بجٹ۔۔۔۔بلیک میلنگ
حکومت نے بجٹ پیش کردیا ہے لیکن اس کے پاس یہ بل پاس کرانے کے لیے نفری نہیں ہے۔
1999 میں جب جنرل (ر) پرویز مشرف نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو اقتدار سے باہرکرکے اقتدار سنبھالا تو ہمارے محترم سیاستدان بڑی مشکلات کا شکار ہوگئے۔ حکومت کو ماضی کی طرح کرپشن کے الزامات پر اقتدار سے ہٹا دیا گیا، نکالے جانے والے وزیر اعظم بڑی مشکلوں سے این آر او لے کر ملک سے چلے گئے چونکہ ان کے سعودی حکمرانوں سے اچھے تعلقات رہے تھے لہٰذا میاں صاحبسعودی عرب پہنچے اور سعودی حکمرانوں نے انھیں قیام کے لیے ایک محل دے دیا اس شاندار محل میں انھوں نے اپنی جلاوطنی کا دور گزارا۔
اسے اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ اسی دور میں بے نظیر بھٹو بھی ملک سے باہر جلا وطنی کا کٹھن دورگزار رہی تھیں۔ اقتدار سے محروم کردیے گئے دونوں سابق وزرائے اعظم نے اس افتاد سے نکلنے کے لیے جو راستہ اختیارکیا وہ دونوں کے درمیان '' میثاق جمہوریت '' کہلایا، اس معاہدے کے تحت دونوں نے عہد کیا کہ وہ اپنے چھینے ہوئے عہدوں کے حصول کے لیے کوشش کریں گے لیکن اس معاہدے کو میثاق جمہوریت کا نام دیا گیا۔ جس کا اصل مسئلہ حصول اقتدار تھا ۔
معاہدہ تو ہوگیا لیکن جمہوریت کی بحالی کے امکانات اس وقت پیدا ہوئے جب وکلا برادری نے جنرل مشرف کے خلاف ایک منظم تحریک کا آغاز کیا۔ وکلا تحریک کے نتیجے میں جمہوریت کی بحالی کے امکانات پیدا ہوئے اور بے نظیر بھٹو پہلے ملک واپس آئیں ، چونکہ ہمارے انٹلیکچوئل جمہوریت کے بہت شیدائی تھے لہٰذا مشترکہ دباؤ کے تحت جنرل مشرف کو فیصلہ لینا پڑا یوں جمہوریت کی بحالی کی راہ ہموار ہوئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو پنڈی میں ایک سازش کے تحت قتل کردی گئیں جس کے ذمے داروں کا پتہ آج تک نہ چل سکا۔
بے نظیر بھٹو کے راستے سے ہٹ جانے کے بعد 2008 کے الیکشن میں چونکہ بے نظیر کے لیے عوام کے دلوں میں بڑی ہمدردیاں پیدا ہوگئی تھیں سو پیپلز پارٹی انتخابات جیت گئی اور یوسف رضا گیلانی کو ملک کا وزیر اعظم بناکر آصف علی زرداری ملک کے صدر بن گئے۔ یوں میثاق جمہوریت پر عملدرآمد کا راستہ ہموار ہوا اور اس سے پہلے جنرل مشرف نے این آر او کیا جس کے بعد جمہوریت کے لیے راستہ ہموار ہوا۔ 2008 میں عوام کی بے نظیر کے قتل سے عوام میں جو ہمدردیاں پیدا ہوئیں اسی کی وجہ سے پیپلز پارٹی 2008 کے انتخابات میں کامیاب ہوئی اور آصف زرداری صدر مملکت بن گئے۔
کہا جاتا ہے کہ 2008 سے 2013 تک ملک میں اتنی کرپشن کی گئی جو قیام پاکستان کے بعد کسی حکومت نے نہیں کی۔ اس حوالے سے زرداری حکومت کو یہ اعزاز بھی ملا کہ پیپلز پارٹی پاکستان کی جمہوری تاریخ کی وہ پارٹی تھی جس نے اقتدار کی اپنی آئینی مدت پوری کی یعنی پانچ سال تک اقتدار میں رہی۔
2013 میں ملک میں ایک بار پھر انتخابات ہوئے مبینہ کرپشن کی بدنامی کی وجہ سے 2013 کے الیکشن پیپلز پارٹی ہار گئی اور انتخابات جیت کر مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آئی یہ ایک اوپن سیکرٹ ہے کہ 2008 کے بعد پیپلز پارٹی کے برسر اقتدار رہنے اور اپنی 5 سال کی مدت پوری کرانے میں کہا جاتا ہے کہ میاں صاحب کی فراخ دلی کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ یہ بھی کہا جانے لگا کہ دونوں بڑی پارٹیوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ میں یہ غیر تحریری معاہدہ ہوا کہ دونوں پارٹیاں باری باری اقتدار میں آئیں گی۔
