بیجنگ سے ٹینجن تک
ہمارے ٹین جن کے میزبان کسی وجہ سے وقت پر ہمارے استقبال کو نہ پہنچ سکے۔
ٹین جن (ٹینجن) شہر کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ چین کا چوتھا سب سے بڑا شہر ہے جب کہ اس کا زمینی فاصلہ بیجنگ سے تقریباً دو سو کلومیٹر ہے۔ میزبانوں نے یہ مسافت بذریعہ ریل طے کرنے کا پروگرام بنا رکھا تھا جو ہر لحاظ سے بہت صائب تھا۔
ٹرین کی روانگی تین بجے سہ پہر تھی اور اس سے پہلے کے پروگرام میں چینی ادیبوں کے مرکزی میوزیم کی سیر کے علاوہ صرف دوپہر کا کھانا شامل تھا جو ہماری فرمائش پر بیجنگ کے واحد پاکستانی ریستوران ''خان بابا'' میں رکھا گیا تھا مجھے یاد پڑتا ہے کہ سابقہ دورے کے دوران بھی ہمیں ایک پاکستانی کھانوں کے ریستوران میں لے جایا گیا تھا مگر وہاں یہ کھانے غالباً صرف پی آئی اے کے عملے کے لیے خاص طور پر تیار کیے جاتے تھے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں وہاں کے نامور ادیبوں اور شاعروں کے حوالے سے انفرادی نوعیت کے میوزیمز تو دیکھنے کا موقع ملا ہے مگر بیجنگ کا یہ میوزیم اس اعتبار سے قدرے انوکھا تھا کہ یہاں انھوں نے اپنے ادب و شعر کی تاریخ اور بالخصوص گزشتہ ایک صدی کے دوران لکھے گئے ادب اور ادیبوں کو اُن کی تصاویر، تصانیف اور کارناموں کے حوالے سے ایک جگہ اور ایک چھت کے تلے نہ صرف جمع کردیا ہے بلکہ اسے ایسا دلچسپ ، خوشنما اور معلومات افزا بنا دیا ہے کہ ملکی طالب علموں اور اسکالرز سے لے کر بیرونی سیاحوں اور مہمانوں تک ہر طبقہ ان سے متعارف اور متاثر ہوتا ہے۔
مشہور چینی ادیب اور ماوزے تنگ کے سینئر ہم عصر لوہسون کو یہاں بھی خصوصی اہمیت دی گئی ہے جب کہ شنگھائی میں اس کے آبائی گھر کو لوہسون میوزیم کا درجہ دے کر محفوظ کردیا گیا ہے ہمارے یہاں بھی علامہ اقبال اور فیض صاحب کی حد تک اس سے ملتے جلتے میوزیم یا گھر بنانے کی کوشش کی گئی ہے جو اپنی جگہ پر قابلِ تعریف ہے مگر اس ضمن میں اگر ہم چین کی طرح عالمی روائت سے استفادہ کرتے ہوئے انھیں بھرپور اور عوام کی دلچسپی کا مرکز بنا سکیں تو بہت عمدہ بات ہوگی۔
ڈاکٹر راشد حمید نے اکادمی ادبیات میں یا اس کے تعاون سے پاکستان میں بھی اس طرح کے مراکز بنانے میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا اور بار بارکہا کہ وہ بھی متعلقہ حکومتی اداروں کو اس ضمن میں قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے اس میوزیم کے مختلف حصوں میں ہر دہائی کے حساب سے اپنی ادبی تاریخ کو محفوظ کیا گیا ہے یعنی آپ ایک ہی چکر میں چینی ادب کی ترقی اور اہم ترین حوالوں سے بھرپور طریقے سے متعارف ہو سکتے ہیں، رُوسی ادب کے مقابلے میں چینی ادب سے عالمی برادری کے نسبتاً بہت کم تعارف کی دیگر وجوہات سے قطع نظر سب سے بڑی وجہ اس کی عالمی زبانوں میں تراجم کی کمی ہے یہاں تک کہ پاک چین دوستی کے طوالت اور نعروں کے باوجود ہمارے یہاں بھی اُردو یا کسی اور پاکستانی زبان میں چینی ادب کے تراجم نہ ہونے کے برابر ہیں، کم و بیش یہی صورتِ حال چینی زبان میں پاکستانی ادب کے تراجم کی ہے ۔