سُپر پاور کا غرور کیا تباہیاں لائے گا
شام پر حملے کے منصوبے میں نیٹو نے بھی شمولیت سے انکار کر دیا ہے۔
اوباما نے اپنے اتحادیوں، دنیا کے اہم ملکوں اور دنیا کے عوام کی مخالفت کے باوجود شام پر حملہ کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا ہے۔ امریکی صدر اپنے اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے اس حد تک آگے نکل گئے ہیں کہ انھوں نے اقوام متحدہ کی منظوری کو بھی غیر ضروری کہتے ہوئے اپنے غرور کے جوتے کی نوک پر رکھ دیا ہے۔ اقوام متحدہ کا سیکریٹری جنرل بان کی مون کہہ رہا ہے کہ اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر امریکا شام پر حملہ نہیں کر سکتا۔ اس حوالے سے بان کی مون نے یہ بھی کہا ہے کہ شام میں زہریلی گیس کے استعمال کے بارے میں جو ٹیم بھیجی گئی تھی اس کی رپورٹ دو تین ہفتوں میں آئے گی لیکن عالمی ادارے کے اس رکھوالے کو شام پر حملہ کرنے کی اس قدر جلدی ہے کہ وہ اس رپورٹ کا انتظار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ روس اور چین سلامتی کونسل میں شام پر حملے کے لیے پیش کی جانے والی قرارداد کو ویٹو کر چکے ہیں۔
شام پر حملے کے منصوبے میں نیٹو نے بھی شمولیت سے انکار کر دیا ہے۔ اوباما نے شام پر حملے کے لیے جس زہریلی گیس کو جواز بنایا ہے اس کی تحقیق اقوام متحدہ کر رہی ہے۔ روس نے اوباما سے کہا ہے کہ وہ بشارالاسد حکومت پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا جو الزام لگا رہے ہیں یہ الزام ایک حماقت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ روسی صدر اس حوالے سے ایک معقول بات یہ کر رہے ہیں کہ ''امریکا شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے ثبوت سلامتی کونسل میں پیش کرے'' لیکن جنگی جنون میں مست اوباما کسی کی معقول بات سننے کے لیے تیار نہیں۔ موصوف اس اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی بات کو جوتوں تلے روند رہے ہیں جس کا احترام کرنے کا درس وہ دنیا کے تمام ملکوں کو دیتے ہیں۔
امریکا کو اپنے قانون اور انصاف کے نظام پر بڑا ناز ہے، امریکا کا حکمران طبقہ جو ساری دنیا کو قانون اور انصاف کے احترام کا درس دیتا ہے وہ ساری دنیا کے منتخب ادارے اور اس کے قوانین کو ماننے سے سر عام انکار کر رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی سپر پاور عالمی قوانین کو ماننے سے اس طرح انکار کر دے تو دنیا میں قانون اور انصاف کا کیا حشر ہو سکتا ہے اور جنگل کے قانون اور مہذب دنیا کے قانون میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ خود امریکی عوام کی بھاری اکثریت شام پر حملے کی سخت مخالفت کر رہی ہے لیکن اوباما کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں۔
9/11 کے حملے میں بلاشبہ چند ہزار بے گناہ انسانوں کا جانی نقصان ہوا لیکن اس جانی نقصان کا بدلہ لینے کے لیے بش حکومت نے افغانستان پر جو حملہ کیا اس میں اب تک 10 لاکھ کے لگ بھگ افغان مارے گئے ہیں، ان 10 لاکھ بے گناہ افغانوں کے خون کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ اوباما جو دنیا کی رائے عامہ اپنے اتحادیوں کی مخالفت اور روس، چین سمیت دنیا کے بیسوں ملکوں کے انتباہ کے باوجود جنگ کی جو آگ بھڑکانے جا رہا ہے کیا یہ آگ اوباما کی مرضی کے مطابق محدود رہے گی؟ اوباما کا کہنا ہے کہ ہم شام میں اپنی فوجیں نہیں اتاریں گے بلکہ اپنے بحری بیڑوں کے ذریعے شام کی اہم فوجی تنصیبات کو تباہ کر دیں گے۔ ادھر شام اور ایران کے حکمرانوں نے اوباما کو متنبہ کیا ہے کہ اگر امریکا نے شام پر حملہ کرنے کی حماقت کی تو نہ صرف شام امریکا کا قبرستان بن جائے گا بلکہ یہ جنگ ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ امریکا شام کے باغی صدر بشارالاسد کی جگہ اپنے کسی پٹھو کو شام کا صدر بنانا چاہتا ہے اور اس مقصد کے لیے اس نے شام میں مصنوعی باغیوں کی کھیپ پہنچائیں، انھیں جدید ترین اسلحہ اور ڈالر، ریال، درہم و دینار کے انبار دیے۔ شامی عوام کے قتل عام کا پروپیگنڈا کروایا، ان ساری کوششوں کے باوجود جب وہ بشارالاسد کو نہ ہٹا سکا تو اب شام پر براہ راست حملے کے لیے تلا بیٹھا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکی کانگریس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ دنیا کے کسی آزاد اور خود مختار ملک پر حملے کے اختیارات اپنے صدر کو دے۔ یہ دنیا کے سب سے بڑے جمہوریت کے رکھوالے ملک کی ایسی فسطائیت ہے جس کی مثال دنیا کی مہذب تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ امریکا کی پہلی جارحیت نہیں ہے، بلکہ پچھلے دس پندرہ برسوں کے دوران اس نے بین الاقوامی قوانین کو دو بار توڑا ہے، عراق اور افغانستان پر حملوں کے بعد شام پر اس کا حملہ سامراجی ذہنیت کا تیسرا کارنامہ ہے۔ شام کے عوام امریکی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے انسانی ڈھال سمیت جو دوسری تیاریاں کر رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکا کا یہ پروپیگنڈا غلط ہے کہ شام میں بشارالاسد کے خلاف عوامی بغاوت ہو رہی ہے حالانکہ یہ امریکی ایجنٹ ہیں۔ اس قسم کی گھٹیا حرکت امریکا کے سابق صدر بش نے عراقی صدر صدام حسین پر خطرناک ہتھیاروں کا ذخیرہ کرنے کا الزام لگا کر کی تھی جو بعد میں غلط ثابت ہوئی۔
امریکا کے صدر کا ارشاد ہے کہ امریکی حملہ محدود ہو گا لیکن دنیا کی جنگی تاریخ میں عموماً محدود حملے لامحدود جنگوں میں بدل گئے ہیں۔ امریکا نے جن ملکوں کو ''بدی کی طاقتوں'' کا نام دیا ہے ان میں ایران بھی شامل ہے، ایران اگرچہ ایک چھوٹا سا ملک ہے لیکن امریکا اپنی ساری طاقت، ساری سازشیں، ساری پابندیاں لگانے کے باوجود ایران کو اب تک زیر نہ کر سکا۔ ایران کو مشکلات سے دوچار کرنے کے لیے عاقبت نااندیش اوباما حکومت نے انقلاب ایران کے مخالف دہشت گرد گروہوں کو دہشت گردوں کی اپنی بنائی ہوئی فہرست سے نکال کر انھیں ایرانی حکومت کے خلاف دہشت گردی کی کھلی چھوٹ دے دی ہے۔ ایران کی حکومت نے امریکی صدر اوباما کو خبردار کیا ہے کہ وہ شام پر حملہ کرنے کی حماقت کا ارتکاب نہ کرے۔ شام پر مسلط کی جانے والی جنگ میں شام اکیلا نہیں ہو گا بلکہ ایران اس کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ شام پر حملے کو ایران اپنے اوپر حملہ سمجھے گا اور اسی طرح اس کا جواب دے گا۔
ایران کے اس انتباہ، روس کی واضح وارننگ اور اسرائیل کی شام کے خلاف جنگی تیاریوں کے پس منظر میں یہ کہنا بڑی حماقت کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ''یہ حملہ یا جنگ محدود ہو گی''۔ اس احمقانہ تاویل کے برخلاف یہ بات صاف نظر آ رہی کہ امریکا کا شام پر محدود حملہ ایک ایسی لامحدود جنگ میں بدل جائے گا جو تیسری عالمی جنگ کا روپ بھی دھار سکتی ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں ایٹمی ہتھیار صرف امریکا کے پاس تھے، اب شمالی کوریا، پاکستان اور ہندوستان جیسے پسماندہ ملک بھی ایٹمی ہتھیاروں کے مالک ہیں۔ جنگ ہمیشہ محدود انداز ہی میں شروع ہوتی ہے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اوباما جس جنگ کو محدود جنگ کا نام دے رہے ہیں وہ دیکھتے ہی دیکھتے لا محدود جنگ میں بدل جائے گی اور خطرہ یہ ہے کہ یہ محدود جنگ کہیں ایٹمی جنگ میں نہ بدل جائے۔
