صوبائی بجٹ پیش اپوزیشن جماعتوں کا احتجاج واک آؤٹ
لگتا ہے آئندہ اس سے بھی زیادہ مشکلات ہونگی جو عوام کو برداشت کرنا پڑیں گی۔
بلوچستان کا4کھرب 19ارب92کروڑ روپے خسار ے کا بجٹ پیش کردیا گیا جس میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے128ارب روپے اور غیر ترقیاتی اخراجات کے لئے291 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ صوبے میں5445 نئی آسامیاں پیدا کی گئی ہیں جبکہ سی پیک اوردیگر منصوبوں کی حفاظت کیلئے اسپیشل پروٹیکشن یونٹ کے قیام کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں وفاق کی طرز پر اضافہ کیا گیا ہے جبکہ کم سے کم تنخواہ کی حد17000/-روپے مقرر کی گئی ہے۔ بجٹ صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے ایوان میں پیش کیا۔ جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے اس موقع پر بھرپور احتجاج کرتے ہوئے بجٹ کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اچھال دیں اور بعد ازاں ایوان سے واک آؤٹ کر گئیں ۔ اپوزیشن جماعتوں کا یہ موقف ہے کہ حکومت نے2018-19 کا پورا بجٹ لیپس کیا ہے موجودہ حکومت کی شروع میں یہ حالت ہے تو آگے کیا چلے گی۔
لگتا ہے آئندہ اس سے بھی زیادہ مشکلات ہونگی جو عوام کو برداشت کرنا پڑیں گی۔ حکومت نے اپوزیشن سمیت کسی کو بھی بجٹ کی تیاری میں اعتماد میں نہیں لیا۔ اپوزیشن اس رویئے پر پہلے سے احتجاج پر ہے جبکہ سرکاری ملازمین بھی حکومتی رویئے پر احتجاج پر آگئے ہیں ۔ اپوزیشن نے صوبائی پی ایس ڈی پی2019-20 کی تیاری میں کوشش کی کہ عوام کی فلاح وبہبود کیلئے رقم مختص کی جائے اس حوالے سے تحفظات کا بھی اظہار کیا حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں مذاکرات بھی ہوئے ہیں حکومت نے اپوزیشن ارکان کو اس حوالے سے نظرانداز کیا ۔
اپوزیشن جماعتوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ ایک طرف حکومت نے اپوزیشن ارکان کو اس بجٹ میں نظرانداز کیا تو دوسری طرف غیر منتخب لوگوں کو نوازا جو کہ اپوزیشن ارکان کے حلقوں میں مداخلت کر رہے ہیں جس سے دست وگریباں ہونے کا بھی خدشہ ہے لہٰذا اپوزیشن جماعتیں کسی بھی طرح اس صوبائی بجٹ کو عوامی بجٹ قرار نہیں دیتیں اور اسے یکسر مستردکرتے ہوئے اپنے تحفظات کے ساتھ احتجاج جاری رکھے گی ۔
اپوزیشن جماعتوں نے صوبائی بجٹ2019-20 میں اپوزیشن ارکان کے حلقوں کو نظرانداز کرنے کے معاملے کو عوامی فورم پر بھی اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی کا اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج اور بجٹ کے حوالے سے الزامات کو مستردکرتے ہوئے کہنا ہے کہ صوبائی بجٹ کی تشکیل میں کسی بھی حلقے کو نظرانداز نہیں کیا گیا، بجٹ کی تشکیل میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت شامل ہے۔ اپوزیشن جب اس بجٹ کو مکمل پڑھ لے گی تو اس کے پاس تنقید کاکوئی جواز باقی نہیں رہے گا ۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ جام کمال اور ان کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے موجودہ صوبائی بجٹ کو عوامی اور تاریخی بجٹ قرار دیا جا رہا ہے ۔ بلوچستان اسمبلی میں صوبائی بجٹ2019-20 پر بحث کا آغاز بھی ہو چکا ہے جس پر حکومتی اور اپوزیشن ارکان اپنی اپنی رائے کا اظہارکر رہے ہیں توقع کی جا رہی ہے کہ اسی ہفتے یہ بجٹ جام حکومت ایوان سے منظورکر الے گی۔