شنید ہے کہ اب چینی حکومت اور اس کے دانشور اس طرف بھی سنجیدگی سے توجہ دے رہے ہیں اور عنقریب یہ صورتِ حال بہتر ہوجائے گی۔
''خان بابا'' نامی یہ ریستوران ایک وسیع و عریض اور پُررونق عمارت کی پانچویں منزل پر واقع تھا اور اطلاعات کے مطابق اسے وہاں قائم ہوئے صرف دس برس ہوئے تھے، ریستوران کے اسٹاف نے بتایا کہ اس کی تین اور شاخیں بھی مختلف شہروں میں موجود ہیں اور یہاں پاکستان اور بھارت کے علاوہ دیگر ملکوں سے آئے ہوئے سیّاح ، کاروباری حضرات اور طلبہ بہت کثرت سے آتے ہیں کھانا خاصا معقول تھا اور اگر اس سے کم بھی ہوتا تو قابلِ قبول تھا کہ اپنے مانوس مصالحوں میں پکایا گیا دیسی کھانا پردیس میں کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا۔
یہاں مختلف مضامین میں ڈاکٹریٹ کرنے والے کچھ طلبہ کے ساتھ ساتھ ایک ایسی نوجوان طالبہ سے بھی ملاقات ہوئی جس کا شوہر بھی پی ایچ ڈی تھا اور جو اپنی گائیڈ اور پاکستانی سفارت خانے کے تعلیمی اتاشی کے ساتھ اس خوشی کو منانے کے لیے وہاں لنچ کے لیے آئی ہوئی تھی۔ ان نوجوان طالب علموں اور ریستوران کے عملے کے ساتھ تصویریں بناتے ہوئے بار بار یہ خیال آیا کہ علم اور وطنیت کا اشتراک کیسے خوب صورت رشتے ہیں کہ تمام زمانی اور مکانی فاصلے ان کے آگے بے معنی ہوتے چلے جاتے ہیں ۔
ریلوے اسٹیشن بہت خوب صورت اور وسیع تھا مگر جس راستے سے ہم اس میں داخل ہوئے وہاں آنے والوں کے لیے تو برقی سیڑھیوں کا اہتمام تھا لیکن جانے والوںکو سامان سمیت بار بار کئی سیڑھیاں چڑھنا پڑتی تھیں جو ہرگز کوئی آسان کام نہیں تھا، خدا خدا کرکے ہم متعلقہ ٹکٹ گھر کو تو پہنچ گئے لیکن یہاں ایک بہت عجیب و غریب غیر متوقع اور پریشان کن مسئلہ کھڑا ہوگیا ، ہوا یوں کہ برادرم ڈاکٹر عبدالکریم ادل سومرو کے نام کے انگریزی اسپیلنگز میں "E" اور ـ"i" کا فرق پڑگیا کہ پاسپورٹ میں ان کا نام Karim درج تھا جب کہ دعوت نامے میں اُسے Kareem لکھا گیا تھا اور کمپیوٹر کو اپنی زبان کے علاوہ کوئی دوسری زبان سمجھ میں ہی نہیں آتی سو وہ اس بات پر مُصر تھا کہ یہ دو مختلف لوگ ہیں ۔سُوئی کی پریشانی ہم سے بھی کہیں زیادہ تھی کہ ٹرین کی روانگی میں صرف دس منٹ رہ گئے تھے ا ور ابھی ہمیں متعلقہ پلیٹ فارم تک پہنچنا بھی تھا، ٹرین عین اپنے مقررہ وقت یعنی تین بجے روانہ ہوئی ا ور لطف کی بات یہ ہے کہ اس سے ایک منٹ قبل ہم اپنی اپنی مقررہ سیٹوں پر بیٹھ چکے تھے ۔
