتیجے میں ریل کی ایجاد ممکن ہوئی۔ برطانوی راج یا سامراج کی بے شمار خامیاں ایک طرف مگر برصغیر میں ریلوے کا جال بچھانا اس کا ناقابل فراموش کارنامہ اور بہت بڑا احسان ہے جس کی جانب نہایت خوبصورتی سے اشارہ کرتے ہوئے ممتاز مزاح نگار جناب دلاور نگار نے فرمایا تھا:
دور حاضر کو بھلا نسبت کہاں اس دور سے
آپ ہی سوچیں کہاں ٹٹو کہاں پنجاب میل
پنجاب میل اور فرنٹیر میل دو ایسی تیز رفتار مسافر ریل گاڑیاں تھیں جن کی ایک زمانے میں بڑی دھوم مچی ہوئی تھی۔ بچپن میں ان دونوں ٹرینوں کے سفر کی دھندلی سی یادیں ہمارے ذہن میں آج بھی محفوظ ہیں۔
آزادی کے بعد ہندوستان کا ریلوے نظام کس قسم کی بدنظمی کا شکار ہوگا اس کا دلچسپ نقشہ شوکت تھانوی نے اپنے طنزیہ و مزاحیہ شاہکار ''سودیشی ریل'' میں اپنے منفرد انداز میں کھینچا تھا۔ مگر ان کا یہ خاکہ ''آسمان پر تھوکا منہ پر آیا''ثابت ہوا کیونکہ آزادی کے بعد بھارت کا ریلوے نظام تو ایک جھٹکے کے بعد مسلسل بہتری کی جانب گامزن ہوگیا جب کہ پاکستان ریلوے کا نظام روزبروز ابتری بلکہ تباہی و بربادی کا شکار ہوتا چلا گیا۔
بھارتی ریلوے کی یہ خوش قسمتی تھی کہ اسے لال بہادر شاستری اور لالو پرشاد یادو جیسے وزیر باتدبیر میسر آئے جب کہ ہمارے حصے میں بیشتر وزیر ایسے آئے کہ ان کا بس چلتا تو پاکستان ریلوے کی پٹریاں اور سلیپر تک بیچ کر کھاجاتے۔ پاکستان ریلوے کی تباہی و بربادی کی کہانی نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں۔ بقول شاعر:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
ایک زمانہ وہ بھی تھا جب پاکستان ریلوے کا شمار ایشیا کی بہترین ریلویز میں ہوتا تھا اور دنیا کے کئی ممالک اسے رشک بھری نظروں سے دیکھا کرتے تھے اور اپنے ریلوے نظام کے لیے رول ماڈل تصور کرتے تھے۔ ایک رپورٹ کے مطابق آزادی کے بعد پاکستان ریلوے کے پاس 821 ریلوے انجن ہوا کرتے تھے جب کہ یہ تعداد کم ہوتے ہوتے اب صرف 528 رہ گئی ہے جن میں سے صرف 148 رو بصحت ہیں اور چالو حالت میں ہیں۔ ان میں سے کچھ امریکی ہیں، کچھ جاپانی اور کچھ جرمن اور چینی۔ ان میں سے تقریباً تینوں ہی کی ساخت میں کچھ نہ کچھ خامیاں موجود ہیں۔ ہمارے انجینئر، ٹیکنیشنز اور مستری مزدور ان انجنوں کو ٹھوک پیٹ کر اور ان کی مرمت کرکے کسی نہ کسی طرح رواں رکھے ہوئے ہیں۔ ریلوے کے ایک سابق وزیر جنرل (ر) جاوید اشرف قاضی کے دور میں چین سے خریدے گئے ریلوے انجنوں کا حال اب سب کے علم میں آچکا ہے جس کے نتیجے میں ریلوے کو خواہ مخواہ اور بیٹھے بٹھائے نقصان اٹھانا پڑا جس کے بارے میں صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ ''مفلسی اور آٹا گیلا''۔
بدانتظامی اور بدعنوانی ریلوے کے محکمے کو ایک عرصہ دراز سے دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ اس میں ریلوے کے منتظمین اعلیٰ سے لے کر معمولی ملازمین سمیت سبھی لوگ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ضرورت سے زیادہ عملہ یعنی Over Staffing بھی ریلوے کی مسلسل زبوں حالی کا ایک بہت بڑا سبب ہے۔ گھوسٹ ملازمین کا مسئلہ اس کے علاوہ ہے جو صرف تنخواہیں ہی وصول کرتے ہیں۔ یہ ملازمین ریلوے کے محکمے کے لیے آکاش بیل یا Parasites کی طرح نقصان دہ ہیں اور ڈوبتی ہوئی ناؤ کے لیے اضافی بوجھ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ماضی میں پاکستان ریلوے کو محمد خان جونیجو اور شیخ رشید احمد جیسے مخلص اور فعال وزرا بھی میسر آئے جنھوں نے اس محکمے کی حالت کو درست کرنے کی بہت کوشش کی اور اب یہ ذمے داری خواجہ سعد رفیق کے کندھوں پر آن پڑی ہے جو روزوشب اس دائمی مریض کی حالت کو سدھارنے اور اس کے تن مردہ میں جان ڈالنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ خواجہ سعد رفیق کے لیے ریلوے کا محکمہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے جو ناممکن کو ممکن بنادینے کے مترادف ہے۔ سچ پوچھیے تو ریلوے کا محکمہ خواجہ صاحب کے لیے ایک بہت بڑی آزمائش اور ایک کڑا امتحان ہے۔
پٹری سے اتری ہوئی پاکستان ریلوے کو دوبارہ پٹری پر چڑھانے کے لیے خلوص نیت اور عزم صمیم کے علاوہ ایک کارگر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ یہ حکمت عملی قلیل المدت اور طویل المدت منصوبوں پر مشتمل ہونی چاہیے۔ لیکن سب سے پہلے ان عوامل کا جائزہ لیا جانا چاہیے جو اس محکمے کے خسارے میں جانے کا سبب ہیں۔ ملک میں آبادی کے تیزی سے بڑھنے کے رجحان کے نتیجے میں ریلوے کے مسافروں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اس لیے ممکن نہیں کہ ریلوے کی آمدنی میں کمی کے لیے مسافروں کی تعداد کو بہانہ بنایا جائے۔عام مشاہدہ بھی یہی بتاتا ہے کہ ہر ریل گاڑی مسافروں سے کھچاکھچ بھری ہوئی ہوتی ہے اور عالم یہ ہے کہ ریل کے ڈبوں کے بیت الخلا تک میں مسافر بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ریلوے کے ٹکٹوں کی بکنگ کے نظام کو سائنسی بنیادوں پر درست (Stream Line) کیا جائے تاکہ بدعنوان عناصر کی حوصلہ شکنی ہو۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ یہ بدعنوانی ریلوے کے عملے کے علاوہ قلیوں اور پولیس اہلکاروں کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ریلوے کے محکمے کی سب سے زیادہ دکھتی ہوئی رگ یہی ہے۔ اگر ان بدعنوان عناصر کی اچھی طرح سرکوبی کرلی جائے تو ریلوے کے خسارے کو کافی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔
ریلوے کا دوسرا اہم حصہ اس کی مال گاڑیاں ہیں جن کی تعداد میں بھی ماضی کی بہ نسبت بہت کمی واقع ہوئی ہے۔ یہاں بھی ریلوے انجنوں کی تعداد میں مسلسل کمی ایک بنیادی سبب ہے۔ انجنوں کی بروقت عدم دستیابی اور راستے میں اچانک خرابی نے مال گاڑیوں کی آمدورفت کو بہت بری طرح متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے لوگوں نے روڈ گڈز ٹرانسپورٹ کو ترجیح دینا شروع کردی ہے۔ ظاہر ہے تاجر طبقہ مال گاڑیوں کی آمدورفت میں غیر معمولی تاخیر اور ان کے نظام میں غیر یقینی صورت حال کا متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ وقت کی پابندی کو ہر کاروبار میں نمایاں اور سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا وزیر ریلوے کو ہمارا سب سے پہلا مشورہ یہ ہے کہ وہ ٹرینوں کی آمدورفت کو زیادہ سے زیادہ بروقت اور یقینی بنائیں اور اس کے بعد فالتو اسٹاف کی اسکریننگ اور فرسودہ انجنوں، بوگیوں اور دیگر سازو سامان کی تبدیلی کا اہتمام کریں تاکہ ریلوے کے محکمے پر عوام اور بالخصوص تاجر برادری کا کھویا ہوا اعتماد بحال ہوسکے۔