سیاسی حلقوںکے مطابق صوبائی بجٹ پیش ہونے سے قبل اپوزیشن جماعتیں اس حوالے سے جو بھرپور احتجاج کا اعلان کر رہی تھیں بجٹ پیش ہونے پر اس طرح سے وہ احتجاج دکھائی نہیں دیا ۔ روایتی احتجاج سے حکومت کا حوصلہ اور بڑھا ہے اور حکومت کی طرف سے یہ عندیہ مل رہا ہے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کو رام کر لے گی ۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں مطالبات زر کی منظوری کے دوران اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے دوران اپوزیشن ارکان کے حلقوں کیلئے خصوصی پیکج دینے کا مطالبہ کیا ہے جس پر حکومت نے نیم رضامندی ظاہر کی ہے اس لئے حکومتی حلقے اس حوالے سے مطمئن ہیں کہ وہ باآسانی بجٹ کو ایوان سے منظور کروا لیں گے جس میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہوگی ۔
تاہم بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ متحدہ اپوزیشن کو صوبائی پی ایس ڈی پی2019-20 پر تحفظات ہیں جبکہ اس سے قبل بھی سابقہ پی ایس ڈی پی 2018-19 پر حکومت کی طرف سے کٹ لگانے کے معاملے اور اس پی ایس ڈی پی کا زیادہ تر پیسہ لیپس ہو جانے پر متحدہ اپوزیشن پہلے ہی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا چکی ہے ۔ اس تمام صورتحال کے تناظر میں متحدہ اپوزیشن کی بعض جماعتیں اور اراکین کی یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ اس تمام معاملے پر عدالت عالیہ سے رجوع کیا جائے جس کے لئے اپوزیشن جماعتوں میں مشاورت کا عمل جاری ہے ۔
ان ذرائع کے مطابق اپوزیشن جماعتیں ایک طرف حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے بجٹ کے حوالے سے لچک دکھا رہی ہیں اور حکومت کو انگیج کر رہی ہیں تو دوسری طرف وہ پی ایس ڈی پی 2018-19 اور2019-20 پر اپنے تحفظات کے حوالے سے عدالت سے رجوع کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہیں جو کہ اس کی حکومت کو پریشان کرنے کی ایک حکمت عملی ہو سکتی ہے تاکہ اس کے اور حکومت کے درمیان اس حوالے سے جو مذاکرات چل رہے ہیں حکومت کو وہ اپنی کنڈیشن پر کسی حد تک قائل کرنے میںکامیاب ہو سکے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس داؤ پیچ میں حکومت اپوزیشن، یا اپوزیشن حکومت کو زچ کرتی ہے؟ یہ بجٹ کی منظوری کے وقت صورتحال واضح ہو جائے گی کہ کسے کس حد تک کامیابی حاصل ہوتی ہے ۔ حکومتی ذرائع کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اس بجٹ کو ناصرف اتفاق رائے سے منظور کرانے کی کوشش کریں گے بلکہ اپوزیشن کے تحفظات کو بھی دور کر لیا جائے گا ۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں وفاق کی طرز پر اضافہ کیا گیا ہے جبکہ کم سے کم تنخواہ کی حد17000/-روپے مقرر کی گئی ہے۔ بجٹ صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے ایوان میں پیش کیا۔ جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے اس موقع پر بھرپور احتجاج کرتے ہوئے بجٹ کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اچھال دیں اور بعد ازاں ایوان سے واک آؤٹ کر گئیں ۔ اپوزیشن جماعتوں کا یہ موقف ہے کہ حکومت نے2018-19 کا پورا بجٹ لیپس کیا ہے موجودہ حکومت کی شروع میں یہ حالت ہے تو آگے کیا چلے گی۔
لگتا ہے آئندہ اس سے بھی زیادہ مشکلات ہونگی جو عوام کو برداشت کرنا پڑیں گی۔ حکومت نے اپوزیشن سمیت کسی کو بھی بجٹ کی تیاری میں اعتماد میں نہیں لیا۔ اپوزیشن اس رویئے پر پہلے سے احتجاج پر ہے جبکہ سرکاری ملازمین بھی حکومتی رویئے پر احتجاج پر آگئے ہیں ۔ اپوزیشن نے صوبائی پی ایس ڈی پی2019-20 کی تیاری میں کوشش کی کہ عوام کی فلاح وبہبود کیلئے رقم مختص کی جائے اس حوالے سے تحفظات کا بھی اظہار کیا حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں مذاکرات بھی ہوئے ہیں حکومت نے اپوزیشن ارکان کو اس حوالے سے نظرانداز کیا ۔
اپوزیشن جماعتوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ ایک طرف حکومت نے اپوزیشن ارکان کو اس بجٹ میں نظرانداز کیا تو دوسری طرف غیر منتخب لوگوں کو نوازا جو کہ اپوزیشن ارکان کے حلقوں میں مداخلت کر رہے ہیں جس سے دست وگریباں ہونے کا بھی خدشہ ہے لہٰذا اپوزیشن جماعتیں کسی بھی طرح اس صوبائی بجٹ کو عوامی بجٹ قرار نہیں دیتیں اور اسے یکسر مستردکرتے ہوئے اپنے تحفظات کے ساتھ احتجاج جاری رکھے گی ۔
