پاور سیکٹر کے ذمے واجب الادا گردشی قرضے دوبارہ155ارب سے بڑھ گئے

حکومت مئی میں تمام گردشی قرضے اداکرچکی تھی، ٹیرف بڑھانے میں تاخیر، چوری روکنے اور بلوں کی مد میں وصولی میں ناکامی۔۔۔

ادائیگی پاور سیکٹر کو مستحکم کرنے کیلیے تھی،بحران کا حل قرار دینا مناسب نہیں،ٹیرف اصلاحات، لائن لاسز پر کنٹرول حقیقی چیلنجزقرار. فوٹو: فائل

نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن کمپنی پر واجب الادا رقم دوبارہ 155.64 ارب روپے ہوگئی ہے اس کی وجہ پالیسی سازوں کی ٹیرف میں اضافے میں تاخیر اور بجلی کی چوری کو روکنے اور بلوں کی مد میں وصولی میں ناکامی ہے۔

تاہم حکومت نے 31 مئی 2013 تک پاور سیکٹر کے ذمے تمام گردشی قرضے چکتا کردیے تھے۔ حکومت نے صنعتی صارفین کیلیے پاور ٹیرف میں اضافہ کردیا تھا تاہم گھریلو صارفین کیلیے اکتوبر سے اضافہ کیا جائے گا۔ پاور سیکٹر ماہرین کی رائے ہے کہ حکومتی ٹیرف اصلاحات سے حکومت کو فائدہ پہنچے گا تاہم بجلی کی چوری اور بلوں کی مد میں عدم وصولی سے ایک بار پھر گردشی قرضوں کے بڑھنے کا اندیشہ ہے۔گردشی قرضوں کی ادائیگی حکومت کا ایک دلیرانہ اور درست سمت میں اقدام تھا تاہم اس کو بجلی کے بحران کو حل کرنے کا رنگ دینا نامناسب تھا۔

اس کا مقصد پاور سیکٹر کو مستحکم کرنا تھا۔ حکومت کا حقیقی چیلنج بجلی کی چوری کو روکنا، بلوں کی مد میں وصولی، گھریلو اور صنعتی صارفین کیلیے ٹیرف اصلاحات، ڈسٹری بیوشن اور ٹرانسمیشن کو جدید بنا کر لائن لاسز کو روکنا تھا۔ حکومت کو 54 ارب روپے ایسے آئی پی پیز کو ادا کرنے ہیں جو اپنے ذرائع سے فیول حاصل کرتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کو 30 ستمبر 2013 سے پہلے اس حوالے سے طویل المدت قرضے کی مد میں ادائیگی کرنی ہے۔ ان آئی پی پیز نے اگر ادائیگی نہیں کی تو انہیں پیداوار کم کرنی پڑے گی جس سے لوڈ شیڈنگ میں اضافہ ہوگا۔




اس کے برعکس 102ارب روپے سرکاری پاور کمپنیوں کو ادا کرنے ہیں تاہم ان کو اگر ادائیگی نہ بھی کی جائے تو پیداوار پر اثر نہیں پڑے گا۔ حکومت کو 30 ستمبر سے پہلے ادائیگی کیلیے سبسڈی کو بڑھانا ہوگا تاکہ 54 ارب روپے کی ادائیگی ممکن ہوسکے اور لوڈ شیڈنگ بڑھنے کے امکانات کو ختم کیا جاسکے۔ وزارت بجلی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے انتظام کے تحت این ٹی ڈی سی کو بجلی کی فراہمی کے 60 یوم میں 2002 پالیسی کے تحت قائم ہونے والے آئی پی پیز کو ادائیگی کرنی ہے۔ آئی پی پیز کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط بھی کیے گئے تھے۔

جبکہ حکومت پاکستان نے اس بارے میں نیپرا کو بھی تحریر کیا ہے۔ اس بارے میں آئی پی پیز نے بھی اضافی لاگت کی مد میں تجاویز نیپرا کو منظوری کیلیے جمع کرائی ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر ورکنگ کیپیٹل کی منظوری ہوجاتی ہے تو حکومت کوسود کی مد میں کیبور بمع 4.5 فیصد سے کیبور بمع 2 فیصد تک بچت ہوگی۔ٹورس سیکوریٹیز کے سینئر تجزیہ کار حسن رضا کا کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے تاخیر کی وجہ سے گردشی قرضہ حالیہ دنوں میں دوبارہ بڑھا ہے۔ حکومت نے صنعتی صارفین کیلیے ٹیرف میں اضافہ کردیا ہے اور گھریلو صارفین کیلیے اکتوبر سے اضافہ کیا جائے گا جو حکومت کیلیے ایک امتحان ہو گا۔ سالانہ بجلی کی کھپت 70 ارب یونٹس ہے۔ پاور ٹیرف میں تاخیر حکومت کیلیے ماہانہ 25-30 ارب روپے اضافی بوجھ کا باعث ہوگا۔ اس کے علاوہ بجلی کی پیداوار بھی متاثر ہوگی۔
Load Next Story