بش کے بدترین دور حکمرانی کے بعد بارک اوباما کے برسر اقتدار آنے کے بعد دنیا یہ امید کر رہی تھی کہ لوئر مڈل کلاس اور کالی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والا یہ صدر امریکا کو اس کی جارحانہ پالیسیوں سے نجات دلا کر دنیا میں امن کی نوید دے گا، لیکن یہ توقع اس لیے بے معنی تھی کہ امریکا کے صدر اور اس کی حکومت امریکا کی صدارت میں ہمیشہ سرمایہ دارانہ نظام کے اسیر ہوتے ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کے جسم میں جنگیں سانس بن کر دوڑتی رہتی ہیں۔ یہ نظام جنگوں کو ختم نہیں کرتا بلکہ جنگوں کو فروغ دیتا ہے، جنگیں اس کی ضرورت ہوتی ہیں، کیونکہ ہتھیاروں کی صنعت پر لگا ہوا کھربوں ڈالر کا سرمایہ منافع مانگتا ہے اور منافع کا تعلق ہتھیاروں کی تجارت سے جڑا ہوا ہے، ہتھیاروں کی تجارت کے لیے جنگوں کا ہونا ضروری ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پسماندہ ملکوں کے درمیان علاقائی تنازعات کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آتا اور علاقائی تنازعات کا مطلب ہتھیاروں کی دوڑ ہے جس پر پسماندہ ملکوں کے حکمران اربوں روپے صرف کرتے ہیں اور اربوں کا کک بیک کماتے ہیں۔ انھیں اس بات کی ذرہ برابر فکر نہیں ہوتی کہ اسلحے کی دوڑ پر خرچ کیا جانے والا اربوں ڈالر کا سرمایہ اگر عوام کی غربت دور کرنے پر لگایا جائے تو دنیا سے غربت کا نام و نشان مٹ سکتا ہے۔
شام پر حملہ جہاں اپنے اندر سامراجی مفادات رکھتا ہے وہیں بالواسطہ طور پر ہتھیاروں کی تجارت کے فروغ کا سبب بھی بنتا ہے۔ دنیا کے آزاد ملکوں اور دنیا کے عوام کی ذمے داری نہیں بلکہ فرض ہے کہ وہ امریکا کو شام پر حملے سے روکنے کی کوشش کریں۔ یہ امریکی عوام کی ذمے داری بھی ہے کہ امریکی صدر کو عراق اور افغانستان میں ہونے والے جانی و مالی نقصانات کا احساس دلا کر ایک نئی جنگ چھیڑنے سے باز رکھیں، ورنہ پورا مشرق وسطیٰ جنگ کی لپیٹ میں آ جائے گا اور ہزاروں نہیں لاکھوں انسانی جانوں کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔
شام پر حملے کے منصوبے میں نیٹو نے بھی شمولیت سے انکار کر دیا ہے۔ اوباما نے شام پر حملے کے لیے جس زہریلی گیس کو جواز بنایا ہے اس کی تحقیق اقوام متحدہ کر رہی ہے۔ روس نے اوباما سے کہا ہے کہ وہ بشارالاسد حکومت پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا جو الزام لگا رہے ہیں یہ الزام ایک حماقت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ روسی صدر اس حوالے سے ایک معقول بات یہ کر رہے ہیں کہ ''امریکا شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے ثبوت سلامتی کونسل میں پیش کرے'' لیکن جنگی جنون میں مست اوباما کسی کی معقول بات سننے کے لیے تیار نہیں۔ موصوف اس اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی بات کو جوتوں تلے روند رہے ہیں جس کا احترام کرنے کا درس وہ دنیا کے تمام ملکوں کو دیتے ہیں۔