تحریک انصاف کے رہنما اگرچہ اقتدار میں نہ آسکے لیکن بڑے استقلال کے ساتھ سیاست میں فعال رہے۔ اسے دونوں سابقہ حکومتوں کی بدقسمتی کہیں کہ دونوں جماعتیں کرپشن کے حوالے سے اس قدر بدنام ہوئیں کہ عوام کی ہمدردیاں تحریک انصاف کی طرف چلی گئیں اور 2018 کے الیکشن میں تحریک انصاف کامیاب ہوئی یوں عمران خان ملک کے وزیر اعظم بننے میں کامیاب تو رہے لیکن ملک کی معیشت دیوالیے کے قریب پہنچ گئی تھی ۔ عمران خان کو انتہائی ناموافق صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ایک تو ملک پر چڑھے ہوئے اربوں کے قرض دوسرے تحریک انصاف کی ناتجربہ کاری جس کی وجہ سے عمران حکومت کو سخت مشکلات کا سامنا رہا۔ اس دوران دس سالہ لوٹ مار کا ایسا غلغلہ بلند ہوا کہ احتساب کا عمل شروع ہوا اور ملک کی دو بڑی پارٹیوں کے رہنما گرفتار ہوئے اور ابھی تک یہ رہنما زیر حراست ہیں ، اس دوران 10 سالہ کرپشن کے حیرت انگیز واقعات سے سارا میڈیا بھرا رہا۔ اس حوالے سے اس حقیقت کی نشان دہی ضروری ہے کہ وہ تمام ایلیٹ جو دس سالہ دور میں کسی نہ کسی حوالے سے لوٹ مار کا حصہ بنا رہا تھا وہ مبینہ لٹیری پارٹیوں کا اتحادی بنا رہا ۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سابقہ حکمران موجودہ حکومت کو ہر قیمت پر ختم کرنا چاہتے ہیں اور سابق بینیفشری دونوں جماعتوں کی حمایت کر رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اس نیک کام کے لیے بھاری رقوم خرچ کی جا رہی ہے۔ ہم ہمیشہ سے کہتے آ رہے ہیں کہ ملک میں ولی عہدی نظام مستحکم کردیا گیا ہے، اس کا ثبوت یہ ہے کہ دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد ان کی آل اولاد نے ان کی جگہ لے لی ہے اور یہ راجکمار اور راجکماریاں حکومت کے خلاف نام نہاد تحریکوں میں پیش پیش ہیں۔ میڈیا میں آنے والے اعداد و شمار کے مطابق پچھلے دس سالوں میں ملک چوبیس ہزار ارب روپوں کا قرض دار بن گیا ہے اور عمران حکومت سخت دباؤ کا شکار ہے۔کچھ عرصہ پہلے تک اقتصادی حوالے سے ملک سخت معاشی دباؤ کا شکار تھا اگر دوست ممالک جن میں چین، سعودی عرب، عرب امارات شامل ہیں بھاری مدد نہ کرتے تو ملک ایسے کرائسس میں الجھ جاتا جن سے نکلنا مشکل ہوتا۔
یہاں پر اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ ملکی معیشت کی ابتری بھاری قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے موجودہ حکومت کو عوام پر بھاری ٹیکس لگانا پڑ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ ہم نے حکومت کو بار بار کہا کہ غریبوں پر ٹیکس کی بھرمار کرنے کے بجائے اشرافیہ پر دباؤ ڈال کر لوٹی ہوئی اربوں کی دولت واپس لے کر ملکی معیشت کو سہارا دیا جائے لیکن حکومت اشرافیہ سے قطع نظر کرکے عوام کی کھال کھینچنے میں مصروف ہے۔ عوام کے لیے مہنگائی ناقابل برداشت ہوگئی ہے اور عوام کی ناراضگی بھی بجا ہے لیکن حکومت کے پاس اس کے علاوہ کیا چارہ ہے البتہ ٹیکس عوام پر لگانے کے بجائے اشرافیہ پر ان کی دولت کے حساب سے لگنے چاہئیں۔
حکومت نے بجٹ پیش کردیا ہے لیکن اس کے پاس یہ بل پاس کرانے کے لیے نفری نہیں ہے۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپوزیشن نے میثاق معیشت پیش کیا ہے، یہ ایک بلیک میلنگ ہوجائے گی اگر اس کے ساتھ شرائط لگا دی جائیں ۔ اپوزیشن کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ اقتدار کے بغیر پانی بن مچھلی ہوجاتی ہے اب اسے حکومت کی عددی کمتری کا اندازہ ہوگیا ہے اور وہ اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے ۔ دوسری طرف حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے اس نے ایک مولوی صاحب کو آگے کردیا ہے وہ قدم قدم پر ملین مارچ کا اہتمام کرتے ہیں، اگر اپوزیشن واقعی قومی مفادات کو اہمیت دیتی ہے تو اس کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ بجٹ کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔
اسے اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ اسی دور میں بے نظیر بھٹو بھی ملک سے باہر جلا وطنی کا کٹھن دورگزار رہی تھیں۔ اقتدار سے محروم کردیے گئے دونوں سابق وزرائے اعظم نے اس افتاد سے نکلنے کے لیے جو راستہ اختیارکیا وہ دونوں کے درمیان '' میثاق جمہوریت '' کہلایا، اس معاہدے کے تحت دونوں نے عہد کیا کہ وہ اپنے چھینے ہوئے عہدوں کے حصول کے لیے کوشش کریں گے لیکن اس معاہدے کو میثاق جمہوریت کا نام دیا گیا۔ جس کا اصل مسئلہ حصول اقتدار تھا ۔
معاہدہ تو ہوگیا لیکن جمہوریت کی بحالی کے امکانات اس وقت پیدا ہوئے جب وکلا برادری نے جنرل مشرف کے خلاف ایک منظم تحریک کا آغاز کیا۔ وکلا تحریک کے نتیجے میں جمہوریت کی بحالی کے امکانات پیدا ہوئے اور بے نظیر بھٹو پہلے ملک واپس آئیں ، چونکہ ہمارے انٹلیکچوئل جمہوریت کے بہت شیدائی تھے لہٰذا مشترکہ دباؤ کے تحت جنرل مشرف کو فیصلہ لینا پڑا یوں جمہوریت کی بحالی کی راہ ہموار ہوئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو پنڈی میں ایک سازش کے تحت قتل کردی گئیں جس کے ذمے داروں کا پتہ آج تک نہ چل سکا۔
بے نظیر بھٹو کے راستے سے ہٹ جانے کے بعد 2008 کے الیکشن میں چونکہ بے نظیر کے لیے عوام کے دلوں میں بڑی ہمدردیاں پیدا ہوگئی تھیں سو پیپلز پارٹی انتخابات جیت گئی اور یوسف رضا گیلانی کو ملک کا وزیر اعظم بناکر آصف علی زرداری ملک کے صدر بن گئے۔ یوں میثاق جمہوریت پر عملدرآمد کا راستہ ہموار ہوا اور اس سے پہلے جنرل مشرف نے این آر او کیا جس کے بعد جمہوریت کے لیے راستہ ہموار ہوا۔ 2008 میں عوام کی بے نظیر کے قتل سے عوام میں جو ہمدردیاں پیدا ہوئیں اسی کی وجہ سے پیپلز پارٹی 2008 کے انتخابات میں کامیاب ہوئی اور آصف زرداری صدر مملکت بن گئے۔
کہا جاتا ہے کہ 2008 سے 2013 تک ملک میں اتنی کرپشن کی گئی جو قیام پاکستان کے بعد کسی حکومت نے نہیں کی۔ اس حوالے سے زرداری حکومت کو یہ اعزاز بھی ملا کہ پیپلز پارٹی پاکستان کی جمہوری تاریخ کی وہ پارٹی تھی جس نے اقتدار کی اپنی آئینی مدت پوری کی یعنی پانچ سال تک اقتدار میں رہی۔
2013 میں ملک میں ایک بار پھر انتخابات ہوئے مبینہ کرپشن کی بدنامی کی وجہ سے 2013 کے الیکشن پیپلز پارٹی ہار گئی اور انتخابات جیت کر مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آئی یہ ایک اوپن سیکرٹ ہے کہ 2008 کے بعد پیپلز پارٹی کے برسر اقتدار رہنے اور اپنی 5 سال کی مدت پوری کرانے میں کہا جاتا ہے کہ میاں صاحب کی فراخ دلی کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ یہ بھی کہا جانے لگا کہ دونوں بڑی پارٹیوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ میں یہ غیر تحریری معاہدہ ہوا کہ دونوں پارٹیاں باری باری اقتدار میں آئیں گی۔