چند سال قبل مجھے جاپان کی بلٹ ٹرین میں سفر کرنے کا تجربہ ہوچکا تھا جو اُس وقت اپنی رفتار کے حوالے سے دنیا کی تیز ترین ریل گاڑی سمجھی جاتی تھی کہ اس کی رفتار تقریباً چار سو میل فی گھنٹہ تھی جس میں حالیہ خبروں کے مطابق مزید اضافہ ہوچکا ہے۔ ہماری اس ٹرین کا تعلق بھی اُسی کے گھرانے سے تھا کہ اطلاعات کے مطابق اس نے دو سو کلومیٹرکا فاصلہ تیس منٹ میں طے کرنا تھا، انجینئرنگ ٹیکنالوجی کا کمال یہ ہے کہ اس قدر طوفانی رفتار کے باوجود ٹرین کے اندرنہ تو اس کا شور سنائی دیتا ہے اور نہ ہی آپ یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ آپ اس وقت گولی کی رفتار سے محوِ سفر ہیں ۔ ان ٹرینوں کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ ان کے تمام ڈبے پہلے سے طے اور نشان زدہ پلیٹ فارموں پر عین دیے گئے نمبر کے سامنے جا کر رُکتے ہیں یعنی سوار ہونے والے مسافروں کو نہ تو اپنا ڈبہ تلاش کرنا پڑتا ہے اور نہ ہی اس میں سوار ہونے کے لیے دھکم پیل کرنا پڑتی ہے ۔
یہ بات ابھی تک صیغہ راز میں ہے کہ ہمارے ٹین جن کے میزبان کسی وجہ سے وقت پر ہمارے استقبال کو نہ پہنچ سکے ، سوئی کا بیان یہ تھا کہ وہ غلطی سے اسی شہر کے ایک دوسرے ریلوے اسٹیشن پر چلے گئے تھے جو یہاں سے تقریباً بیس کلومیٹر دور تھا جب کہ ہمیں یہ شبہ تھا کہ وہ ڈاکٹر ادل سومرو کی ٹکٹ کے مسائل کی ٹینشن میں انھیں وقت پر متعلقہ اطلاع ہی نہیں پہنچا سکی تھی۔ پروگرام کے مطابق ہمیں پہلے اپنے ہوٹل جانا تھا مگر ڈیڑھ گھنٹے کی اس تاخیر کے باعث یہی طے پایا کہ سیدھا وہاں کے رائٹرز ہائوس کے دفتر میں چلا جائے جہاں بیس سے زیادہ مقامی ادیب ہمارے انتظار میں بیٹھے ہیں۔
ٹرین کی روانگی تین بجے سہ پہر تھی اور اس سے پہلے کے پروگرام میں چینی ادیبوں کے مرکزی میوزیم کی سیر کے علاوہ صرف دوپہر کا کھانا شامل تھا جو ہماری فرمائش پر بیجنگ کے واحد پاکستانی ریستوران ''خان بابا'' میں رکھا گیا تھا مجھے یاد پڑتا ہے کہ سابقہ دورے کے دوران بھی ہمیں ایک پاکستانی کھانوں کے ریستوران میں لے جایا گیا تھا مگر وہاں یہ کھانے غالباً صرف پی آئی اے کے عملے کے لیے خاص طور پر تیار کیے جاتے تھے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں وہاں کے نامور ادیبوں اور شاعروں کے حوالے سے انفرادی نوعیت کے میوزیمز تو دیکھنے کا موقع ملا ہے مگر بیجنگ کا یہ میوزیم اس اعتبار سے قدرے انوکھا تھا کہ یہاں انھوں نے اپنے ادب و شعر کی تاریخ اور بالخصوص گزشتہ ایک صدی کے دوران لکھے گئے ادب اور ادیبوں کو اُن کی تصاویر، تصانیف اور کارناموں کے حوالے سے ایک جگہ اور ایک چھت کے تلے نہ صرف جمع کردیا ہے بلکہ اسے ایسا دلچسپ ، خوشنما اور معلومات افزا بنا دیا ہے کہ ملکی طالب علموں اور اسکالرز سے لے کر بیرونی سیاحوں اور مہمانوں تک ہر طبقہ ان سے متعارف اور متاثر ہوتا ہے۔