امریکا کو اپنے قانون اور انصاف کے نظام پر بڑا ناز ہے، امریکا کا حکمران طبقہ جو ساری دنیا کو قانون اور انصاف کے احترام کا درس دیتا ہے وہ ساری دنیا کے منتخب ادارے اور اس کے قوانین کو ماننے سے سر عام انکار کر رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی سپر پاور عالمی قوانین کو ماننے سے اس طرح انکار کر دے تو دنیا میں قانون اور انصاف کا کیا حشر ہو سکتا ہے اور جنگل کے قانون اور مہذب دنیا کے قانون میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ خود امریکی عوام کی بھاری اکثریت شام پر حملے کی سخت مخالفت کر رہی ہے لیکن اوباما کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں۔
9/11 کے حملے میں بلاشبہ چند ہزار بے گناہ انسانوں کا جانی نقصان ہوا لیکن اس جانی نقصان کا بدلہ لینے کے لیے بش حکومت نے افغانستان پر جو حملہ کیا اس میں اب تک 10 لاکھ کے لگ بھگ افغان مارے گئے ہیں، ان 10 لاکھ بے گناہ افغانوں کے خون کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ اوباما جو دنیا کی رائے عامہ اپنے اتحادیوں کی مخالفت اور روس، چین سمیت دنیا کے بیسوں ملکوں کے انتباہ کے باوجود جنگ کی جو آگ بھڑکانے جا رہا ہے کیا یہ آگ اوباما کی مرضی کے مطابق محدود رہے گی؟ اوباما کا کہنا ہے کہ ہم شام میں اپنی فوجیں نہیں اتاریں گے بلکہ اپنے بحری بیڑوں کے ذریعے شام کی اہم فوجی تنصیبات کو تباہ کر دیں گے۔ ادھر شام اور ایران کے حکمرانوں نے اوباما کو متنبہ کیا ہے کہ اگر امریکا نے شام پر حملہ کرنے کی حماقت کی تو نہ صرف شام امریکا کا قبرستان بن جائے گا بلکہ یہ جنگ ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ امریکا شام کے باغی صدر بشارالاسد کی جگہ اپنے کسی پٹھو کو شام کا صدر بنانا چاہتا ہے اور اس مقصد کے لیے اس نے شام میں مصنوعی باغیوں کی کھیپ پہنچائیں، انھیں جدید ترین اسلحہ اور ڈالر، ریال، درہم و دینار کے انبار دیے۔ شامی عوام کے قتل عام کا پروپیگنڈا کروایا، ان ساری کوششوں کے باوجود جب وہ بشارالاسد کو نہ ہٹا سکا تو اب شام پر براہ راست حملے کے لیے تلا بیٹھا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکی کانگریس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ دنیا کے کسی آزاد اور خود مختار ملک پر حملے کے اختیارات اپنے صدر کو دے۔ یہ دنیا کے سب سے بڑے جمہوریت کے رکھوالے ملک کی ایسی فسطائیت ہے جس کی مثال دنیا کی مہذب تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ امریکا کی پہلی جارحیت نہیں ہے، بلکہ پچھلے دس پندرہ برسوں کے دوران اس نے بین الاقوامی قوانین کو دو بار توڑا ہے، عراق اور افغانستان پر حملوں کے بعد شام پر اس کا حملہ سامراجی ذہنیت کا تیسرا کارنامہ ہے۔ شام کے عوام امریکی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے انسانی ڈھال سمیت جو دوسری تیاریاں کر رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکا کا یہ پروپیگنڈا غلط ہے کہ شام میں بشارالاسد کے خلاف عوامی بغاوت ہو رہی ہے حالانکہ یہ امریکی ایجنٹ ہیں۔ اس قسم کی گھٹیا حرکت امریکا کے سابق صدر بش نے عراقی صدر صدام حسین پر خطرناک ہتھیاروں کا ذخیرہ کرنے کا الزام لگا کر کی تھی جو بعد میں غلط ثابت ہوئی۔
امریکا کے صدر کا ارشاد ہے کہ امریکی حملہ محدود ہو گا لیکن دنیا کی جنگی تاریخ میں عموماً محدود حملے لامحدود جنگوں میں بدل گئے ہیں۔ امریکا نے جن ملکوں کو ''بدی کی طاقتوں'' کا نام دیا ہے ان میں ایران بھی شامل ہے، ایران اگرچہ ایک چھوٹا سا ملک ہے لیکن امریکا اپنی ساری طاقت، ساری سازشیں، ساری پابندیاں لگانے کے باوجود ایران کو اب تک زیر نہ کر سکا۔ ایران کو مشکلات سے دوچار کرنے کے لیے عاقبت نااندیش اوباما حکومت نے انقلاب ایران کے مخالف دہشت گرد گروہوں کو دہشت گردوں کی اپنی بنائی ہوئی فہرست سے نکال کر انھیں ایرانی حکومت کے خلاف دہشت گردی کی کھلی چھوٹ دے دی ہے۔ ایران کی حکومت نے امریکی صدر اوباما کو خبردار کیا ہے کہ وہ شام پر حملہ کرنے کی حماقت کا ارتکاب نہ کرے۔ شام پر مسلط کی جانے والی جنگ میں شام اکیلا نہیں ہو گا بلکہ ایران اس کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ شام پر حملے کو ایران اپنے اوپر حملہ سمجھے گا اور اسی طرح اس کا جواب دے گا۔