اپوزیشن جماعتوں نے صوبائی بجٹ2019-20 میں اپوزیشن ارکان کے حلقوں کو نظرانداز کرنے کے معاملے کو عوامی فورم پر بھی اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی کا اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج اور بجٹ کے حوالے سے الزامات کو مستردکرتے ہوئے کہنا ہے کہ صوبائی بجٹ کی تشکیل میں کسی بھی حلقے کو نظرانداز نہیں کیا گیا، بجٹ کی تشکیل میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت شامل ہے۔ اپوزیشن جب اس بجٹ کو مکمل پڑھ لے گی تو اس کے پاس تنقید کاکوئی جواز باقی نہیں رہے گا ۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ جام کمال اور ان کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے موجودہ صوبائی بجٹ کو عوامی اور تاریخی بجٹ قرار دیا جا رہا ہے ۔ بلوچستان اسمبلی میں صوبائی بجٹ2019-20 پر بحث کا آغاز بھی ہو چکا ہے جس پر حکومتی اور اپوزیشن ارکان اپنی اپنی رائے کا اظہارکر رہے ہیں توقع کی جا رہی ہے کہ اسی ہفتے یہ بجٹ جام حکومت ایوان سے منظورکر الے گی۔
سیاسی حلقوںکے مطابق صوبائی بجٹ پیش ہونے سے قبل اپوزیشن جماعتیں اس حوالے سے جو بھرپور احتجاج کا اعلان کر رہی تھیں بجٹ پیش ہونے پر اس طرح سے وہ احتجاج دکھائی نہیں دیا ۔ روایتی احتجاج سے حکومت کا حوصلہ اور بڑھا ہے اور حکومت کی طرف سے یہ عندیہ مل رہا ہے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کو رام کر لے گی ۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں مطالبات زر کی منظوری کے دوران اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے دوران اپوزیشن ارکان کے حلقوں کیلئے خصوصی پیکج دینے کا مطالبہ کیا ہے جس پر حکومت نے نیم رضامندی ظاہر کی ہے اس لئے حکومتی حلقے اس حوالے سے مطمئن ہیں کہ وہ باآسانی بجٹ کو ایوان سے منظور کروا لیں گے جس میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہوگی ۔
تاہم بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ متحدہ اپوزیشن کو صوبائی پی ایس ڈی پی2019-20 پر تحفظات ہیں جبکہ اس سے قبل بھی سابقہ پی ایس ڈی پی 2018-19 پر حکومت کی طرف سے کٹ لگانے کے معاملے اور اس پی ایس ڈی پی کا زیادہ تر پیسہ لیپس ہو جانے پر متحدہ اپوزیشن پہلے ہی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا چکی ہے ۔ اس تمام صورتحال کے تناظر میں متحدہ اپوزیشن کی بعض جماعتیں اور اراکین کی یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ اس تمام معاملے پر عدالت عالیہ سے رجوع کیا جائے جس کے لئے اپوزیشن جماعتوں میں مشاورت کا عمل جاری ہے ۔
ان ذرائع کے مطابق اپوزیشن جماعتیں ایک طرف حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے بجٹ کے حوالے سے لچک دکھا رہی ہیں اور حکومت کو انگیج کر رہی ہیں تو دوسری طرف وہ پی ایس ڈی پی 2018-19 اور2019-20 پر اپنے تحفظات کے حوالے سے عدالت سے رجوع کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہیں جو کہ اس کی حکومت کو پریشان کرنے کی ایک حکمت عملی ہو سکتی ہے تاکہ اس کے اور حکومت کے درمیان اس حوالے سے جو مذاکرات چل رہے ہیں حکومت کو وہ اپنی کنڈیشن پر کسی حد تک قائل کرنے میںکامیاب ہو سکے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس داؤ پیچ میں حکومت اپوزیشن، یا اپوزیشن حکومت کو زچ کرتی ہے؟ یہ بجٹ کی منظوری کے وقت صورتحال واضح ہو جائے گی کہ کسے کس حد تک کامیابی حاصل ہوتی ہے ۔ حکومتی ذرائع کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اس بجٹ کو ناصرف اتفاق رائے سے منظور کرانے کی کوشش کریں گے بلکہ اپوزیشن کے تحفظات کو بھی دور کر لیا جائے گا ۔