تحریک انصاف کے رہنما اگرچہ اقتدار میں نہ آسکے لیکن بڑے استقلال کے ساتھ سیاست میں فعال رہے۔ اسے دونوں سابقہ حکومتوں کی بدقسمتی کہیں کہ دونوں جماعتیں کرپشن کے حوالے سے اس قدر بدنام ہوئیں کہ عوام کی ہمدردیاں تحریک انصاف کی طرف چلی گئیں اور 2018 کے الیکشن میں تحریک انصاف کامیاب ہوئی یوں عمران خان ملک کے وزیر اعظم بننے میں کامیاب تو رہے لیکن ملک کی معیشت دیوالیے کے قریب پہنچ گئی تھی ۔ عمران خان کو انتہائی ناموافق صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ایک تو ملک پر چڑھے ہوئے اربوں کے قرض دوسرے تحریک انصاف کی ناتجربہ کاری جس کی وجہ سے عمران حکومت کو سخت مشکلات کا سامنا رہا۔ اس دوران دس سالہ لوٹ مار کا ایسا غلغلہ بلند ہوا کہ احتساب کا عمل شروع ہوا اور ملک کی دو بڑی پارٹیوں کے رہنما گرفتار ہوئے اور ابھی تک یہ رہنما زیر حراست ہیں ، اس دوران 10 سالہ کرپشن کے حیرت انگیز واقعات سے سارا میڈیا بھرا رہا۔ اس حوالے سے اس حقیقت کی نشان دہی ضروری ہے کہ وہ تمام ایلیٹ جو دس سالہ دور میں کسی نہ کسی حوالے سے لوٹ مار کا حصہ بنا رہا تھا وہ مبینہ لٹیری پارٹیوں کا اتحادی بنا رہا ۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سابقہ حکمران موجودہ حکومت کو ہر قیمت پر ختم کرنا چاہتے ہیں اور سابق بینیفشری دونوں جماعتوں کی حمایت کر رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اس نیک کام کے لیے بھاری رقوم خرچ کی جا رہی ہے۔ ہم ہمیشہ سے کہتے آ رہے ہیں کہ ملک میں ولی عہدی نظام مستحکم کردیا گیا ہے، اس کا ثبوت یہ ہے کہ دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد ان کی آل اولاد نے ان کی جگہ لے لی ہے اور یہ راجکمار اور راجکماریاں حکومت کے خلاف نام نہاد تحریکوں میں پیش پیش ہیں۔ میڈیا میں آنے والے اعداد و شمار کے مطابق پچھلے دس سالوں میں ملک چوبیس ہزار ارب روپوں کا قرض دار بن گیا ہے اور عمران حکومت سخت دباؤ کا شکار ہے۔کچھ عرصہ پہلے تک اقتصادی حوالے سے ملک سخت معاشی دباؤ کا شکار تھا اگر دوست ممالک جن میں چین، سعودی عرب، عرب امارات شامل ہیں بھاری مدد نہ کرتے تو ملک ایسے کرائسس میں الجھ جاتا جن سے نکلنا مشکل ہوتا۔
یہاں پر اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ ملکی معیشت کی ابتری بھاری قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے موجودہ حکومت کو عوام پر بھاری ٹیکس لگانا پڑ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ ہم نے حکومت کو بار بار کہا کہ غریبوں پر ٹیکس کی بھرمار کرنے کے بجائے اشرافیہ پر دباؤ ڈال کر لوٹی ہوئی اربوں کی دولت واپس لے کر ملکی معیشت کو سہارا دیا جائے لیکن حکومت اشرافیہ سے قطع نظر کرکے عوام کی کھال کھینچنے میں مصروف ہے۔ عوام کے لیے مہنگائی ناقابل برداشت ہوگئی ہے اور عوام کی ناراضگی بھی بجا ہے لیکن حکومت کے پاس اس کے علاوہ کیا چارہ ہے البتہ ٹیکس عوام پر لگانے کے بجائے اشرافیہ پر ان کی دولت کے حساب سے لگنے چاہئیں۔
حکومت نے بجٹ پیش کردیا ہے لیکن اس کے پاس یہ بل پاس کرانے کے لیے نفری نہیں ہے۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپوزیشن نے میثاق معیشت پیش کیا ہے، یہ ایک بلیک میلنگ ہوجائے گی اگر اس کے ساتھ شرائط لگا دی جائیں ۔ اپوزیشن کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ اقتدار کے بغیر پانی بن مچھلی ہوجاتی ہے اب اسے حکومت کی عددی کمتری کا اندازہ ہوگیا ہے اور وہ اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے ۔ دوسری طرف حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے اس نے ایک مولوی صاحب کو آگے کردیا ہے وہ قدم قدم پر ملین مارچ کا اہتمام کرتے ہیں، اگر اپوزیشن واقعی قومی مفادات کو اہمیت دیتی ہے تو اس کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ بجٹ کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