ایران کے اس انتباہ، روس کی واضح وارننگ اور اسرائیل کی شام کے خلاف جنگی تیاریوں کے پس منظر میں یہ کہنا بڑی حماقت کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ''یہ حملہ یا جنگ محدود ہو گی''۔ اس احمقانہ تاویل کے برخلاف یہ بات صاف نظر آ رہی کہ امریکا کا شام پر محدود حملہ ایک ایسی لامحدود جنگ میں بدل جائے گا جو تیسری عالمی جنگ کا روپ بھی دھار سکتی ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں ایٹمی ہتھیار صرف امریکا کے پاس تھے، اب شمالی کوریا، پاکستان اور ہندوستان جیسے پسماندہ ملک بھی ایٹمی ہتھیاروں کے مالک ہیں۔ جنگ ہمیشہ محدود انداز ہی میں شروع ہوتی ہے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اوباما جس جنگ کو محدود جنگ کا نام دے رہے ہیں وہ دیکھتے ہی دیکھتے لا محدود جنگ میں بدل جائے گی اور خطرہ یہ ہے کہ یہ محدود جنگ کہیں ایٹمی جنگ میں نہ بدل جائے۔
بش کے بدترین دور حکمرانی کے بعد بارک اوباما کے برسر اقتدار آنے کے بعد دنیا یہ امید کر رہی تھی کہ لوئر مڈل کلاس اور کالی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والا یہ صدر امریکا کو اس کی جارحانہ پالیسیوں سے نجات دلا کر دنیا میں امن کی نوید دے گا، لیکن یہ توقع اس لیے بے معنی تھی کہ امریکا کے صدر اور اس کی حکومت امریکا کی صدارت میں ہمیشہ سرمایہ دارانہ نظام کے اسیر ہوتے ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کے جسم میں جنگیں سانس بن کر دوڑتی رہتی ہیں۔ یہ نظام جنگوں کو ختم نہیں کرتا بلکہ جنگوں کو فروغ دیتا ہے، جنگیں اس کی ضرورت ہوتی ہیں، کیونکہ ہتھیاروں کی صنعت پر لگا ہوا کھربوں ڈالر کا سرمایہ منافع مانگتا ہے اور منافع کا تعلق ہتھیاروں کی تجارت سے جڑا ہوا ہے، ہتھیاروں کی تجارت کے لیے جنگوں کا ہونا ضروری ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پسماندہ ملکوں کے درمیان علاقائی تنازعات کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آتا اور علاقائی تنازعات کا مطلب ہتھیاروں کی دوڑ ہے جس پر پسماندہ ملکوں کے حکمران اربوں روپے صرف کرتے ہیں اور اربوں کا کک بیک کماتے ہیں۔ انھیں اس بات کی ذرہ برابر فکر نہیں ہوتی کہ اسلحے کی دوڑ پر خرچ کیا جانے والا اربوں ڈالر کا سرمایہ اگر عوام کی غربت دور کرنے پر لگایا جائے تو دنیا سے غربت کا نام و نشان مٹ سکتا ہے۔
شام پر حملہ جہاں اپنے اندر سامراجی مفادات رکھتا ہے وہیں بالواسطہ طور پر ہتھیاروں کی تجارت کے فروغ کا سبب بھی بنتا ہے۔ دنیا کے آزاد ملکوں اور دنیا کے عوام کی ذمے داری نہیں بلکہ فرض ہے کہ وہ امریکا کو شام پر حملے سے روکنے کی کوشش کریں۔ یہ امریکی عوام کی ذمے داری بھی ہے کہ امریکی صدر کو عراق اور افغانستان میں ہونے والے جانی و مالی نقصانات کا احساس دلا کر ایک نئی جنگ چھیڑنے سے باز رکھیں، ورنہ پورا مشرق وسطیٰ جنگ کی لپیٹ میں آ جائے گا اور ہزاروں نہیں لاکھوں انسانی جانوں کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