مشہور چینی ادیب اور ماوزے تنگ کے سینئر ہم عصر لوہسون کو یہاں بھی خصوصی اہمیت دی گئی ہے جب کہ شنگھائی میں اس کے آبائی گھر کو لوہسون میوزیم کا درجہ دے کر محفوظ کردیا گیا ہے ہمارے یہاں بھی علامہ اقبال اور فیض صاحب کی حد تک اس سے ملتے جلتے میوزیم یا گھر بنانے کی کوشش کی گئی ہے جو اپنی جگہ پر قابلِ تعریف ہے مگر اس ضمن میں اگر ہم چین کی طرح عالمی روائت سے استفادہ کرتے ہوئے انھیں بھرپور اور عوام کی دلچسپی کا مرکز بنا سکیں تو بہت عمدہ بات ہوگی۔
ڈاکٹر راشد حمید نے اکادمی ادبیات میں یا اس کے تعاون سے پاکستان میں بھی اس طرح کے مراکز بنانے میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا اور بار بارکہا کہ وہ بھی متعلقہ حکومتی اداروں کو اس ضمن میں قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے اس میوزیم کے مختلف حصوں میں ہر دہائی کے حساب سے اپنی ادبی تاریخ کو محفوظ کیا گیا ہے یعنی آپ ایک ہی چکر میں چینی ادب کی ترقی اور اہم ترین حوالوں سے بھرپور طریقے سے متعارف ہو سکتے ہیں، رُوسی ادب کے مقابلے میں چینی ادب سے عالمی برادری کے نسبتاً بہت کم تعارف کی دیگر وجوہات سے قطع نظر سب سے بڑی وجہ اس کی عالمی زبانوں میں تراجم کی کمی ہے یہاں تک کہ پاک چین دوستی کے طوالت اور نعروں کے باوجود ہمارے یہاں بھی اُردو یا کسی اور پاکستانی زبان میں چینی ادب کے تراجم نہ ہونے کے برابر ہیں، کم و بیش یہی صورتِ حال چینی زبان میں پاکستانی ادب کے تراجم کی ہے ۔شنید ہے کہ اب چینی حکومت اور اس کے دانشور اس طرف بھی سنجیدگی سے توجہ دے رہے ہیں اور عنقریب یہ صورتِ حال بہتر ہوجائے گی۔
''خان بابا'' نامی یہ ریستوران ایک وسیع و عریض اور پُررونق عمارت کی پانچویں منزل پر واقع تھا اور اطلاعات کے مطابق اسے وہاں قائم ہوئے صرف دس برس ہوئے تھے، ریستوران کے اسٹاف نے بتایا کہ اس کی تین اور شاخیں بھی مختلف شہروں میں موجود ہیں اور یہاں پاکستان اور بھارت کے علاوہ دیگر ملکوں سے آئے ہوئے سیّاح ، کاروباری حضرات اور طلبہ بہت کثرت سے آتے ہیں کھانا خاصا معقول تھا اور اگر اس سے کم بھی ہوتا تو قابلِ قبول تھا کہ اپنے مانوس مصالحوں میں پکایا گیا دیسی کھانا پردیس میں کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا۔
یہاں مختلف مضامین میں ڈاکٹریٹ کرنے والے کچھ طلبہ کے ساتھ ساتھ ایک ایسی نوجوان طالبہ سے بھی ملاقات ہوئی جس کا شوہر بھی پی ایچ ڈی تھا اور جو اپنی گائیڈ اور پاکستانی سفارت خانے کے تعلیمی اتاشی کے ساتھ اس خوشی کو منانے کے لیے وہاں لنچ کے لیے آئی ہوئی تھی۔ ان نوجوان طالب علموں اور ریستوران کے عملے کے ساتھ تصویریں بناتے ہوئے بار بار یہ خیال آیا کہ علم اور وطنیت کا اشتراک کیسے خوب صورت رشتے ہیں کہ تمام زمانی اور مکانی فاصلے ان کے آگے بے معنی ہوتے چلے جاتے ہیں ۔
ریلوے اسٹیشن بہت خوب صورت اور وسیع تھا مگر جس راستے سے ہم اس میں داخل ہوئے وہاں آنے والوں کے لیے تو برقی سیڑھیوں کا اہتمام تھا لیکن جانے والوںکو سامان سمیت بار بار کئی سیڑھیاں چڑھنا پڑتی تھیں جو ہرگز کوئی آسان کام نہیں تھا، خدا خدا کرکے ہم متعلقہ ٹکٹ گھر کو تو پہنچ گئے لیکن یہاں ایک بہت عجیب و غریب غیر متوقع اور پریشان کن مسئلہ کھڑا ہوگیا ، ہوا یوں کہ برادرم ڈاکٹر عبدالکریم ادل سومرو کے نام کے انگریزی اسپیلنگز میں "E" اور ـ"i" کا فرق پڑگیا کہ پاسپورٹ میں ان کا نام Karim درج تھا جب کہ دعوت نامے میں اُسے Kareem لکھا گیا تھا اور کمپیوٹر کو اپنی زبان کے علاوہ کوئی دوسری زبان سمجھ میں ہی نہیں آتی سو وہ اس بات پر مُصر تھا کہ یہ دو مختلف لوگ ہیں ۔سُوئی کی پریشانی ہم سے بھی کہیں زیادہ تھی کہ ٹرین کی روانگی میں صرف دس منٹ رہ گئے تھے ا ور ابھی ہمیں متعلقہ پلیٹ فارم تک پہنچنا بھی تھا، ٹرین عین اپنے مقررہ وقت یعنی تین بجے روانہ ہوئی ا ور لطف کی بات یہ ہے کہ اس سے ایک منٹ قبل ہم اپنی اپنی مقررہ سیٹوں پر بیٹھ چکے تھے ۔
چند سال قبل مجھے جاپان کی بلٹ ٹرین میں سفر کرنے کا تجربہ ہوچکا تھا جو اُس وقت اپنی رفتار کے حوالے سے دنیا کی تیز ترین ریل گاڑی سمجھی جاتی تھی کہ اس کی رفتار تقریباً چار سو میل فی گھنٹہ تھی جس میں حالیہ خبروں کے مطابق مزید اضافہ ہوچکا ہے۔ ہماری اس ٹرین کا تعلق بھی اُسی کے گھرانے سے تھا کہ اطلاعات کے مطابق اس نے دو سو کلومیٹرکا فاصلہ تیس منٹ میں طے کرنا تھا، انجینئرنگ ٹیکنالوجی کا کمال یہ ہے کہ اس قدر طوفانی رفتار کے باوجود ٹرین کے اندرنہ تو اس کا شور سنائی دیتا ہے اور نہ ہی آپ یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ آپ اس وقت گولی کی رفتار سے محوِ سفر ہیں ۔ ان ٹرینوں کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ ان کے تمام ڈبے پہلے سے طے اور نشان زدہ پلیٹ فارموں پر عین دیے گئے نمبر کے سامنے جا کر رُکتے ہیں یعنی سوار ہونے والے مسافروں کو نہ تو اپنا ڈبہ تلاش کرنا پڑتا ہے اور نہ ہی اس میں سوار ہونے کے لیے دھکم پیل کرنا پڑتی ہے ۔
یہ بات ابھی تک صیغہ راز میں ہے کہ ہمارے ٹین جن کے میزبان کسی وجہ سے وقت پر ہمارے استقبال کو نہ پہنچ سکے ، سوئی کا بیان یہ تھا کہ وہ غلطی سے اسی شہر کے ایک دوسرے ریلوے اسٹیشن پر چلے گئے تھے جو یہاں سے تقریباً بیس کلومیٹر دور تھا جب کہ ہمیں یہ شبہ تھا کہ وہ ڈاکٹر ادل سومرو کی ٹکٹ کے مسائل کی ٹینشن میں انھیں وقت پر متعلقہ اطلاع ہی نہیں پہنچا سکی تھی۔ پروگرام کے مطابق ہمیں پہلے اپنے ہوٹل جانا تھا مگر ڈیڑھ گھنٹے کی اس تاخیر کے باعث یہی طے پایا کہ سیدھا وہاں کے رائٹرز ہائوس کے دفتر میں چلا جائے جہاں بیس سے زیادہ مقامی ادیب ہمارے انتظار میں بیٹھے ہیں۔